• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرینَ تاریخ۔ ایک فتنہ

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے کُچھ عرصے سےایک نیا فتنہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی کوئی تاریخی واقعہ اور خاص کر واقعہ کربلا زیرِ بحث آتا ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح سند بیان کریں، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں یہ ہوا، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں کون کون ملوّث تھا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ فتنہ انکارِ تاریخ ہے ۔۔۔۔ اس بیماری میں ملوّث ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاََ انکارِ تاریخ کر کے انکارِ حدیث کی طرف رغبت دلانا، ناصبی ہونا ، اپنے مرضی کے واقعات کو غلط یا پھر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر ہم علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کو ایک الگ علم کی حیثیت سے پذیرائی حاصل ہوئی اور حدیث کو ایک بالکل الگ علم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔نبی اکرمﷺ کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے حدیث کے علم میں سند کو بہت ذیادہ اہمیت ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے اور وہ دین کا حصہ نہ بنادی جائے ۔۔
جبکہ تاریخ کے حوالے سے ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔ اگرچہ صحیح سند کو اہمیت حاصل ہے مگر اسلامی تاریخ کے ابتدائی ماہرین نے صرف اور صرف ان واقعات کو جو دین و نبی اکرمﷺکے ساتھ وابستہ ہیں کی چھان بین و تحقیق کی مگر بہت سارے ایسے واقعات کو بھی قبول کیا جن کی اسناد موجود نہیں تھیں۔
صرف وہی واقعات جن کی بنیاد پر ایمان و عقیدہ و حلال و حرام یا پھر بنیادی مذہبی امور کا تعین کیا جاتا ہے کو پرکھنے کیلیے سند کو نہایت ضروری قرار دیا گیا ۔ سلف صالحین نے بھی تاریخی واقعات کو بے سند یا ضعیف السند ہونے کی بنیاد پر رد کیا ہو (یہ بیماری صرف آج کل کے دور میں ہی سامنے آئی ہے)۔۔۔۔مثال کے طور پر سلف میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صرف غلو پر مبنی روایات کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس بات کی سند کیا ہے یا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تاریخ ابن کثیر ہے۔۔ اس کتاب میں ابن کثیر نے واقعہ کربلا کے آغاز میں جلی حروف میں ہیڈنگ دی ہے کہ ۔۔۔۔۔"واقعہ کربلا کا بیان ایک شان کے آئمہ سے نہ کہ ایسا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں"۔ اور پھر انہوں نے وہی روایتیں بیان کی ہیں جن کو ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے روایت کیا ہے۔ سند کی اہمیت سر آنکھوں پر اور لوط بن یحییٰ نے جتنی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں وہ جھوٹی ہی ہیں مگر تاریخی واقعات کو یکسر سند کے حوالے سے ٹھکرا دینا کہیں بھی کسی بھی جگہ سلف سے ثابت نہیں ہے۔۔۔ میرا ان لوگوں سے جو اس منہج پر چل پڑے ہیں سوال ہے کہ کسی سلف کا منہج اس بارے میں واضح کریں۔
اس کے علاوہ میں مزید دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔
1۔ صحیح سند سے ثابت کریں کہ "اصحاب الفیل" یا ابرہہ نے مکہ میں کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر ان تمام مفسرین کو غلط کہیں جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور یہ متصل السند بھی نہیں ہے۔ پھر اس واقعے کو بھی (نعوذ باللہ) ایک افسانہ ہی مانا جائے اور غامدی صاحب کی پیروی کی جائے اور ان کو نقطہ نظر اس کے حوالے سے صحیح مانا جائے(حالانکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے غامدیت کا لفظ ہی بنا دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ اب میرا مشورہ یہ ہے کہ خود انہی لوگوں کے لیے ایک اور لفظ "منکرِ تاریخ" کے علاوہ "منی غامدی" بھی استعمال کرنا چاہئئے کیونکہ تاریخ کے انکار کے بعد بتدریج وہ حدیث کا مکمل انکار کرنا بھی شروع کر ہی دیں گے)۔
2۔ ایک اور واقعہ جو نہایت زور و شور سے اہلِ حدیث و سلفی منہج کی کتب میں بیان کیا جاتا ہے کہ مامون و معتصم کے دور میں معتزلہ کو مضبوط کرنے کے لیے علماء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سارے علماء پر کورے بھی برسائے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا یہ صحیح سند سے ثابت ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں یہ واقعہ بے سند ہی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر آسمان اور زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
براہ مہربانی صرف سنجیدہ حضرات ہی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔

میں نے ایک سوال کر دیا ہے اور ساتھ دو مثالیں بھی رکھ دی ہیں۔۔۔اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ تاریخ پر اصول علم تاریخ کے مطابق یقین کریں(جیسے حدیث کی پرکھ اصول حدیث پر کی جاتی ہے) ..یا پھر ان دونوں واقعات کو غامدی صاحب کی طرح رد کردیں۔۔۔میں نے صرف دو مثالیں چن کر دی ہیں۔۔اگر میں مزید حوالہ جات بھی پیش کروں تو بہت کچھ بالکل ہی غائب کرنا پڑ جائے گا اور تاریخ کی قابل اعتبار روایات کو بھی اصول حدیث پر پرکھ کر بہت ساروں کو غامدی بننا پڑے گا۔۔
میرا مواف واضح ہے۔۔۔حدیٹ کا چند خاص اصولوں پر پرکھا جاتا ہے۔ اں اصولوں کا احاطہ علم حدیث کرتا ہے ۔۔بالکل اسی طرح تاریخی روایات کو جن ا صو لوں کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے وہ علم تاریخ کور کرتا ہے ۔حدیث کو اصول تاریخ پر پرکھنا حماقت ہے ویسے ہی تاریخ کو اصول حدیث پر پرکھنا حماقت ہے۔۔۔فزکس کے تجربات کیمسٹری کے اصولوں پر نہیں کیے جا سکتے نہ کیمسٹری کے تجربات فزکس کے اصولوں پر۔۔۔۔
میں نے دو مثالیں دی ہیں ان کے جوابات لازمی دیں۔۔یہ دو تاریخی واقعات ہیں جو تاریخ کی ہر کتاب کا حصہ ہیں ۔۔ان کو تو ذرا صحیح سند سے ثابت کریں۔۔۔سینکڑوں تاریخی روایات ایسی ہیں ۔۔جن کس کو آپ رد کر دیں گے تو آپ غامدی صاحب کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے۔۔بے شمار واقعات ہیں۔۔
نبی پاک کی کس کس بیٹی کو ابو لہب کے بیٹوں نے طلاق دی صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حسین بن منصور حلاج نے انا الحق کا نعرہ لگایا صحیح سند سے ثابت کریں
ہلاکو نے بغداد مین قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں
اندلس میں عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں وغیرہ وغیرہ۔۔
محترم بھائی! سوال یہ ہے کہ اصول علم تاریخ کیا ہیں؟ کہاں موجود ہیں؟ کس قدر مقبول ہیں ائمہ میں؟
اتنی بات تو سمجھ آتی ہے کہ علم حدیث کے اصولوں سے علم تاریخ کو پرکھنا نہیں چاہیے کیوں کہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص حدیث میں تو ضعیف ہو لیکن تاریخ میں قوی ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے حفص اور عاصم قراءۃ کے امام ہیں لیکن حدیث میں ان پر جرح ہے۔ لکل فن رجال۔
لیکن تاریخ کے رد و قبول کے لیے اصول ہیں کہاں؟
یہ بھی جواب دیا گیا ہے - کچھ لوگوں کی جانب سے :

اصل میں تاریخ میں شرائط قول نبوی کی چھان پھٹک جیسا کر دیا جائے تو شاید تاریخ طبری ١٠ جلدوں کی بجائے صرف ایک جلد رہ جائے
اس کا لوگوں کو پتا ہے لہذا تاریخ میں اس قدر چھان بین نہیں ہے
واقدی یا ابن اسحٰق پر شدید جرح موجود ہیں جو صحیح بھی ہیں لیکن تاریخ میں ان کا قول لیا جاتا ہے کیونکہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے
ابن سیرین کہتے ہیں اسناد دین ہیں اس کا مطلب ہے تاریخ دین ہے کیونکہ علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے راوی کی عمروں پر تہذیب التہذیب میں ٢٠٠ سے اوپر قول واقدی کے ہی ہیں
لہذا یہ کہنا احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ بے سروپا بات ہے
پھر یہ کہنا تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ بھی غلط قول ہے
انبیاء کی خبریں قرآن میں ہیں اور قرآن خود کہتا ہے اہل کتاب سے پوچھ لو یعنی اس میں اہل کتاب کی تاریخ سے مدد لی جا سکتی ہے
آج انبیاء میں کون کس سے بعد آیا اہل کتاب کی کتب تاریخ سے ہی لیا گیا ہے قرآن میں حدیث میں بعض پر کوئی خبر نہیں مثلا الیاس کب کس زمانے کے ہیں قرآن و حدیث میں کوئی خبر نہیں یہ اہل کتاب سے پوچھا گیا ہے
اسی طرح شیش کون ہیں ادم کے بیٹے تو ان کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اسی طرح بہت سے انبیاء اور بھی ہیں جن کی عمریں اور ادوار اہل کتاب کی تاریخ کی کتب سے لئے گئے ہیں جس میں اس کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے
راقم کے نزدیک تاریخ اور حدیث کوئی الگ الگ صنف نہیں ہیں ایک ہی ہیں فرق صرف مواد کا ہے ایک میں تفصیل زیادہ اور سند کمزور ہے جو ام تاریخ ہے اور دوسری حدیث ہے جس میں احتیاط زیادہ ہے

اس تمام کی ایک زندہ مثال دکتور بشار عواد المعروف ہیں جو کلین شیو تاریخ کے استاد ہیں اور عصر حاضر میں علم جرح و تعدیل کی ضخیم کتاب تہذیب الکمال از المزی پر ان کا حاشیہ ہے یہ کوئی مولوی نہیں ہیں یہ تاریخ کے عالم ہیں اور علم جرح و تعدیل علم تاریخ کا حصہ ہے جس پر حدیث و تاریخ دونوں کی صحت کا دار و مدار ہے

اسلامی تاریخ اور احادیث کی اسناد میں کوئی فرق نہیں ہے

تاریخ طبری ہو ابن اسحاق ہو ابن ہشام ہو یا واقدی کی کتب ہوں یا امام بخاری و مسلم کی کتب ہوں سب سند سے ہیں
یہ اس دور کا ایک رواج تھا
تمام تاریخ خرافات نہیں ہے علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے علم حدیث کا حصہ نہیں ہے
تاریخ خلیفہ، المعارف ابن قتیبہ، تاریخ ابن یونس یہ سب تاریخ کی کتب ہیں لیکن علم حدیث میں جرح و تعدیل انہی کتب سے لی گئی ہے
تاریخ نویسی ہو یا حدیث قلم بندی دونوں پر کوئی قدغن نہیں ہوئی مورخین نے اپنی طرف سے اسلامی تاریخ میں کیا بات کی ہے ؟ وہ تو روایت پیش کر دیتے ہیں اس کی سند چیک کرنا پڑھنے والے کا کام ہے اور یہی ہماری صحاح ستہ میں سنن کا حال ہے جو ضعیف و صحیح احادیث کا ملغوبہ ہیں ان کی سند چیک کرنا قاری پر چھوڑ دیا گیا

لنک
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم
@وجاہت بھائی یہ بتائیں گے کہ اسلامی تاریخ سے ہٹ کر اگر دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کر نا ہو تو اس کی توثیق کیسے ہوگی کیونکہ جنرل ہسٹری میں تو ایسے قوانین نہیں ملتے ہیں۔
وہاں تو مورخ کی لکھی ہوئی بات تسلیم کی جاتی ہے ۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
یہ بھی جواب دیا گیا ہے - کچھ لوگوں کی جانب سے :

اصل میں تاریخ میں شرائط قول نبوی کی چھان پھٹک جیسا کر دیا جائے تو شاید تاریخ طبری ١٠ جلدوں کی بجائے صرف ایک جلد رہ جائے
اس کا لوگوں کو پتا ہے لہذا تاریخ میں اس قدر چھان بین نہیں ہے
واقدی یا ابن اسحٰق پر شدید جرح موجود ہیں جو صحیح بھی ہیں لیکن تاریخ میں ان کا قول لیا جاتا ہے کیونکہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے
ابن سیرین کہتے ہیں اسناد دین ہیں اس کا مطلب ہے تاریخ دین ہے کیونکہ علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے راوی کی عمروں پر تہذیب التہذیب میں ٢٠٠ سے اوپر قول واقدی کے ہی ہیں
لہذا یہ کہنا احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ بے سروپا بات ہے
پھر یہ کہنا تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ بھی غلط قول ہے
انبیاء کی خبریں قرآن میں ہیں اور قرآن خود کہتا ہے اہل کتاب سے پوچھ لو یعنی اس میں اہل کتاب کی تاریخ سے مدد لی جا سکتی ہے
آج انبیاء میں کون کس سے بعد آیا اہل کتاب کی کتب تاریخ سے ہی لیا گیا ہے قرآن میں حدیث میں بعض پر کوئی خبر نہیں مثلا الیاس کب کس زمانے کے ہیں قرآن و حدیث میں کوئی خبر نہیں یہ اہل کتاب سے پوچھا گیا ہے
اسی طرح شیش کون ہیں ادم کے بیٹے تو ان کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اسی طرح بہت سے انبیاء اور بھی ہیں جن کی عمریں اور ادوار اہل کتاب کی تاریخ کی کتب سے لئے گئے ہیں جس میں اس کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے
راقم کے نزدیک تاریخ اور حدیث کوئی الگ الگ صنف نہیں ہیں ایک ہی ہیں فرق صرف مواد کا ہے ایک میں تفصیل زیادہ اور سند کمزور ہے جو ام تاریخ ہے اور دوسری حدیث ہے جس میں احتیاط زیادہ ہے

اس تمام کی ایک زندہ مثال دکتور بشار عواد المعروف ہیں جو کلین شیو تاریخ کے استاد ہیں اور عصر حاضر میں علم جرح و تعدیل کی ضخیم کتاب تہذیب الکمال از المزی پر ان کا حاشیہ ہے یہ کوئی مولوی نہیں ہیں یہ تاریخ کے عالم ہیں اور علم جرح و تعدیل علم تاریخ کا حصہ ہے جس پر حدیث و تاریخ دونوں کی صحت کا دار و مدار ہے

اسلامی تاریخ اور احادیث کی اسناد میں کوئی فرق نہیں ہے

تاریخ طبری ہو ابن اسحاق ہو ابن ہشام ہو یا واقدی کی کتب ہوں یا امام بخاری و مسلم کی کتب ہوں سب سند سے ہیں
یہ اس دور کا ایک رواج تھا
تمام تاریخ خرافات نہیں ہے علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے علم حدیث کا حصہ نہیں ہے
تاریخ خلیفہ، المعارف ابن قتیبہ، تاریخ ابن یونس یہ سب تاریخ کی کتب ہیں لیکن علم حدیث میں جرح و تعدیل انہی کتب سے لی گئی ہے
تاریخ نویسی ہو یا حدیث قلم بندی دونوں پر کوئی قدغن نہیں ہوئی مورخین نے اپنی طرف سے اسلامی تاریخ میں کیا بات کی ہے ؟ وہ تو روایت پیش کر دیتے ہیں اس کی سند چیک کرنا پڑھنے والے کا کام ہے اور یہی ہماری صحاح ستہ میں سنن کا حال ہے جو ضعیف و صحیح احادیث کا ملغوبہ ہیں ان کی سند چیک کرنا قاری پر چھوڑ دیا گیا

لنک
میں آپ کے اس بہترین جواب کے لیے مشکور ہوں۔۔آپ کی یہ بات کہ تاریخ و حدیث میں صرف چھان پھٹک کا فرق ہے بالکل صحیح ہے۔۔۔ا
فرق صرف یہ ہے کہ حدیث چوںکہ ہمارے پیارے نبی سے وابستہ ہے اس لیے اس کی جمع میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور یہ بنیادی فرق ہے امت محمدی اور پچھلی امتوں کے درمیان۔۔۔۔
اللہ قران مجید میں بار بار گزری ہوئی قوموں کا ذکر کرتا ہے جن جے بارے میں تاریخ میں موجود ہے۔۔ہم صرف یہ کہہ کر کہ یہ بے سند باتیں ہیں ان کو رد نہیں کر سکتے ۔۔۔عہد. نامہ جدید و قدیم میں متعدد سچے تاریخی واقعات ہیں اور ہمارے لیے پہلے سے نازل کردہ کتابیں ںھی محترم ہیں تو ان سے ہم تاریخ ضرور اخذ کر سکتے ہیں۔۔۔
واقدی کو آج کل جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے قابل افسوس ہے۔۔۔واقدی کو مغاذی کا امام مانا جاتا ہے اور وہ اسلام کے اولین مورخوں میں سے ہہں۔۔۔ابن اسحاق و موسی بن عقبہ ان لوگوں میں شامل ہہں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو محفوظ کیا۔۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم
@وجاہت بھائی یہ بتائیں گے کہ اسلامی تاریخ سے ہٹ کر اگر دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کر نا ہو تو اس کی توثیق کیسے ہوگی کیونکہ جنرل ہسٹری میں تو ایسے قوانین نہیں ملتے ہیں۔
وہاں تو مورخ کی لکھی ہوئی بات تسلیم کی جاتی ہے ۔
تاریخ ایک علحدہ علم ہے جس کے اصول موجود ہیں۔۔مقدمہ ابن خلدون پڑھ لیں۔۔مغرب بھی مانتا ہے کہ مقدمہ سے بہترین کوئی کتاب نہہں جس سے تاریخ لکھنے کے اصول اخذ کیے جا سکیں۔۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
میں آپ کے اس بہترین جواب کے لیے مشکور ہوں۔۔آپ کی یہ بات کہ تاریخ و حدیث میں صرف چھان پھٹک کا فرق ہے بالکل صحیح ہے۔۔۔ا
فرق صرف یہ ہے کہ حدیث چوںکہ ہمارے پیارے نبی سے وابستہ ہے اس لیے اس کی جمع میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور یہ بنیادی فرق ہے امت محمدی اور پچھلی امتوں کے درمیان۔۔۔۔
اللہ قران مجید میں بار بار گزری ہوئی قوموں کا ذکر کرتا ہے جن جے بارے میں تاریخ میں موجود ہے۔۔ہم صرف یہ کہہ کر کہ یہ بے سند باتیں ہیں ان کو رد نہیں کر سکتے ۔۔۔عہد. نامہ جدید و قدیم میں متعدد سچے تاریخی واقعات ہیں اور ہمارے لیے پہلے سے نازل کردہ کتابیں ںھی محترم ہیں تو ان سے ہم تاریخ ضرور اخذ کر سکتے ہیں۔۔۔
واقدی کو آج کل جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے قابل افسوس ہے۔۔۔واقدی کو مغاذی کا امام مانا جاتا ہے اور وہ اسلام کے اولین مورخوں میں سے ہہں۔۔۔ابن اسحاق و موسی بن عقبہ ان لوگوں میں شامل ہہں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو محفوظ کیا۔۔
السلام علیکم! عزیز دوستو میں نے اپنے سوال بھیجے تھے۔۔اگر تاریخی واقعات کو بھی صرف سند کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا ہے تو پھر ان واقعات کی صحیح سند بیان کریں ورنہ غامدی صاحب کی طرح ان کو بے حقیقت مانیں۔۔۔ایک ابابیلوں کا واقعہ اور دوسرے مامون الرشید کا معتزلہ پر ظلم و ستم۔۔۔اب اسی دلیل پر بات کریں کیونکہ جو زندہ ہوا وہ دلیل سے ہوا اور جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہوا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہر ہر بات کی نہیں ، لیکن جہاں تحقیق کی ضرورت ہے ، وہاں ضرور ہوگی ، مثلا کوئی متنازعہ واقعہ ، کسی کی شخصیت پر الزام وغیرہ ۔
بے سروپا باتیں کوئی اپنے متعلق قبول نہیں کرتا ، تو اسلامی شخصیات کے متعلق کیوں یہ رویہ ؟
اس حوالے سے درج ذیل تھریڈ میں کافی مواد موجود ہے :
علم جرح و تعدیل کی ضرورت احادیث سے زیادہ تاریخ کو ہے ؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ َادِمِينَ (سورة الحجرات 06)
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ (ترجمہ محمد جاناگڑھی)
جس خبر سے انسان کے فعل کا تعلق پیدا ہو، یعنی کہ کہ اس خبر کی بنیاد پر انسان کی فکر، یا کسی کے متعلق کوئی نظریہ یا اس خبر کی بنیاد پر کوئی عمل متنج ہو ، وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم موجود ہے!

اب تاریخ کی تحقیق کا طریقہ کار کیا ہوگا، کس معاملہ میں کس قدر تحقیق و دلائل سے اس کا اثبات شمار ہو گا، یہ تفصیلی بحث ہے۔
ایک نکتہ پڑھ کر میں تو حیران و پریشان رہ گیا کہ فرمایا گیا:
تمام تاریخ خرافات نہیں ہے علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے علم حدیث کا حصہ نہیں ہے
میں نے یہ پڑھ کر پتھر کو تو نہیں، ہاں تکیہ پر علامتی ٹکر ضرور ماری ہے!
حالانکہ علم الحدیث علم التاریخ کا ایک ایک خاص حصہ ہے! فتدبر!
اب تاریخ میں بلاسند یا مردود سند سے بھی احتجاج کرنے کو روا رکھا ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کا عمل اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات بھی تاریخی واقعات ہیں!
اور اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حیات و واقعات بھی تاریخی ہی ہیں!
پھر تو ایسا کیجئے کہ سند کے بوجھ سے چھٹکارا ہی حاصل کر لیجئے!
اور کہیئے کہ :
جا تجھے کشمکش سند سے آزاد کیا
کیونکہ :
سند ایک بھاری پتھر ہے بابو!
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

ایک بات پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی :
واقدی کو آج کل جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے قابل افسوس ہے
حالانکہ واقدی کو آج کل نہیں متقدمیں نے اس کی نشاندہی خوب اچھی طرح کی ہے، اور اس پر سخت جرح کرتے ہوئے اسے ناقابل احتجاج قرار دیا!
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم! جناب میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں۔ ٹھیک ہے تاریخ کو بھی پرکھنا چاہئیے ۔۔ مگر جو دو واقعات میں نے بیان کیے ہیں ان کو صحیح سند سے ثابت کریں۔۔۔ صرف اور صرف اتنا کر دیں۔۔۔ بلکہ میں یہ بھی کہوں گا کہ پھر ان واقعات کا انکار کرنے والوں کو غامدیت کی صف میں لا کر کھڑا مت کریں۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم! واقدی کو حدیث کے حوالے سے نشانہ بنایا گیا ہے ورنہ اس کے علاوہ انہیں امام المغازی کہا گیا ہے۔ بعض ناصبی حضرات آج کل واقدی کو رافضی، شیعہ اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے ہیں مگر جرح و تعدیل کی کتابوں میں واقدی کے لیے یہ لفظ ایک بار بھی نہیں بولا گیا اور سب سے پہلا شخص جس نے واقدی کو شیعہ کہا وہ ابن نُدیم ہے اوروہ خود واقدی سے کوئی 2 ڈھائی سو سال بعد کا ہے۔۔۔ متقدمین نے اگر واقدی کی تاریخ کے حوالے سے کسی کمزوری کی نشاندہی کی ہے تو وہ بھی بتادیں۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم! حضرات سند کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ سند کے بغیر تحقیق کیسے ممکن ہے۔ البتہ سند کا خاص التزام حدیث اور جیسا کہ اوپر کچھ دوستوں نے بیان کیا کہ متنازعہ واقعات کے حوالے سے ہے۔ چلیں اس بحث کو ختم کردیتے ہیں ۔۔۔۔ابرہہ کے واقعہ کو صحیح سند سے ثابت کریں۔۔۔جیسا کہ مختلف تفاسیر میں ہے کہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا اور کعبہ کو ڈھانے کی کوشش کی۔۔میں آپ سے اس کی سند مانگتا ہوں کہ صحیح سند سے اس واقعے کو ثابت کریں۔ اگر صحیح سند سے ثابت نہیں تو پھر آپ بھی اس واقعے کو نہ مانیں۔
 
Top