- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
جی پیارے بھائی آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ جس تاریخی مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے اور کسی بھی ایک نامور سلفی عالم نے اسکو نہیں جھٹلایا تو اسکو من ع عن قبول کیا جا سکتا ہے صرف تاریخی حد تکابرہہ کے واقعے کا تعلق اللہ تعالی سے ہے
میں تو اس پر بالکل یقین رکھتا ہوں اس لیے کہ آج تک کسی ایک بھی نامور سلف اور عالم نے اس کو جھٹلایا نہیں ہے اور من و عن قبول کیا ہے۔ اب کچھ لوگ تاریخ کے حوالے سے بھی اسناد کا تذکرہ کرنے لگے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ان کو سمجھایا جائے کہ تاریخ و حدیث کی جانچ پرکھ میں بہت فرق ہے۔
اور میرے علم میں کوئی ایک بھی اہل حدیث عالم نہیں جو ایسے کسی تاریخی واقعے کو کہ جس پہ تمام سلف کے علماء متفق ہوں وہ اسکے تاریخی اعتبار سے جھٹلائے آپکے علم میں کوئی ایسا عالم ہو تو محترم بھائی جان اسکا نام ہمیں بھی بتائیں تاکہ ہم آپ کے تھریڈ کی وجہ جان سکیں اللہ آپکو جزائے خیر دے امین
پیارے بھائی جان کسی واقعہ کا جتنا حصہ قرآن میں بیان ہو گیا اسکے برابر سند تو کسی حدیث کی نہیں ہو سکتی اسکو کوئی یہ کیسے کہ سکتا ہے کہ وہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے البتہ جتنا واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے اسکے علاوہ جتنا صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے اسکی بھی سند صحیح ہو گی اسکے علاوہ اگر کوئی بات بیان ہوئی ہے تو وہ واقعی ایک تاریخ ہے اور اس کا کوئی تاریخی لحاظ سے انکار کرتا ہے تو وہ جاہل ہی ہو گاقرآن مجید میں کتنے ہی تاریخی واقعات ہیں جو کسی صحیح سند کے حوالے سے موجود نہیں ہیں۔ مگر ہم ان کو من و عن قبول کرتے ہیں، اور کسی سلف نے بھی ان سب واقعات کا انکار نہیں کیا۔
ہاں یہ یاد رکھیں کہ اس واقعہ کا جتنا حصہ قرآن و حدیث کے علاوہ صرف تاریخ میں بیان ہوا ہے اسکی دو صورتیں ہیں
۱۔واقعے کے اس تاریخی حصہ کا کسی نامور سلف کے عالم نے انکار نہ کیا ہو جیسا کہ اوپر آپ نے بتایا ہے تو اس کو من و عن تاریخی لحاظ سے قبول کرنا سب علماء لازمی ہی سمجھتے ہیں
۲۔واقعے کے اس تاریخی حصے کے بارے سلف کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے تو پھر اسکو خالی تاریخی لحاظ سے بھی سب کے لئے من و عن قبول کرنا لازمی نہیں ہوتا واللہ اعلم
پیارے بھائی جان آپ نے جو تاریخ کے انکار کو فتنہ سے تعبیر کیا ہے تو اس سلسلے میں ایک بہت ہی اہم اصول یاد رکھ لیںتاویل میں یا سمجھانے میں اختلاف ضرور ہے ، مگر واقعے کی اصل کا انکار آج تک نہیں ہوا۔ اس لیے یہی واقعات ان لوگوں کے لیے سبق ہیں کہ جو تاریخ کا انکار کرتے ہیں۔
اگر کوئی مسلمان تاریخی واقعہ سے دینی سبق ثابت کرنا چاہتا ہے اور دوسرا اس وجہ سے اس تاریخ کا انکار کر دیتا ہے تو پھر یہ تاریخ کا انکار فتنہ نہیں بلکہ قرآن کے بنیادی حکم (ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین ما لم یاذن باللہ) کی ہی اطاعت ہے
اسکے بارے میں آپکو امام شافعی کی ایک بات بتاتا ہوں وہ اہل بیت سے سچی اور حقیقی محبت کرتے تھے اور رافضی بھی اسکا دعوی کرتے ہیں تو کچھ لوگوں نے آپ رحمہ اللہ پہ رافضی ہونے کا الزام لگایا تو انہوں نے کہا کہ
ان کان رفضا حب ال محمد فلیشھد الثقلان انی رافضی
کہ اگر اھل بیت سے محبت کرنا ہی تمھارے نزدیک رافضی ہونا ہے تو پھر تمام نج و انس جان لے کہ میں بھی رافضی ہوں
یعنی اگر تاریخی واقعات پہ شریعت کی بنیاد رکھنے سے روکنا ہی فتنہ انکار تاریخ ہے تو پھر تو سارے ہی علماء اہل حدیث و دیوبند اس فتنہ کے ارتکاب کا اعلان کریں گے واللہ اعلم
پیارے بھائی جان علماء نے جو زیادہ اختلاف کیا ہے وہ احادیث کی سند میں نہیں کیا بلکہ اسکی تعبیر میں اختلاف کیا ہے اور اسکی تفصیل ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے رفع الملام میں واضح کر دی ہے اس پہ علیحدہ سے تھریڈ بنا ہے جہاں بات ہو سکتی ہےغامدی صاحب بھی اس واقعے کو نہیں مانتے اور اس کی مخؒتلف تاویلیں دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غامدی صاحب کئی احادیث کے انکار کی وجہ بھی علماء کا اختلاف بتاتے ہیں۔ ہم غامدی صاحب کو تو منکر حدیث کہہ دیتے ہیں مگر ان علماء کو نظر انداز کرجاتے ہیں جنہوں خود ان احادیث میں اختلاف کیا ہے۔
غامدی صاحب کا انکار حدیث اور محمود الحسن صاحب کا انکار حدیث آپ ایک نہ کریں پیارے بھائی جان
جی بھائی جان آپ کی بات سو فیصد درست ہے لیکن یہ آدھی بات ہے پوری نہیں ہے یعنی جس طرح حدیث کے اصول تاریخ پہ لاگو کرنا زیادتی ہے اسی طرح تاریخ کو حدیث کے برابر مقام دینا یعنی اسکی بنیاد پہ لوگوں کے دین کا فیصلہ کرنا اس سے بھی بڑی زیادتی ہےحدیث کی پرکھ کے اپنے اصول ہیں جن میں سے کچھ تاریخ پر بھی لاگو ہوتے ہیں مگر حدیث کے تمام اصولوں کو من و عن تاریخ پر لاگو کر دینا ان دونوں علوم کے ساتھ زیادتی ہے۔
میں ایک مثال سے بات کو اچھی طرح سمجھاتا ہوں
فرض کریں ہم ایک عورت کو گن تھما کر وزیرستان میں ٹی ٹی پی سے لڑائی کے لئے بھیج دیتے ہیں
تو وہ چیخنے لگا جاتی ہے کہ مردوں والے تمام اصول من و عن میرے اوپر لاگوں کر دینا میرے ساتھ زیادتی ہے (جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ حدیث کے تمام اصولوں کو من و عن تاریخ پر لاگو کر دینا ان دونوں علوم کے ساتھ زیادتی ہے۔) تو ہم اسکو چھوڑ دیتے ہیں اور وزیرستان نہیں بھیجتے
لیکن تھوڑی دیر بعد جب وزیر اعظم یا آرمی چیف چننے کی باری آتی ہے اور وہاں پابندی لگا دی جاتی ہے کہ عورت کو نہیں بنانا تو وہاں وہی عورت چیخنا شروع کر دیتی ہے کہ مجھے مرد کے برابر حقوق دیے جائیں تو اب یہاں وہ عورت غلط ہو گی کیونکہ اگر مرد کے برابر حقوق لینا ہیں تو مرد والے کام کر کے دکھائے
تو بھائی جان یہی حال یہاں ہو گا کہ جو لوگ حدیث کی سند والے اصول تاریخ پہ لاگو کرتے ہیں تو وہ تو ظالم ہوں گے مگر اسکے بعد وہ اس سے بھی بڑے ظالم ہوں گے جو حدیث اور تاریخ کے حقوق ہی برابر کر دیتے ہیں اور جو چیز قرآن و حدیث سے ثابت ہوتی ہے (یعنی دین و شریعت) اسکو وہ تاریخ سے بھی ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں تو بھائی جان ہم اس دو رخی کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں اسکو کوئی انکار فتنہ سمجھتا ہے تو پیارے بھائی میرے خیال میں یہ درست طریقہ نہیں واللہ اعلم
بھائی جان آپ کی بات کوئی سمجھ نہیں آئیبنیادی طور پر اگر غور کیا جائے تو منکرینِ حدیث کا گروہ دراصل منکرین تاریخ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ پہلے وہ لوگ سچے تاریخی واقعات کا انکار کرتے ہیں کہ بھئی اس کی تو سند ہی موجود نہیں ، پھر احادیث کا انکار کرتے ہیں کہ جی ان احادیث میں تو علماء کا اختلاف ہے تو ہم کس کو مانیں، چھوڑیں ہم کسی کو نہیں مانتے ۔
آپ نے کہا کہ
۱۔لوگ چونکہ سچے تاریخی واقعات کا سند نہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیتے ہیں
۲۔اسی پہلی وجہ کو بنیاد بنا کر لوگ احادیث کا انکار کر دیتے ہیں کہ کیونکہ ان میں علماء کا اختلاف تعبیر کی وجہ سے ہے
یعنی پہلے میں سند کا اختلاف ہے اور دوسرے میں تعبیر کا اختلاف ہے ہے
اب آپ کی یہ خواہش ہے کہ اگر لوگ علماء میں اختلاف نہ کریں اور سب تاریخ کو مان لیں تو پھر احادیث کا بھی کوئی غامدی جیسا انکار نہیں کرے گا
تو میرا سوال ہے کہ یہی بات کوئی قرآن کے بارے بھی کہ سکتا ہے کہ بھائی آپ قرآن میں اخٹلاف نہ کریں کوئی شیعہ قرآن سے شرک نکالتا ہے کوئی اھل بیت کا معصوم ہونا نکالتا ہے کوئی علی کی ولایت نکالتا ہے اور اسکا خلیفہ بلا فصل ہونا بھی وہ قرآن سے نکالتا ہے تو ہمیں اسکا انکار نہیں کرنا چاہئے
ورنہ پھر لوگ احادیث کا بھی انکار کرنا شروع کر دیں گے اور غامدی جیسے لوگ زیادہ ہو جائیں گے
پیارے بھائی آپ کی یہ لاجک مجھے سمجھ نہیں آئی یہ میری کم علمی ہے اللہ آپ کے سمجھانے کے خلوص پہ آپکو اجر عظیم دے امین