اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
(1)
۱)مکمل طور پر احادیث کا انکار کرنے والے۔
۲) ان احادیث کا انکار جو بظاہر قرآن مجید سے ٹکراتی ہیں ۔
۳)ان احادیث کا انکار جو (Common sense)یعنی عام عقل کے خلاف ہوں ۔
یہ تینوں اقسام قرآن مجید کی رو سے گمراہ ہیں اور قرآن مجید ان تینوں کا ردکرتا ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید ہر صحیح حدیث پر ایمان لانے کا حکم صادر فرماتا ہے ۔
(2)نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں مجموعی طور پر تین طریقوں سے احادیث کی حفاظت کا
دارومدار تھا :
۱)حفظ کے ذریعے (Memorization of knowledge )
۲)احادیث پر فوری طور پر عمل یعنی (Practice)کرکے ۔
۳)احادیث کو قلمبند کرکے یعنی احادیث کو لکھا گیا ۔
اب ہم یہاں تینوں نکتوں پر غور گفتگو کریں گے :
نبی کریم ﷺکے وقت میں تقریباً چالیس (40)کے قریب صحابہ کرام ؓ تھے جو کتابت حدیث میں مصروف تھے ۔ ان علاوہ کئی صحابہ کرام ؓ احادیث کو حفظ کرنے پر معمور تھے جن میں سر فہرست سیدنا ابو ہریرہؓ ہیں ۔ بقول امام ذھبی ؒ کے اور دیگر محدثین ؒ کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ ؓ کو (5374)پانچ ہزارتین سو چوہتر احادیث حفظ تھیں ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کرام ؓ تھے جن کو احادیث حفظ تھیں ۔ حفاظ کرام اور کاتبین وحی کے نام یہ ہیں :
علی بن ابی طالب و عثمان بن عفان ،وابو بکرالصدیق ، وعمر بن خطاب ، و خالد بن سعید بن العاص ، وعامر بن فھیرۃ، والأرقم بن أبی الأرقم ، وابوسلمۃ عبداللہ بن عبدلأسد المخزومی،و جعفر بن ابی طالب، وحاطب بن عمرو، والزبیر بن العوام ، وطلحۃ بن عبیداللہ، وعبداللہ بن ابی بکر ، أبو أیوب الأنصاری، خالد بن زید ، وأبی بن کعب ،وزید بن ثابت ، وعبداللہ بن رواحۃ ، ومعاذ بن جبل، ومعیقیب بن أبی فاطمۃ الدوسی ۔
یہ 20حفاظ کرام اور کاتبین وحی کے نام ہیں تقریباً 40کے قریب حفاظ کرام اور کاتبین وحی تھے جن میں سے 20 کا ذکر ہم نے یہاں کیا ہے ۔
اس کے علاوہ احادیث لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور اس کی حفاظت کے لئے ایسے بلند معیار کا انتخاب کیا گیا کہ ضعیف حدیث صحیح حدیث سے الگ ہوگئی ۔ ایک صحیح حدیث تقریبا ساتھ معیارات سے گزرنے کے بعد اس کو صحیح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔فن اسماء الرجال یہ ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے احادیث کے راویوں کے حالات قلمبند کئے گئے ۔ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات اس بات کی شاھد ہیں کہ جس طرح قرآن مجید سے شریعت ثابت ہوتی ہے بعین اسی طرح صحیح احادیث سے بھی شریعت کے احکامات ثابت ہوتے ہیں ۔مثلا:
1
ان تمام آیات سے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ثابت ہوتی ہے جو ایک مستقل اور غیر مشروط اطاعت ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی احادیث کی حفاظت کئی طریقوں سے ہوئی خصوصاً علم اسماء الرجال رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ سے ہی شروع ہوگیا تھا چناچہ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اور امی عائشہ ؓ انساب کے ماہر تھے انساب کی مہارت بھی ایک بڑا فن ہے جس کا تعلق علم اسماء الرجال سے ہی ہے ۔صحابہ کرام ؓ میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ، عمر فاروق ؓ ، عبداللہ بن مسعود ؓ،عبداللہ بن عباس ؓ، عبداللہ بن عمرو ؓ،عبداللہ بن عمرؓ،ابو سعید خدری، جابر بن عبداللہ ؓ، اور انس بن مالکؓ یہ وہ صحابہ ہیں جو صف اول کے رجال الحدیث ہیں ۔
تابعین میں سعید بن جبیر (م ۹۵ھ) ابراہیم نخی (م۹۵ھ)عامر الشعبی (م۱۰۳ھ)امام طاؤس (م ۱۰۵ھ) حسن بصری(م۱۱۰ھ)نے رجال پر کام کیا ۔اسی طرح ایوب سختیانی (م۱۳۱ھ) عبداللہ بن عون (م۱۵۱ھ)سلیمان یتمی (م۱۴۳ھ)شعبۃ بن حجاج (م۱۶۰ھ) سفیان الثوری (م۱۶۱ھ) مالک بن انس (م ۱۷۹ھ) اوزاعی (م ۱۵۷ھ) عبداللہ بن مبارک (م۱۸۱ھ) یحیی بن سعید القطان (م۱۴۳ھ) وکیع بن الجراح(م۱۹۷ھ) اور عبدالرحمن بن المھدی (م۱۹۸ھ) جیسے اہل علم نے بھی رجال پر کلام کیا ہے ۔
تیسری صدی ہجری میں علی بن مدینی (م ۲۳۴ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ ، امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ) کتاب العلل ومعرفۃ الرجال میں، امام بخاری (م ۲۵۶ھ) نے تاریخ الکبیر ، تاریخ الاوسط میں امام مسلم (م ۲۶۱ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم ‘‘ میں امام ترمذی (م۲۷۹ھ) نے ’’کتاب العلل ‘‘ میں رجال پر کام کیا ہے۔
چوتھی صدی ہجری میں اس فن پر کام کرنے والے درج ذیل حضرات ہیں ۔امام نسائی (م۳۰۳ھ) نے’’کتاب الضعفاء والمتروکین ‘‘ اور محمد بن احمد بن حما د الدولابی (م۳۱۰ھ) نے ’’کتاب الاسماء والکنٰی ‘‘تصنیف کی اس کتاب میں راویان حدیث کے ناموں اور کنیتوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (م۳۶۸ھ) ’’کتاب الجرح والتعدیل ‘ ‘ کے مصنف ہیں اس جا مقدمہ قابل دید ہے ۔ اس کے علاوہ ’’کتاب الکنٰی ‘‘ اور’’ کتاب المراسیل ‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں ۔ امام محمد بن حبان بستی (م۳۵۴ھ) نے ’’کتاب الثقات‘‘ اور ’’کتا ب المجروحین ‘‘لکھی ہیں ۔ ابو احمد علی بن عدی بن علی قطان (م ۳۶۵ھ) نے فن اسماء الرجال پر ’’الکامل فی ضعفاء الرجال ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ۔ دارقطنی (م۳۸۵ھ) نے اپنی ’’کتاب العلل ‘‘ میں رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں امام دارقطنی نے ’’کتاب الضعفاء ‘‘تالیف کی جو شائع ہوچکی ہے ۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’المؤتلف والمختلف ‘‘ بھی طبع ہوچکی ہے ۔
پانچویں صدی ہجری میں ابو یوسف بن عمر بن عبدالبر (م۴۶۳ھ)اور خطیب بغدادی (م۴۶۳ھ) نے بھی اسماء الرجال پر بہت کام کیا ۔
چھٹی صدی ہجری کے مؤلفین رجال میں سے امام بیہقی (م۵۵۸ھ) امام ابن جوزی (م۵۹۷ھ) ہیں ۔ ان کے علاوہ معروف محدث عبدالغنی مقدسی (م۶۰۰ھ) ے ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ لکھی ۔
ساتویں صدی ہجری میں امام نووی (۶۷۶ھ) نے اس فن پر گراں قدرکام کیا ہے ان کی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات ‘‘ بہت معروف ہے ۔
آٹھویں صدی ہجری میں حافظ یوسف بن ذکی مزی (م۷۴۲ھ) حافظ ذھبی (م۷۴۸ھ) نے ’’تاریخ الاسلام ‘‘سیر اعلام النبلاء ‘‘ تذکرۃ الحفاظ‘‘ اور ابو الفداء عماد الدین ابن کثیر (م۷۷۴ھ) نے ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں رجال پر کام کیا ۔
نویں صدی ہجری میں حافظ ابن حجر (م۸۵۲ھ) نے اس فن پر گراں قدرکام کیا ۔ان کی کتب میں الاصابہ فی تمیز الصحابہ ‘‘ تہذیب التہذیب ‘‘تقریب التہذیب ‘‘لسان المیزان ‘‘ بہت معروف ہیں تقی الدین بن فہد (م۸۷۱ھ) نے بھی اس فن پر کام کیا ۔
دسویں صدی ہجری میں شمس الدین سخاوی (م۹۰۲ھ) اور امام سیوطی (م۹۱۱ھ) نے بھی اس فن پر کام کیا ۔
گیارہوں صدی ہجری میں رجال کے متعلق محمد المحبی نے ’’خلاصہ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر ‘‘ لکھی ۔
بارہویں صدی ہجری میں اسما ء الرجال کے متعلق ابوالفضل محمد خلیل بن علی المرادی (م۱۲۰۶ھ) نے ’’سلک الدرد فی اعیان القرن الثانی عشر ‘‘لکھی۔
الحمد للہ فن رجال پر بے انتہاکام ہوا حتٰی کہ ہزاروں کی تعداد میں اس فن کے ذریعے رجال کی حالات زندگی کو محفوظ کیا گیا ۔(دیکھئے :علوم الحدیث 196تا 198)
موجودہ دور میں منکرین حدیث کی تین اقسام ہیں
:۱)مکمل طور پر احادیث کا انکار کرنے والے۔
۲) ان احادیث کا انکار جو بظاہر قرآن مجید سے ٹکراتی ہیں ۔
۳)ان احادیث کا انکار جو (Common sense)یعنی عام عقل کے خلاف ہوں ۔
یہ تینوں اقسام قرآن مجید کی رو سے گمراہ ہیں اور قرآن مجید ان تینوں کا ردکرتا ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید ہر صحیح حدیث پر ایمان لانے کا حکم صادر فرماتا ہے ۔
(2)نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں مجموعی طور پر تین طریقوں سے احادیث کی حفاظت کا
دارومدار تھا :
۱)حفظ کے ذریعے (Memorization of knowledge )
۲)احادیث پر فوری طور پر عمل یعنی (Practice)کرکے ۔
۳)احادیث کو قلمبند کرکے یعنی احادیث کو لکھا گیا ۔
اب ہم یہاں تینوں نکتوں پر غور گفتگو کریں گے :
نبی کریم ﷺکے وقت میں تقریباً چالیس (40)کے قریب صحابہ کرام ؓ تھے جو کتابت حدیث میں مصروف تھے ۔ ان علاوہ کئی صحابہ کرام ؓ احادیث کو حفظ کرنے پر معمور تھے جن میں سر فہرست سیدنا ابو ہریرہؓ ہیں ۔ بقول امام ذھبی ؒ کے اور دیگر محدثین ؒ کے مطابق سیدنا ابو ہریرہ ؓ کو (5374)پانچ ہزارتین سو چوہتر احادیث حفظ تھیں ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کرام ؓ تھے جن کو احادیث حفظ تھیں ۔ حفاظ کرام اور کاتبین وحی کے نام یہ ہیں :
علی بن ابی طالب و عثمان بن عفان ،وابو بکرالصدیق ، وعمر بن خطاب ، و خالد بن سعید بن العاص ، وعامر بن فھیرۃ، والأرقم بن أبی الأرقم ، وابوسلمۃ عبداللہ بن عبدلأسد المخزومی،و جعفر بن ابی طالب، وحاطب بن عمرو، والزبیر بن العوام ، وطلحۃ بن عبیداللہ، وعبداللہ بن ابی بکر ، أبو أیوب الأنصاری، خالد بن زید ، وأبی بن کعب ،وزید بن ثابت ، وعبداللہ بن رواحۃ ، ومعاذ بن جبل، ومعیقیب بن أبی فاطمۃ الدوسی ۔
یہ 20حفاظ کرام اور کاتبین وحی کے نام ہیں تقریباً 40کے قریب حفاظ کرام اور کاتبین وحی تھے جن میں سے 20 کا ذکر ہم نے یہاں کیا ہے ۔
اس کے علاوہ احادیث لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور اس کی حفاظت کے لئے ایسے بلند معیار کا انتخاب کیا گیا کہ ضعیف حدیث صحیح حدیث سے الگ ہوگئی ۔ ایک صحیح حدیث تقریبا ساتھ معیارات سے گزرنے کے بعد اس کو صحیح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔فن اسماء الرجال یہ ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے احادیث کے راویوں کے حالات قلمبند کئے گئے ۔ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات اس بات کی شاھد ہیں کہ جس طرح قرآن مجید سے شریعت ثابت ہوتی ہے بعین اسی طرح صحیح احادیث سے بھی شریعت کے احکامات ثابت ہوتے ہیں ۔مثلا:
1
ان تمام آیات سے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ثابت ہوتی ہے جو ایک مستقل اور غیر مشروط اطاعت ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی احادیث کی حفاظت کئی طریقوں سے ہوئی خصوصاً علم اسماء الرجال رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ سے ہی شروع ہوگیا تھا چناچہ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اور امی عائشہ ؓ انساب کے ماہر تھے انساب کی مہارت بھی ایک بڑا فن ہے جس کا تعلق علم اسماء الرجال سے ہی ہے ۔صحابہ کرام ؓ میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ، عمر فاروق ؓ ، عبداللہ بن مسعود ؓ،عبداللہ بن عباس ؓ، عبداللہ بن عمرو ؓ،عبداللہ بن عمرؓ،ابو سعید خدری، جابر بن عبداللہ ؓ، اور انس بن مالکؓ یہ وہ صحابہ ہیں جو صف اول کے رجال الحدیث ہیں ۔
تابعین میں سعید بن جبیر (م ۹۵ھ) ابراہیم نخی (م۹۵ھ)عامر الشعبی (م۱۰۳ھ)امام طاؤس (م ۱۰۵ھ) حسن بصری(م۱۱۰ھ)نے رجال پر کام کیا ۔اسی طرح ایوب سختیانی (م۱۳۱ھ) عبداللہ بن عون (م۱۵۱ھ)سلیمان یتمی (م۱۴۳ھ)شعبۃ بن حجاج (م۱۶۰ھ) سفیان الثوری (م۱۶۱ھ) مالک بن انس (م ۱۷۹ھ) اوزاعی (م ۱۵۷ھ) عبداللہ بن مبارک (م۱۸۱ھ) یحیی بن سعید القطان (م۱۴۳ھ) وکیع بن الجراح(م۱۹۷ھ) اور عبدالرحمن بن المھدی (م۱۹۸ھ) جیسے اہل علم نے بھی رجال پر کلام کیا ہے ۔
تیسری صدی ہجری میں علی بن مدینی (م ۲۳۴ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ ، امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ) کتاب العلل ومعرفۃ الرجال میں، امام بخاری (م ۲۵۶ھ) نے تاریخ الکبیر ، تاریخ الاوسط میں امام مسلم (م ۲۶۱ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم ‘‘ میں امام ترمذی (م۲۷۹ھ) نے ’’کتاب العلل ‘‘ میں رجال پر کام کیا ہے۔
چوتھی صدی ہجری میں اس فن پر کام کرنے والے درج ذیل حضرات ہیں ۔امام نسائی (م۳۰۳ھ) نے’’کتاب الضعفاء والمتروکین ‘‘ اور محمد بن احمد بن حما د الدولابی (م۳۱۰ھ) نے ’’کتاب الاسماء والکنٰی ‘‘تصنیف کی اس کتاب میں راویان حدیث کے ناموں اور کنیتوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (م۳۶۸ھ) ’’کتاب الجرح والتعدیل ‘ ‘ کے مصنف ہیں اس جا مقدمہ قابل دید ہے ۔ اس کے علاوہ ’’کتاب الکنٰی ‘‘ اور’’ کتاب المراسیل ‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں ۔ امام محمد بن حبان بستی (م۳۵۴ھ) نے ’’کتاب الثقات‘‘ اور ’’کتا ب المجروحین ‘‘لکھی ہیں ۔ ابو احمد علی بن عدی بن علی قطان (م ۳۶۵ھ) نے فن اسماء الرجال پر ’’الکامل فی ضعفاء الرجال ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ۔ دارقطنی (م۳۸۵ھ) نے اپنی ’’کتاب العلل ‘‘ میں رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں امام دارقطنی نے ’’کتاب الضعفاء ‘‘تالیف کی جو شائع ہوچکی ہے ۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’المؤتلف والمختلف ‘‘ بھی طبع ہوچکی ہے ۔
پانچویں صدی ہجری میں ابو یوسف بن عمر بن عبدالبر (م۴۶۳ھ)اور خطیب بغدادی (م۴۶۳ھ) نے بھی اسماء الرجال پر بہت کام کیا ۔
چھٹی صدی ہجری کے مؤلفین رجال میں سے امام بیہقی (م۵۵۸ھ) امام ابن جوزی (م۵۹۷ھ) ہیں ۔ ان کے علاوہ معروف محدث عبدالغنی مقدسی (م۶۰۰ھ) ے ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ لکھی ۔
ساتویں صدی ہجری میں امام نووی (۶۷۶ھ) نے اس فن پر گراں قدرکام کیا ہے ان کی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات ‘‘ بہت معروف ہے ۔
آٹھویں صدی ہجری میں حافظ یوسف بن ذکی مزی (م۷۴۲ھ) حافظ ذھبی (م۷۴۸ھ) نے ’’تاریخ الاسلام ‘‘سیر اعلام النبلاء ‘‘ تذکرۃ الحفاظ‘‘ اور ابو الفداء عماد الدین ابن کثیر (م۷۷۴ھ) نے ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں رجال پر کام کیا ۔
نویں صدی ہجری میں حافظ ابن حجر (م۸۵۲ھ) نے اس فن پر گراں قدرکام کیا ۔ان کی کتب میں الاصابہ فی تمیز الصحابہ ‘‘ تہذیب التہذیب ‘‘تقریب التہذیب ‘‘لسان المیزان ‘‘ بہت معروف ہیں تقی الدین بن فہد (م۸۷۱ھ) نے بھی اس فن پر کام کیا ۔
دسویں صدی ہجری میں شمس الدین سخاوی (م۹۰۲ھ) اور امام سیوطی (م۹۱۱ھ) نے بھی اس فن پر کام کیا ۔
گیارہوں صدی ہجری میں رجال کے متعلق محمد المحبی نے ’’خلاصہ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر ‘‘ لکھی ۔
بارہویں صدی ہجری میں اسما ء الرجال کے متعلق ابوالفضل محمد خلیل بن علی المرادی (م۱۲۰۶ھ) نے ’’سلک الدرد فی اعیان القرن الثانی عشر ‘‘لکھی۔
الحمد للہ فن رجال پر بے انتہاکام ہوا حتٰی کہ ہزاروں کی تعداد میں اس فن کے ذریعے رجال کی حالات زندگی کو محفوظ کیا گیا ۔(دیکھئے :علوم الحدیث 196تا 198)