وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے کُچھ عرصے سےایک نیا فتنہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی کوئی تاریخی واقعہ اور خاص کر واقعہ کربلا زیرِ بحث آتا ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح سند بیان کریں، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں یہ ہوا، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں کون کون ملوّث تھا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ فتنہ انکارِ تاریخ ہے ۔۔۔۔ اس بیماری میں ملوّث ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاََ انکارِ تاریخ کر کے انکارِ حدیث کی طرف رغبت دلانا، ناصبی ہونا ، اپنے مرضی کے واقعات کو غلط یا پھر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر ہم علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کو ایک الگ علم کی حیثیت سے پذیرائی حاصل ہوئی اور حدیث کو ایک بالکل الگ علم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔نبی اکرمﷺ کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے حدیث کے علم میں سند کو بہت ذیادہ اہمیت ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے اور وہ دین کا حصہ نہ بنادی جائے ۔۔
جبکہ تاریخ کے حوالے سے ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔ اگرچہ صحیح سند کو اہمیت حاصل ہے مگر اسلامی تاریخ کے ابتدائی ماہرین نے صرف اور صرف ان واقعات کو جو دین و نبی اکرمﷺکے ساتھ وابستہ ہیں کی چھان بین و تحقیق کی مگر بہت سارے ایسے واقعات کو بھی قبول کیا جن کی اسناد موجود نہیں تھیں۔
صرف وہی واقعات جن کی بنیاد پر ایمان و عقیدہ و حلال و حرام یا پھر بنیادی مذہبی امور کا تعین کیا جاتا ہے کو پرکھنے کیلیے سند کو نہایت ضروری قرار دیا گیا ۔ سلف صالحین نے بھی تاریخی واقعات کو بے سند یا ضعیف السند ہونے کی بنیاد پر رد کیا ہو (یہ بیماری صرف آج کل کے دور میں ہی سامنے آئی ہے)۔۔۔۔مثال کے طور پر سلف میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صرف غلو پر مبنی روایات کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس بات کی سند کیا ہے یا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تاریخ ابن کثیر ہے۔۔ اس کتاب میں ابن کثیر نے واقعہ کربلا کے آغاز میں جلی حروف میں ہیڈنگ دی ہے کہ ۔۔۔۔۔"واقعہ کربلا کا بیان ایک شان کے آئمہ سے نہ کہ ایسا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں"۔ اور پھر انہوں نے وہی روایتیں بیان کی ہیں جن کو ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے روایت کیا ہے۔ سند کی اہمیت سر آنکھوں پر اور لوط بن یحییٰ نے جتنی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں وہ جھوٹی ہی ہیں مگر تاریخی واقعات کو یکسر سند کے حوالے سے ٹھکرا دینا کہیں بھی کسی بھی جگہ سلف سے ثابت نہیں ہے۔۔۔ میرا ان لوگوں سے جو اس منہج پر چل پڑے ہیں سوال ہے کہ کسی سلف کا منہج اس بارے میں واضح کریں۔
اس کے علاوہ میں مزید دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔
1۔ صحیح سند سے ثابت کریں کہ "اصحاب الفیل" یا ابرہہ نے مکہ میں کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر ان تمام مفسرین کو غلط کہیں جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور یہ متصل السند بھی نہیں ہے۔ پھر اس واقعے کو بھی (نعوذ باللہ) ایک افسانہ ہی مانا جائے اور غامدی صاحب کی پیروی کی جائے اور ان کو نقطہ نظر اس کے حوالے سے صحیح مانا جائے(حالانکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے غامدیت کا لفظ ہی بنا دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ اب میرا مشورہ یہ ہے کہ خود انہی لوگوں کے لیے ایک اور لفظ "منکرِ تاریخ" کے علاوہ "منی غامدی" بھی استعمال کرنا چاہئئے کیونکہ تاریخ کے انکار کے بعد بتدریج وہ حدیث کا مکمل انکار کرنا بھی شروع کر ہی دیں گے)۔
2۔ ایک اور واقعہ جو نہایت زور و شور سے اہلِ حدیث و سلفی منہج کی کتب میں بیان کیا جاتا ہے کہ مامون و معتصم کے دور میں معتزلہ کو مضبوط کرنے کے لیے علماء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سارے علماء پر کورے بھی برسائے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا یہ صحیح سند سے ثابت ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں یہ واقعہ بے سند ہی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر آسمان اور زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
براہ مہربانی صرف سنجیدہ حضرات ہی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔
میں نے ایک سوال کر دیا ہے اور ساتھ دو مثالیں بھی رکھ دی ہیں۔۔۔اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ تاریخ پر اصول علم تاریخ کے مطابق یقین کریں(جیسے حدیث کی پرکھ اصول حدیث پر کی جاتی ہے) ..یا پھر ان دونوں واقعات کو غامدی صاحب کی طرح رد کردیں۔۔۔میں نے صرف دو مثالیں چن کر دی ہیں۔۔اگر میں مزید حوالہ جات بھی پیش کروں تو بہت کچھ بالکل ہی غائب کرنا پڑ جائے گا اور تاریخ کی قابل اعتبار روایات کو بھی اصول حدیث پر پرکھ کر بہت ساروں کو غامدی بننا پڑے گا۔۔
میرا مواف واضح ہے۔۔۔حدیٹ کا چند خاص اصولوں پر پرکھا جاتا ہے۔ اں اصولوں کا احاطہ علم حدیث کرتا ہے ۔۔بالکل اسی طرح تاریخی روایات کو جن ا صو لوں کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے وہ علم تاریخ کور کرتا ہے ۔حدیث کو اصول تاریخ پر پرکھنا حماقت ہے ویسے ہی تاریخ کو اصول حدیث پر پرکھنا حماقت ہے۔۔۔فزکس کے تجربات کیمسٹری کے اصولوں پر نہیں کیے جا سکتے نہ کیمسٹری کے تجربات فزکس کے اصولوں پر۔۔۔۔
میں نے دو مثالیں دی ہیں ان کے جوابات لازمی دیں۔۔یہ دو تاریخی واقعات ہیں جو تاریخ کی ہر کتاب کا حصہ ہیں ۔۔ان کو تو ذرا صحیح سند سے ثابت کریں۔۔۔سینکڑوں تاریخی روایات ایسی ہیں ۔۔جن کس کو آپ رد کر دیں گے تو آپ غامدی صاحب کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے۔۔بے شمار واقعات ہیں۔۔
نبی پاک کی کس کس بیٹی کو ابو لہب کے بیٹوں نے طلاق دی صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حسین بن منصور حلاج نے انا الحق کا نعرہ لگایا صحیح سند سے ثابت کریں
ہلاکو نے بغداد مین قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں
اندلس میں عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں وغیرہ وغیرہ۔۔
محترم بھائی! سوال یہ ہے کہ اصول علم تاریخ کیا ہیں؟ کہاں موجود ہیں؟ کس قدر مقبول ہیں ائمہ میں؟
اتنی بات تو سمجھ آتی ہے کہ علم حدیث کے اصولوں سے علم تاریخ کو پرکھنا نہیں چاہیے کیوں کہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص حدیث میں تو ضعیف ہو لیکن تاریخ میں قوی ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے حفص اور عاصم قراءۃ کے امام ہیں لیکن حدیث میں ان پر جرح ہے۔ لکل فن رجال۔
لیکن تاریخ کے رد و قبول کے لیے اصول ہیں کہاں؟
یہ بھی جواب دیا گیا ہے - کچھ لوگوں کی جانب سے :
اصل میں تاریخ میں شرائط قول نبوی کی چھان پھٹک جیسا کر دیا جائے تو شاید تاریخ طبری ١٠ جلدوں کی بجائے صرف ایک جلد رہ جائے
اس کا لوگوں کو پتا ہے لہذا تاریخ میں اس قدر چھان بین نہیں ہے
واقدی یا ابن اسحٰق پر شدید جرح موجود ہیں جو صحیح بھی ہیں لیکن تاریخ میں ان کا قول لیا جاتا ہے کیونکہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے
ابن سیرین کہتے ہیں اسناد دین ہیں اس کا مطلب ہے تاریخ دین ہے کیونکہ علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے راوی کی عمروں پر تہذیب التہذیب میں ٢٠٠ سے اوپر قول واقدی کے ہی ہیں
لہذا یہ کہنا احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ بے سروپا بات ہے
پھر یہ کہنا تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ بھی غلط قول ہے
انبیاء کی خبریں قرآن میں ہیں اور قرآن خود کہتا ہے اہل کتاب سے پوچھ لو یعنی اس میں اہل کتاب کی تاریخ سے مدد لی جا سکتی ہے
آج انبیاء میں کون کس سے بعد آیا اہل کتاب کی کتب تاریخ سے ہی لیا گیا ہے قرآن میں حدیث میں بعض پر کوئی خبر نہیں مثلا الیاس کب کس زمانے کے ہیں قرآن و حدیث میں کوئی خبر نہیں یہ اہل کتاب سے پوچھا گیا ہے
اسی طرح شیش کون ہیں ادم کے بیٹے تو ان کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اسی طرح بہت سے انبیاء اور بھی ہیں جن کی عمریں اور ادوار اہل کتاب کی تاریخ کی کتب سے لئے گئے ہیں جس میں اس کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے
راقم کے نزدیک تاریخ اور حدیث کوئی الگ الگ صنف نہیں ہیں ایک ہی ہیں فرق صرف مواد کا ہے ایک میں تفصیل زیادہ اور سند کمزور ہے جو ام تاریخ ہے اور دوسری حدیث ہے جس میں احتیاط زیادہ ہے
اصل میں تاریخ میں شرائط قول نبوی کی چھان پھٹک جیسا کر دیا جائے تو شاید تاریخ طبری ١٠ جلدوں کی بجائے صرف ایک جلد رہ جائے
اس کا لوگوں کو پتا ہے لہذا تاریخ میں اس قدر چھان بین نہیں ہے
واقدی یا ابن اسحٰق پر شدید جرح موجود ہیں جو صحیح بھی ہیں لیکن تاریخ میں ان کا قول لیا جاتا ہے کیونکہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے
ابن سیرین کہتے ہیں اسناد دین ہیں اس کا مطلب ہے تاریخ دین ہے کیونکہ علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے راوی کی عمروں پر تہذیب التہذیب میں ٢٠٠ سے اوپر قول واقدی کے ہی ہیں
لہذا یہ کہنا احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ بے سروپا بات ہے
پھر یہ کہنا تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ بھی غلط قول ہے
انبیاء کی خبریں قرآن میں ہیں اور قرآن خود کہتا ہے اہل کتاب سے پوچھ لو یعنی اس میں اہل کتاب کی تاریخ سے مدد لی جا سکتی ہے
آج انبیاء میں کون کس سے بعد آیا اہل کتاب کی کتب تاریخ سے ہی لیا گیا ہے قرآن میں حدیث میں بعض پر کوئی خبر نہیں مثلا الیاس کب کس زمانے کے ہیں قرآن و حدیث میں کوئی خبر نہیں یہ اہل کتاب سے پوچھا گیا ہے
اسی طرح شیش کون ہیں ادم کے بیٹے تو ان کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اسی طرح بہت سے انبیاء اور بھی ہیں جن کی عمریں اور ادوار اہل کتاب کی تاریخ کی کتب سے لئے گئے ہیں جس میں اس کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے
راقم کے نزدیک تاریخ اور حدیث کوئی الگ الگ صنف نہیں ہیں ایک ہی ہیں فرق صرف مواد کا ہے ایک میں تفصیل زیادہ اور سند کمزور ہے جو ام تاریخ ہے اور دوسری حدیث ہے جس میں احتیاط زیادہ ہے
اس تمام کی ایک زندہ مثال دکتور بشار عواد المعروف ہیں جو کلین شیو تاریخ کے استاد ہیں اور عصر حاضر میں علم جرح و تعدیل کی ضخیم کتاب تہذیب الکمال از المزی پر ان کا حاشیہ ہے یہ کوئی مولوی نہیں ہیں یہ تاریخ کے عالم ہیں اور علم جرح و تعدیل علم تاریخ کا حصہ ہے جس پر حدیث و تاریخ دونوں کی صحت کا دار و مدار ہے
اسلامی تاریخ اور احادیث کی اسناد میں کوئی فرق نہیں ہے
تاریخ طبری ہو ابن اسحاق ہو ابن ہشام ہو یا واقدی کی کتب ہوں یا امام بخاری و مسلم کی کتب ہوں سب سند سے ہیں
یہ اس دور کا ایک رواج تھا
تمام تاریخ خرافات نہیں ہے علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے علم حدیث کا حصہ نہیں ہے
تاریخ خلیفہ، المعارف ابن قتیبہ، تاریخ ابن یونس یہ سب تاریخ کی کتب ہیں لیکن علم حدیث میں جرح و تعدیل انہی کتب سے لی گئی ہے
تاریخ نویسی ہو یا حدیث قلم بندی دونوں پر کوئی قدغن نہیں ہوئی مورخین نے اپنی طرف سے اسلامی تاریخ میں کیا بات کی ہے ؟ وہ تو روایت پیش کر دیتے ہیں اس کی سند چیک کرنا پڑھنے والے کا کام ہے اور یہی ہماری صحاح ستہ میں سنن کا حال ہے جو ضعیف و صحیح احادیث کا ملغوبہ ہیں ان کی سند چیک کرنا قاری پر چھوڑ دیا گیا
لنک