السلام و علیکم و رحمت الله -
اصل میں جو مسلہ @خضرحیات صاحب اور
@یوسف ثانی کے درمیان زیر بحث ہے کہ
عازمین حج اگر حج پر نہ بھی جاتے تو یہ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں اسی وقت پر لازماً فوت ہوجاتے۔ (طریقہ موت کچھ بھی ہوسکتا تھا) -
یا یہ کہنا حج پر کیوں نہ جاتے ؟ یہ بھی اللہ کا فیصلہ تھا ـ
یہ الجھن اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم الله رب العزت کے معامله قضاء و قدرکو اپنے محدود علم پر قیاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں -انسان کا ایک معامله جو الله تبارک وتعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ اسی طرح وقوع پذیر ہونا ہے - لیکن اس کی اصل حقیقت کیا تھی اس کے بارے میں الله رب العزت ہی جانتا ہے کہ اگر وہ واقعہ ایسے نہ ہوتا تو کیسے ہوتا ؟؟- اس علم کی حقیقت کا اشارہ الله رب العزت نے سوره الکہف میں بھی دیا ہے- جس میں الله کے ایک نبی حضرت خضر علیہ سلام کو اس علم کی حقیقت الله کی طرف سے دی گئی تھی -
جب انہوں نے ایک لڑکے کو قتل کیا تو حضرت موسیٰ علیہ سلام نے حضرت خضر علیہ سلام سے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت برا کام کیا کہ ایک لڑکے کو نا حق قتل کردیا - جس پر حضرت خضر علیہ سلام نے انھیں اس کی حقیقت بتائی کہ ایک تو میں نے اس لڑکے کو ناحق قتل نہیں کیا بلکہ یہ میں نے الله کے حکم سے کیا ہے اوردوسرے اس کی وجہ بتائی کہ اگر یہ ابھی قتل نہ ہوتا تو بڑا ہو کر اپنے والدین کو کافر بنا دیتا- لہذا الله نے چاہا کہ اس کے والدین کو اس فتنہ پرور اولاد سے نجات دلا کر نیک اولاد سے نوازیں-
اب اگر الله چاہتا تو پہلے ہی ان والدین کو نیک اولاد سے نواز دیتا - لیکن ایک فتنہ پرور لڑکے کو پیدا کرنا اور پھر اس کو اپنے بندے کے ہاتھوں قتل کروانا اس کی مشیت کا حصّہ تھا - اور الله نے یہ بھی بتا دیا کہ اگر وہ لڑکا قتل نہ ہوتا تو اپنے والدین کے لئے مصیبت و آزمائش بن جاتا-
لہذا حاجیوں کا حادثے میں شہید ہونا الله کی مشیت کا حصّہ ہے اور اگر وہ حرم میں شہید نہ ہوتے تو ان کی موت کس طرح وقوع پذیر ہوتی اور کس جگہ ہوتی اس کی حقیقت الله ہی جانتا ہے (واللہ اعلم)-
الله ہم سب کو زندگی اور موت اور یوم حشر کے فتنے سے محفوظ رکھے (آمین)-