• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موالات کیا ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
’’موالات‘‘ کیا ہے؟
تحریر : فضیلۃ الشیخ ابوعمرو عبدالحکیم حسان حفظہ اللہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک عقیدۂ وتصور درست نہ ہو عمل کبھی درست نہیں ہوسکتا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہالت بہت سارے فاسد اعتقادات اورمخالفِ اسلام نظریات کا سبب ہے ۔ اس بناء پر ہمارے لیے یہ چیز بہت ہی اہم اور ضرور ی ہے کہ ان اسماء والفاظ کو پہچانیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین قرآن مجید میں اور اس کے رسول ﷺ نے اپنی سنت مطہرہ میں ذکر فرمائے ہیں ۔ ہم جب ان اسماء و الفاظ اور اصطلاحات کو پہچان لیں گے تو پھر ہم ان چیزوں کو بھی پہچان لیں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے ۔ قرآن وحدیث میں مذکور ان اسماء واصطلاحات میں سے ایک اہم ترین اصطلاح (Terminology) ’’الولاء والبراء ‘‘ بھی ہے ۔ یہ دونوں الفاظ .....الولاء.....البراء بھی اللہ پاک کے کلام قرآن میں اور رسول اکرم ﷺ کی مبارک زبان سے نکلنے والی احادیث میں کئی مقامات پر مذکور ہیں ۔


لفظ ’’الموالاۃ‘‘ (دوستی) کی مختصر وضاحت:

لفظ ’’المُوَالَاۃ‘‘سے مشتق (نکلا) ہے ۔ أَلوَلیْ کا معنی قربت اور نزدیکی ہے ۔ لفظ أَلوَلیْ (أَلوَلیْ میں لام ساکن ہے) نبی ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پہلے خاوند ، سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک بیٹا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ سیدنا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں کھانا کھاتے ہوئے برتن میں چاروں طرف اپنا ہاتھ گھما رہا تھا کہ آپ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا:

﴿یَاغُلَامُ! سَمِّ اللہَ وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَ کُلْ مِمَّا یَلِیْکَ
ْأَکَلِ بِالْیَمِیْنِ،الحدیث=5376،صَحِیحْ مسلم=کِتَابُ الْاَشْرِبَۃ:بَابُ آدَابِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ واحکامھا، الحدیث = 2022
اپنے آگے )یعنی قریب اور نزدیک (سے کھائیں۔‘‘

اس حدیث ِ رسول میں جو لفظ ’’یَلِیْکَ‘‘ استعمال ہوا ہے، اس کا معنی ہے کہ جو تیرے آگے ہے ، قریب یا نزدیک ہے اور ’’یَلِیْکَ‘‘ کا تعلق لفظ الوَلیُ سے ہی ہے ۔ معلوم ہوا کہ الوَلیُ کا معنی نزدیک ہونا اور قریب ہونا ہے ۔

اسی طرح عربی زبان میں یہ جملہ عام مستعمل ہے کہ ’’والٰی بَیْنَ شَیئَیْن‘‘ اس کامعنی ہے کہ اس (شخص) نے دوچیزوں کو بغیر کسی وقفہ اور خلا کے ایک دوسرے کے پیچھے لگا دیا ہے۔‘‘

علیٰ ہٰذا القیاس وضوء کے اعمال وارکان میں ایک عمل اور رکن’’موالاۃ‘‘بھی ہے جب یہ لفظ وضوء کے اعمال میں بیان ہوتا ہے تو پھر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وضوء کے تمام اعمال وارکان اور فرائض ومستحبات کو پے درپے اور بغیر کسی وقفہ کے ایک دوسرے کے بعد بجالانا

’’الموالاۃ فی اعمال الوضوء‘‘ کا مطلب ہے کہ وضوء کے اعمال وارکان کو ایک دوسرے کے بعد پے درپے اور لگاتار(continuously) کرتے رہنا ۔یعنی وضوء کرتے ہوئے درمیان میں کوئی وقفہ اور تعطل نہ ہو ۔ آدمی پہلے ہاتھ دھوئے ، پھر کلی کرے ، پھر ناک میں پانی چڑھاکر جھاڑے، پھر چہرہ دھوئے اور کانوں کا مسح کرے، پھر سر کا مسح کرے پھر پاؤں دھوئے یہ سارے کام یکے بعد دیگرے کرتا جائے۔ اگر کوئی شخص مثلاً ہاتھ دھوئے، کلی کرے اور ناک میں پانی چڑھاکر جھاڑنے کے بعد کسی اور کام کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اب جب وہ وضوء کرنے کے لیے آئے گا اور توجہ کرے گا تو اس کو وضوء کے اعمال نئے سرے سے شروع کرنا ہوں گے۔ کیونکہ درمیان میں وقفہ کرنے سے ترتیب اور موالات ختم ہوگئی ہے۔ اس کو ’’الموالاۃ فی اعمال الوضوء‘‘ کہا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا چند مثالوں سے ظاہر ہوا کہ ’’المُوَالَاۃ‘‘ اصل معنی ’’القُربُ‘‘ اور ’’اَلْمُتَابَعَۃُ‘‘ ہے۔ القرب کا معنی نزدیکی اور قریب۔ جبکہ المتابعۃ کا معنی ہے پیروی اورایک دوسرے کے پیچھے لگنا یا لگانا۔ لفظ الوَلیُّ ’’العَدُوّ‘‘ کا متضاد (Opposite) ہے۔ الوَلیُّ کے عربی زبان میں چند دیگر معانی بھی ہیں ۔ مثلاً:
  • النَّاصِرُ . . . . مددگار
  • المُعِیْنْ . . . . تعاون کرنے والا
  • الحَلیْفُ . . . . جنگی معاہدوں میں ساتھ نبھانے والا۔
  • المُحِبُّ . . . . محبت کرنے والا
  • الصَّدِیْقُ . . . . سچا دوست
  • القَرِیْبُ فِی النَّسَبِ . . . . قریبی عزیز
  • الْمُعْتَقْ . . . . کسی غلام کو آزادکرنے والا۔
  • العَبْدُ . . . . غلام

ہر وہ شخص جو کسی اہم کام کا ذمہ دار ہو اور اس کا بیڑا اٹھانے والا ہو وہ اس کام کا ولی ہوتا ہے۔ جیسے حاکم اور امیر کو ولی الأمر کہا جاتا ہے کہ یہ شخص عنانِ حکومت سنبھالے ہوئے ہے اور ملکی انتظامات کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح عورت کا بھی ولی ہوتا ہے جس کی اجازت کے ساتھ ہی نکاح کا انعقاد ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ الموالات کا اصل معنی اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا معنی ’’محبت کرنا‘‘ ہے۔ اس کی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے جو آپ ﷺ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑکر ارشاد فرمایا:

﴿ھٰذا وَلِیُّ مَن اَنَا مَوْلَاہُ ۔ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہ، ۔ أَللّٰھُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاہُ
مقدمۃ صحیح ابن ماجہ=باب فی فضائل اصحاب رسول اﷲ ، الحدیث :94

’’(یعنی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ) اس کا دوست ہے جس کا میں دوست ہوں۔ یا اللہ ! تو بھی اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے ۔ یا اللہ ! تو اس سے دشمنی کر جو اس سے دشمنی کرے۔‘‘

مذکورہ بالاحدیث میں ﴿وَالِ مَنْ وَالَاہُ﴾ کے الفاظ کا مطلب ہے۔ ’’أُحْبُبْ مَنْ أَحَبَّہُ وَانْصُر مَنْ نَصَرَہُ‘‘ جس کا اردو زبان میں معنی یہ ہے کہ (یااللہ!) جو اس (علی رضی اللہ تعالی عنہ) سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس کی مدد کرتا ہے تو بھی اس کی مدد فرما۔‘‘

اس بحث سے معلوم ہواکہ لفظ ’’الموالاۃ‘‘ کا معنی ہے ’’محبت کرنا‘‘ اور ’’مدد کرنا۔‘‘

لفظ ’’المعاداۃ‘‘ (دشمنی) کی مختصر وضاحت:

’’اَلمُوَالَاۃ‘‘ کا متضاد (opposite)’’اَلْمُعَادَاۃ‘‘ ہے۔ اَلْمُعَادَاۃ کا معنی اَلْمُبَاعَدَۃُ اوراَلمُخَالَفَۃُ ہے۔ اَلْمُبَاعَدَۃ کا معنی ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنا ہے اور اَلمُخَالَفَۃ کا معنی ایک دوسرے کی مخالفت کرنا ہے۔ اَلْمُعَادَاۃ کا ہم معنی اور مترادف (similar) ایک اور لفظ ’’البَرَاءُ‘‘ ہے۔

’’البَرَاءُ‘‘ کا معنی گلو خاصی حاصل کرنا ‘‘ اور ’’دوری اختیار کرنا ‘‘ ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’بَرِیَٔ فُلَانًا‘‘ تو اس کا معنی ہوگا:

  1. فلاں نے فلاں سے ’’جان چھڑالی‘‘ ہے۔
  2. فلاں نے فلاں سے بیزاری کا مظاہرہ کیا ہے۔
  3. فلاں نے فلاں سے دوری اختیار کرلی ہے۔

ہرقمری مہینے کی پہلی رات کو عربی زبان میں ’’لَیْلَۃُ الْبَرَاءَ‘‘ بھی اسی بنا پر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس رات چاند سورج سے بہت دور چلا جاتا ہے اور چاند بہت چھوٹا سا نظر آتا ہے۔

دیکھیے لسان العرب لابن منظور: 41506/15، النھایۃ فی غریب الحدیث لابن الاثیر،230,227/5، المفردات للراغب الاصفھانی:535,533

موالات کی دو قسمیں ہیں :

لفظ ’’الموالاۃ‘‘ کے تحت ہونے والی سابقہ ساری بحث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ الموالاۃکی دوقسمیں اور دومعنی ہیں :

1 . . . .’’موالاۃ کی پہلی قسم وہ ہے جس کا تعلق دل سے ہے ، جیسے دوستی اور محبت۔
2 . . . .’’موالاۃ‘‘ کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق انسانی اعمال وکردار سے ہے جیسے نزدیکی، قربت مدد ونصرت اور پیروی۔

موالاۃ کے دونوں معانی اکثر وبیشتر اکھٹے پائے جاتے ہیں۔ یا پھر ایک معنی دوسرے معنی کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اگر پہلا معنی دلی محبت کرنے والا ہوگا تو دوسرا معنی محبت کرنے والا ضرور ہوگا۔ اگر کوئی شخص، کسی قوم اور گروہ سے اندرون محبت کرتا ہے۔ توظاہری طور پر بھی وہ اس قوم کی پیروی کرے گا اوران کا ساتھ نبھائے گا جہاں دلی محبت ہوگی، وہاں ظاہری پیروی اور ساتھ لازماً ہوگا۔ لہٰذا ایک چیز کا وجود دوسری چیز کے لیے ظاہری اور باطنی تعلق کے حوالے سے دلیل اور علامت ہوگا۔ اگر اس کا تعلق ہوتو اس کو عربی زبان میں ’’الموالات‘‘کہا جائے گا۔

الولاء والبراء کے چند معانی :

سب صورت حال یہ ہے کہ ہم نے ’’الولاء والبراء‘‘ کے معنی کو پہچان لیا کہ الولاء کا ایک معنی ’’محبت اور دوستی ہے‘‘---- دوسرا معنی’’قربت ‘‘ہے ---- تیسرا معنی ’’نزدیکی ‘‘ ہے ---- چوتھا معنی ’’تعاون کرنا‘‘ہے---- پانچواں معنی ’’مدد اور نصرت کرنا‘‘ ہے۔ اورہم نے یہ بھی پہچان لیا کہ البراء کا ایک معنی ’’دوری اختیار کرنا‘‘ہے---- دوسرا معنی ’’مخالفت کرنا‘‘ ہے---- تیسرا معنی ’’گلوخاصی چاہنا‘‘ یعنی کسی سے جان چھڑانا ہے۔


مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے والے شخص کا معاملہ:

اس کے ساتھ ہی ہمارے لیے یہ بات واضح ہوکر اور نکھر کر سامنے آگئی ہے کہ جو شخص بزعم خویش یہ سمجھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے، اس کے دین کا مددگار ہے اور رسول ﷺ سے محبت کرنے والا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے اور اللہ کے دوستوں سے دشمنی کرنے والا ہو؟ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے عقائد ونظریات سے ہم آہنگی رکھنے والا ہو؟ اپنے قول وعمل اور گفتار وکردار سے کافروں کے ایجنڈوں کو (اپنے علاقہ وملک میں) نافذ کرنے والا ہو اور اُن کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والاہو؟ مسلمانوں اورمومنوں کے خلاف برپا کی جانے والی جنگ میں وہ کافروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو؟ جس شخص کا یہ حال اور معاملہ ہوگا وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کا حمایتی نہیں ہوسکتا بلکہ ایسا شخص تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور اہل ایمان کے دشمنوں میں سے بدترین اور خطرناک ترین دشمن ہوگا اور اللہ رب العزت کا انکار کرنے والا ہوگا۔ دنیا کی زندگی میں بھی اور قیامت کے روز بھی وہ سزا کا مستحق قرار پائے گا وہ شخص شیطان کا دوست اور شیطان کی پارٹی کا کارکن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور اس کے دین کے ساتھ دوستی کا ذرا برابرجذبہ بھی اُس کے دل میں موجود نہیں ہوگا۔


امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں دوستی اور دشمنی کی حقیقت:

یہی تو وجہ ہے کہ الولایۃ اور العداوۃ (یعنی دوستی اور دشمنی) کی تشریح کرتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’اَلْوَلَایَۃُ ضِدُّ الْعَدَاوَۃِ وَ أَصْلُ الْوَلَایَۃِ الْمُحَبَّۃُ وَالْقُرْبُ ، وَ أَصْلُ الْعَدَاوَۃِ الْبُغْضَ وَالْبُعْدُ ۔ وَالْوَلِیُّ الْقَرِیْبُ ۔ یُقَالُ: ھَذَا یَلِیْ ھَذَا أَیْ یَقْرِبُ ھٰذَا۔ فَاِذَا کَانَ وَلِیُّ اللہِ ھُوَالْمُوَافِقُ الْمُتَابِعُ لَہُ فِیْمَا یُحِبُّہُ وَ یَرْضَاہ، وَ یُبْغِضُہ، وَیَسْخَطُہٗ وَیأْمُرُ بِہٖ وَ یَنْھٰی عَنْہُ ، کَانَ الْمُعَادِی لِوَلِیِّہٖ مُعَادِیًا لَہٗ ، قَالَ تَعَالٰی ﴿یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ﴾﴿الممتحنۃ:1:60﴾ وَقَالَ تَعَالٰی اَیْضًا : ﴿یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْآ اٰبَآءَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ﴾ )التوبۃ= (23:9

’’اَلوَلَایَۃُ‘‘(یعنی دوستی) ’’العَدَاوَۃُ‘‘ (یعنی دشمنی) کا متضاد ہے۔ اَلوَلَایَۃُ کا اصل معنی ’’محبت اور قربت ‘‘ ہے۔ اس کے برعکس العداوۃ کا اصل معنی ’’نفرت اور دوری‘‘ ہے۔ الوَلِیُّ کا معنی القریب (یعنی قریبی) ہے۔ عربی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ’’ھٰذَا یَلِی ھٰذَا‘‘ اس عبارت کا مطلب ہے کہ یہ چیز اس چیز کے بالکل قریب ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کا ولی(دوست اور حمایتی) وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی موافقت کرتا ہے اور اس کے احکامات کی پیروی کرتا ہے ۔جس سے اللہ کو محبت ہو وہ اس سے محبت کرتا ہے اور وہ اس کو پسند کرتا ہے۔ جس سے اللہ کو نفرت ہو وہ اس سے نفرت کرتا ہے ،جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو وہ اس سے ناراض ہوتا ہے،جس چیز کا اللہ حکم دیتا ہے وہ بھی اس کا حکم دیتا ہے اور جس سے اللہ منع کرے وہ بھی اس سے (لوگوں کو) منع کرتا ہے وہ شخص جو اللہ سے دشمنی کرنے والا ہوگا وہ اللہ کے ولی کا بھی دشمن ہوگا۔ اس لیے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ تم تو اُن کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔ اور وہ اس (دین) حق کا انکار کرتے ہیں جو تمہارے پاس آچکا ہے۔‘‘

ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْآ اٰبَآءَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ
’’اے ایمان والو! اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان کی نسبت زیادہ پسند کریں۔‘‘


شیخ محمد نعیم یاسین کے ہاں دوستی اور دشمنی کی حقیقت:

’’اِعْلَمْ أَنَّ الْوَلَایَۃَ مُشْتَقُ مِنَ الْوَلَاءِ وَ ھُوَ الدُّنُوُّ وَالقَرْبُ ، وَ الْوَلَایَۃَُ ضِدُّ الْعَدَوَاۃِ ، وَالْوَلِیُّ عَکْسَ الْعَدُوِِّ وَالْمُؤْمِنُونَ أَوْلِیَاءُ الرَّحْمٰنِ ، وَالْکَافِرُوْنَ أَوْلِیَاءُ الطَّاغُوْتِ وَالشَّیْطَانَ وَ مِنْ ھَذَا یَتَبَیَّنُ أَنَّ مُوَالَاۃَ الْکُفَّارِ یَعْنِی التَّقَّرُّبَ اِلَیْھِمْ وَ اِظھَارَ الْوُدِّ لَھُمْ بِالْأَقوَالِ وَ الأَفْعَالِ وَلنَّوَایَا.اِلٰی أَنْ قَالَ: وَیَدْخُلَ فِیْہِ مُعَاوَنَتُھُمْ وَالتَّآمُّرُ وَالتَّخْطِیْطُ مَعَھُمْ وَ تَنْفِیذُ مُخَطَّطَاتِھِمْ وَالدُّخُولُ فِی تَنْظِیْمَاتِھِمْ وَأَحْلَافِھِمْ وَالتَّجَسُّسُ مِنْ أَجْلِھِمْ وَنَقْلِ عَورَاتِ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَسْرَارِ الأُمَّۃِ اِلَیْھِمْ وَالْقِتَالُ فِیْ صَفِّھِمْ
(الایمان لمحمد نعیم بن یاسین :111)

’’خوب جان لیجیے ! بلاشبہ لفظ ’’الْوَلَایَۃُ‘‘، ’’الوَلاء‘‘سے مشتق (نکلا ہوا) ہے۔ الوَلاء کا معنی ’’نزدیکی اور قربت‘‘ ہے۔ یہ بھی جان لیجیے کہ لفظ ’’الْوَلَایَۃ‘‘ لفظ ’’العَدَاوَۃُ‘‘ کا متضاد ہے (opposite) اسی طرح لفظ اَلْوَلِیّ لفظ ’’العَدَاوَۃُ‘‘ کا متضاد اور برعکس ہے۔ اہل ایمان رحمن کے دوست اور قریبی ہیں۔ جبکہ اہل کفر طاغوت اور شیطان کے دوست اور قریبی ہیں۔ اس وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مَوَالَاۃُ الْکُفَّار (یعنی کافروں سے دوستی) کا مطلب یہ ہے کہ :

  • کافروں کی قربت اورنزدیکی حاصل کی جائے۔

کافروں کے لیے محبت کا اظہار کیا جائے وہ اظہار خواہ گفتار واقوال سے ہو،خواہ کردار واعمال سے ہو ، خواہ نیت وعزائم سے ہو۔‘‘

فضیلۃ الشیخ محمد نعیم یاسین صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ مَوَالَاۃُ الْکُفَّار‘‘ میں یہ چیزیں بھی شامل وداخل ہیں :

  • کافروں کی معاونت کرنا ۔
  • کافروں کے احکامات کی بے چون وچرا بجاآوری کرنا۔
  • کافروں کے ساتھ مل کر حکمتِ عملی طے کرنا اور منصوبہ بندی کرنا۔
  • کافروں کے منصوبوں اور پروگراموں میں شامل ہونا۔
  • کافروں کے ساتھ باہمی معاہدوں میں شمولیت اختیار کرنا۔
  • کافروں کی خاطر جاسوسی اور(مختلف افراد وشخصیات کی) تلاشی میں حصہ لینا۔
  • مسلمانوں کے درپردہ معاملات ان کے سپرد کردینا۔
  • مسلمانوں کے خفیہ جنگی راز اورمعلومات کافروں کو فراہم کرنا اور
  • کافروں کے اتحاد میں شامل ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شمولیت اور شرکت اختیار کرنا ‘‘(یہ تمام چیزیں اور شقیں کافروں سے دوستی کی مدد میں آتی ہیں۔)

لفظ المُوالَاۃِ اور التَّوَلِّی میں ایک دقیق فرق:

یہاں ایک بڑا لطیف علمی نکتہ بھی سمجھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں دوستی کے لیے ایک لفظ ’’المُوَالَاۃ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور ایک لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘مستمعل ہے۔ لفظ الموالاۃ تو قربت، نزدیکی، پیروی، مدد، تعاون، محبت، دوستی اور غلامی وغیرہ کے معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ بطور خاص صرف اور صرف دومعانی "پیروی" اور "نصرت" کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

یہی وہ معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں وارد ہوا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے بارے میں فرمایا :

﴿كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ﴾ (الحج:4)

’’اس (شیطان) پر (اللہ کا فیصلہ) لکھ دیا گیا ہے کہ جو کوئی اس کی پیروی کرے گا وہ اسے گمراہ کردے گا اوراسے آگ ک عذاب کی طرف لے جائے گا‘‘


مذکورہ آیت کریمہ میں (مَنْ تَوَلَّاہُ) کا معنی یہ ہے کہ ’’جو اس کی پیروی کرے گا‘‘ لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ کا دوسرا مخصوص معنی ’’مدد ونصرت ‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے فرمان میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾(الممتحنۃ9:)

’’اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی (مدد وتعاون) سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی جو لوگ اس قسم کے کافروں کی مدد ونصرت کریں گے وہ (پکے ٹھکے) ظالم لوگ ہوں گے‘‘


مذکورہ آیت کریمہ میں بھی ﴿أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ کا معنی یہ ہے کہ ’’تم ان کی مدد ونصرت کرواور جو شخص بھی ان کی مدد ونصرت کرے گا تویہی لوگ ظالم ہوں گے‘‘

اسی طرح قرآن مجید میں ایک مقام پر ’’التَّوَلِّی‘‘ مددونصرت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اﷲُ عَلَیْہِمْ . . . . ﴾ )الممتحنۃ=13: (60

’’(اے مسلمانو!)ایسی قوم کی مدد ونصرت نہ کرو جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے. . . .‘‘


مذکورہ آیت کریمہ میں (لاَ تَتَوَلَّوْا) کا معنی ہے کہ تم دوستی نہ کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور فرقان حمید میں اپنا ایک خصوصی وصف بیان کیا ہے کہ میں مومنوں کا حامی ومددگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اللہُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (البقرہ257:)

’’ایمان لانے والوں کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف خود لے جاتا ہے اور کافروں کے مددگار شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے ‘‘


مذکورہ آیت میں بھی ﴿اللہُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کا معنی ہے کہ’’اللہ تعالیٰ خود مددگار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے ہیں۔‘‘ لہٰذا اس آیت میں’’وَلِیُّ‘‘ کا معنی مددگار ہے۔ اس طرح مذکورہ آیت میں ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ﴾ کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کا معنی ہے ’’وہ لوگ جو کافر ہیں ان کے مددگار طاغوت ہیں۔‘‘ اس آیت میں اولیاء کا معنی (زیادہ تعداد میں) مددگار‘‘ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس۔


اللہ تعالیٰ کے کلام پاک قرآن مجید میں ایک اور مقام پر بھی یہ لفظ مددگار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿فَإِنَّ اللہَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ﴾ (التحریم:4)

’’یقینا اس (رسول اللہﷺ) کا مددگار اور کارساز تو اللہ تعالیٰ ہے، جبریل علیہ السلام ہے اور نیک اہل ایمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں‘‘


مذکورہ آیت میں لفظ ’’مَولَاہُ‘‘ کا معنی ’’اس کا مددگار ‘‘ ہے۔

نیز قرآن مجید کے ایک اور مقام پربھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں بھی یہ مددگار کے معنی میں ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اﷲَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لاَ مَوْلٰی لَہُمْ﴾ )سورۂ محمد(4:

’’(اللہ تعالیٰ نے کافروں کو سزائیں دیں) اس لیے کہ ایمان والوں کا مددگار اور کارساز خود اللہ تعالیٰ ہے اورکافروں کا کوئی بھی مددگارنہیں ہے‘‘


مذکورہ آیت کریمہ میں بھی لفظ ’’مَولیٰ‘‘ دو دفعہ استعمال ہوا ہے ۔ دونوں جگہ اس کا معنی ومددگار اور کارساز ہے ۔

یہ چند آیات بطور مثال ذکر کی گئی ہیں ان کے علاوہ جہاں جہاں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے اکثر وبیشتر اِسی معنی میں ہے ۔

مذکورہ بالا ساری گفتگو کا لب ولباب یہ ہے کہ لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ لفظ ’’المُوَالَاۃ‘‘ سے زیادہ خصوصیت کا حامل ہے۔ ’’التَّوَلِّی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’عَلَی الاِطلَاق‘‘ (غیر مشروط طور پر) پیروی اور فرمانبرداری کرتے جانا اورپوری پوری مدد ونصرت کرنا۔‘‘مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوا کہ التَّوَلِّی اورالمُوَالَاۃ کے درمیان عموم اور خصوص کی نسبت ہے ۔

’’دو چیزوں کے درمیان عموم اور خصوص کی نسبت ‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز عام ہوتی ہے دوسری چیز اس عام میں سے ہی ہوتی ہے مگر وہ ایک خاص معنی ومفہوم اورمقام ومرتبہ رکھتی ہے۔ مثلاً نبوت عام ہے اور رسالت خاص ہے۔ ان کے درمیان بھی گویا عموم اور خصوص کی نسبت ہے۔ہر نبی، رسول نہیں ہوتا مگر ہر رسول، نبی ضرور ہوتا ہے۔ اسکی عام فہم یہ مثال بھی بن سکتی ہے کہ پاکستانی ہونا ایک عام نسبت ہے۔ مگر پاکستان کے چار صوبوں میں سے ایک صوبہ، پنجاب کی طرف نسبت کرکے پنجابی ہونا ایک خاص نسبت ہے۔ ہر پاکستانی پنجابی نہیں ہوتا مگر ہر پنجابی پاکستانی ضرور ہوتا ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس المُوَالَاۃ ایک وسیع معنی کا حامل لفظ ہے اور التَّوَلِّی اس عام معنی میں سے ہی ایک مخصوص معنی رکھتاہے۔ لہٰذا المُوَالَاۃ میں’’التَّوَلِّی‘‘ کا معنی موجود ہے۔ لیکن ’’التَّوَلِّی‘‘ میں المُوَالَاۃ کا سارا مفہوم اور معنی موجود نہیں۔ اس لیے ان دونوں میں بھی عموم وخصوص کی نسبت ہے۔

شیخ عبد اللہ بن عبداللطیف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’التَّوَلِّی‘‘ اور’’المُوَالَاۃ‘‘ کے مابین بیان کیے گئے اِسی فرق کو ہی ملحوظ رکھتے ہوئے الشیخ عبداللہ بن عبداللطیف رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :

’’التَّوَلِّی کُفْرٌ یُخرِجُ مِنَ المِلَّۃِ وَ ھُوَ کَالذَّبِّ عَنْھُمْ وَ اِعَانَتِھِمْ بِالْمَالِ وَالْبَدْنِ وَالرَّأْیِ ۔ وَالمُوَالَاۃُ کَبِیْرَۃٌ مِنَ الْکَبَائِرِ۔ کَبَلَّ الدَّوَاۃِ وَ بَرِیِ الْقَلَمِ وَالتَّبَشُّشِ أَوْ رَفْعِ السَّوْطِ لَھُم۔‘‘
(الدررالسنیۃ:201/7)
’’کافروں کے ساتھ التولی والا تعلق واضح کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔ مثلاً کافروں کا بھرپور دفاع کرنا۔ نیز دامے، درہمے، سخنے اور قدمے ان کا پورا تعاون کرنا۔ جبکہ کافروں سے المُوَالَاۃ جیسا دوستانہ تعلق اگرچہ ملتِ اسلامیہ سے نکالنے والا کفر نہیں مگر وہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘مثلاً

  • کافروں کی خاطر اپنے قلم وقرطاس کو حرکت میں لانا اور ان کی پالیسیوں کی حمایت میں مضامین (Articles) تحریرکرنا۔
  • کافروں کو خوش کرنے کے لیے ان کی خاطر بچھ بچھ جانا اور صدقے واری جانا۔
  • مسلمانوں کے خلاف پولیس وفوج کو حرکت میں لے آنا اور گولی وبندوق کا رخ مسلمانوں کی طرف کردینا۔ یہ سب اعمال کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔‘‘
 
Top