• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موجودہ عالمی وبا کی صورت میں نماز باجماعت کے دوران مقتدیوں کا مناسب فاصلے کے ساتھ کھڑے ہونا

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تحریر :ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن
دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ راجووال
مؤرخہ :24،اپریل 2020
1.اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز باجماعت کے دوران صفوں کی درستی، باہمی اتصال، قدم بہ قدم ، شانہ بشانہ کھڑے ہونا مطلوب شرعی ہے. اس سے اتحاد ویگانگت، نظم وضبط، فرشتوں سے مشابہت اور دلوں کو قربت ملتی ہے. فاصلے رکھنا، ایک دوسرے سے دور کھڑے ہونا نہ صرف خلاف سنت ہے بلکہ شیطان کی رخنہ اندازی اور افتراق کا باعث ہے. اس پر بیسیوں احادیث مبارکہ شاہد عدل ہیں. نارمل حالات میں یہ سارے اہتمام اقامت صلاۃ کے حکم میں داخل ہیں.
2.اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ عام حالات اور عذر کے حالات میں احکام یکساں نہیں رہتے.
فی الحال ہم جب جسمانی فاصلے کی بات کرتے ہیں تو عمومی حکم کے طور پر نہیں، خوفِ مرض کی بنا پر کرتے ہیں، عام حالت اور حالت خوف میں فرق کی
سب سے قوی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ ہے،

﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ﴾ البقره، 239
پس اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ اور سوار( جیسے ممکن ہو نماز ادا کرو)
اصلا اس سے حالت جنگ مراد ہے، لیکن اس حالت کے لئے حرب اور قتال کی بجائے قرآن مجید نے لفظ خوف کا استعمال کیا ہے؟ حالانکہ جنگ کے لیے لفظ خوف عربوں میں مستعمل نہیں تھا، بعض مفسرین نے بجا طور پر لکھا ہے کہ لفظ خوف کے استعمال میں یہ حکمت ہے کہ ہر طرح کی حالت خوف اس میں داخل ہوجائے، چاہے وہ خوف ایک دشمن کا ہو درندے کا ہو، یا کسی اور چیز کا، اسی بنا پر فقہائے عظام نے درندوں، موذی جانوروں، اور زہریلی مخلوقات سے خوف کو بھی اس آیت مبارکہ کے عموم میں شامل کیا ہے.
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوف کی کیفیات کے مطابق نماز کی عمومی پابندیوں میں رب تعالی نے بہت نرمی رکھی ہے. حتی کہ شدید خوف میں صرف اشارے کے ساتھ، سواری پر بیٹھے، جدھر منہ ہو نماز کی اجازت دی ہے .
اس آیت مبارکہ کے تحت اگر کرونا وائرس سے خوف کی بنا پر نمازیوں کے درمیان مناسب فاصلہ کر لیا جائے، تو کوئی حرج نہیں اور خصوصاً اس صورت حال میں جبکہ حکومت ایسا نہ کرنے کی صورت مساجد کو سیل کرنے کا بھی کہ چکی ہے.
قرآن مجید یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اس طرح کی رخصت وقتی طور پر ہوتی ہے،؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی محولہ بالا آیت میں صراحت ہے

﴿ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَمَا عَلَّمَكُم﴾... الخ
پس جب تمہیں امن میسر آجائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے..
بعض ائمہ تفسیر کی تصریحات امام المفسرين طبری نے بھی خوف سے عمومی خوف مراد لیا ہے،
جنگجو دشمن، کسی ظالم، درندے، سیلاب اور حملہ آور اونٹ وغیرہ کا خوف،
امام ابن عطیہ، امام قرطبی کے نزدیک بھی خوف سے مراد ہر قسم کا خوف ہی ہے،
تفسیر سعدی، 1/106میں یوں مرقوم ہے

ﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﻣﺎ ﻳﺨﺎ ﻣﻨﻪ ﻟﻴﺸﻤﻞ اﻟﺨﻮ ﻣﻦ ﻛﺎﻓﺮ ﻇﺎﻟﻢ ﺳﺒﻊ، ﻏﻴﺮ ﻟﻚ ﻣﻦ ﻧﻮا اﻟﻤﺨﺎﻭﻑ،
مطلق خوف کا ذکر ہے، لیکن کس چیز کا خوف یہ مذکور نہیں ہے، تاکہ تمام قسم کے خطرات اس میں شامل ہو جائیں، چاہے کسی کافر کی طرف سے خطرہ ہو یا ظالم کا یا کسی درندے کا یا ان کے علاوہ کوئی بھی خوف ،
ایک اشکال اور اس کا ازالہ اس پر مفسرین کا تقریباً اتفاق ہے کہ تمام ایسے خطرات جن سے جان جانے کا امکان غالب ہو وہ سب اس آیت مبارکہ کے عموم میں داخل ہیں،
 
Last edited:

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائلنٹ کیریئر کا خوف اس نوعیت کا نہیں ہے،یہ بات بجا ہے کہ نہ یہ خوف اس درجے کا ہے اور نہ ہی اس میں رعایت اس درجہ کی ہے،قرآن مجید نے بھی خوف کی نوعیت کے حساب سے احکام بیان کیے ہیں، سنت رسول میں بھی خوف کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے صلاۃ الخوف کی مختلف صورتیں اختیار کی گئ ہیں چنانچہ کمتر خوف کے احکام اور ہیں جبکہ شدید خوف کے احکام اور طرح کے ہیں، جان کو خطرہ درپیش ہونے کی صورت میں، استقبال قبلہ، قیام، رکوع،سجود ،سب کے احکام عارضی طور پر معطل ہوجاتے ہیں، کرونا وائرس کی صورت میں صرف جسمانی رابطہ سے نقصان کا خطرہ ہے ، اس لیے باقی تمام احکام امن والے ہی ہوں گے، صرف مناسب فاصلے کی حد تک رعایت ہے. یہ چونکہ نیا پیش آمدہ مسئلہ ہے، اس لیے اس کی صراحت سلف کے ہاں نہیں ہے.البتہ کچھ نظائر سے استیناس لیا جاسکتا ہے
2. اس کی ایک فقہی نظیر یہ ہے کہ عام حالات میں ستونوں کے درمیان صف بندی ممنوع ہے، لیکن جس مسجد میں جگہ کی تنگی یا کوئی اور عذر ہو تو فقہاء نے ستونوں کے فاصلے کے باوجود صف بندی کی گنجائش رکھی ہے.
2.اس کی ایک اور فقہی نظیر حرمین شریفین میں متعدد مسائل میں کچھ نرمی ہے.کیونکہ زیادہ رش کی بنا پر وہاں یہ نرمی مجبوراً دی جاتی ہے، کبھی صفوں میں فاصلہ رہ جاتا ہے، کہیں درمیان میں ستون حائل ہوتے ہیں اور کبھی نمازیوں کے آگے سے گزرنا پڑتا ہے، یہ سب بھی مجبوری کی وجہ سے ہوتا ہے.
3. ہمارے نزدیک جن علمائےکرام نے یہ گنجائش دی ہے، انہوں نے شریعت کے عمومی قواعد ،
الضرورات تبیح المحظورات، اور فقہی قاعدہ "اھون البلیتیین وأخف الضررين" کو بھی سامنے رکھا ہے، ، صدر مملکت کے ساتھ میٹنگ میں حکومت اس پر بضد تھی کہ مساجد کی بندش ہو یا فاصلے کی احتیاطی تدبیر کے ساتھ نماز باجماعت کی اجازت ، دونوں آپشنز میں ہی قباحت ہےاور دینی نقصانات بھی تاہم مساجد کی مطلقا ویرانی زیادہ نقصان دہ ہے ،اور فاصلے کے ساتھ نماز باجماعت نقصان میں کم تر ہے، علماء نے دوسری آپشن کو اختیار کیا.ایسی جبری صورتوں میں شریعت کے قواعد کا بھی یہی تقاضا ہے کہ کم تر نقصان کو اضطرارا اختیار کیا جائے.
بہرحال میری طالب علمانہ رائے ہے کہ ہمارے مذہبی قائدین نے بڑی تگ وتاز کے ساتھ اللہ کے گھروں کو کھلا رکھنے کے لیے حکومت کو قائل کیا ہے،اس مسئلے میں اہل حدیث، دیوبند اور بریلوی مکتب فکر کے نامور علماء نے خصوصی کاوش کی ہے، دیندار ڈاکٹرز کا بھی بڑا کردار ہے، علماء کرام کے ساتھ مشاورت کے لئے صدر محترم کی مساعی قابل قدر ہیں. اس فیصلے سے سیکولر، لبرل، ایتھیسٹ اور دین بیزار طبقے چین بجبین ہیں.
ہمیں چاہیے کہ عذرِ خوف کی بنا پر اس فقہی قضیے میں سختی سے کام نہ لیں.، درج بالا دلائل، علماء کرام کے فیصلے، ماہرین طب وصحت کی تجاویز اور حکومتی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے جسمانی فاصلے کے ساتھ صف بندی کو برداشت کرلیں.

ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ أعلم
 
شمولیت
جون 09، 2014
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے، اس معاملے میں موجودہ حالات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، آیاں یہ سب کوئی حقیقت ہے یا یہودیوں کی بھیانک سازش.
باز اہل علم نے اس معاملے میں دو ٹوک جواب دیا ہے کہ یہ طریقہ باطل ہے.​
 
Top