عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
موجودہ حالات میں عید کی نمازقدیم وجدید ائمہ وعلماء کے اقوال کی روشنی میں
تحریر: عبدالعلیم بن عبد الحفیظ سلفی /سعودی عرب
موجودہ حالات میں کرونا جیسی وبائی مرض کی نوعیت اور خطرناکی کے مدنظر جہاں دنیاکے اکثر ممالک میں عام اجتماع کی جگہوں کو بند کردیاگیاہے، وہی مساجد اور عیدگاہیں بھی اس کی زد میں ہیں ۔ عام جمعہ وجماعت کے لئے شریعت کی رہنمائی موجود ہے جماعت کی نمازیں گھر میں اور جمعہ کے بدلے ظہر کی نمازیں اداکرنے کے نصوص اور فتاوے موجود ہیں ۔ ان حالات میں عید کی نماز بھی لوگوں کے درمیان موضوع بحث بنی ہوئی ہے ، چونکہ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ ایسی حالات میں عید کی ادائیگی کے لئے لوگوں کو عیدگاہ یا مسجد میں جانے دیاجائےگا، اس لئے ایسی صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ؟ عید کی نماز گھر پہ ادا کرنی چاہئے یا اگر ادا کرنی پڑے تو اس کی کیا صورت ہوگی ؟ ۔ ہم اس کی وضاحت اپنی اس مختصرسی تحریر میں کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے سامنے مسئلے کی صحیح وضاحت ہوسکے ، اور بدلے حالات میں ہماری عبادتیں قرآن وسنت کے مطابق انجام پاسکیں ۔اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ۔آمین۔اس سلسلے میں بنیادی مسئلہ عید کی نماز کا حکم ہے ، کیونکہ اگر حکم کی تعیین ہوجاتی ہے تو مسئلہ کی وضاحت میں بھی آسانی ہوتی ہے ۔
نماز عیدین کاحکم : عید کی نماز کا حکم کیاہے اس بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں
1 – واجب عین ہے : یہ احناف کا قول ہے ( دیکھئے : المبسوط :2/37 ، وبدائع الصنائع :1/274 ، وتحفة الفقهاء :1/275,تبيين الحقائق للزيلعي مع حاشية الشلبي :1/223 ، حاشية ابن عابدين: 2/166,6/337)۔
مالکیہ میں سے ابن حبیب کا بھی یہی قول ہے ۔( مواهب الجليل للحطَّاب :2/568)
امام احمد سے بھی ایک قول یہی مروی ہے : (مجموع الفتاوى لابن تيمية :23/161 ، الإنصاف للمرداوي :2/294) ۔
اسی قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابن القیم ، شوکانی اور عصر حاضرمیں ابن سعدی اور ابن العثیمین ، علامہ ابن باز اور شیخ الحدیث مبارکپوری وغیرہم نے بھی اختیارکیاہے ۔ دیکھئے : مجموع الفتاوى لابن تيمية:23/161، 162,سبل السلام: 2/66، 67, السيل الجرار /ص: 192, مجموع فتاوى ابن باز:13/7 ,مجموع فتاوى ابن عثيمين:16/223)۔
وجوب کی وجہ :
* - اللہ رب العزت کا فرمان :( فصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر) (اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے (الكوثر:2) یہاں پر نماز کے لئے امرکا صیغہ آیاہے جو وجوب پر دلالت کرتاہے۔( دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ :2/272)۔
* - نیز وجوب کی وجہ وہ روایتیں ہیں جن میں اہل اسلام کو عمومی طور پر عیدکے لئے نکلنے کا حکم دیاگیاہے ، یہاں تک کہ عورتوں کو بھی اس سلسلےمیں تاکید کی گئی ہے،اگر وہ ایام حیض سے بھی گذررہی ہوں تو بھی نکلنے کاحکم ہے ،ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"أَمرَنا- تعني النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم- أنْ نُخرِجَ في العيدينِ، العواتقَ ، وذواتِ الخدور, وأمَرَ الحُيَّضَ أن يعتزِلْنَ مُصلَّى المسلمينِ" "ہمیں ( اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے) حکم دیا کہ ہم بالغہ اور کنواری لڑکیوں کوعیدین میں لے کر جائیں ، اور حکم دیاکہ حیض والی عورتیں مسلمانوں کی نمازکی جگہ سے الگ رہیں"۔
اور ایک روایت میں ہے : "كنَّا نُؤمَر أن نَخرُجَ يوم العيدِ، حتى تَخرُجَ البكرُ من خِدرهِا، وحتى يَخرجَ الحُيَّضُ فيكُنَّ خلفَ الناس، فيُكبِّرْنَ بتكبيرِهم، ويَدْعونَ بدعائِهم؛ يرجونَ بركةَ ذلك اليومِ وطُهرتَه" (صحیح بخاری/971 ، صحیح مسلم/890)۔ "( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ) ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ یہاں تک کہ کنواری لڑکیاں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں ، اوریہاں تک کہ حائضہ عورتیں بھی نکلتیں ۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں"۔