ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
کیا صحیح بخاری منزل من اللہ ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں؟السلام و علیکم و رحمت الله -
احادیث رسول کی حجت پر بات کرتے ہوے یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ آیا جس کو آپ حدیث رسول کہہ رہے ہیں وہ واقعتاً رسول کا ہی قول ہے؟؟ - کیوں کہ ہمارے اکثر علماء ہر وہ روایت جو احادیث یا صاح ستہ میں پائی جاتی ہے اس کو "حدیث رسول" پر ہی محمول کرتے ہیں - جب کہ احادیث کی کتب میں بے شمار ایسی روایات بھی موجود ہیں جو قول رسول نہیں ہے بلکہ ان کی حیثیت تاریخی ہے یا یہ صحابہ کرام کا ااپنا جتہاد یا کوئی قول ہے - مثال کے طور پر بخاری میں حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا قول ہے (جو ہشام بن عروہ سے مروی ہے) کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے نکاح کے وقت میری عمرصرف ٦ سال تھی- اب یہ قول صحیح ہے یا ضعیف لیکن یہ قول عائشہ رضی الله عنہ کا اپنا قول ہے نہ کہ حدیث رسول- لیکن اکثر علماء اس کو بھی حدیث رسول پر ہی محمول کرتے ہیں - اسی طرح کی اور بہت سی روایات احادیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ سے ہے جیسے واقعہ سقیفہ بنو سعدہ، جنگ جمل جنگ صفین اور صحابہ کرام کے مشجرات (باہمی اختلاف وغیرہ) - سوال ہے اس کے شواہد تو موجود ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم تو اپنے اقوال صحابہ کرام سے لکھوا لیا کرتے تھے- یا صحابہ کرام خود آپ کے اقوال نقل کرتے رہتے تھے ان کی دینی اہمیت کے پیش نظر - لیکن نبی کریم کی وفات کے بعد صحابہ کرام کے اپنے اقوال یا اجتہادات نقل کرنے کا اہتمام کون کرتا تھا؟؟- یعنی میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث رسول اور غیرحدیث رسول کا معیار ایک ہی ہے یا مختلف ہے؟؟- جیسے حجت قرآن اور حجت حدیث میں مرتبہ کے لحاظ سے قران پہلے آتا ہے اور احدیث رسول بعد میں- اس طرح بقیہ روایات کا کیا معیار حجت کیا ہے ؟؟ یعنی اگر کوئی صحابہ کرام کی عظمت کی بنا پران کے مابین ہونے والے مشجارات کا انکارکرتا ہے تو کیا وہ بھی منکرین حدیث میں شمار ہو گا ؟؟
اس پر بھی روشنی ڈالیں تو بہتر ہو گا-
جزاک الله ھوا خیراً
@اسحاق سلفی
@عبدہ
@ابن قدامہ
@خضر حیات
----------------------------------------------------------
جب بھی حدیث کا دفاع کیا جائے تو منکرین حدیث عموما یہ سوال کرتے ہیں۔ تو پہلی بات یہ واضح رہے کہ صحیح بخاری کے دو گتوں کے مابین جو کچھ ہے، اس سب کو کوئی بھی منزل من اللہ نہیں کہتا۔ صحیح بخاری میں "منزل من اللہ" ہے نہ کہ کل صحیح بخاری "منزل من اللہ" ہے۔
دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو وحی کہا جاتا ہے نہ کہ صحیح بخاری کو۔ اور صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے نہ کہ صحیح بخاری کی ہر بات حدیث ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایت ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اورتقریر موجود ہو اور صحیح بخاری میں صحابہ کے اقوال بھی ہیں اور تابعین کے بھی۔ سلف کے اقوال بھی ہیں اور ائمہ کے بھی۔
تیسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظی وحی کوئی بھی نہیں کہتا بلکہ حدیث معنوی وحی ہے۔ پس حدیث کا معنی "منزل من اللہ" ہے جبکہ حدیث کے الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اگر وہ قولی سنت ہو اور اگر فعلی یا تقریری سنت ہو تو حدیث کے الفاظ صحابی کے ہوتے ہیں۔ حدیث میں اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے اور بہت حد تک محفوظ بھی ہیں لیکن اصل بات یہی ہے کہ اس میں معنی محفوظ ہے۔
منکرین حدیث عموما اپنی نقد میں ان اصولی باتوں کا لحاظ نہیں رکھتے جیسا کہ وہ صحیح بخاری پر یوں نقد کریں گے کہ اس میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک بندر نے زنا کیا تو بقیہ بندروں نے اس کو رجم کر دیا۔ اب امام بخاری رحمہ اللہ نے اس واقعے کو عمرو بن میمون تابعی سے نقل کیا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ یمن میں ایسے ایسے دیکھا۔ اب یہ حدیث ہے ہی نہیں اگرچہ واقعہ بخاری میں موجود ہے۔
رہی بات صحیح بخاری پر نقد کی تو ائمہ فن نے اس کی روایات پر نقد کی اور ائمہ فن نے ہی اس نقد کا جواب بھی دے دیا ہے۔ اور اب اس نقد اور دفاع سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ بخاری میں کلام کی گنجائش کہاں کہاں ہے اور اس کا جواب کیا کیا ہے؟ یہ عمل علم کی دنیا میں ایک ہزار سال کے عرصے میں مکمل ہو چکا۔ اب آپ صحیح بخاری پر کوئی نیا اعتراض پیدا نہیں کر سکتے اور جو پیدا ہوئے تھے، ان کا جواب موجود ہے۔
اسی لیے صحیحین کی احادیث پر نقد کے بارے اپنے ایک مفصل مضمون کا خلاصہ یہاں نقل کر رہا ہوں کہ صحیحین پر ہونے والی اس تمام نقد اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے کہ جن میں کوئی علل پائی جاتی ہیں اور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں؟
اب اگر کوئی شخص امام الدارقطنی رحمہ اللہ یا أئمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقید صحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کا أئمہ سلف ہی میں سے بہت سے أئمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے۔
اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے نقد نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
Hm Zubair