• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
مولوی صاحب سیکولرازم صرف روشن خیالوں کے ڈرائنگ روم کے ہی نخرے نہیں بلکہ فی الحقیقت روایتی مولویوں اور مشائخ کو بھی اسکی اتنی ہی ضرورت ہے بلکہ برصغیر کے روایتی مولوی طبقہ کے لئے تو سیکولرازم گویا اکسیجن گیس ہے اقبال نے ایسی ہی تھوڑی کہا تھا::

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد


اگر شریعت نافذ ہوجائے تو حکمران آئمہ مسجد ہوجائیں گے،
لوگ شرعی مسائل لئے قاضیوں کا رخ کریں گے،
مدارس قومیا لی جائیں گی،
مقابر پر بھی شریعت کا طلاق ہوگا،
کوئی حلوے مانڈے پر نیاز کرانے والا باقی نہیں بچے گا اور نکاح تو کوئی ایرا غیرا نتھو بھی پڑھا لیا کرے گا۔
پھر ضرورت اور اہمیت باقی رہے گی تو جید علماء کرام کی،
ان گلی محلے کے خطیبوں (روایتی مولویوں) کا کیا ہوگا؟

میں کسی سامعی کو دخل اندازی کا کوئی موقع دئے بغیر بے ساختہ بولتا گیا اور جب میں رکا تو میں نے ان کے چہروں کے بدلتے ہوئے رنگ کو پہلی بار محسوس کیا۔ ایک لمحے کے لئے ایسا لگا کہ داو تکئے پر نیم دراز پڑے مولوی صاحب کی سانسیں رک گئی ہوں اور ملک الموت بس آیا ہی چاہتے ہوں۔ لیکن پھر انہوں نے خود پرقابو پایا، اٹھ کر بیٹھے اور سامنے رکھے پانی کے جگ سے گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں اسے حلق میں انڈیل لیا۔

ابھی میں انکے اندر اپنی ایک چھوٹی اور بے موقع تقریر کے ردعمل میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ انہوں نے انکھ اٹھا کر اپنے دائیں بائیں بیٹھے مریدین کو نظروں ہی نظروں میں تخلیہ کا حکم دیا اور پھر نظریں جھکاکر کسی انجانے مراقبے میں گم ہوگئے۔

پانچ منٹ کی کاٹ کھانے والی خاموشی کے بعد گویا ہوئے تو جو کچھ ارشاد ہوا وہ میں تحریر میں لانے سے عاجز ہوں۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ جب وہ دوبارہ خا موش ہوئے تو انکی تعظیم کے وہ تمام جزبات جو مجھے ورثہ میں ملے تھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غائب ہوچکے تھے اور میرے اندر سے کہیں اقبال کی یہ آواز بے چین ہوکر نکلا ہی چاہتی تھی کہ دین ملا فی سبیل اللہ فساد، لیکن پھر مجھے اقبال کے ہی اس بانگ نے روک لیا کہ

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو اسکے کوہ دمن سے نکال دو۔

قصہ یوں ہے کہ ایک مشہور و معروف مولوی صاحب جو والد مرحوم کے پرانے دوست بھی ہیں سے ایک نشست پر وہابیت کے خلاف اور ترک دنیا کی حمایت میں نصیحت سنی تو میں نے موضوع بدلنے کے لئے سیکولرازم اور اسکے اثرات کا ذکر چھیڑ دیا۔ ارشاد ہوا بری چیز ہے، روشن خیالوں کے ڈرائنگ روم کے نخرے ہیں لیکن تم کیوں ہلکان ہوتے ہوئے::
چھوڑو یہ گستاخ وہابیوں اور خارجیوں کے چکر ہمارے پیر و مرشد کے ہوجاو، سکون ہی سکون ہے، عافیت ہی عافیت ہے۔


میں اس سخت فرقہ وارانہ اور احمقانہ نصیحت کو سن کر خود کو روک نہ سکا اور روایتی مولویت اور تصوف پر ایک چھوٹی سی تقریر کر ڈالی، یا یوں سمجھیے کہ ایک روایتی مولوی کے سامنے ہی روایتی مولویوں کی ایسی گردن موڑی کہ اللہ توبہ::

مولوی صاحب میری بات آپکو بھلے بری لگے لیکن میں ایک احیائی اور انقلابی مسلمان ہوں جو روایت پسندی سے سخت عاجز ہے، جسے خانقاہوں اور اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجد میں بیٹھے مذہب پرستوں اور دین فراموشوں سے بھی اتنا ہی بیر ہے جتنا کہ نام نہاد روشن خیالوں سے۔
میں اس مذہب کو نہیں مانتا جو تعویز کے گٹھوں اور قبروں کے پیٹ میں بند ہے۔ میں اس مذہب کو بھی نہیں مانتا جو رواجوں، تہواروں، دنوں، موسموں اور شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔
میں اس مذہب کو بھی نہیں مانتا جو مرشد کی نظروں میں قید ہو،
میں اس مذہب کو بھی نہیں مانتا جسے نجی شعبے میں دے دیا جائے اور ریاست اور امراء کا اسکے معاملات میں کوئی دخل باقی نہ رہے۔

میں اس مذہب کو بھی نہیں مانتا جسکے کئی کئی فرقہ اور مسالک ہوں۔میں امام ابو حنیفہ کا ٹھیٹ اور اختیاری مقلد ہوتے ہوئے بھی آئمہ اربعہ کی تقلید پر صبر شکر کرکے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتا۔
مجھے حافظ ابن تیمیہ، ابن قیم، شیخ احمد سر ہندی، شاہ ولی اللہ، شیخ عبدالوہاب نجدی، عثمان دان فودیو، سید احمد بریلی، شاہ اسمعیل دہلوی، رشید گنگوہی، امام الہند محمود الحسن، عبیداللہ سندھی، بانی تبلیغی جماعت یوسف کندہیلوی، ابوالکالم آزاد، علامہ اقبال، سید مودودی، حسن البنا، سید القطب، علامہ احسان الہی ظہیر، عبداللہ عظام، ڈاکڑ اسرار، علامہ عبدالرشید غازی اور ملا محمد عمر ایسے بھلے معلوم ہوتے ہیں جو جماعت کی آستینوں میں بتوں کے انبار دیکھتے ہوئے بھی اپنی اپنی خانقاہوں سے نکل کر بانگ درا پر آمادہ ہوتے ہیں اور خروج اور دعوت الحق پر یقین رکھتے ہیں۔

چاہے خلق خدا انکی قبروں پر عمارت بناکر تعظیم کی مثال قائم کرے لیکن مجھے ایسے گوشہ نشین مذہب پرستوں سے سخت اختلاف ہے
جو خود تو خانقاہوں میں بیٹھ کر خلوت کا حق ادا کریں اور معاشرے کو جابر حکمرانوں کے حوالے کردیں،
جو دریاوں کے کناروں پر بیٹھ کر اللہ کی بڑائی کے نغمے گائیں اور خلق خدا ایک ایک بوند پانی کے لئے ترستی رہے
اور جو سمع و تال پر تصوف کے دئے روشن کریں لیکن اللہ کا برہان طاقوں کی تاریکی میں بند رہے۔
اگر اسے خارجیت کہتے ہیں تو میں خارجی ہوں،
اگر اسے وہابیت کہتے ہیں تو میں وہابی ہوں
لیکن میں اسے محمدیت سمجھتا ہوں اور میں ایک محمدی ہوں۔

مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
آپکی یہ کیسی خلوت ہے کہ کافروں کے بنائے ہوئے ائر کنڈیشن کمرے میں، کافروں کے بنائے ہوئے اعلی قسم کے کارپیٹ پر لیٹے ہوئے،
کافروں کے بنائے ہوئے ریشمی گاو تکئے سے ٹیک لگائے،
کافروں کا بنایا ہوا مہنگا موبائل ہاتھ میں لئے
اور کافروں کی بنائے ہوئے سفید کارٹن میں ملبوس کافروں کی بنائی اس مہنگی تسبیح کو مشین کی رفتار سے چلاتے ہوئے مجھے ترک دنیا کا مشورہ دیتے ہیں لیکن صاحب میں ایسی خلوت پرلعنت بھیجتا ہوں، میں ایک محمدی ہوں جسکا دین اور مذہب گوشہ نشینی نہیں دنیا پر چھا جانے اور غالب آنے کا نام ہے۔

مولوی صاحب سچ تو یہ ہے کہ اس سیکولرازم کا سب سے بڑا محافظ خود آپکا طبقہ ہے
جسکی دال روٹی اور حقہ پانی اس صدیوں پرانے نظام سے وابستہ ہے۔
اگر بنو عباس کے نا اقبت اندیش روساء نے مذہب کی نجکاری نہ کی ہوتی،
اگر انہوں نے خاموشی کے ساتھ مسجد اور قصر خلافت کو الگ نہ کیا ہوتا ،
اگر انہوں نے ممبر مسجد کو نجی شعبے کیلئے خالی نہ چھوڑا ہوتا تو کیا امت شیعہ سنی فرقوں میں بٹتی؟
کیا بادل ناخواستہ مذاہب اربعہ کی ضرورت ہوتی؟
تو کیا ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کو عقائد کی حفاظت کے لئے اہل سنت اور غیر اہل سنت کی فصیل کھینچنی پڑتی۔
کیا دیگر مذاہب کی طرح فرزندان اسلام کو بھی اپنے یہاں پیدائش، اموات، شادی بیاہ اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے ایک پیشہ ور طبقے کی ضرورت پڑتی۔ یقینا ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
تاریخ کیوں کہ دورِ بنو عباس میں از سر نو ترکیب دی گئی تھی اس لئے اس نے بنو امیہ کے ظلم و جبر کے افسانے گھڑے
لیکن یہ نہیں بتایا کہ اموی محل نہیں بناتے تھے،
اموی نماز پڑھاتے تھے۔
تاریخ کے تقابلی مطالعہ سے یہ حقیقت واضع ہوتی ہے کہ اگر خلافت راشدہ کے بعد اسلام کی کسی دور میں خدمت ہوئی تو وہ دور بنو امیہ ہی تھا۔
جس میں ملائیت اور تصوف کی کوئی جگہ نہیں تھی۔
اس سوا سو سال میں جو جو امیرالمومنین اور گورنر ہوا ،
وہ جمعہ کا خطبہ دیتا اور ہر خاص و عام میت کا جنازہ پڑھاتا۔

عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر، عائشہ صدیقہ اور ابو ہریرہ اس دور کے جید علماء شمار ہوتے تھے لیکن پیشہ ور نہیں، خود کماتے اور خود کھاتے تھے، ان اصحاب کو بھی ملا یا مولوی کہا جاسکتا ہے لیکن ایسے جو قرآن اور حدیث کا کاروبار نہیں کرتے تھے، انکے یہاں پڑھے پڑھائے قرآن ایصال ثواب کے لئے بکاوں مال نہیں بنا کرتے تھے۔

وہ چند ٹکوں کے عوظ تنخواہ دار امام یا موزن نہیں ہوتے تھے،
انہوں نے کبھی سورۃ آل عمران اور سورۃ النسا کی چار آیتوں کے بدلے ہزاروں کے سودے نہیں کئے،
انہوں نے کبھی کسی رئیس کے گھر جاکر حلوے اور پلاو پر نیاز نہیں دی،
انہوں نے کبھی اپنے شاگردوں کو تیجے، چالیسویں اور برسی کے ختم پر میت کے گھر نہیں بھیجا۔
کتنی ہی عید اور بقر عید گزر جاتی تھی لیکن انہیں فطرے، زکوۃ اور قربانی کے کھالوں کا کوئی درد نہیں ستات
ا۔کبھی کبھار خلیفہ یا گورنر وضیفہ بھیجتا جو وہ اپنے شاگردوں میں تقسیم کردیتے اور عوام کی طرف نظر و نظرانے کا بھی کوئی تصور ان جید علماء کرام کے یہاں نہیں تھا۔


امت مسلمہ کی خوش قسمتی ہے کہ جید اور راسخ علماء کرام بنو امیہ کے ساتھ ختم نہیں ہوگئے،
دور بنو عباس میں جہاں گلی گلی میں شعلہ بیان خطیب اور فرقہ واریت پھیلاتے بال کی کھال نکالتے مولوی پیدا ہوئے وہیں جید اور راسخ علماء کرام عباسی حکمرانوں کی زیادتیوں سے قطع نظر مسلسل اپنا کام کرتے رہے۔

کون نہیں جانتا کہ امام مالک کا بڑھاپہ زندان کی قید تنہائی میں بسر ہوا اور امام احمد کی کھال کو بھی جیتے جی کھینچا گیا۔
ادھر ہندوستان میں اکبر اعظم کی اولاد نے شیخ احمد سر ہندی کو بھی پابند سلاسل کیا اور سید احمد بریلی اور اسماعیل دہلوی بھی اسی مقصد میں کام آئے، حافظ زامن شہید، قاسم نانوتوی اور محمود الحسن بھی استعمار سے آخری وقت تک لڑتے رہے۔

لیکن مولوی صاحب ہر گلی محلے کا خطیب (روایتی مولوی) عالم دین نہیں ہوا کرتا۔

اسے تو اپنے خطبے اور محلے کے روساء کے سوا کسی اور کی پرواہ کم ہی ہوا کرتی ہے۔ انقلاب، احیاء اور اقامت دین کی بات ہوئی تو ڈر ہے کہیں مسجد و مدرسہ کا خرچہ نہ روک جائے،صاحب حقہ پانی نہ بند ہوجائے۔

مولوی صاحب سیکولرازم صرف روشن خیالوں کے ڈرائنگ روم کے ہی نخرے نہیں بلکہ فی الحقیقت روایتی مولویوں اور مشائخ کو بھی اسکی اتنی ہی ضرورت ہے بلکہ برصغیر کے روایتی مولوی طبقہ کے لئے تو سیکولرازم گویا اکسیجن گیس ہے اقبال نے ایسی ہی تھوڑی کہا تھا

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
.................................................. ..............

باجازت::برادر کاشف نصیر
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مولوی صاحب سیکولرازم صرف روشن خیالوں کے ڈرائنگ روم کے ہی نخرے نہیں بلکہ فی الحقیقت روایتی مولویوں اور مشائخ کو بھی اسکی اتنی ہی ضرورت ہے بلکہ برصغیر کے روایتی مولوی طبقہ کے لئے تو سیکولرازم گویا اکسیجن گیس ہے اقبال نے ایسی ہی تھوڑی کہا تھا::

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
روایتی مولویوں اور مشائخ (علمائے سوء) کو سیکولر بننے کا درس دینا اور سیکولر ازم کو ان کیلئے آکسیجن بتانا انتہائی غلو ہے۔ کیونکہ سیکولر ازم کا مطلب دین بیزاری کے علاوہ کچھ نہیں!
حالانکہ صحیح حل یہ ہے کہ جس کتاب وسنت سے وہ کوسوں دور ہیں انہیں کتاب وسنت پر چلنے کی دعوت دی جائے۔

یہ بالکل ایسی بات ہے کہ اگر کوئی ضعیف حدیث یا غلط قیاس سے استدلال کرے تو اس کو جواب یہ دیا جائے کہ احادیث یا قیاس تو حجّت ہی نہیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ اسے کہا جائے کہ بھائی صحیح حدیث یا صحیح قیاس سے ہی استدلال ہو سکتا ہے۔

میرے بھائی نہ جانے ’سیکولر ازم‘ سے کیا مراد لیتے ہیں؟؟؟

سیکولر ازم کی حقیقت جاننے کی ماہنامہ محدث کا یہ مضمون (خاص طور پر یہ صفحات) ملاحظہ کیجئے!


جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ اس میں تعلیمی، معاشی، معاشرتی، سیاسی وبین الاقوامی سب اُمور شامل ہیں کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے تو یہ بات بالکل صحیح ہے، اس کا انکار کوئی ہوشمند نہیں کر سکتا۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بھائی جان ! انتہائی ادب کے ساتھ عرض کناں ہوں کہ اپ سیکولرزم کے علمبرداروں کی تقاریر اور ارٹیکلز پڑھ لیں ، وہ کہیں بھی دین بے زاری کی بات اس طرح نہیں کرتے جیسا کہ اپ فرما رہے ہیں .

ان کی مرضی کا دین ایسا ہی ہے کہ وہ عبادت گاہوں تک محدود رہے اور عملا مذہب بن کر رہ جائے. . . اور ہمارا روایتی "ملا" طبقہ خواہ وہ علمائے سو$ کا ہو یا اپ کی نظر میں علمائے حق کا !!! سب کی اکثریت اسی بات پر قانع، اور عامل نظر اتی ہے کہ وہ مسجدیں سنبھالے رہیں اور باہر یہ سیکولرز جو مرضی کرتے رہیں . . .ان ی ذمہ داری ایک جمعے کے خطبے اور ہفتہ واری دروس سے پوری ہو جاتی ہے !!!

ان کا مدرسہ مسجد چلنی چاہیے باقی معاشرہ ان بھیڑیوں کے نرغے میں بھلے جاتا ہے تو جاتا رہے !!

روایتی مولاناوں کو سیکولر بننے کو درس نہیں دیا جا رہا. . . . اگر اپ دوبارہ پڑھیں تو. . . بلکہ انہیں بالواسطہ طور پر سیکولرزم کی سپورٹ کرنے والا بتایا جا رہا ہےا.

اور اسی طرح سیکولرزم جو کردار مذہب کا متعین کرتا ہے وہی کردار یہ لوگ پہلے سے ادا کر رہے ہیں . . . . اس طرح دونوں ایک دوسرے کو تحفظ دے رہے ہیں ایک اینگل سے !!! دانستہ نادانستہ . . .

والسلام
 
Top