• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملحدین کے لونڈی کے متعلق اعتراضات کے جوابات

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
السلام علیکم
ملحدین کے کچھ اشکالات کے جوابات
1۔لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز کیا ہے۔
ا۔
لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ قرون اولی کے دور میں
‌ب. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ موجودہ دور میں
2۔ایک معصومانہ سوال۔ کیا مسمان عورتیں لونڈی بننا چاہیں گی؟////
3۔شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ
 

اٹیچمنٹس

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز کیا ہے۔
تحریر۔۔۔ذیشان وڑائچ

ہم اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
‌أ. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ قرون اولی کے دور میں
‌ب. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ موجودہ دور میں
فی الحال قرون اولی والی بحث کرتے ہیں۔ موجودہ دور سے متعلق بحث تیسرے نکتے پر بحث کرنے کے بعد کریں گے۔
یہ معاملہ تھوڑا بہت حساس ہے یا موجودہ دور کے ذہن کی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ یہ حساس بن گیا ہے ورنہ پہلے یہ سرے سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
چونکہ معاملہ جنسی ملاپ سے متعلق ہے اس لئے کچھ باتیں کھل کر کرنا ضروری ہے اور نہ کرنے کی صورت میں بہت ساروں کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات تشنہ رہ جائیں گے۔
صحیح تجزیہ کرنے کے لئے پہلے اس نکتہ پر بحث کرتے ہیں کہ مختلف تہذیبوں میں عورت اور مرد کے جنسی ملاپ کے کیا کیا اخلاقی جوازات رہے ہیں اور لونڈی سے جنسی ملاپ ان اخلاقی جوازات کے تناظر میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔
جنسی ملاپ کے ویسے تو بہت سارے شرائط یا جوازات ہوسکتے ہیں، لیکن دو چیزیں بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۱۔ شادی یا نکاح۔
۲۔ آپسی رضامندی
۱۔ شادی یا نکاح

جنسی ملاپ کے لئے معاشرتی، قانونی اور مذہبی منظوری کے لئے جو لفظ عام طور مشہور ہے وہ نکاح یا شادی ہے۔ ایک مرد اور عورت جب شادی کرتے ہیں تو گویا کہ وہ پورے معاشرے میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی ہیں اور ان کے جنسی ملاپ کے حق کو پورا معاشرہ، میاں بیوی کے رشتہ دار، حکومت اور مذہب تسلیم کرتا ہے۔ اور عورت کا جو بچہ ہوگا اس کے بارے میں تسلیم کیا جائے گا کہ وہ اس کے میاں کا بچہ ہے اور اس بچے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے میاں کی ہوگی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس پر تقریباً دنیا کی تمام تہذیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ یعنی یہ اتفاق پہلے پایا جاتا تھا۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب نے اس کے معنی مکمل طور پر بدل دیے ہیں۔
آج کے مغرب میں جنسی ملاپ کے لئے معاشرتی اور مذہبی منظوری ضروری نہیں ہے۔ اور قانون کی طرف سے سرے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ مغرب میں شادی کے بغیر بھی جنسی ملاپ کو جائز سمجھا جاتا ہے، شادی کا مطلب وہاں پر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص شادی کرلے وہ صرف اپنے پارٹنر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے، اسے کسی اور کے ساتھ جنسی ملاپ کی اجازت نہیں ہے۔ اور شادی شدہ نہ ہونے کی صورت میں اسے جس سے چاہے جنسی ملاپ کی آزادی ہوتی ہے۔
پرانی تہذیبوں میں، آج کے مشرق میں اور خاص طور پر اسلام کے معاملے میں صورت اس کے برعکس ہے۔ یہاں پر جنسی ملاپ بغیر شادی کے جائز ہی نہیں ہے۔ شادی کے بعد اسے جنسی ملاپ کا لائسنس مل سکتا ہے لیکن صرف اس کے ساتھ جس سے نکاح ہوا ہے۔
اس اعتبار سے شادی کا مطلب ہی مغرب اور اسلام میں الگ ہے۔
اسلام میں شادی کے ذریعے ایک پابندی ہٹا کر جنسی ملاپ کی آزادی دی جاتی ہے۔ اور یہ آزادی صرف ان کے درمیان ہوگی جو آپس میں شادی شدہ ہیں۔ یعنی مکمل پابندی سے ایک یا زیادہ سے زیادہ چار کی پابندی لاگو ہوتی ہے۔
مغرب میں شادی سے پہلے ہر قسم کی جنسی آزادی ہوتی ہے، لیکن شادی کے ذریعے اس کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سے جنسی ملاپ قائم کرے۔ یعنی لامحدود سے ایک کی پابندی ڈالی جاتی ہے۔
ہم نے شادی کے بارے میں جو تشریح کی تھی اس میں بنیادی طور پر تین اداروں کا ذکر کیا تھا۔ معاشرہ، حکومت اور مذہب۔ عام طور پر شادی کے بارے میں ان تینوں ادارں کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ان کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے۔ مثلاً لڑکی کی شادی کی عمر پر یہ تینوں ادارے متفق نہیں ہوتے۔ کزن میریج پریہ تینوں ادارے خاص طور پر مذہب اور حکومت متفق نہیں ہوتے۔ بھارت میں ایک کونسپٹ ہوتا ہے جسے گوتر کہتے ہیں جو کہ وہاں پر خاندانوں کی تقسیم کا ایک نظام ہے۔ بھارتی قانون ایک ہی گوتر کے لڑکا لڑکی کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ ایک دین کو ماننے والے فرد یا معاشرے کے لئے خدا کا حکم اور اس کی اجازت فائنل آتھارٹی ہوتی ہے۔ یعنی، معاشرہ جو چاہے کرے یا حکومت جیسا چاہے زبردستی قانون نافذ کرے، بہرحال اگر یہ شادی خدا کے حکم کے مطابق ہے تو پھر جنسی تعلق کا اخلاقی جواز موجود ہے ورنہ نہیں۔ یہاں خواہ مخواہ کے تنازعوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی قانون اسلام کے مطابق بنایا جائے تاکہ اسلام پر بھی عمل ہو اور قانون کی بھی مخالفت نہ ہو۔
اب لونڈی سے مباشرت کا معاملہ لیں۔ جب اسلام لونڈی اور آقا کے درمیان جنسی ملاپ کی منظوری دے رہا ہے اور جب اس پر قرآن واضح ہے۔ تو پھر اعتراض کی بنیاد کیا ہے؟ جس طرح میاں بیوی کے درمیان جنسی ملاپ کا اخلاقی جواز موجود ہے بالکل ہی اسی طرح لونڈی اور آقا کے درمیان اخلاقی جواز موجود ہے۔
تاریخی اعتبار سے تو حکومت اور معاشرہ بھی اس کو منظور کر رہا تھا اور مذہب تو کر ہی رہا ہے۔ اس لئے اس پر اعتراض کی بنیاد پوری طرح سے ڈھ جاتی ہے۔
۲۔ آپسی رضامندی

اب رہ جاتا ہے رضامندی والا اعتراض۔ مغربی معاشرے میں کسی بھی چیز کے صحیح یا غلط ہونے میں رضامندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس رضامندی کے نظریے کو مغرب میں کونسنٹ (Consent) کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر واضح ہوگیا پرانی تہذیبوں میں اور آج کی مشرقی تہذیبوں میں اور خصوصاً اسلام میں جنسی ملاپ کے اخلاقی جواز کے لئے نکاح یا شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن آج کے مغربی معاشرے یا جن علاقوں میں مغربی تہذیب کو پوری طرح قبول کیا گیا ہے وہاں پر جنسی ملاپ کے جواز کے لئے شادی کے بجائے کونسنٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں شادی کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لونڈی سے جنسی ملاپ کو اس فرق کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کو اپنے اصول کے لئے ایک مغرب کے عقیدے کو کیوں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے؟
اس معاملےمیں ایک اور بنیادی سوال ذہن میں آتا ہے۔ نکاح کے معاملے میں باقاعدہ ایجاب و قبول ہوتا ہے۔ لیکن لونڈی بنانے کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ لونڈی کے معاملے میں بھی یہ ہوتا ہے۔
ایک عورت دو طرح سے لونڈی بن سکتی ہے:
۱۔ ایک یہ کہ وہ باقاعدہ جنگ میں حصہ لے رہی ہو اور جنگ کے دوران مسلمانوں کی قیدی بن گئی۔ جب وہ جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو اسے پتہ تھا کہ اگر وہ قید ہوگی تو لونڈی بنائے جانے کا پورا امکان ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہوئی اور مسلمان عورتوں کو قید کیا گیا تو اس بات کی بہت کچھ گنجائش ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی لونڈی بنایا جائے۔ وہ جب جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو وہ اس پوری انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ میں فوج کا حصہ بنی۔ اگر اس کو پکڑے جانے کی صورت میں لونڈی نہیں بننا تھا تو اس کے پاس پورا آپشن موجود تھا کہ وہ لونڈی نہ بنے یعنی جنگ میں حصہ نہ لے۔ جب لونڈی بننے کے ایک پورے پراسس کا حصہ خود اپنی مرضی سے بن چکی ہے تو پھر یہ کہنا ہے کہ اس کی مرضی نہیں تھی کا کیا مطلب ہے؟
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جنگ میں پورا قبیلہ ملوث تھا اور جنگ کے نتیجے میں پورا قبیلہ بکھر گیا اور عورتوں اور بچوں کا نگران کوئی نہیں رہا۔ اُس دور میں ایسی صورت حال میں عورت کے پاس کوئی چوائس ہوتی ہی نہ تھی۔ اگر ان عورتوں کو نظر انداز کر کے چھوڑ دیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ انہیں کوئی اور قبیلہ غلام اور لونڈی بنالیتا یا پھر بصورت مجبوری وہ عورتیں خود طوائف بن کر زندگی گزار لیتی۔ اور پھر جب وہ خود لونڈی بن گئی اور انہیں پتہ ہے کہ ملکیت میں آنے کے بعد ان کا کوئی اختیار نہیں ہے تو جس معاشرتی جبر میں وہ رہتی ہے وہاں پر کونسنٹ خود سے پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
یہاں پر ہم واضح کریں کہ کونسنٹ ایک قانونی اصطلاح ہے۔ اس سلسلے میں ایک اورلفظ جو قابل غور ہے وہ ہے "آمادگی"۔ جنسی معاملے میں کونسنٹ اور آمادگی کی پوری حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہم یہاں پر کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں جس سے پتہ چلے گا کہ لونڈی کے معاملے میں کونسنٹ ایک غیر اہم مسئلہ ہے۔
‌أ. مغربی یا مشرقی معاشرے میں ایک عورت اپنی معاشی ضرورت پوری کرنے کے لئے طوائف کا پیشہ اختیار کرتی ہے۔ اس نے اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے طوائف کے پیشے کو اختیار کیا۔ وہ ہر روز ایک نئے مرد کے ساتھ سوتی ہے اور اس کا مقصد جنسی لذت حاصل کرنا نہیں بلکہ مرد کو خوش کر کے پیسے کمانا ہوتا ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌ب. ایک جوان عورت زیادہ عمر والے مالدار مرد سے شادی کرتی ہے۔ مقصد اس مرد کے پیسے سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ اس عورت کو اس مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن اس مرد کی جنسی خواہش پوری نہ کرنے کی صورت میں جو مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اس کے پیش نظر وہ مجبوری میں اس کے ہر جنسی مطالبہ کو پوری کرتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌ج. مشرقی معاشرے میں کچھ خاص حالات کی وجہ سے ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے۔ لڑکی کو لڑکے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ شادی ہوچکی ہے اور طلاق کی صورت میں کئی قسم کی سماجی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اس لئے وہ لڑکی اپنے ناپسندیدہ شوہر کے جنسی مطالبات کو مجبوری میں تسلیم کر لیتی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی بن جاتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌د. ایک مغربی معاشرے میں لڑکا لڑکی کی دوستی ہوجاتی ہے جس کو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کہا جاتا ہے۔ لڑکی صرف دوستی رکھنا چاہتی ہے اور ابھی جنسی تعلق کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ لیکن لڑکا جنسی تعلق کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انکار کی صورت میں بریک اپ یعنی دوستی ٹوٹنے کا پورا امکان ہے۔ نتیجتاً لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌ه. ایک بیوی ہے جو کہ اپنے شوہر سے محبت بھی کرتی ہے اور اس کی خواہشات کا احترام کرتی ہے اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا پسند بھی کرتی ہے۔ لیکن مرد کی جنسی طلب عورت سے زیادہ ہے۔ اس لئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد جنسی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے لیکن عورت کا "موڈ" نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود عورت صرف اپنے شوہر کی خاطر اس کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌و. ایک مسلمان دین دار عورت اپنے شوہر کے جنسی مطالبے کو صرف اس وجہ سے تسلیم کرتی ہے کیوں کہ بلاوجہ شوہر کو انکار کرنے کی صورت میں فرشتے اس پر لعنت کریں گے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ کونسنٹ کتنی غیر حقیقی اور غیر متعین شئے ہے۔ لیکن ایک چیز ان تمام مثالوں میں پائی جاتی ہے وہ آمادگی ہے۔ میں نے ہر سوال کے آخر میں ایک سوال پوچھا ہے کہ آیا یہاں پر کونسٹ پایا جاتا ہے یا نہیں۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔
لیکن ان مثالوں میں آمادگی ضروری پائی جاتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ معاشی ضرورت، سماجی مجبوری، نفسیاتی دباؤ اور مذہبی اصول ایک عورت کے اندر خود سے آمادگی پیدا کرتے ہیں۔ آمادگی فی نفسہ اندر سے پیدا ہونے والی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کا بیرون ہے جو آمادگی پیدا کرتا ہے۔ جب ایک عورت لونڈی بنتی ہے اور جب اس کو خود معاشرتی اور سیاسی حالات کا پتہ ہوتا ہے تو اس کے حالات خود اس کے اندر آمادگی پیدا کر لیتے ہیں۔
اصولی طورپر دو وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر یہاں پر کونسنٹ کا معاملہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا عقیدہ ہے کہ ہر انسان آزاد ہے۔ اس لئے لونڈی سے جسمانی تعلق قائم کرنا اس کی آزادی چھیننے کے برابر ہے۔ ہم اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ کسی کے لونڈی یا غلام ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اور اس فرد کے لونڈی یا غلام بننے کی باقاعدہ اخلاقی وجہ موجود ہے۔ اس لئے ایک غلام اور لونڈی کے معاملے میں آزادی کی بنیاد پر اعتراض کھڑا کرنا بالکل ہی ایک متناقض بات ہے۔
اس معاملے میں حساسیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی عورت کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے وہ عورت شدید قسم کی ذہنی اور جسمانی تکلیف سے گذرتی ہے۔ یہاں پر کونسنٹ اور آمادگی کو ملادیا جاتا ہے۔ اوپر دی گئی مثالوں سےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ اگر حالات کے جبر کی وجہ سےعورت اس عمل کے لئے آمادہ ہوجائے قطع نظر اس سے کہ آپ اس آمادگی کو قانونی طور پر کونسنٹ سمجھیں یا نہ سمجھیں، عورت کو ایسی کسی تکلیف سے گذرنا نہیں پڑتا اور مغرب میں ایسی آمادگی کے ساتھ جسمانی تعلقات صراحتاً جائز سمجھے جاتے ہیں۔
اب ذرا صورت حال دیکھیں۔ ایک عورت ہے جو کہ کسی صورت حال کی وجہ سے لونڈی بن گئی۔ اسے پتہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اسے پتہ ہے کہ جس معاشرے میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر آقا کا اپنی لونڈی سے مباشرت کرنا قابل قبول ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ مزاحمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ آقا کا اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی صورت میں وہ اپنے آقا کی بیوی کا شیئر حاصل کر رہی ہے اور بچہ ہونے کی صورت میں اسے بیچا نہیں جاسکتا۔
اور ذرا سیاسی پس منظر بھی ملاحظ فرمائیں کہ اس عورت کو یہ بھی پتہ ہے کہ جس ماحول میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانا قابل قبول ہے اور اگر اس کی اپنی سائڈ والے جییتے تو اس کا اپنا شوہر بھی ایک آدھ لونڈی گھر لے آتا۔
اس پورے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر کونسنٹ کا مسئلہ پیدا ہی کہاں ہوتا ہے؟
اعتراض کرنے والے عام طور پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ لونڈی کے ساتھ جنسی تعلق دراصل ریپ (Rape) ہے۔ یہاں پر مناسب ہے کہ اس اصطلاح کو صحیح تناظر میں سمجھا جائے۔ ہمارے ذہن میں ریپ کے لفظ سے جو تصور پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک کمزور عورت ایک یا ایک سے یا زیادہ مردوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی تڑپ رہی ہے اور وہ مرد اس پر جنسی زیادتی کر رہےہیں جبکہ وہ عورت ان کے شکنجے سے آزاد ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے جس کی وجہ سے وہ شدید قسم کی جسمانی اور ذہنی تکلیف میں مبتلا ہے۔حقیقت یہ ہے کی ایسا قطعی نہیں ہوتا۔ حالات اور معاشرہ اس کے اندر خود سے آمادگی پیدا کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح اوپر کی مثالوں میں یہ آمادگی پیدا ہوجاتی ہے۔ریپ مغرب کے عمرانیاتی ، مابعد الطبیعاتی اور قانونی تناظر میں پیدا شدہ ایک لفظ ہے جس پر بحث کرنے کے لئے الگ سے ایک مضمون کی ضرورت ہے۔ اس کو ایک قطعی دوسرے سیاق میں استعمال کرنا بذات خود ایک بد دیانتی ہے۔
************************************************
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
ایک معصومانہ سوال۔ کیا مسمان عورتیں لونڈی بننا چاہیں گی؟////
اس معصومیت پہ کون نہ مر جائے اے خدا !!!
کیا کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام سنا ہے ؟ نہیں سنا تو میں سنا دیتا ہوں ۔ ان کو چالیس سال کی عمر میں بیاسی سال کی قید کی سزا امریکہ بہادر نے سنائی ہے ۔ یعنی اگر انہوں نے معجزانہ طور پر 122 سال کی عمر پالی تو آزاد ہو کر موج کریں گی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے ۔
معصومانہ سوال یہ ہے کہ ان کو یہ طویل سزا سنانے سے پہلے آپ جیسے کسی بے وقوف نے نہیں پوچھا کہ آپ لونڈی بننا پسند کریں گی یا نہیں ۔
امریکہ سمجھتا ہے وہ ان کی مجرم ہیں انہوں نے لونڈی بنا لیا ۔ عافیہ کو یہ سزا پسند آئی یا نہیں آئی امریکہ کی جانے جوتی ۔
جو مسلمانوں کے خلاف مخاذ آرائی کرتے پکڑی جائیں گی انہیں اسلام میں لونڈی بنانے کا حکم ہے چاہے وہ کسی ملحد کی ماں ہو بہن ہو یا بیوی ہو ۔ اس کو اپنا لونڈی بننا پسند آئے یا نہ آئے ۔ ہماری جانے جوتی ۔
میں تو انتظار میں ہوں کہ دنیا کے کسی خطے میں ملحدوں کی حکومت آئے ۔ قسم سے بڑی مضحکہ خیز سچویشن ہو گی ۔ جس طرح بچے سے قلفی چھین لی جاتی ہے اس طرح حکومت چھن جائے گی ان سے ۔ کوئی مذہبی چکو دکھا کو حکمران کو نیچے اتار دے گا اور سارے ملحد امن کی بانسری بجاتے موم بتیاں جلاتے احتجاج کرتے رہ جائیں گے کہ ہائے ہائے ہماری حکومت چھین لی ۔ ہائے ہائے ہماری حکومت چھین لی ۔
کیا لونڈی سے ہم بستری کے لئے اس سے اجازت لینی چاہے ؟
اگر کوئ مسلمان ہے تو جواب ایک لائن کا بنتا ہے کہ یہ اجازت ﷲ اور ﷲ کے رسول نے دی ہے ۔
رہا سوال اجازت کا تو ہمبستری کے لئے تو بیوی کی اجازت بھی ضروری نہیں کجا یہ کہ لونڈی کی لی جائے ۔
مرد اپنی بیوی سے مباشرت سے پہلے اس کی اجازت لے گا ؟
جی مگر یہ رضا صرف ایک بار قاضی کے سامنے لی جاتی ہے ۔ بیوی ایک ہی بار قبول ہے کہہ کر تاحیات اس کی اجازت دیتی ہے ۔
اس اصول کو سمجھیں کہ جو بیوی ملکیت میں نہیں اسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تو جس لونڈی کا انسان مالک ہو اس کی اجازت کی ضرورت کیوں ہو گی ۔ جس وقت آپ اس کے مالک بنو گے وہ سمجھیں کہ آپ کے حرم میں ویسے ہی آگئی جیسے بیوی آتی ہے ۔
فرق یہ ہے کہ بیوی اختیار کرتی ہے اپنی منشاء سے جبکہ لونڈی کی مرضی نہیں پوچھی جاتی ۔
لونڈی کیوں اپنے آقا کو پسند کرنے لگی ۔
قتل کے جرم میں جس کی گردن کاٹنی ہو اس سے کبھی پوچھا جاتا ہے کہ تم کون سے جلاد سے گردن کٹوانا پسند کرو گے ؟
لونڈی سے بغیر نکاح کے ہمبستری اس کی سزا ہے جو ﷲ نے طے کی ہے ۔اس سے نہیں پوچھا جائے گا ۔ یوں سمجھئے کہ اس طرح وہ قتل ہونے سے بچ گئی ۔ کیوں کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے آئی تھی ۔
پکڑی گئی تو غلام بن گئی ۔
مسلمانوں کو یہاں تک حق حاصل ہے کہ اسے قتل کر دیں مگر اس پر رحم کیا جاتا ہے ۔ اور اسے کسی ایک مسلمان کی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان چاہے تو اس سے نکاح کر لے چاہے تو بطور لونڈی اس سے ہمبستری کرے ۔
ڈیل محض یہ ہے کہ اس کی جان بچ گئی ۔
اس کی اصل سزا قتل ہے کیوں کہ وہ جنگ میں مسلمانوں کی عورتوں بچوں اور مردوں کے قتل کو آنے والی قوم کی معاونت کرتے پکڑی گئی ہے اورﷲ کے دین کی مخالفت اور مسلمانوں کے قتل کی سازش میں حصے دار تھی مگر چونکہ اس قوم کو نشان عبرت بنانا ہے لہٰذا ﷲ کا حکم ہے کہ اس کو زندہ رکھا جائے اور اس سے مسلمان بچے پیدا کیئے جائیں ۔ اور وہ بچے نہ صرف حلال ہوں گے بلکہ باپ کی جائداد میں حصے دار بھی ہوں گے ۔

تحریر۔
Mohammad Saleem
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ

لونڈی، غلام اسلام کے دور اول میں یا تو وہ لوگ تھے جن کو صدیوں سے معاشرے کے غالب طبقے نے دبا رکھا تھا اور ان کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی اور منڈی میں قیمت لگتی تھی۔ اس غلامی کی بس اتنی سی قانونی پوزیشن تھی کہ وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہ تھے اور جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا اپنا بکنا بکانا دیکھا۔ نہ کوئی گھر، نہ وطن، نہ ان کی سوچ، نہ رائے، نہ ارادہ و اختیار، اس غلامی کو اسلام نے مختلف صورتوں سے کفارات و صدقات کی شکل میں ختم کیا اور کسی آزاد کو غلام بنانا گناہ کبیرہ قرار دیا۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی کا مستقل طور پر قلع قمع کر دیا،
لونڈی غلام وہ لوگ تھے جن سے مسلمانوں نے جہاد کیا۔ وہ جنگی قیدی بنے ازاں بعد نہ تو تبادلہ اسیراں کی صورت پیدا ہوئی کیونکہ مسلمان کافروں کے پاس قیدی بنے ہی نہ تھے تبادلہ کس سے کرتے؟

آج دنیا میں کہیں بھی شرعاً و قانوناً نہ کوئی غلام ہے نہ لونڈی۔ جب کبھی کفار سے اسلامی حکم کے مطابق جہاد فی سبیل اﷲ ہو گا، ان شاء اﷲ ہم فاتح ہوں گے، دشمن کے لوگ ہمارے جنگی قیدی بنیں گے پھر ہم ان کو قرآنی حکم کے مطابق احسان کر کے مفت یا فدیہ لے کر آزاد کریں گے۔ ہاں جو جنگی جرائم میں ملوث ہوئے، غدار ہوئے، مسلمانوں پر بلاجواز ستم کے مرتکب پائے گئے ان کو آزاد کرنا ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرناک ہوا، وہ اﷲ و رسول کی جناب میں حد درجہ گستاخی و بے ادبی کے مرتکب پائے گئے یا ہم ان کو احسان کر کے آزاد کرتے ہیں مگر وہ ہمارے حسن سلوک اور اسلامی معاشرتی اقدار سے اس قدر متاثر ہیں کہ واپس اپنے ملک جانے پر تیار نہیں بلکہ ہمارے پاس رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہیں وہ مجبوری کی صورتیں جن میں ہم ان کو جان کی امان دے کر اپنے پاس رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اب اگر ہم مناسب سمجھیں تو ان کو غلام لونڈیاں بنا سکیں گے۔ اس میں ان کا بھلا، تحفظ اور ان کی امان ہے۔ یہ ہماری خوشی نہیں مجبوری ہے کیونکہ انہیں فوری طور پر غذا، رہائش اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل ان سے رعایتی برتاؤ ہے۔
اس ایک جنگی مجبوری کے سوا اسلام میں کسی آزاد کو لونڈی یا غلام بنانا جائز نہیں۔ کوئی زبردست قوم یا فرد کسی کو ناحق، اپنا محکوم بنا لے تو اس کو اسلام ظلم اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیتا ہے۔

باندی کے حلال ہونے کی توجیہہ :

اب آتے ہیں اس مسئلہ کی طرف کہ باندی کیونکہ حلال ہوتی ہے سوچئے کہ ایک اجنبی عورت جس کو دیکھنے، سننے اور خلوت نشین ہونے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے۔ دوگواہوں کے سامنے حق مہر کے عوض ایجاب و قبول کے دو لفظ بولنے سے اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی کہ آپ اس سے بے تکلف ہمکلام ہونے لگے بلکہ اس کے ہمراہ خلوت نشین اور بے پردہ ہو گئے۔ آپ میاں بیوی بن گئے۔ ایک منٹ میں وہ حقوق و فرائض سامنے آ گئے ہیں جن کا تصور بھی ناممکن تھا۔ دراصل یہ چند الفاظ بذاتہ کچھ نہ تھے، ان کو اﷲ تعالیٰ و رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم نے قانونی حیثیت دیدی، یہی نکاح کہلاتا ہے۔ پس اسی طرح اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے منکوحہ بیوی سے قربت حلال فرما دی اسی طرح اس لونڈی سے بھی قربت بحیثیت لونڈی حلال فرما دی جو شادی شدہ نہ ہو یا ہو تو اس کا خاوند دارالحرب میں ہو اور وہ بی بی جنگی قیدی بن گئی۔ نہ فدیہ کی صورت بنی، نہ احسان کی صورت اور نہ تبادلہ کی۔ اس کو قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
(النساء، 4 : 24)
’’اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں‘‘
أی هن محرمات الا ما ملکت اليمين بالسبی من أرض الحرب فان تلک حلال للذی تقع فی سمهه وان کان له زوج. أی فهن لکم حلال اذا انقضت عدتهن.
’’یعنی خاوندوں والیاں تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں خواہ خاوندوں والی ہوں جو دارالحرب سے قید ہو کر تمہاری ملکیت میں آ گئیں کہ وہ جس کے حصہ میں آہیں اس کے لئے حلال ہیں۔ اگرچہ ان کے خاوند (دارالحرب میں ہوں)۔ یعنی وہ تمہارے لئے حلال ہیں جب ان کی عدت گزر جائے۔‘‘
یہی مذہب ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابو عبد اﷲ بن محمد بن احمد انصاری قرطبی کا۔
(الجامع الاحکام القرآ،ن ص، 5 : 80، طبیع بیروت)
اس میں سب کا اتفاق ہے کہ جب میاں بیوی میں سے ایک جنگی قیدی بن جائے اور اسے دارالاسلام میں لے آیا جائے تو میاں بیوی میں فرقت ہو جائے گی۔‘‘ اور اگر دونوں ایک قیدی کر کے لائے جائیں تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کا نکاح ختم اور مالک کو جازت ہے کہ اگر حاملہ ہے تو بچے کی پیدائش اور غیر حاملہ ہے تو حیض کے ذریعے استبراء رحم کرنے کے بعد اس سے قربت کر لے، اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں نکاح ختم نہیں ہوا۔ لہٰذا کسی دوسرے کے لئے یعنی مالک کے لئے اس سے قربت جائز نہیں۔
اما رازی، تفسیر کبیر، 10 : 41

شرعی باندیوں سے قربت :
إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo ففَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَo
المؤمنون، 23 : 6.7
’’سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔‘‘

یہ دو آیتیں اس باب میں قطعی دلیل ہیں کہ کسی شخص کے لئے جائز قربت کی صرف دو صورتیں ہیں۔ ایک نکاح اور دوسری شرعی باندی (ملکِ یمین)۔ جب اﷲ تعالیٰ نے خود ان قربت کی دو صورتوں کو جائز قرار دے کر باقی تمام دروازے حرام کر دیئے تو کون ہے جو اﷲ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قررا دے؟ حلال و حرام ہونے کا سبب اﷲ کا حکم ہے۔ جس نے نکاح اور ملکِ یمین‘‘ کو صحتِ قربت کا ذریعہ قرار دے کر باقی تمام صورتوں مثلاً بدکار، متعہ وغیرہ کو حرام و ممنوع قرار دے دیا۔

مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے ایک فتوے سے انتخاب۔
از فیصل ریاض شاہد
آپریشن ارتقائے فہم و دانش
 
Top