ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
"منکرین حدیث کافر ہیں"
مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ سب احادیث صحیحہ پرایمان لاۓ اوران میں سے کسی ایک کا بھی رد نہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورسنت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ، توجو بھی احادیث کارد کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی وحی کورد کررہا ہے ۔
اس کے وحی ہونے کی دلیل اللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
{ قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے گرے ، کہ تمہارے ساتھی نے نہ تو راہ گم کی اورنہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اورنہ ہی وہ اپنی خواہش سے کوئ بات کہتے ہیں ، وہ توصرف ایک وحی ہے جو اتاری جاتي ہے ، اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے ، جوزورآور ہے پھرسیدھا کھڑاہوگیا }
النجم ( 1 - 6 )۔
اللہ تعالی نے لوگوں پراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب قرار دی ہے جس کا بہت ساری آیات میں حکم دیا گیا ہے ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :
اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :
{ کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا }
آل عمران ( 32 ) ۔
اوراللہ جل شانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی وہ حقیقت میں اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے ، اورجومنہ پھیر لے تو ہم نے آپ کوان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا }
النساء ( 80 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو ! اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراپنے میں سے اختیار والوں کی اطاعت کرو ، توپھر اگر تم کسی چیزمیں اختلاف کروتواگر تم اللہ تعالی اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ ، یہ بہت ہی بہتر اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت ہی اچھا ہے }
النساء ( 59 )
اوراللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
{ نماز کی پابندی کرو اور زکا ۃ ادا کرو اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ }
النور ( 56 )
اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }
النساء ( 65 )
ان کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں،
"سنت نبویہ اور حدیث رسول کا منکر کافر ہے "
اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.
امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے "
اور امام جلال الدین سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا "
: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 )
یہ لوگ جو صرف قرآن مجید پرہی اکتفا کرتے اور اپنے آپ کواہل قرآن کا نام دیتے ہیں ان کا یہ مذھب کوئ نیا نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ ایک احادیث میں ان سے بچنے کاکہا ہے،
مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.
خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 )
حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "
اس مذھب کے باطل ہونے کی سب سے واضح اوربین دلائل جو کہ اس کے قائلین بھی نہیں جانتے ! ! !
توپھر یہ لوگ نماز کیسے پڑھتے ہیں ؟
اوردن رات میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں ؟
اور کن کن حالتوں میں زکاۃ واجب ہوتی اوراس کا نصاب کیا ہے ؟
اوراس میں سے زکاۃ نکالنے کی مقدار کیا ہے ؟
اور یہ لوگ حج اورعمرہ کیسے کرتے ہیں ؟
کعبہ کا طواف کتنی بارکیا جاتا ہے ؟
اورصفامروۃ کے درمیان کتنے چکر لگاتے ہيں ؟ ۔۔۔۔
اوراس کے علاوہ بہت سے ایسے احکام ہیں جن کوقرآن مجید اجمالا بیان کرتا ہے اس کی تفصیل بیان نہیں کرتا ، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔
توکیا یہ لوگ ان احکامات پرعمل کرنا چھوڑ دیں کہ یہ قرآن مجید میں نہیں ہیں ؟ ۔
تواگر ان کا جواب ہاں میں ہوا تو انہوں نے اپنے اوپرخود ہی کفر کا حکم لگالیا ، کیونکہ انہوں اس چیزکا انکارکیا ہے جس پرمسلمانوں کا اجماع قطعی ہے اوروہ چیز دین کی ایک ضروری چیز ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }
النحل ( 44 ).
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے:
پہلى قسم:
كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام.
دوسرى قسم:
كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے
جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 )
جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے.
امام ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }
الحجر ( 9 ).
اور ارشاد ربانى ہے:
{ كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے }
الانبياء ( 45 )
اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے "
الاحكام ( 1 / 95 )
اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا،
{ کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا
} آل عمران ( 32 )
https://www.facebook.com/groups/oifd1/425649977626048/?ref=notif¬if_t=group_activity
مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ سب احادیث صحیحہ پرایمان لاۓ اوران میں سے کسی ایک کا بھی رد نہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورسنت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ، توجو بھی احادیث کارد کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی وحی کورد کررہا ہے ۔
اس کے وحی ہونے کی دلیل اللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
{ قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے گرے ، کہ تمہارے ساتھی نے نہ تو راہ گم کی اورنہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اورنہ ہی وہ اپنی خواہش سے کوئ بات کہتے ہیں ، وہ توصرف ایک وحی ہے جو اتاری جاتي ہے ، اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے ، جوزورآور ہے پھرسیدھا کھڑاہوگیا }
النجم ( 1 - 6 )۔
اللہ تعالی نے لوگوں پراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب قرار دی ہے جس کا بہت ساری آیات میں حکم دیا گیا ہے ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :
اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :
{ کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا }
آل عمران ( 32 ) ۔
اوراللہ جل شانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی وہ حقیقت میں اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے ، اورجومنہ پھیر لے تو ہم نے آپ کوان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا }
النساء ( 80 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو ! اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراپنے میں سے اختیار والوں کی اطاعت کرو ، توپھر اگر تم کسی چیزمیں اختلاف کروتواگر تم اللہ تعالی اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ ، یہ بہت ہی بہتر اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت ہی اچھا ہے }
النساء ( 59 )
اوراللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
{ نماز کی پابندی کرو اور زکا ۃ ادا کرو اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ }
النور ( 56 )
اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }
النساء ( 65 )
ان کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں،
"سنت نبویہ اور حدیث رسول کا منکر کافر ہے "
اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.
امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے "
اور امام جلال الدین سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا "
: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 )
یہ لوگ جو صرف قرآن مجید پرہی اکتفا کرتے اور اپنے آپ کواہل قرآن کا نام دیتے ہیں ان کا یہ مذھب کوئ نیا نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ ایک احادیث میں ان سے بچنے کاکہا ہے،
مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.
خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 )
حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "
اس مذھب کے باطل ہونے کی سب سے واضح اوربین دلائل جو کہ اس کے قائلین بھی نہیں جانتے ! ! !
توپھر یہ لوگ نماز کیسے پڑھتے ہیں ؟
اوردن رات میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں ؟
اور کن کن حالتوں میں زکاۃ واجب ہوتی اوراس کا نصاب کیا ہے ؟
اوراس میں سے زکاۃ نکالنے کی مقدار کیا ہے ؟
اور یہ لوگ حج اورعمرہ کیسے کرتے ہیں ؟
کعبہ کا طواف کتنی بارکیا جاتا ہے ؟
اورصفامروۃ کے درمیان کتنے چکر لگاتے ہيں ؟ ۔۔۔۔
اوراس کے علاوہ بہت سے ایسے احکام ہیں جن کوقرآن مجید اجمالا بیان کرتا ہے اس کی تفصیل بیان نہیں کرتا ، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔
توکیا یہ لوگ ان احکامات پرعمل کرنا چھوڑ دیں کہ یہ قرآن مجید میں نہیں ہیں ؟ ۔
تواگر ان کا جواب ہاں میں ہوا تو انہوں نے اپنے اوپرخود ہی کفر کا حکم لگالیا ، کیونکہ انہوں اس چیزکا انکارکیا ہے جس پرمسلمانوں کا اجماع قطعی ہے اوروہ چیز دین کی ایک ضروری چیز ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }
النحل ( 44 ).
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے:
پہلى قسم:
كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام.
دوسرى قسم:
كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے
جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 )
جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے.
امام ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }
الحجر ( 9 ).
اور ارشاد ربانى ہے:
{ كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے }
الانبياء ( 45 )
اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے "
الاحكام ( 1 / 95 )
اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا،
{ کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا
} آل عمران ( 32 )
https://www.facebook.com/groups/oifd1/425649977626048/?ref=notif¬if_t=group_activity