• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موجودہ نظام تعلیم کی تباہ کاریاں اوران کا تدارک:(ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
(ظفراقبال ظفر)
موجودہ نظام تعلیم کی تباہ کاریاں اوران کا تدارک:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے جملہ پہلووں کی مکمل رہنمائی کرتاہے۔ یہی وجہ ہےکہ اسلام عالمگیر مذہب ہونے کا دعویدار ہے جو قیامت تک کے تمام پیش آمدہ مسائل کا بڑی فراست سے حل پیش کرتا ہے۔پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ریاست ہے جس کے حصول کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں قرآن و سنت کی خالصتا ترویج ہو اور ہر کسی کو مذہبی آزادی بھی حاصل ہو مسلمان آپنے مذہبی رسم و رواج پر پوری آزادی سےعمل کر سکیں اور اس ملک میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں کھلی آزادی ہو ۔مگر بد قسمتی سے پونی صدی کے قریب کا عرصہ گزرنے کو قرآن و سنت پر مبنی نظام تعلیم شرمندہ تعبیرہوکر رہ گیاہے۔ ان تمام مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ہمارے نظام تعلیم کی تباہ کاری ہے جس نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔جس نظام تعلیم نے ایک با صلاحیت اور با کردار ‘اچھے اخلاق کا حامل مربی اور معلم معاشرے کی اصلاح کے لیے پیدا کرنا تھاوہ نظام تعلیم انسانی وقار ‘ نظام اور اسلام کے تصوراخلاق‘ اسلام کے معاشرتی اقتدار کو تباہی کے دہانے پہ لے گیا ہے۔ والدین کی نظریں ہمیشہ انہیں تعلیمی اداروں کی طرف مبذول ہو تی ہیں جو ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاق وکردار سازی میں حد درجہ بہتری لاسکیں ۔جس سے ان کےبچے معاشرےکے اچھے شہری بن جائیں جس سے ان کا مستقبل ملک و ملت اور خاندانی وقار کے لیے روشن ہو۔مگر ان کے خوابوں کو کس طرح کرچی کرچی اور ان کےبچوں کے مستقبل کا کس طرح قتل کیا جاتا ہے ذیل میں بچے کی تعلیم و تربیت کے میں موجودہ نظام تعلیم کے کردار اور ذمہ داری کا تذکرہ کیے دیتا ہوں اور موجودہ دور میں اس نظام تعلیم کے معاشرے میں اثرات پر مختصر روشنی ڈالنا اپنا فرض سمجھتا ہو ں ۔
موجودہ نظام تعلیم کی تباہ کاریاں :
دنیا میں عروج و زوال کا فیصلہ نوجوانوں کی فکری نشونما ، اخلاقی ا ور نظریاتی تعلیم و تربیت سے مربوط ہے۔ اگر معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر دیانت داری، نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ محنت کی جائے تو اس معاشرے کے نوجوان اپنے معاشرے کی روشن و مثالی تقدیر کے ضامن ہوتے ہیں ۔اس کے بر عکس اگر کسی معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو ثانوی حیثیت دی جائے توان کی اخلاقی، فکری اور نظریاتی تربیت میں سستی و کاہلی سے کام لیا جائے تو ایسے نوجوان اپنے ہی معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔
علم معاشرے کو امن، استحکام اور یکجہتی عطا کرتا ہے۔ جہالت معاشرے کو فکری انتشار، کرپشن اور محرومی دیتی ہے۔ جن معاشروں کے تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داریاں صحیح نبھاتے ہیں، ان معاشروں میں اچھے اور اہل افراد کی کمی نہیں ہوتی۔ ہم نے تعلیم و تربیت کو نظر انداز کیا، ترقی اور کامیابی ہم سے روٹھ گئی جب تعلیم کا مقصد بچے کو صرف نوکری کا حصول بتایا جائے تو پھر رائج الوقت تعلیمی نظام سے نکلنےوالےطلبامیں سے ایک اچھا مصلح ‘ معلم ‘ مربی ‘ لیڈر‘ رہنما ‘ قائد تو درکنار پھر مغربی معاشرے سے مرعوب ‘اور نوکر ہی پیدا ہونگے ۔ایسےمعاشرے کی تباہی کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے نوجوان کو مغرب کے نظام تعلیم اور نظام زندگی کے سوہانے خواب دیکھلا کر اس کو اسلامی معاشرت و نظام تعلیم سے مایوس کر دیا جائے ۔ تمام مسلم ممالک کی قیادت نے اپنی نوجوان نسل کو بے لگام چھوڑدیا ہے جس طرف ان کا جی کرتا ہے وہ جانوروں کے منتشر ریوڑکی طرح چلے جاتے ہیں۔ مگر افسوس ہمارے ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا تقرر سفارش ،رشوت یا غیر معتبر ادارے کی اسناد کو دیکھ کر کیا جاتا ہے ۔استاد کا تقرر کرتے وقت اس بات کو صرف نظر کردیا جاتا ہے کہ ہم جس کو استاد کے منصب کے لیے مقرر کر رہے ہیں اس کے ہاتھ میں ہم اپنے ملک کی قیمتی فصل دے رہے ہیں اگر اس فصل پر کام کرنے والا فرد نیک اور دیانت دار ہوگا تو فصل اتنی اچھی اور بہتر ہوگی بصورت دیگر اس فصل کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ آج ہمارے نظام تعلیم کی تباہی کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔
موجودہ نظام تعلیم کی تباہ کاریوں کےاسباب قابل ذکرہیں۔
٭امتحانی نظام تعلیم کا بگاڑ
٭تعلیم کے نام پر دوکانداری
٭فنی تعلیم کا فقدان
٭مقصدیت کا فقدان
٭ تعلیم کا غیر مناسب دورانیہ
٭تعلیمی منصوبہ بندی کا فقدان
٭ غیر تربیت یافتہ اساتذہ کا تقرر
٭غیر مساوی نظام تعلیم کی ترویج
٭اردو نظام تعلیم کا غیر فعال ہونا
٭ طبقاتی نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی
٭غیرمذہبی اصولوں پرمشتمل نصاب تعلیم
٭ تزکیہ اور احساس کا طلبامیں فقدان
٭ نظام سزا کا غیر اخلاقی طریقہ کار
٭ غیر ضروری ٹور اور ورکشاپس کا انعقاد
٭تعلیمی اداروں میں تحقیق کا فقدان
٭ تعلیمی اداروں کا باہمی روابط کا فقدان
٭ اساتذہ میں ایمانداری کا فقدان
٭غیر اسلامی سوچ و فکر کی اعلانیہ ترویج
٭موسیقی کی تعلیم کے کھلم کھلا مواقع
٭غیر شرعی لبا0س کی کھلی اجازت
٭غیراسلامی نصاب تعلیم کی ترویج
٭ مخلوط نظام تعلیم پر مبنی تعلیمی پالیسی
٭ طلباء و طالبات میں نشئے کا بڑھتا رجحان
٭تعلیمی اداروں میں نیٹ کا آزادانہ استعمال
٭انٹر نیٹ اور لیپ ٹاپ کی فری تقسیم
٭ طلباء اور اساتذہ میں پابندی وقت کا فقدان
٭ مذہبی سوچ کے حامل معلمین کی حوصلہ شکنی
٭طلباء وطالبات میں اسلامی تربیت کا فقدان
٭ تعلیمی اداروں میں آلات موسیقی کا آزادانہ استعمال
٭نظام تعلیم میں کرپشن کا بڑھتا رجحان اور میرٹ کا قتل
٭ مغربی فکر کے حامل اساتذہ کو کھلے تدریسی مواقع
٭ مذہب بیدار لوگوں کے تدریسی میدان میں رکاوٹیں کھڑی کرنا
٭ مغربی ماہرین تعلیم کی ہمارے نظام تعلیم میں بے جا مداخلت
٭انتظامیہ کی سرپرستی میں غیر اخلاقی پروگرامز اور سیمینار کا انعقاد
٭ تعلیمی اداروں میں ڈانس اور آلات موسیقی کا بے جا استعمال
٭تعلیم اداروں میں گروہی ‘ نسلی اور علاقائی تعصبات کا بڑھتا رجحان
٭تعلیمی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور مفت تعلیم کے جھوٹے دعوے
٭ طلباء سے صفائی ستھرائی کا کام لینا اور غیر تدریسی عملے سے محرومی
٭ٹوٹی عمارتیں اور طلباء کی تفریح کے لیے مناسب انتظامات کی عدم موجودگی
٭قومی ترجیحات میں نظام تعلیم کی ثانوی حثیت اور تعلیم کے متعلق غیر ذمہ دارانہ سوچ۔
٭
اساتذہ اور طلباء کو سکھانے اور سیکھنے کا حقیقی جذبہ، ذوق و شوق اور خلوص کی کمی ۔
٭ دینی اور دنیوی علوم کے مراکز کا نصاب تعلیم اس کا طریقہ تدریس کاتصادم باہم نفرت کا سبب بن رہا ہے ۔
٭سرکاری اداروں میں وسائل اور سہولیات کی حددرجہ کمی مثلا صفائی کے لیے عملہ کی عدم دستیابی ‘ غیرمعیاری فرنیچر‘ غلاظت سے بھر ے بیت الخلاء‘پینے کے لیے صاف پا نی کی عدم فراہمی اور سکیورٹی کا مناسب انتظام نہ ہونا وغیرہ
٭
دینی مدارس کے طلباء پرغیر مہذب ’’دہشت گرد“دقیانوس کا تعن کرنا۔
٭ کالج، یونیورسٹیوں کی فیس اور دیگر اخراجات میں اضافہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے تعلیم کا نا ممکن حصول اس وجہ سے بہت ہی ذہین اور ہوشیار غریب بچے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔
٭ طلباکاحصول علم میں ذوق و شوق کی کمی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جائز مقام، عزت اور اہمیت کا فقدان۔
٭ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو انکی ضروریات کے مطابق ماہانہ معاوضہ نہ دینا۔
٭ حکومت کی جانب سے دنیوی تعلیمی اداروں کی تعمیر خصوصا پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کی بلڈنگیں نامناسب مقامات پر تعمیر کرنا ۔
٭
ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا تقرر سیاسی اور رشوت کی بنیادوں پر کرنا ہمارے تعلیمی نظام کی تباہی کا بڑا سبب ہے ۔
٭اساتذہ کی صحیح تربیت کا نظام نہ ہونا ‘اساتذہ کی تربیت کے لیے ریگولر ٹریننگ سینٹر اور کالجز کی کمی ہے۔
٭
یکساں تعلیمی نظام کا فقدان ۔
٭ تمام تعلیمی اداروں میں طلباء کے لیے جسمانی سزا بھی تعلیم سے محروم رہنے کا بڑا سبب ہے۔ آج کے اساتذہ کی مذکورہ بالا حرکت نے کئی طلباکو جسمانی معذور اور ذہنی طرح مفلوج کرکے علم کی دولت سے محروم کردیا ہے۔
٭ طلباکو ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں نہ دینا بھی ہمارے تعلیمی نظام کی تباہی کا سبب ہے۔انگریزی یا دیگر زبانوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے مگر ابتدا میں طلبااپنی مادری زبان میں زیادہ آسانی کے ساتھ لکھ پڑھ کر بات کو اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا سکتے ہیں۔
٭ پرائمری تعلیم کی طرف عدم توجہی نظام تعلیم کی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر بنیادی تعلیم مضبوط نہ ہوگی تو مزید تعلیم کی منزلیں تعمیر کرنا ناممکن اور بیوقوفی والی بات ہوگی۔
٭ دیہات کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
٭ تمام تعلیمی اداروں میں ضرورت کے مطابق فرنیچر اور دیگر سائنس وغیرہ کے آلات میسر ہونا بھی ہمارے تعلیمی نظام کی تباہی کا سبب ہیں۔
٭ ہمارے تعلیمی نظام کی تباہی کی بڑی وجہ کرپشن کے پھیلاؤ میں محکمہ تعلیم کے دفاتر اکسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اس کو کنٹرول کیے بغیر تعلیمی معیار کو بلند کرنا نہایت ناممکن ہے۔مثلاً کوئی صاحب دردسکول کی بلڈنگ، فنڈز اور فرنیچر وغیرہ کا غلط استعمال ہونے کی شکایت بھی کرتا ہے تو ذمہ دار افسران میں سے کوئی بھی اس پر قانونی کاروائی کرنےکے لیے تیار نہیں ہوتا۔
٭ تعلیمی اداروں میں ضرورت کے مطابق اساتذہ کا تقرر اور جگہ جگہ پرائیویٹ اسکول ‘ اکیڈمیوں کی برمار نے سرکاری اساتذہ کو تنخواہیں لے کر پڑھانے میں خیانت کا اور پارٹ ٹائم انہیں طلبا کو اکیڈمی میں اچھی طرح تعلیم دینے اور اکیڈمی کا نام روشن کرنے کے لیےسرتوڑ کوششیں کرنا۔
موجودہ نظام
کی تباہ کاریوںکا تدارک:
قومی ترجیحات میں تعلیم کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے وسائل کی کمی اور تعلیمی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر جاپہنچے۔ میرٹ کے اس کھلے قتل عام کی وجہ سے نظام تعلیم میں وہ لوگ آئے جنہوں نے تعلیم کو تجارت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آج ہر گلی، محلے اور بستی میں تعلیم کی خدمت، میعاری نظام تعلیم جیسے خوش نما نعروں کے ساتھ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک لوگ اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ‘مادہ پرستی ‘ ‘مایوسی ‘، شراب نوشی، تمام خرافات و برائیوں میں لت پت والدین سے بد سلوکی،اپنے بڑوں کی بے ادبی،اساتذہ کی توہین، اسلامی شعائر کا تفاخر کے ساتھ مذاق اڑانا‘ کرپشن کا دلدادہ ‘ ‘عورت اور دولت کارسیا ‘نشےکا عادی ‘موجودہ نصاب و نظام تعلیم کے تحفے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اس زبوں حالی سے نکلنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیے جن کی بنیاد پر ہم ایک اچھے ‘معیاری اورترقی و استحکام کے ضامن نظام تعلیم قائم کرنے میں کامیاب ہو کر ماضی کی کوتاہیاں دور کر سکیں ۔ذیل میں موجودہ نظام تعلیم کی تباہی کے تدراک کے لیے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔
٭قرآن و سنت پر مبنی نظام تعلیم ملک میں رائج کیا جائے ‘بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک قرآن و حدیث کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔
٭ اسلامی تعلیمات سے آراستہ مدرسین کو نظام تعلیم میں تدریسی مواقع بلا تفریق دیے جائیں۔
٭مذہبی، لسانی تعصبات کا خاتمہ ہو اور ایک ہی سلیبس پر مشتمل نظام تعلیم رائج کیا جائے۔
٭
امتحانی نظام کو آسان بنایا جائے تاکہ جعلی ڈگریوں کے حامل غیر تربیت یافتہ لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو ۔
٭ نظام تعلیم میں جدید طریقہ تدریس لازمی قرار دیا جائے ۔
٭اساتذہ کوماہانہ وار تربیتی کورس کروائے جائیں ۔
٭
ابتدائی تعلیم میں تربیتی پہلو پر زیادہ زور دیا جائے ۔
٭جدید طریقہ تحقیق کو نظام تعلیم کا حصہ بنایا جائے ۔
٭ماہرین تعلیم کی خدمات کو ہرممکن حد تک حاصل کیا جائے ۔
٭ یکساں نظام تعلیم کی فوری ترویج کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔
٭تعلیمی ادراو ں میں تزکیہ نفس اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔

٭ تعلیمی ادراورں میں تمام جدید وسائل و سہولیات مہیا ں کی جائیں
٭ غیر رجسٹر ڈ تعلیمی ادراوں کے خلاف کاروائی کی جائے ۔
٭ تعلیم ادراو ں میں نماز کی پابندی کے لیے قوانین بنائے جائیں ۔
٭ تعلیم اداروں میں غیر شرعی لباس پہننے پر پابندی لگائی جائے۔
٭تعلیمی اداروں کی طبقاتی تقسیم کا قلع قمع کیا جائے تاکہ قوم کا مستقبل اتحاد کا ضامن ہو۔
٭ملک میں عام فہم اورسستا نصاب تعلیم کا حصول ممکن بنایا جائے ۔
٭
بنیادی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک کا نصاب تعلیم قومی زبان اردو میں رائج کیا جائے۔
٭ طلباو طالبات اور اساتذہ کے جسمانی ‘ لباس کی صفائی کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔
٭ نصاب کے انتخاب کےلیے قرآن و سنت سے صحیح طرح وافق علماء کی خدمات حاصل کی جائیں۔
٭
امتحانی مراکز پر نقل سازی کو بند کیا جائےتاکہ میرٹ بھر مبنی نظام قائم کیا جا سکے
٭اہل اور قابل لوگوں کو تدریسی مواقع فراہم کیے جائیں۔
 
Last edited:
Top