قیصر عباس
رکن
- شمولیت
- دسمبر 13، 2020
- پیغامات
- 15
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 31
منکرین حدیث کے خلاف عقل روایات کے مطلقا عدم تسلیم کا تحقیقی جائزہ
*مقدمہ:*
الحمدللہ وحدہ والصلاة على من لا نبی بعدہ۔۔۔
اما بعد۔
احادیث مبارکہ دین اسلام میں اساس و بنیاد کا درجہ رکھتی ہیں۔ احادیث مبارکہ کی اہمیت و فضیلت بہت زیادہ ہے اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ
"وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ"
(سورۃ نحل آیت نمبر 44) الآیۃ
ترجمہ:
" اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے بیان کرو"
اس کی شرح میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ
اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا تاکہ آپ اس کتاب میں موجود اَحکام ،وعدہ اور وعید کو اپنے اَقوال اور اَفعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کر دیں ۔
(قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵/۷۹،الجزء العاشر)
(صراط الجنان تحت آیۃ المذکورہ)
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کی طرح حدیث پاک بھی معتبر، قابلِ قبول اور لائقِ عمل ہے کیونکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نےاپنےحبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک میں موجود احکام وغیرہ کو اپنے اقوال اور افعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کرنے کا منصب عطا فرمایا ہے اور حدیث نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال اور اَفعال ہی کا تو نام ہے ۔
(صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورۃ)
*ابتدائیہ:*
ہر انسان کو اللہ تعالی نے عقل عطا فرمائی ہے اور یہ عقل اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ایک عظیم نعمت ہے اللہ رب العالمین نے ہمیں یہ نعمت اس لیے عطاء فرمائی ہے کہ ہم اپنے معاملات کو اس کی روشنی میں سر انجام دیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر انسان کو اپنی عقل کے استعمال کی ہدایت کی ہے یہ بات تو بلکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین اسلام کو ماننے سمجھنے اور اس کی تمام ہدایات پر عمل کرنے کا مکلف بھی ٹہرایا ہے شریعت کے بہت سارے معاملات ایسے بھی ہیں کہ جن تک عقل انسانی کی رسائی بلکل ناممکن ہے ایسے ہی معاملات پر بلاتامل یقین کرلینے کا نام ہی مسلمانیت ہے اور مسلمان ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنی مرضی، اپنی عقل اور اپنی خواہشات کو دین کے تابع اور اللہ، رسول کی مرضی کے مطابق کردیا جائے۔۔
*منکرین حدیث کا شبہ:*
مگر منکرین حدیث اُن روایتوں کو لے کر ذخیرہ حدیث کو نشانہ بناتے ہیں جو کہ بظاہر عام عقل کے خلاف ہوتی ہیں مگر وہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے ک ہماری عقل شریعت کے تابع ہےنہ کہ شریعت ہماری عقل کے تابع ہے
یہاں یہ بات یاد رکھی جائے کہ وہ روایات جو خلاف عقل ہیں انکی دو قسمیں ہیں۔۔۔
پہلی قسم۔۔۔ مقبول روایات
دوسری قسم۔۔۔ غیر مقبول روایات
اور مزید برآں مقبول روایات کی آگئے مزید دو قسمیں ہیں۔
(الف)۔۔ معنی خاص پر متفق روایات
(ب).. مؤول روایات
پہلی قسم کی روایات کی امثلہ:
(الف) معنی خاص پر متفق روایات کی مثال جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے پانی کے چشمہ کا پھوٹ پڑنا
یہ روایات بخاری وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے۔
اب یہ عقل کے خلاف تو ہے لیکن یہ متفقہ طور معنی خاص کےلیے مسلم شدہ حدیث ہے کہ اس میں معجزہ کا ظہور ہے جو انسانی عقل کو عاجز کرنے کےلیے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے لہذا اس حدیث پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے۔
(ب) مؤول روایت کی مثال جیسا کہ
حدیث میں نے اپنے رب کو ایسے خوبصورت جوان کی صورت میں دیکھا جس کے بال لمبے وخوب صورت ہوں ، صحیح ہے یہ خواب پر محمول ہے یا یہ مؤول ہے...
( فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 621 منیر العین فی تقبیل الابہامین، فائدہ نمبر، 11 )
اب یہاں یہ عند المقبولین بصحتہ کے مطابق حدیث مؤول ہے۔۔۔
اور دوسری قسم غیر مقبول روایت کی مثال جو کہ خلاف عقل و خلاف شریعہ ہے کہ
روایت ہے کہ رجم کی آیت اتری اور بڑے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی اور یہ دونوں آیتیں ایک صحیفہ پر لکھی تھیں میرے بستر کے تلے جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے بکری آئی اور وہ صحیفہ کھا گئی۔
اس کے بارے میں امام الجورقاني فرماتے ہیں
"هذا حديث باطل".
(الأباطيل والمناكير، حديث،541)
اور امام سرخسی لکھتے ہیں کہ
"
وھو قول باطل بالاجماع"
(المبسوط جلد 5، صفحہ، 134)
اور شعیب الارنؤوط لکھتے ہیں کہ
"لایصح و فی متنہ نکارة"۔
(السنن لابی داؤد، جلد 3، صفحہ 125)
مزید اس کے بارے میں صاحب کشاف، صاحب بیضاوی شریف، صاحب حاشیہ القونوی علی تفسیر البیضاوی، صاحب تفسیر قرطبی، صاحب روح المعانی، صاحب تفسیر النسفی وغیرہا مفسرین لکھتے ہیں کہ
وأمّا ما يحكى: أن تلك الزيادة كانت في صحيفة في بيت عائشة رضى الله عنها فأكلتها الداجن فمن تأليفات الملاحدة والروافض
ترجمہ:
"اور یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اضافہ ایک صحیفے میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے گھر میں تھا اور اس کو بکری کھا گئی تو یہ ملاحدہ اور روافض کی تالیف ہے".
تو اب یہ قرآن کی نص (وانالہ لحفظون) کے بھی مخالف ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے حفاظت کا ذمہ ہونے کے باوجود، صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کی قرآن کو جمع کرنے میں انتہائی دیانتداری ہونے کے باوجود یہ سب کیسے ہو گیا ہے لہذا یہ روایت غیر مقبول و مردود ہے۔
اب آئیے الزامی جواب کیطرف چلتے ہیں ۔
*الزامی جواب:*
حدیث شریف پر کیا جانے والا یہ اعتراض قرآن پر بھی آجاتا یے کہ قرآن میں بھی کئی صریح مقامات ایسے ہیں جو خلاف عقل ہیں مگر منکرین حدیث اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے بلکہ یہاں انکو ایمان کے لالے پڑ جاتے ہیں
جیسے کہ تحت بلقیس کا ملک سبا سے پلک جھپکنے میں بیت المقدس پہنچنا
اللہ فرماتا ہے
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمُْ
(سورة نمل: آیت 40)
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ؟اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمان والا ہے۔
یہ ایک ایسی بات ہے جسے عقل نہیں مانتی مگر یہ حقیقت ہے
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ یَا نَارُکُوْنِی بَرْدًا وَسَلَاماً عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ }
(الانبیاء آیت 69)
اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا، اور سلامتی والی بن جا۔
اب آگ کا کام جلانا ہے، اس کی خصوصیت گرم ہونا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کونیہ کے خلاف ٹھنڈی ہو، اور جلائے نہیں، لہٰذا یہ آیت بھی معیارعقل پر پوری نہیں ہے
اور اسی طرح قرآن کا یہ کہنا کہ ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی ہے
اللہ فرماتا ہے
وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے؟
[ سورۃ الانبیاء : 30 ]
وغیرہ بہت ساری مثالیں موجود ہیں
لیکن یہ سب کچھ قرآن کا واضح طور پر اعلان ہے لہذا جب اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تو محض منکرین حدیث کی عقل کی بناء پہ کسی حدیث کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے
یہ تو الزامی جواب تھا اب آئیے تحقیقی جواب کیطرف چلتے ہیں۔۔۔
*تحقیقی جواب:*
تحقیقی جواب یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ تعالی نے کسی بھی حدیث کو قبول کرنے یا رد کرنے کے بارے میں کچھ اصول مقرر کیے ہیں جن کے تحت ہر حدیث کو پرکھا جاتا ہے اس کے بعد ہی اس حدیث پر صحت یا ضعف کا حکم لگایا جاتا ہےاور ان ہی اصولوں میں سے ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف نہ ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو وگرنہ وہ حدیث رد کر دی جائے گی۔
جیسا کہ
*امام جلال الدین سیوطی* رحمہ اللہ موضوع حدیث کا ذکر کرتے ہوئے ابوبکر بن طیب رحمہ الله کا قول نقل کرتے ہیں کہ
أن من جملة دلائل الوضع أن يكون مخالفاً للعقل بحيث لا يقبل التأويل ، ويلتحق به ما يدفعه الحس والمشاهدة ، أو يكون منافياً لدلالة الكتاب القطعية أو السنة المتواترة أو الإِجماع القطعي ، أما المعارضة مع إمكان الجمع فلا
حدیث کے موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو۔ اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو۔ اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو تو وہ بھی موضوع حدیث ہو گی اور اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہو گا۔
(تدریب الراوی صفحہ 325)
امام حافظ *ابو بکر خطیب بغدادی* رحمہ اللہ الکفایہ میں فرماتے ہیں کہ
"ولا يقبل خبر الواحد في منافاة حكم العقل وحكم القرآن الثابت المحكم والسنة المعلومة والفعل الجاري مجرى السنة كل دليپ مقطوع به"۔
ترجمہ:
"خبر واحد کو اس صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا اگر وہ عقل عام، قرآن، سنت معلومہ کے فیصلوں اور امت میں جاری عمل کے منافی ہو اور کسی قطعی دلیل کے ذریعے اس خبر واحد کا ان کے خلاف ہونا ثابت ہو جائے"۔
(الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ذکر ما یقبل فیہ خبر الواحد وما لا یقبل فیہ، صفحہ 432)
اور شیخ الاسلام *امام ابن حجر عسقلانی* رحمہ اللہ شرح نخبة الفکر میں فرماتے ہیں کہ
ومنها: ما يؤخذ من حال المروي، كأن يكون مناقضا لنص القرآن، أو
السنة المتواترة، أو الإجماع القطعي، أو صريح العقل، حيث لا يقبل شيء من
ذلك التأويل.
ترجمہ:
موضوع حدیث کو اس کی حالت سے بھی پہچان لیا جاتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کی نص، یا سنت متواترہ، یا اجماع قطعی، یا صریح عقل کے اس طور پر خلاف ہو کہ وہ تاویل کو بلکل قبول نہ کرے ۔۔
(شرح نخبة الفکر، صفحہ، 107)
محدث بریلی *امام احمد رضا خان* رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
(موضوعیت حدیث کیونکر ثابت ہوتی ہے )غرض ایسے وجوہ سے حکم وضع کیطرف راہ چاہنا محض ہوس ہے ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ،
اس روایت کا مضمون (1) قرآن عظیم (۲) سنت متواتر (۳) یا اجتماعی قطعی
قطعات الدلالة (3) عقل صریح (۵) یا حسن صحیح (۲) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہو کہ احتمال تاویل و تطبیق نہ رہے
(فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 460) (نصاب اصول حدیث مع افادات، رضویہ، صفحہ 92 )
اور مولانا *حنیف خان رضوی* رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں کہ
نیز عقل و مشاهده صراحت قرآن، سنت متواتر ، اجتماع قطعی، اور مشہور تاریخی واقعات
کی واضح مخالفت سے بھی وضع کاحکم لگایا جاتا ہے۔ یہ جب ہے کہ تاویل و تطبیق کا احتمال نہ رہے۔
(احادیث کیسے جمع ہوئیں، صفحہ، 204)
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ صرف وہی خلاف عقل روایت رد کی جائے گی جو تاویل و تطبیق کی گنجائش نہ رکھتی ہو وگرنہ قریب بہ اکثر ذخیرہ احادیث سے ہاتھ دھونا پڑے گا لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ خلاف عقل روایات کا مطلقا عدمِ تسلیم کا قول کرنا منکرین احادیث کا پروپیگنڈا ہے شریعت مطہرہ میں ایسی بات کی قطعا گنجائش نہیں ہے ۔
*تنبیہ:*
علماء کرام فرماتے ہیں کہ دین اگر صرف عقل کے مطابق ہوتا تو منی سے صرف وضو ٹوٹتا اور پیشاب و پاخانہ سے غسل فرض ہو جاتا کیوں کہ بظاہر منی کی گندگی پیشاب و پاخانہ سے کم ہے مگر شریعت کا حکم اس کے برعکس ہے
اور اسی طرح سہو کے دو سجدے سلام سے پہلے ہونے چاہیے تھے کہ سلام تو نماز سے خروج کےلیے ہوتا ہے مگر ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی سہو کے سجدے مشروع ہیں اس لیے کہ شریعت کی حکمتیں عقل کی تنگ راہوں سے وراء الوراء ہیں۔۔
*نتیجہ:*
لیکن
یہ بعض لوگ عقلی طور پر چند دلائل دے کر حدیث کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی نامعقول، قبیح اور غیر علمی رویہ ہے۔ محض کسی ایک شخص کے کہہ دینے سے کوئی حدیث عقل کے خلاف نہیں ہو جاتی۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام انسان عقلی طور پر جس بات کو درست مانتے ہوں، حدیث اس کے خلاف نہ ہو۔ اس کی مثال سوائے چند ایک روایتوں کے پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں ملتی۔ اور جو ایسی روایات ہیں ان پر حکم ضعف یا انکی وضاحت علماء پیش کر چکے ہیں اس لیے صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ اس حیسی حدیث کی طرح کی دیگر روایات کو اکٹھا کر کے ان کا مطالعہ کیا جائے تو بات پوری طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اصل بات کیا ہے اور یہاں اس کا کیا مطلب ہے اور محدثین عظام ان احادیث کو بیان کر کے انکی کی وضاحت کر چکے ہیں۔
*حدیث کو خلاف عقل سمجھنے والے کی پکڑ:*
مفتی *احمد یار خان نعیمی* رحمۃ اللہ علیہ مرأۃ المناجیح میں ایک حدیث کے تحت مشہور محدث *ملا علی قاری* رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مرقاۃ المفاتیح سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں آپ لکھتے ہیں کہ
روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھالیتا ہے وہ اس سے نہیں ڈرتا کہ اﷲ اس کا سر گدھے کا سا کردے۔
(مشکوۃ شریف، حدیث نمبر، 365) و ایضا فی (مسلم،بخاری)
اس کی شرح میں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ
یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر ہے کسی کی تاویل کی ضرورت نہیں یعنی امام سے آگے بڑھنا اتنا جرم ہے کہ اس پر صورت مسخ ہوسکتی ہے اگر کبھی نہ ہو تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا صدقہ ہے۔یہاں صاحب مرقاۃ نے ایک عجیب واقعہ بیان کیا کہ ایک محدث دمشق کے کسی مشہور شیخ کے پاس حدیث سیکھنے گئے وہ شیخ پردے میں رہ کر انہیں حدیث پڑھایا کرتے تھے ایک دن ان کے اصرار پر پردہ اٹھایا تو ان کی صورت گدھے کی سی تھی اور فرمایا کہ میں اس حدیث کو خلاف عقل سمجھ کر آزمائش کے لیے امام سے آگے بڑھا تھا تو اس مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔
(مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد نمبر 2، صفحہ نمبر، 365 )
اللہ اکبر کبیرا
منکرین حدیث اس واقعہ سے عبرت پکڑیں اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھلواڑ کرنا بند کریں کیوں کہ یہ باعث ہلاکت و برباری ہے۔۔
اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔!!!
*واللہ اعلم و رسولہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم*
*از قلم:*
*قیصر عباس عطاری*
*مقدمہ:*
الحمدللہ وحدہ والصلاة على من لا نبی بعدہ۔۔۔
اما بعد۔
احادیث مبارکہ دین اسلام میں اساس و بنیاد کا درجہ رکھتی ہیں۔ احادیث مبارکہ کی اہمیت و فضیلت بہت زیادہ ہے اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ
"وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ"
(سورۃ نحل آیت نمبر 44) الآیۃ
ترجمہ:
" اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے بیان کرو"
اس کی شرح میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ
اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا تاکہ آپ اس کتاب میں موجود اَحکام ،وعدہ اور وعید کو اپنے اَقوال اور اَفعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کر دیں ۔
(قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵/۷۹،الجزء العاشر)
(صراط الجنان تحت آیۃ المذکورہ)
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کی طرح حدیث پاک بھی معتبر، قابلِ قبول اور لائقِ عمل ہے کیونکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نےاپنےحبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک میں موجود احکام وغیرہ کو اپنے اقوال اور افعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کرنے کا منصب عطا فرمایا ہے اور حدیث نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال اور اَفعال ہی کا تو نام ہے ۔
(صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورۃ)
*ابتدائیہ:*
ہر انسان کو اللہ تعالی نے عقل عطا فرمائی ہے اور یہ عقل اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ایک عظیم نعمت ہے اللہ رب العالمین نے ہمیں یہ نعمت اس لیے عطاء فرمائی ہے کہ ہم اپنے معاملات کو اس کی روشنی میں سر انجام دیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر انسان کو اپنی عقل کے استعمال کی ہدایت کی ہے یہ بات تو بلکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین اسلام کو ماننے سمجھنے اور اس کی تمام ہدایات پر عمل کرنے کا مکلف بھی ٹہرایا ہے شریعت کے بہت سارے معاملات ایسے بھی ہیں کہ جن تک عقل انسانی کی رسائی بلکل ناممکن ہے ایسے ہی معاملات پر بلاتامل یقین کرلینے کا نام ہی مسلمانیت ہے اور مسلمان ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنی مرضی، اپنی عقل اور اپنی خواہشات کو دین کے تابع اور اللہ، رسول کی مرضی کے مطابق کردیا جائے۔۔
*منکرین حدیث کا شبہ:*
مگر منکرین حدیث اُن روایتوں کو لے کر ذخیرہ حدیث کو نشانہ بناتے ہیں جو کہ بظاہر عام عقل کے خلاف ہوتی ہیں مگر وہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے ک ہماری عقل شریعت کے تابع ہےنہ کہ شریعت ہماری عقل کے تابع ہے
یہاں یہ بات یاد رکھی جائے کہ وہ روایات جو خلاف عقل ہیں انکی دو قسمیں ہیں۔۔۔
پہلی قسم۔۔۔ مقبول روایات
دوسری قسم۔۔۔ غیر مقبول روایات
اور مزید برآں مقبول روایات کی آگئے مزید دو قسمیں ہیں۔
(الف)۔۔ معنی خاص پر متفق روایات
(ب).. مؤول روایات
پہلی قسم کی روایات کی امثلہ:
(الف) معنی خاص پر متفق روایات کی مثال جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے پانی کے چشمہ کا پھوٹ پڑنا
یہ روایات بخاری وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے۔
اب یہ عقل کے خلاف تو ہے لیکن یہ متفقہ طور معنی خاص کےلیے مسلم شدہ حدیث ہے کہ اس میں معجزہ کا ظہور ہے جو انسانی عقل کو عاجز کرنے کےلیے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے لہذا اس حدیث پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے۔
(ب) مؤول روایت کی مثال جیسا کہ
حدیث میں نے اپنے رب کو ایسے خوبصورت جوان کی صورت میں دیکھا جس کے بال لمبے وخوب صورت ہوں ، صحیح ہے یہ خواب پر محمول ہے یا یہ مؤول ہے...
( فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 621 منیر العین فی تقبیل الابہامین، فائدہ نمبر، 11 )
اب یہاں یہ عند المقبولین بصحتہ کے مطابق حدیث مؤول ہے۔۔۔
اور دوسری قسم غیر مقبول روایت کی مثال جو کہ خلاف عقل و خلاف شریعہ ہے کہ
روایت ہے کہ رجم کی آیت اتری اور بڑے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی اور یہ دونوں آیتیں ایک صحیفہ پر لکھی تھیں میرے بستر کے تلے جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے بکری آئی اور وہ صحیفہ کھا گئی۔
اس کے بارے میں امام الجورقاني فرماتے ہیں
"هذا حديث باطل".
(الأباطيل والمناكير، حديث،541)
اور امام سرخسی لکھتے ہیں کہ
"
وھو قول باطل بالاجماع"
(المبسوط جلد 5، صفحہ، 134)
اور شعیب الارنؤوط لکھتے ہیں کہ
"لایصح و فی متنہ نکارة"۔
(السنن لابی داؤد، جلد 3، صفحہ 125)
مزید اس کے بارے میں صاحب کشاف، صاحب بیضاوی شریف، صاحب حاشیہ القونوی علی تفسیر البیضاوی، صاحب تفسیر قرطبی، صاحب روح المعانی، صاحب تفسیر النسفی وغیرہا مفسرین لکھتے ہیں کہ
وأمّا ما يحكى: أن تلك الزيادة كانت في صحيفة في بيت عائشة رضى الله عنها فأكلتها الداجن فمن تأليفات الملاحدة والروافض
ترجمہ:
"اور یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اضافہ ایک صحیفے میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے گھر میں تھا اور اس کو بکری کھا گئی تو یہ ملاحدہ اور روافض کی تالیف ہے".
تو اب یہ قرآن کی نص (وانالہ لحفظون) کے بھی مخالف ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے حفاظت کا ذمہ ہونے کے باوجود، صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کی قرآن کو جمع کرنے میں انتہائی دیانتداری ہونے کے باوجود یہ سب کیسے ہو گیا ہے لہذا یہ روایت غیر مقبول و مردود ہے۔
اب آئیے الزامی جواب کیطرف چلتے ہیں ۔
*الزامی جواب:*
حدیث شریف پر کیا جانے والا یہ اعتراض قرآن پر بھی آجاتا یے کہ قرآن میں بھی کئی صریح مقامات ایسے ہیں جو خلاف عقل ہیں مگر منکرین حدیث اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے بلکہ یہاں انکو ایمان کے لالے پڑ جاتے ہیں
جیسے کہ تحت بلقیس کا ملک سبا سے پلک جھپکنے میں بیت المقدس پہنچنا
اللہ فرماتا ہے
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمُْ
(سورة نمل: آیت 40)
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ؟اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمان والا ہے۔
یہ ایک ایسی بات ہے جسے عقل نہیں مانتی مگر یہ حقیقت ہے
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ یَا نَارُکُوْنِی بَرْدًا وَسَلَاماً عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ }
(الانبیاء آیت 69)
اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا، اور سلامتی والی بن جا۔
اب آگ کا کام جلانا ہے، اس کی خصوصیت گرم ہونا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کونیہ کے خلاف ٹھنڈی ہو، اور جلائے نہیں، لہٰذا یہ آیت بھی معیارعقل پر پوری نہیں ہے
اور اسی طرح قرآن کا یہ کہنا کہ ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی ہے
اللہ فرماتا ہے
وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے؟
[ سورۃ الانبیاء : 30 ]
وغیرہ بہت ساری مثالیں موجود ہیں
لیکن یہ سب کچھ قرآن کا واضح طور پر اعلان ہے لہذا جب اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تو محض منکرین حدیث کی عقل کی بناء پہ کسی حدیث کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے
یہ تو الزامی جواب تھا اب آئیے تحقیقی جواب کیطرف چلتے ہیں۔۔۔
*تحقیقی جواب:*
تحقیقی جواب یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ تعالی نے کسی بھی حدیث کو قبول کرنے یا رد کرنے کے بارے میں کچھ اصول مقرر کیے ہیں جن کے تحت ہر حدیث کو پرکھا جاتا ہے اس کے بعد ہی اس حدیث پر صحت یا ضعف کا حکم لگایا جاتا ہےاور ان ہی اصولوں میں سے ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف نہ ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو وگرنہ وہ حدیث رد کر دی جائے گی۔
جیسا کہ
*امام جلال الدین سیوطی* رحمہ اللہ موضوع حدیث کا ذکر کرتے ہوئے ابوبکر بن طیب رحمہ الله کا قول نقل کرتے ہیں کہ
أن من جملة دلائل الوضع أن يكون مخالفاً للعقل بحيث لا يقبل التأويل ، ويلتحق به ما يدفعه الحس والمشاهدة ، أو يكون منافياً لدلالة الكتاب القطعية أو السنة المتواترة أو الإِجماع القطعي ، أما المعارضة مع إمكان الجمع فلا
حدیث کے موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو۔ اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو۔ اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو تو وہ بھی موضوع حدیث ہو گی اور اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہو گا۔
(تدریب الراوی صفحہ 325)
امام حافظ *ابو بکر خطیب بغدادی* رحمہ اللہ الکفایہ میں فرماتے ہیں کہ
"ولا يقبل خبر الواحد في منافاة حكم العقل وحكم القرآن الثابت المحكم والسنة المعلومة والفعل الجاري مجرى السنة كل دليپ مقطوع به"۔
ترجمہ:
"خبر واحد کو اس صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا اگر وہ عقل عام، قرآن، سنت معلومہ کے فیصلوں اور امت میں جاری عمل کے منافی ہو اور کسی قطعی دلیل کے ذریعے اس خبر واحد کا ان کے خلاف ہونا ثابت ہو جائے"۔
(الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ذکر ما یقبل فیہ خبر الواحد وما لا یقبل فیہ، صفحہ 432)
اور شیخ الاسلام *امام ابن حجر عسقلانی* رحمہ اللہ شرح نخبة الفکر میں فرماتے ہیں کہ
ومنها: ما يؤخذ من حال المروي، كأن يكون مناقضا لنص القرآن، أو
السنة المتواترة، أو الإجماع القطعي، أو صريح العقل، حيث لا يقبل شيء من
ذلك التأويل.
ترجمہ:
موضوع حدیث کو اس کی حالت سے بھی پہچان لیا جاتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کی نص، یا سنت متواترہ، یا اجماع قطعی، یا صریح عقل کے اس طور پر خلاف ہو کہ وہ تاویل کو بلکل قبول نہ کرے ۔۔
(شرح نخبة الفکر، صفحہ، 107)
محدث بریلی *امام احمد رضا خان* رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
(موضوعیت حدیث کیونکر ثابت ہوتی ہے )غرض ایسے وجوہ سے حکم وضع کیطرف راہ چاہنا محض ہوس ہے ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ،
اس روایت کا مضمون (1) قرآن عظیم (۲) سنت متواتر (۳) یا اجتماعی قطعی
قطعات الدلالة (3) عقل صریح (۵) یا حسن صحیح (۲) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہو کہ احتمال تاویل و تطبیق نہ رہے
(فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 460) (نصاب اصول حدیث مع افادات، رضویہ، صفحہ 92 )
اور مولانا *حنیف خان رضوی* رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں کہ
نیز عقل و مشاهده صراحت قرآن، سنت متواتر ، اجتماع قطعی، اور مشہور تاریخی واقعات
کی واضح مخالفت سے بھی وضع کاحکم لگایا جاتا ہے۔ یہ جب ہے کہ تاویل و تطبیق کا احتمال نہ رہے۔
(احادیث کیسے جمع ہوئیں، صفحہ، 204)
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ صرف وہی خلاف عقل روایت رد کی جائے گی جو تاویل و تطبیق کی گنجائش نہ رکھتی ہو وگرنہ قریب بہ اکثر ذخیرہ احادیث سے ہاتھ دھونا پڑے گا لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ خلاف عقل روایات کا مطلقا عدمِ تسلیم کا قول کرنا منکرین احادیث کا پروپیگنڈا ہے شریعت مطہرہ میں ایسی بات کی قطعا گنجائش نہیں ہے ۔
*تنبیہ:*
علماء کرام فرماتے ہیں کہ دین اگر صرف عقل کے مطابق ہوتا تو منی سے صرف وضو ٹوٹتا اور پیشاب و پاخانہ سے غسل فرض ہو جاتا کیوں کہ بظاہر منی کی گندگی پیشاب و پاخانہ سے کم ہے مگر شریعت کا حکم اس کے برعکس ہے
اور اسی طرح سہو کے دو سجدے سلام سے پہلے ہونے چاہیے تھے کہ سلام تو نماز سے خروج کےلیے ہوتا ہے مگر ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی سہو کے سجدے مشروع ہیں اس لیے کہ شریعت کی حکمتیں عقل کی تنگ راہوں سے وراء الوراء ہیں۔۔
*نتیجہ:*
لیکن
یہ بعض لوگ عقلی طور پر چند دلائل دے کر حدیث کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی نامعقول، قبیح اور غیر علمی رویہ ہے۔ محض کسی ایک شخص کے کہہ دینے سے کوئی حدیث عقل کے خلاف نہیں ہو جاتی۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام انسان عقلی طور پر جس بات کو درست مانتے ہوں، حدیث اس کے خلاف نہ ہو۔ اس کی مثال سوائے چند ایک روایتوں کے پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں ملتی۔ اور جو ایسی روایات ہیں ان پر حکم ضعف یا انکی وضاحت علماء پیش کر چکے ہیں اس لیے صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ اس حیسی حدیث کی طرح کی دیگر روایات کو اکٹھا کر کے ان کا مطالعہ کیا جائے تو بات پوری طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اصل بات کیا ہے اور یہاں اس کا کیا مطلب ہے اور محدثین عظام ان احادیث کو بیان کر کے انکی کی وضاحت کر چکے ہیں۔
*حدیث کو خلاف عقل سمجھنے والے کی پکڑ:*
مفتی *احمد یار خان نعیمی* رحمۃ اللہ علیہ مرأۃ المناجیح میں ایک حدیث کے تحت مشہور محدث *ملا علی قاری* رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مرقاۃ المفاتیح سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں آپ لکھتے ہیں کہ
روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھالیتا ہے وہ اس سے نہیں ڈرتا کہ اﷲ اس کا سر گدھے کا سا کردے۔
(مشکوۃ شریف، حدیث نمبر، 365) و ایضا فی (مسلم،بخاری)
اس کی شرح میں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ
یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر ہے کسی کی تاویل کی ضرورت نہیں یعنی امام سے آگے بڑھنا اتنا جرم ہے کہ اس پر صورت مسخ ہوسکتی ہے اگر کبھی نہ ہو تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا صدقہ ہے۔یہاں صاحب مرقاۃ نے ایک عجیب واقعہ بیان کیا کہ ایک محدث دمشق کے کسی مشہور شیخ کے پاس حدیث سیکھنے گئے وہ شیخ پردے میں رہ کر انہیں حدیث پڑھایا کرتے تھے ایک دن ان کے اصرار پر پردہ اٹھایا تو ان کی صورت گدھے کی سی تھی اور فرمایا کہ میں اس حدیث کو خلاف عقل سمجھ کر آزمائش کے لیے امام سے آگے بڑھا تھا تو اس مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔
(مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد نمبر 2، صفحہ نمبر، 365 )
اللہ اکبر کبیرا
منکرین حدیث اس واقعہ سے عبرت پکڑیں اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھلواڑ کرنا بند کریں کیوں کہ یہ باعث ہلاکت و برباری ہے۔۔
اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔!!!
*واللہ اعلم و رسولہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم*
*از قلم:*
*قیصر عباس عطاری*