• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"منکرین حدیث کافر ہیں"

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
"منکرین حدیث کافر ہیں"

مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ سب احادیث صحیحہ پرایمان لاۓ اوران میں سے کسی ایک کا بھی رد نہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورسنت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ، توجو بھی احادیث کارد کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی وحی کورد کررہا ہے ۔

اس کے وحی ہونے کی دلیل اللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے گرے ، کہ تمہارے ساتھی نے نہ تو راہ گم کی اورنہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اورنہ ہی وہ اپنی خواہش سے کوئ بات کہتے ہیں ، وہ توصرف ایک وحی ہے جو اتاری جاتي ہے ، اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے ، جوزورآور ہے پھرسیدھا کھڑاہوگیا }
النجم ( 1 - 6 )۔

اللہ تعالی نے لوگوں پراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب قرار دی ہے جس کا بہت ساری آیات میں حکم دیا گیا ہے ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :

{ کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا }
آل عمران ( 32 ) ۔

اوراللہ جل شانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی وہ حقیقت میں اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے ، اورجومنہ پھیر لے تو ہم نے آپ کوان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا }
النساء ( 80 )

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اے ایمان والو ! اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراپنے میں سے اختیار والوں کی اطاعت کرو ، توپھر اگر تم کسی چیزمیں اختلاف کروتواگر تم اللہ تعالی اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ ، یہ بہت ہی بہتر اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت ہی اچھا ہے }
النساء ( 59 )

اوراللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

{ نماز کی پابندی کرو اور زکا ۃ ادا کرو اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ }
النور ( 56 )

اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }
النساء ( 65 )

ان کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں،

"سنت نبویہ اور حدیث رسول کا منکر کافر ہے "

اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.

امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے "

اور امام جلال الدین سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا "
: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 )

یہ لوگ جو صرف قرآن مجید پرہی اکتفا کرتے اور اپنے آپ کواہل قرآن کا نام دیتے ہیں ان کا یہ مذھب کوئ نیا نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ ایک احادیث میں ان سے بچنے کاکہا ہے،

مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.

خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 )

حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "

اس مذھب کے باطل ہونے کی سب سے واضح اوربین دلائل جو کہ اس کے قائلین بھی نہیں جانتے ! ! !

توپھر یہ لوگ نماز کیسے پڑھتے ہیں ؟

اوردن رات میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں ؟

اور کن کن حالتوں میں زکاۃ واجب ہوتی اوراس کا نصاب کیا ہے ؟

اوراس میں سے زکاۃ نکالنے کی مقدار کیا ہے ؟

اور یہ لوگ حج اورعمرہ کیسے کرتے ہیں ؟

کعبہ کا طواف کتنی بارکیا جاتا ہے ؟

اورصفامروۃ کے درمیان کتنے چکر لگاتے ہيں ؟ ۔۔۔۔

اوراس کے علاوہ بہت سے ایسے احکام ہیں جن کوقرآن مجید اجمالا بیان کرتا ہے اس کی تفصیل بیان نہیں کرتا ، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔

توکیا یہ لوگ ان احکامات پرعمل کرنا چھوڑ دیں کہ یہ قرآن مجید میں نہیں ہیں ؟ ۔

تواگر ان کا جواب ہاں میں ہوا تو انہوں نے اپنے اوپرخود ہی کفر کا حکم لگالیا ، کیونکہ انہوں اس چیزکا انکارکیا ہے جس پرمسلمانوں کا اجماع قطعی ہے اوروہ چیز دین کی ایک ضروری چیز ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }
النحل ( 44 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے:

پہلى قسم:

كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام.

دوسرى قسم:

كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے
جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 )

جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے.

امام ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }
الحجر ( 9 ).

اور ارشاد ربانى ہے:

{ كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے }
الانبياء ( 45 )

اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے "
الاحكام ( 1 / 95 )

اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا،

{ کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا
} آل عمران ( 32 )

https://www.facebook.com/groups/oifd1/425649977626048/?ref=notif&notif_t=group_activity
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حافظ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں:

وکل من کفر بما بلغہ وصح عندہ عن النبی ﷺ او اجمع علیہ المومنون مما جاء بہ النبی فھو کافر کما قال اللہ تعالیٰ:’’ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین ‘‘ الآیہ۔ (المعلی لابن حزم، ج۱، مسئلہ ۲۰)
’’جو شخص نبی ﷺ کی صحیح حدیث معلوم ہو جانے یا نبی ﷺ جو لائے ہیں اس پر مومنین کا اجماع ہونے کے بعد اس کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جو شخص ہدایت معلوم ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو وہ جدھر جاتا ہے ہم اُسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اُسے جہنم میں داخل کریں گے۔‘‘
امام شافعی رحمۃاللہ علیہ سے ایک حدیث روایت کی گئی تو آپ نے فرمایا’’انہ صحیح‘‘ کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ایک شخص نے کہا ’’اتقول بہ یا ابا عبداللہ؟ فاضطرب‘‘ کیا آپ اے ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ ’’فاضطرب‘‘(یعنی حدیث میں کسی قسم کی کوئی علت نہیں) امام شافعی نے یہ سن کر جواب دیا کہ کیا تو نے مجھے نصرانی سمجھا ہے؟ یا کنیسہ (عیسائیوں کا عبادت خانہ چرچ) سے نکلتا ہوا؟ (مفتاح الجنة، صفحہ ۶)
امام ابن حبان رحمۃاللہ علیہ اپنی صحیح میں حدیث ذکر فرماتے ہیں :

عن عائشة رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ قال: ستة لعنتھم ولعنھم اللہ وکل نبی مجاب: الذائد فی کتاب اللہ والمکذب بقدر اللہ والمسلط بالجبروت لیذل بذالک من اعذاللہ، ولیعذ بہ من اذل اللہ، والمستحل لحرم اللہ، والمستحل من عترتی ما حرم اللہ والتارک لسنتی۔ (صحیح ابن حبان مع ابن بلبان، ج۱۳، صفحہ ۶۰، ابن ابی عاصم فی السنة، رقم: ۴۴، وقال الالبانی اسنادہ حسن واخرجہ الطحاوی، ج۴، صفحہ ۳۱۶، والحاکم، ج۱، صفحہ ۳۱)
’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چھ ایسے شخص ہیں جن پر میں نے لعنت کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی: وہ شخص جو کتاب اللہ میں زیادتی کرتا ہے ۔اللہ کی تقدیر کو جھٹلاتا ہے ۔جو زبردستی مسلط ہو جائے ۔اسے عزت دے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہو، اور اُسے ذلیل کرے جیسے اللہ نے عزت دی ہو ۔وہ شخص جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دے اور جو میرے اہل بیت کے لیے اللہ نے حرام کیا ہو اسے حلال کرے ۔جو (نبی کریمﷺ) کی سنت کا تارک ہو۔‘‘ا
 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
انکار حدیث
کسی ایک یا چند احادیث پر جرح کرنا یا انہیں لائق استدلال نہ سمجھنا غلط تو ہو سکتا ھے لیکن اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا علمی افلاس کی دلیل ھے ۔انکار حدیث ایک فکر ایک رویہ ااور ایک منہج ھے رہی کسی حدیث پر تنقید تو کوئ صاحب علم ایسا نہیں جسے یہ کام نہ کرنا پڑا ہو ۔اس کا آغاز حضرت عمر نے کیا اور ایک خاتون کی روایت رد کردی کہ قرآن سے ھم آھنگ نہیں ۔ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ نے کئ صحابہ کی کئ روایات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔تمام فقہاء محدثین ارباب علم و دانش کا یہی رویہ رہا ۔جب آپ یہ کہتے ھیں کہ امام بخاری نے اتنے لاکھ احادیث سے یہ دو اڑھائ ھزار احادیث منتخب کیں تو لاکھوں احادیث کو رد کرنے کی وجہ سے وہ منکر حدیث نہیں قرار پائے بلکہ ساری امت ان کی ممنون ھے کہ انہوں نے صحیح و سقیم کو الگ الگ کر دیا ۔اس پہلو سے حدیث پر گفتگو کرنا انکار حدیث نہیں بلکہ ائمہ مجتہدین و محدثین کا اتباع ھے ۔

مومنین کا اجماع تو آج تک امین اونچی نیچی کہنے پر بھی نہیں ہوا
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
انکار حدیث
کسی ایک یا چند احادیث پر جرح کرنا یا انہیں لائق استدلال نہ سمجھنا غلط تو ہو سکتا ھے لیکن اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا علمی افلاس کی دلیل ھے ۔انکار حدیث ایک فکر ایک رویہ ااور ایک منہج ھے رہی کسی حدیث پر تنقید تو کوئ صاحب علم ایسا نہیں جسے یہ کام نہ کرنا پڑا ہو ۔اس کا آغاز حضرت عمر نے کیا اور ایک خاتون کی روایت رد کردی کہ قرآن سے ھم آھنگ نہیں ۔ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ نے کئ صحابہ کی کئ روایات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔تمام فقہاء محدثین ارباب علم و دانش کا یہی رویہ رہا ۔جب آپ یہ کہتے ھیں کہ امام بخاری نے اتنے لاکھ احادیث سے یہ دو اڑھائ ھزار احادیث منتخب کیں تو لاکھوں احادیث کو رد کرنے کی وجہ سے وہ منکر حدیث نہیں قرار پائے بلکہ ساری امت ان کی ممنون ھے کہ انہوں نے صحیح و سقیم کو الگ الگ کر دیا ۔اس پہلو سے حدیث پر گفتگو کرنا انکار حدیث نہیں بلکہ ائمہ مجتہدین و محدثین کا اتباع ھے ۔

مومنین کا اجماع تو آج تک امین اونچی نیچی کہنے پر بھی نہیں ہوا
اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت :
۔۔۔ وہی ہے جس کا کچھ تذکرہ سطوربالا میں بھی کیا گیا ہے یعنی ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکار کرنا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔
اوریہ اصول منکرین حدیث کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے
یعنی آج جوصحیح احادیث منکرین حدیث کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپر قابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!

منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔

منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جس کی ایک واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر والے دھاگے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کسی T.O. صاحب کی تحقیق کے ذریعے تاریخ و سیرت کی کتب کے بےسند حوالہ جات کو صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔

منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں

ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں
اور
محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی
مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :
سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ٭
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ٭

( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )
اﷲ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پر نہیں جو اﷲ سے ڈرتے ہیں ، ( اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں

صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کاایک لازمی جزو ہے
پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکور ظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لاگو کرنا محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ محض ظن کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پر ہی کیا جاتا ہے اور گواہی کا ظنی ہونا اظہرمن الشمس ہے
پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے اس کے باوجود جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے اور نافذ العمل سمجھا جاتا ہے
جبکہ رواۃ حدیث کا جھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہوا کہ اصولی طورپر احکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کو ثابت اورغالب کرنے کےلئے قابل قبول اورمفید ہے یعنی احادیث کو اگر ظنی کہا بھی جائے تب بھی احادیث امور دین میں دلیل و حجت ہیں۔

منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :

یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں
اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں
بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ : یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں
ثبوت کے طورپر غلام احمد پرویز صاحب کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ:
بحوالہ : قرآنی فیصلے ص:506
کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کو کچھ واسطہ نہیں ہوتا اس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہا جا سکتا، ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواس طرح حفظ کیا ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے، فلاں امام نے کیا کہا ہے ، فلاں مفسر کا کیا قول ہے ، فلاں محدث کا کیا ارشاد ہے اور جو کچھ انہیں ان کتابوں میں لکھا ملتا ہے وہ اسے حرفاً حرفاً نقل کر دیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کو قطعاً دخل نہیں دینے دیتے اس لئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے Catalogur یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول :
' فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا '
قرآن نے اس کو 'حمل اسفار' یعنی کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیا ہے یہ اپنے محدود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے​
منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے اس لئے یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کا پردہ بھی چاک کر دیا جائے
تاکہ معلوم ہو جائے کہ
  1. قرآن نے عقل کا استعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیا ہے
  2. اور کہاں ہرمسلمان عقل کے بجائے اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے ؟

اولاً : عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
[ARABIC]قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ،کیا تم عقل نہیںرکھتے۔
( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا اﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں
اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
[ARABIC]إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ[/ARABIC]
بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف اﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً
سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
[ARABIC]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے
( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے

اسی طرح عقل کااستعمال کرنے کامشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیاہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پرکمربستہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ برائی کاانجام برا نہیں ہوتا
مثلاً سورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ :
[ARABIC]قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤمیںبتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیاحرام کیاہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤخواہ وہ کھلاہو یا چھپاہواورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲنے حرام کیاہویہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )
یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیاجارہاہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں او ر مذاہب میں بھی موجود رہیں تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہےتاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپرکوئی بوجھ نہ سمجھیں

اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کا تضاد بھی ہے ،اسکے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ:
[ARABIC]أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہوپس کیاتم عقل نہیں رکھتے
[ARABIC]( سورة البقرة : 2 ، آیت : 44 )[/ARABIC]
یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یاتوجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکانہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کودے رہاہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے

اسی طرح ہروہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہواس پر اصرار کرنے والوں کوبھی قرآن نے عقل کے استعمال کامشورہ دیاہے
مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہواکہ:
[ARABIC]يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے) بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 65 )

یہاں اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کررہاہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں
اس لئے قرآن اسکی مذمت کررہاہے
یعنی
عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود اﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے
بلکہ اسکی تشریح اﷲتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے
جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے فرمایا:
[ARABIC]فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ[/ARABIC]
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے
( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )

اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرناچاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں

البتہ سورۃ بقرۃ کی ایک آیت ہے جہاں کسی کواس قسم کااشکال ہوسکتاہے اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
[ARABIC]يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ[/ARABIC]
یہ لو گ جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے یہ بڑے گناہ ہیں اوراس میں لوگوں کوکچھ منفعت بھی ہے لیکن ان کاگناہ انکے نفع سے کہیں بڑھ کر ہے اوروہ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ (اﷲ کی راہ میں ) کیاخرچ کریں، کہہ دیجئے کہ وہ سب جوتمہاری ضرورت سے زائد ہے ،اس طرح ہم اپنی آیات کوکھول کربیان کردیتے ہیں تاکہ یہ لوگ غور وفکر کریں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 219 )

یہاں اس آیت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے شراب اور جوئے کے ممانعت کی حکمت بیان کی ہے اوراس کے بالمقابل صدقہ کاحکم دیا ہے تاکہ لوگ ان معاملات میں تھوڑے اورظاہر ی فائدے کونہ دیکھیں بلکہ اس کے گناہ اور نقصان کومدنظر رکھیں جو نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اوراس کے بعد غور فکر کی دعوت اس لئے دی گئی ہے تاکہ لوگ دین کے باقی احکامات پر بھی یہ یقین رکھتے ہوئے عمل کریں کہ ان سب احکامات کی کوئی نہ کوئی وجہ اورحکمت ضرور ہے اگرچہ ہم جانتے نہ ہوں
اور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ جولوگ ان احکامات پرغور فکرکریں گے ان کواس میں سے بعض احکامات کی حکمت معلوم بھی ہوجائے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان احکامات پرعمل کرناسب کے لئے فرض ہے مگر انکی حکمت کو جاننا ہر ایک پر فرض نہیں کیونکہ یہاں لفظ "لعلکم" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں شاید کہ تم ، امید ہے کہ تم یا توقع ہے کہ تم غوروفکرکرو گے ۔

لیکن منکرین حدیث کے سرخیل پرویز صاحب نے صرف اسی کوعلم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اورکتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیا ہے جوتمام کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے حالانکہ لفظ ''علم '' کے معنی ہی'' جاننا '' ہیں
اورعلامہ کامطلب ہے بہت زیادہ جاننے والا
یعنی عالم دین اسی شخص کوکہاجائےگاجوقرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کوجانتاہوکیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوں اقوال ،افعال و اعمال کے استفادہ سے جن پراﷲ تعالیٰ کاانعام ہوا اور جو قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ،شہداء اورصالحین ہیں ۔

اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اورعلمیت مشروط ہے عقل سے تو پھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ، مدبراورعلم منطق کے ماہرافراد کے راستےکوصراط مستقیم ہوناچاہیے تھاجبکہ ایسانہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات صرف حدیث کے منکر نہیں بلکہ علوم اورحصول علم کے طریقوں کے بھی منکرہیں !!

ورنہ پرویز صاحب علماء کرام کے متعلق حوالہ جات کی فہرست اورمحض حافظ جیسے الفاظ استعمال کرکے اہل علم سے بدظن نہ کرتے !
اوراب اس کانتیجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کے پیروکارحضرات اپنے گھر میں کبھی کوئی قرآن کی تفسیر یا حدیث کی کتاب یااس کی شرح نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔
انجام کار جو پرویز صاحب نے کہا پرویز صاحب کی روحانی اولاد بھی آج وہی کہہ رہی ہے
اور جس کے حوالے یہیں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح اپنے ہی دینِ حنیف کے علماء کرام کو مولوی / ملا کہہ کر اپنی عقل کو برتر اور علماء کو پستی کا شکار بتایا جا رہا ہے !!

اپنی عقلی برتری کی تصدیق یا تردید کا کوئی بھی ذریعہ جناب پرویز اور ان کے متبعین کے پاس نہیں ہے اس طرح بے علمی کے ساتھ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہو رہے ہیں اوردوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔

منکرین حدیث کی ایک چھٹی شناختی علامت بھی ہے :
جو صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جوانکار حدیث کے ضمن میں انتہاء درجہ پرنہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پر ہیں
ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یا بعض احادیث کی اقسام کومانتے ہیں اوربعض کونہیں ماننے

مثلاً بعض حضرات اپنے آپ کومنکرحدیث تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اطیعواﷲ سے مراد اﷲ کے احکام کی پابندی کرنااور اطیعوا لرسول سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ اوراحادیث پرعمل ہے ، لہذا جہاں قال اﷲ تعالیٰ کا لفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ حدیث نبوی ہوگی

ان صاحبان نے قرآنی آیت اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طورپر نامکمل اورغلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں بلکہ حدیث ، اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اورتقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہاجاتاہے
یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اوراﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تنبیہ نہیں کی بلکہ ان کوبرقرار رکھا مزید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کوبھی حدیث کہا جاتا ہے اوراس کے لئے حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
اسی طرح ہروہ بات جو قال اﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اورمحدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو "حدیث قدسی" کہاجاتا ہے۔
پس معلو م ہوا کہ منکرین حدیث کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔

(تمام شد)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
انکار حدیث
کسی ایک یا چند احادیث پر جرح کرنا یا انہیں لائق استدلال نہ سمجھنا غلط تو ہو سکتا ھے لیکن اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا علمی افلاس کی دلیل ھے ۔انکار حدیث ایک فکر ایک رویہ ااور ایک منہج ھے رہی کسی حدیث پر تنقید تو کوئ صاحب علم ایسا نہیں جسے یہ کام نہ کرنا پڑا ہو ۔اس کا آغاز حضرت عمر نے کیا اور ایک خاتون کی روایت رد کردی کہ قرآن سے ھم آھنگ نہیں ۔ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ نے کئ صحابہ کی کئ روایات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔تمام فقہاء محدثین ارباب علم و دانش کا یہی رویہ رہا ۔جب آپ یہ کہتے ھیں کہ امام بخاری نے اتنے لاکھ احادیث سے یہ دو اڑھائ ھزار احادیث منتخب کیں تو لاکھوں احادیث کو رد کرنے کی وجہ سے وہ منکر حدیث نہیں قرار پائے بلکہ ساری امت ان کی ممنون ھے کہ انہوں نے صحیح و سقیم کو الگ الگ کر دیا ۔اس پہلو سے حدیث پر گفتگو کرنا انکار حدیث نہیں بلکہ ائمہ مجتہدین و محدثین کا اتباع ھے ۔
مومنین کا اجماع تو آج تک امین اونچی نیچی کہنے پر بھی نہیں ہوا
ایک ہی بات کو مختلف جگہ پوسٹ کرنے سے گریز کریں ۔ ایک جگہ ہی کافی ہے ۔
 
Top