عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
منھجِ سلف کا صحیح مفہوم !!
اس مسئلہ سے متعلق ہمارے مسلم معاشرے میں دو گروہ پائے جاتے ہیں ۔
پہلا گروہ لفظ‘‘سلف’’ کے صحیح مفہوم سے ہی نابلد ہے۔ ان کے نزدیق ‘اکابر’اور‘سلف’ کے الفاظ مترادف ہیں اور نتیجتاً وہ ہر اس رائے کو مقدس گردانتے ہیں جو انکے مکتب فکر کے اکابرین سے منقول ہو۔ انکے نزدیق (التفقه في الدين) بس یہی ہے کی صبح شام اپنے اکابر کی رٹ لگائی جائے اور اسی سے اپنی فکری راہوں کو جلا بخشی جائے ۔اگرچہ ہر صاحب علم کی رائے کا احترام کرنا طلبہ پر بالخصوص فرض ہے،لیکن علمی آراء کا وحی ربانی کی روشنی میں تجزیہ ومناقشہ کرنا بھی ٹھوس علمی منہج کا اہم ترین رکن ہے۔ علماء کا متفقہ فیصلہ ہے ( اقوال العلماء یحتج لھا لا یحتج بھا ) علماء کے اقوال بزات خود دلیل نہیں بن سکتے بلکہ انکی صحت کے لئے دلیل درکار ہوتی ہے)
جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے،تو اس میں ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو لفظ‘سلف’ کے اطلاق سے بخوبی واقف ہیں جسکا اظہار وہ اس ارشاد نبوی ﷺ کو دہرانے سے کرتے ہیں (( خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ))[[)))البخاری] میری امت میں اس زمانے کے لوگ سب سے بہتر ہیں اور انکے بعد انکے بعد والے اور انکے بعد انکے بعد والے ) مگر اس کے باوجود وہ‘منہج اتباع سلف’ کے متعلق کنفیوزن کا شکار ہیں۔ ‘سلف صالحین’ کو پہلی تین صدیوں میں محصور کردینے کے باوجود وہ اپنے کلام میں فقط چند ایک متاخرین علماء کا حوالہ دینے سے نہیں تھکتے ۔ کچھ تو بعض معاصر علماء کے اقوال اس شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ آسمان سے نازل شدہ وحی ہو۔ اس فرقہ کا اصل فقط اپنے ‘ہم مشب’ علماء کی آراء کی نشروترویج ہے۔ اگر کبھی انکی زبانوں پر صدراول کے مسلمانوں کے اقوال کا حوالہ آتا بھی ہے تو اسکے مفہوم سے ناآشنائی اور غلط مفہوم پہنانا انکے یہاں جاری التساس میں اور اضافہ کرتا ہے۔ اسلاف کے اقوال کی گہرائی اور دقة کی وجہ سے انکا صحیح مفہوم بسااوقات بڑے سے بڑے عالم پر بھی مخفی رہ سکتا ہے۔ اسکی واضح مثال شرعی علوم میں سے بنیادی علم العقیدۃ کے مختلف ابواب کے بارے متاخرین علماء کی آراء ہیں۔ ان میں اسلاف کا حامی ہونے کا دم تو ہر کوئی بھرتا ہے اور مخالفین کی آراء پر زوردار نقد بھی کرتا ہےلیکن ان میں کون کتنے پانی میں ہے،اس فن میں گہرادرک رکھنے والے طلبہ پر مخفی نہیں۔
الغرض مسلم امت کے نشأٰۃ ثانیہ کی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ یہ کنفیوژن بھی ہے۔انہی دو جماعتوں کے فکری کنفیوزن سے انکی گاڑی رکی ہوئی ہے۔جسکی پاداش میں مسلمان جمود وتعطل کا شکار ہیں۔ اس سانحہ کی جانب پیغمبر اسلام ﷺ بہت پہلے اشارہ کر چکے ہیں ((إنّ اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالم اتخذ الناس رؤوساً جھّالاً، فسئلوا فأ فتوا بغیر علم فضلّوا وأضلّوا)) ''صحیح البخاري'' اللہ تعالیٰ بندوں سے علم ایسے ہی نہیں اٹھالیں گے،بلکہ علم کو علماء کی موت کے ذریعہ اٹھایا جائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی عالم کی بھی باقی نہ چھوڑیں گے تو لوگ اپنا پیشوا جہلاء کو بنائیں گے ، پھر انہی سے اپنے مسئلے دریافت کیا کریں گے ، وہ علم کے بغیر جواب دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے )۔ اس ارشاد نبوی ﷺ میں جن جاہل پیشواؤں کی بات کی گئی ہے اسکا اطلاق اگر مزکورہ افراد پر بھی کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ان پرآشوب حالات میں ہمیں ان افراد کی ضرورت ہے جو الأصل اور العصر کے امتزاج کے پیکر ہوں ۔ الأصل سے مراد وحی ربانی کی اسلاف کے طے کردہ اصول و مناہج کی روشنی میں سمجھ کا ہونا ہے اور العصر سے مراد اسکا موجودہ زمانے میں انطباق ہے۔ ایک مسلم پر اللہ ورسول ﷺ کے فرمودات کے علاوہ کسی بھی عالم کا فہم حجت نہیں ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو ، مگر ان کے طے کردہ مناہج اور اصول کے بغیر بھی وحی ربانی کو سمجھا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ مناہج انکے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ وحی الہٰی کے ثمرہ ہی ہیں۔ ہمارے پاس جو شرعی علوم ومناہج ( مثلاً علم العقیدۃ ، علوم القرآن ، علوم الحدیث ، اصول الفقہ ، عربی زابان وغیرہ) مدوّن صورت میں موجود ہیں، انہی کے صحیح استعمال سے ہم شرعی نصوص سے صحیح معانی کا استخراج کرسکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان علوم و مناہج میں اچھا ورک رکھتے ہوں جو ان فنون میں دقط سند کے حصول کی غرض کو زیر نظر رکھتے ہوئے سطحی مطالعہ سے حاصل نہیں ہوتا اور ہمیں چاہیے کہ ہم کسی ایک فن کی جانب متعصب نہ ہوں۔ یہ وہی فنون تو ہیں جن کے استعمال سے ہمارے اسلاف علمی بلندیوں کو چھو گئے اصلا ہمیں اسلاف کی اتباع انکے فہم دین کے مناہج اور اتباع کتاب وسنت کے طریقوں میں کرنا ہے ناکہ انکی جزوی اراء کو جمع کرکے ایک نئی تعبیر کا دروازہ کھولنا مقصود ہے۔
منھجِ سلف کا صحیح مفہوم
مسلمان ان دنوں جن فکری الجھنوں میں مبتلاء ہیں ان میں سے ‘منہج سلف’ کا غلط اطلاق سرفہرست رکھا جاسکتا ہے۔ اس امر میں کسی بھی قسم کا شک نہیں کہ وحی ربانی کی انسانی نفوس اور معاشرے پر صحیح اور دقیق تطبیق صدراول کے مسلمان ( یعنی صحابہ،تابعین اور تبع تابعین) نے جس انداز سے کی اسکا بعد والوں کے لئے انکے اسوۃ قرار دیا جانا بالکل بجا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے لئے ہمارے لئے ان کے اسوۃ کی پیروی کے کیا معنی ہیں؟ حل صرف یہاں نظر آتا ہے کہ قرآن وسنت میں بالترتیب وارد ((ويتبع غير سبيل المؤمنين))[النساء۱۱۵] (اور جو مؤمنوں کی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہوں کی اتباع کرتے ہیں) یا ((إن أمتي لا تجتمع على ضلالة )) [سنن ابن ماجہ] یقیناً میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی) جیسی نصوص کو صحیح وسلیم معانی پر مھمول کرنا ہی اس الجھن کا سدباب ہوستا ہے۔ اس مسئلہ سے متعلق ہمارے مسلم معاشرے میں دو گروہ پائے جاتے ہیں ۔
پہلا گروہ لفظ‘‘سلف’’ کے صحیح مفہوم سے ہی نابلد ہے۔ ان کے نزدیق ‘اکابر’اور‘سلف’ کے الفاظ مترادف ہیں اور نتیجتاً وہ ہر اس رائے کو مقدس گردانتے ہیں جو انکے مکتب فکر کے اکابرین سے منقول ہو۔ انکے نزدیق (التفقه في الدين) بس یہی ہے کی صبح شام اپنے اکابر کی رٹ لگائی جائے اور اسی سے اپنی فکری راہوں کو جلا بخشی جائے ۔اگرچہ ہر صاحب علم کی رائے کا احترام کرنا طلبہ پر بالخصوص فرض ہے،لیکن علمی آراء کا وحی ربانی کی روشنی میں تجزیہ ومناقشہ کرنا بھی ٹھوس علمی منہج کا اہم ترین رکن ہے۔ علماء کا متفقہ فیصلہ ہے ( اقوال العلماء یحتج لھا لا یحتج بھا ) علماء کے اقوال بزات خود دلیل نہیں بن سکتے بلکہ انکی صحت کے لئے دلیل درکار ہوتی ہے)
جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے،تو اس میں ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو لفظ‘سلف’ کے اطلاق سے بخوبی واقف ہیں جسکا اظہار وہ اس ارشاد نبوی ﷺ کو دہرانے سے کرتے ہیں (( خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ))[[)))البخاری] میری امت میں اس زمانے کے لوگ سب سے بہتر ہیں اور انکے بعد انکے بعد والے اور انکے بعد انکے بعد والے ) مگر اس کے باوجود وہ‘منہج اتباع سلف’ کے متعلق کنفیوزن کا شکار ہیں۔ ‘سلف صالحین’ کو پہلی تین صدیوں میں محصور کردینے کے باوجود وہ اپنے کلام میں فقط چند ایک متاخرین علماء کا حوالہ دینے سے نہیں تھکتے ۔ کچھ تو بعض معاصر علماء کے اقوال اس شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ آسمان سے نازل شدہ وحی ہو۔ اس فرقہ کا اصل فقط اپنے ‘ہم مشب’ علماء کی آراء کی نشروترویج ہے۔ اگر کبھی انکی زبانوں پر صدراول کے مسلمانوں کے اقوال کا حوالہ آتا بھی ہے تو اسکے مفہوم سے ناآشنائی اور غلط مفہوم پہنانا انکے یہاں جاری التساس میں اور اضافہ کرتا ہے۔ اسلاف کے اقوال کی گہرائی اور دقة کی وجہ سے انکا صحیح مفہوم بسااوقات بڑے سے بڑے عالم پر بھی مخفی رہ سکتا ہے۔ اسکی واضح مثال شرعی علوم میں سے بنیادی علم العقیدۃ کے مختلف ابواب کے بارے متاخرین علماء کی آراء ہیں۔ ان میں اسلاف کا حامی ہونے کا دم تو ہر کوئی بھرتا ہے اور مخالفین کی آراء پر زوردار نقد بھی کرتا ہےلیکن ان میں کون کتنے پانی میں ہے،اس فن میں گہرادرک رکھنے والے طلبہ پر مخفی نہیں۔
الغرض مسلم امت کے نشأٰۃ ثانیہ کی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ یہ کنفیوژن بھی ہے۔انہی دو جماعتوں کے فکری کنفیوزن سے انکی گاڑی رکی ہوئی ہے۔جسکی پاداش میں مسلمان جمود وتعطل کا شکار ہیں۔ اس سانحہ کی جانب پیغمبر اسلام ﷺ بہت پہلے اشارہ کر چکے ہیں ((إنّ اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالم اتخذ الناس رؤوساً جھّالاً، فسئلوا فأ فتوا بغیر علم فضلّوا وأضلّوا)) ''صحیح البخاري'' اللہ تعالیٰ بندوں سے علم ایسے ہی نہیں اٹھالیں گے،بلکہ علم کو علماء کی موت کے ذریعہ اٹھایا جائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی عالم کی بھی باقی نہ چھوڑیں گے تو لوگ اپنا پیشوا جہلاء کو بنائیں گے ، پھر انہی سے اپنے مسئلے دریافت کیا کریں گے ، وہ علم کے بغیر جواب دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے )۔ اس ارشاد نبوی ﷺ میں جن جاہل پیشواؤں کی بات کی گئی ہے اسکا اطلاق اگر مزکورہ افراد پر بھی کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ان پرآشوب حالات میں ہمیں ان افراد کی ضرورت ہے جو الأصل اور العصر کے امتزاج کے پیکر ہوں ۔ الأصل سے مراد وحی ربانی کی اسلاف کے طے کردہ اصول و مناہج کی روشنی میں سمجھ کا ہونا ہے اور العصر سے مراد اسکا موجودہ زمانے میں انطباق ہے۔ ایک مسلم پر اللہ ورسول ﷺ کے فرمودات کے علاوہ کسی بھی عالم کا فہم حجت نہیں ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو ، مگر ان کے طے کردہ مناہج اور اصول کے بغیر بھی وحی ربانی کو سمجھا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ مناہج انکے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ وحی الہٰی کے ثمرہ ہی ہیں۔ ہمارے پاس جو شرعی علوم ومناہج ( مثلاً علم العقیدۃ ، علوم القرآن ، علوم الحدیث ، اصول الفقہ ، عربی زابان وغیرہ) مدوّن صورت میں موجود ہیں، انہی کے صحیح استعمال سے ہم شرعی نصوص سے صحیح معانی کا استخراج کرسکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان علوم و مناہج میں اچھا ورک رکھتے ہوں جو ان فنون میں دقط سند کے حصول کی غرض کو زیر نظر رکھتے ہوئے سطحی مطالعہ سے حاصل نہیں ہوتا اور ہمیں چاہیے کہ ہم کسی ایک فن کی جانب متعصب نہ ہوں۔ یہ وہی فنون تو ہیں جن کے استعمال سے ہمارے اسلاف علمی بلندیوں کو چھو گئے اصلا ہمیں اسلاف کی اتباع انکے فہم دین کے مناہج اور اتباع کتاب وسنت کے طریقوں میں کرنا ہے ناکہ انکی جزوی اراء کو جمع کرکے ایک نئی تعبیر کا دروازہ کھولنا مقصود ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں ایسے علماء سے نوازے جو مزکورہ بالا صفات سے بدرجہ اتم متصف ہوں ۔ آمین یارب العالمین ۔۔