عبد السلام مدنی
رکن
- شمولیت
- جنوری 23، 2018
- پیغامات
- 28
- ری ایکشن اسکور
- 6
- پوائنٹ
- 52
مسح کے احکام و مسائل
(تحریر:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی)
الحمد للہ رب العالمین ،و الصلاۃ و السلام الأتمان الأکملان علی أشرف النبیین و خاتم المرسلین ،نبینا محمد علی آلہ و صحبہ أجمعین ،أما بعد۔
دین اسلام ایک کامل و مکمل صاف و شفاف ‘اور مبنی بر رحم و کرم ,اور آسانی پیدا کرنےوالا دین ہے ‘ دنیا کے اندر ایسا کوئی دین نہیں ہے ‘جس میں اپنے ماننے والوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہو‘جتنا دین اسلام میں رکھا جاتا ہے ,مذہب ِ اسلام میں عقائد و نظریات سے لے کر اخلاق و کردار تک ,احکامات سے لے کرمعاملات تک زندگی کے تمام شعبے سے بحث موجود ہے ,کھانے پینے ‘رہنے سہنے ‘چلنے پھرنے ,پیشاب پائخانے کے تمام تر چھوٹے بڑے مسائل کے حوالے سے تفصیلی بحث کی گئی ہے ‘اور کوئی تشنگی نہیں ملے گی ہے ,بلکہ تمام تر مسائل میں کھل کر رہنمائیاں کی گئی ہیں ‘تاکہ کوئی اس پر اعتراض نہ کر سکے ۔
اور کیوں نہ ہو دین ِ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ہر زمان و مکان کے لئے قابل قبول اور لائق ِ عمل ہے ‘اس میں نہ کسی وقت کی تحدید ہے ‘اور نہ کسی جگہ کی تعیین ,بلکہ ہر جگہ ‘ہر مکان اورتمام اوقات میں یکساں لائق ِ عمل ہے ,لہذا اسلام جس طرح کل (عہد ِ رسول ﷺ میں)زندگی کے تمام شعبوں کو محیط تھا ‘آج بھی تمام شعبہ ہائے مختلفہ کو محیط اور ہر جز کو شامل ہے ‘اور تمام شعبہ جات کے لئے تعلیمات موجود ہیں
چنانچہ زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والے مسائل میں ایک مسئلہ ‘‘موزوں پر مسح,, کرنے کا بھی ہے‘موسم ِ سرما کی آمد کے ساتھ اس کی حاجت شدید ہوجاتی ہے ۔
موزوں پر مسح کرنا قرآن عظیم ‘احادیث نبی ٔ کریمﷺ ‘اور عمل صحابہ ۔رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ سے ثابت ہے
۔اللہ تعالی کے فرمان (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ) میں (أرجلِکم )کے کسرہ کے ساتھ کی بعض قرائت سے استدلال کرتے ہوئے قرآن ِ کریم سے مسح کو ثابت کیا گیا ہے‘یہ قرائت (وَأَرْجُلِكُمْ) قرائت ِ سبعہ متواترہ میں سے ایک قرائت ہے‘جوامام ابن کثیر ‘ابو عمرو اور حمزہ کی ہے (دیکھئے: https://saadalkhathlan.com/1570)‘نیز دیکھئے:المحلی لابن حزم :۲/۵۶‘مفاتیح الغیب للرازی :۱۱/۱۶۱)
اور شیعہ اور خوارج کے علاوہ اس کا کسی نے بھی آج تک انکار نہیں کیا ہے(دیکھئے:منہاج السنۃ ۴/۱۷۴‘مجموع فتاوی ابن تیمیہ :۲۲/۴۷۴)
خوارج اس لئے انکار کرتے ہیں ‘کہ وہ اللہ کی طرف سے اجازت فرمودہ امور کو تسلیم ہی نہیں کرتے ‘اور نہ ہی وہ اس کے قائل ہیں‘اور بالعموم شیعہ حضرات مسح کے قائل ہی نہیں ہیں‘جبکہ اہل اسلام کا اس کے جواز پر اجماع قائم ہے ‘علامہ طحاوی ۔رحمہ اللہ فرماتے ہیں:( ونرى المسح على الخفين في السفر والحضر كما جاء في الاثر) (ترجمہ:سفر ہو چاہے حضر ‘موزوں پر مسح کو ہم جائز سمجھتے ہیں‘کیوں کہ حدیث میں آیا ہوا ہے)(دیکھئے:شرح العقیدۃ الطحاویۃ ۲/۵۵۲‘نیز دیکھئے:ابو الحسن الأشعری کی الابانہ ص/ ۶۱‘ابن بطہ کی (الابانۃ الصغری ص/۲۸۷‘امام بربہاری کی شرح السنۃ ص/۳۰‘اور ابو عمر الدانی کی ,,الرسالۃ الوافیۃ ص/ ۱۴۵)
مگر انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ شیعہ حضرات اپنے آپ کو حضرت علی ۔رضی اللہ عنہ۔کی طرف منسوب تو کرتے ہیں‘حتی کہ انہیں ۔نعوذ باللہ ۔ خدا تک کہہ ڈالتے ہیں ‘حالانکہ مسح کی روایتیں آپ ۔رضی اللہ عنہ ۔ سے بھی مروی ہیں ‘مگر وہ ماننے کو تیار نہیں ‘بطور ِ نمونہ دو حدیثیں ملاحظہ فرمائیں(۱):( لو كان الدينُ بالرأي لكان أسفلُ الخف أولى بالمسحِ مِن أعلاه ، وقد رأيتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسَحُ على ظاهر خفَّيْه)(ابو داؤد برقم:۱۶۲‘سنن بیہقی برقم:۱۴۰۷‘دارقطنی برقم:۷۸۳‘صحیح ابن خزیمہ برقم:۲۰۰‘مسند أحمد برقم:۱۲۸۰‘مسند أبو یعلی برقم:۳۴۶‘شرح معانی الآثار برقم:۱۵۹‘و سندہ صحیح ) ترجمہ:اگر دین کا معاملہ عقل و خرد پر ہوتا تو اوپر مسح کرنے سے زیادہ بہتر نیچے مسح کرنا تھا ‘حالانکہ میں نے رسول ِ گرامیﷺ کو دونوں موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ہے‘ (۲)نیز ملاحظہ فرمائیں :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:,, جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلّى الله عليه وسلّم- ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ. يعني في المسح عَلَى الخُفَّيْن،،(مسلم برقم:۲۷۶)(ترجمہ ٔ حدیث:رسول اللہﷺنے موزوں پر مسح کے لئے تین دن اور تین رات مسافر کے لئے اور ایک دن اور ایک رات مقیم کے لئے متعین فرمایا )
دواوین سنت پر غائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ (۱۲)صحابہ کرام ہیں جن سے مسح کی روایتیں مروی ہیں (۱)علی بن ابو طالب (۲)عمار بن یاسر(۳) ابو مسعود (۴) انس بن مالک(۵)براء بن عازب (۶)عبد اللہ بن عمر (۷)بلال بن رباح (۸)ابو امامہ (۹)سہل بن سعد الساعدی(۱۰)عمرو بن حریث(۱۱)عمر بن خطاب (۱۲)عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔
امام احمد بن حنبل ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں کہ :مسح کے بارے میں میرے دل میں کوئی شک نہیں ‘کیوں کہ اس سلسلہ میں( ۴۰ )صحابہ سے حدیثیں مروی ہیں (مجموع الفتاوى :۱۱/۱۵۸)
امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ :(۷۰ )صحابہ ٔ کرام سے مسح کے متعلق حدیثیں مروی ہیں(نیل الأوطار :۱/۲۹) ,اور امام زیلعی نے لکھا ہے کہ( ۶۵) سے زائد صحابہ ٔ کرام (رضوان اللہ علیہم أجمعین سے مسح کی روایتیں موجود ہیں (دیکھئے:تہذیب السنن ابن القیم :۱/۱۸۷‘الأوسط لابن المنذر : ۱/۶۴۲)
جن چیزوں پر مسح کیا جاتا ہے ‘ان کے لئے حدیث میں درج ذیل نام آئے ہیں:
(۱) خف: چمڑے کا موزہ جو پاؤں میں پہناجاتا ہے‘جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ‘وہ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا (آپﷺ نے وضوء فرمایا ‘ہاتھ ‘منہ دھلے اور پاؤں کے لئے میں موزے اتارنے کے لئے جھکا تو آپﷺ نے فرمایا: رہنے دو ‘انہیں میں نے پاکی کی حالت میں پہنا ہے (فأهويتُ لِأنزعَ خُفَّيه، فقال: ((دَعْهما؛ فإنِّي أدخلتُهما طاهرتينِ، فمَسَح عليهما)(بخاری برقم:۲۰۶‘مسلم برقم:۲۷۴)‘(ترجمۂ حدیث :چنانچہ میں آپ ﷺ کے دونوں موزوں کو اتارنے کے لئے جھکا تو آپﷺ نے فرمایا:رہنے دو ‘میں نے انہیں پاکی کی حالت میں وضوء کرکے پہنا ہوا ہے ‘چنانچہ آپ نے ان دونوں پر مسح کیا) ‘نیز حضرت عمرو بن امیہ الضمری نے آپ ﷺکو دیکھا کہ آپ نے (خف)موزوں پر مسح کیا (بخاری برقم:۲۰۴)
(۲)جورب: جو موزہ بھی پاؤں میں پہناجاتا ہے چاہے جس چیز کابھی ہو (اونی۔غیر اونی۔نائلون وغیرہ)اسے ,,جورب‘‘ کہا جاتا ہے(دیکھئے:کتاب العین از خلیل أحمد الفراہیدی:۶/۱۱۳‘مواہب الجلیل :۱/۳۱۸)‘اس پر بھی مسح کرنا صحابہ ٔ کرام کی ایک جماعت سے ثابت ہے ‘امام ابو داؤد فرماتے ہیں: (حضرت علی بن ابی طالب، ابن مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سھل بن سعد، عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین سے کپڑے کے موزے پر مسح کرنا ثابت ہے،(صحیح ابو داؤد:۱۵۹‘نیز دیکھئے بذل المجہود:۱/۲۱)‘امام شوکانی فرماتے ہیں:ابن سید الناس نے کچھ صحابہ کا اضافہ فرمایا ہے ‘جن میں :عبد اللہ بن عمر ‘سعد بن ابو وقاص ‘ابو مسعود بدری ‘براء بن عازب ‘اور انس بن مالک(رضی اللہ عنہم) کے نام شامل ہیں(نیل الأوطار:۱/۲۲۲) حضرت عمر بن خطاب اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی جورب پر مسح کرنے کا ثبوت موجود ہے(بذل المجہود:۱/۲۱)۔ جورب پر مسح کرنے کے عدم جواز کے سلسلہ میں کسی بھی صحابی کا قول منقول نہیں ہے لہذا یہ اجماع اور حجت کی مانند ہے۔ بعض صحابہ و تابعین کے نزدیک کپڑے کے موزے پر اور چمڑے کے موزے پر مسح کرنے کی رخصت میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں حکم میں مساوی یعنی برابر ہیں۔ (جو حکم چمڑے کے موزہ پر مسح کرنے کا ہے وہی حکم کپڑے کے موزے پر مسح کرنے کا بھی ہے)
ابن قدامہ فرماتے ہیں:(... لأنَّ الصَّحابةَ رَضِيَ اللهُ عنهم مسَحوا على الجوارِبِ، ولم يظهرْ لهم مخالِفٌ في عَصرِهم؛ فكان إجماعًا). (المغني:۱/۲۱۵).(ترجمہ: ۔۔۔کیوں کہ تمام صحابہ ۔رضی اللہ عنہم۔موزوں پر مسح کیا کرتے تھے ‘اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف نہیں ہے‘لہذا یہ اجماع قرار پائے گا)
امام ابن حزم فرماتے ہیں: ((وقد رُوي أيضًا عن عبد الله بن مسعود وسعد بن أبي وقَّاص، وسَهْل بن سعد وعمرو بن حُرَيث، وعن سعيد بن جُبَير ونافع مولى ابن عمر؛ فَهُم- عمر وعليٌّ، وعبد الله بن عمرو وأبو مسعود، والبراء بن عازب وأنس بن مالك، وأبو أُمامة وابن مسعود، وسعد، وسهل بن سعد، وعمرو بن حُرَيث- لا يُعرف لهم ممَّن يُجيزُ المسحَ على الخفَّين من الصَّحابة رَضِيَ اللهُ عنهم مخالِفٌ). (المحلى: 1/324)
(ابن حزم فرماتے ہیں:کپڑے کے موزے پر مسح :حضرات : عبد اللہ بن مسعود ‘سعد بن ابی وقاص ‘سہل بن سعد‘عمرو بن حریث‘عمر بن خطاب ‘علی بن ابو طالب ‘عبد اللہ بن عمرو‘أبو مسعود ‘براء بن عازب ‘أنس بن مالک ‘أبو أمامہ ‘سعدجیسے اجلہ صحابہ سے ثابت ہے ‘سعید بن جبیر‘نافع مولی بن عمر ‘سے بھی ثابت ہے اور زمانہ ٔ نبوت میں ان کی مخالفت کسی سے بھی ثابت نہیں ہے ‘دیکھئے :المحلی :۱/۳۲۴)
موزوں (جوارب) پر مسح کے جواز پرمتعدد تابعین سے متعدد آثار بھی مروی ہیں :
(۱)انہیں آثار میں سے ایک اثر یحیی البکاء کا ہے فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے سنا: "جورب یعنی کپڑے کے موزے پر مسح کرنا خف یعنی چمڑے کے موزے پر مسح کرنے کے جیسے ہی ہے" (مصنف ابن ابی شیبہ: رقم: 1994 اور اس کی سند "حسن" ہے۔)
(۲)ازرق بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو دیکھا کہ انہوں نے حدث لاحق ہونے کے بعد اپنے چہرے اور دونوں ہاتھ کو دھویا، پھر سر کا مسح کیا اور پھر اپنے اونی موزے پر مسح کیا۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے ان دونوں(اونی موزے) پر مسح کیا؟ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ دونوں بھی موزے ہی ہیں بس فرق اتنا ہے کہ اون کے ہیں" (الدولابی فی الکنی والاسماء، رقم: 1009 اسے احمد شاکر نے صحیح قرار دیا ہے۔)
(۳)امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے صالح بن محمد ترمذی کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے ابو مقاتل سمرقندی کو فرماتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو ان کی زیارت کو گیا تو میں نے دیکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا اور وضو کرنے کے بعد اپنے دونوں موزے( جو کپڑے کے تھے) پر مسح کیا پھر فرمایا: میں نے آج وہ عمل کیا ہے جسے میں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا، میں نے اپنے ان موزے پر مسح کیا جو چمڑے کے نہیں ہیں۔ (سنن ترمذی: ۱/۱۶۹)
(۵)ابراہیم بن یزید نخعی(مشہور تابعی‘فقیہ اور قاری ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘‘جس نے بھی کپڑے کے موزے پر مسح کرنے سے اعراض کیا گویا وہ شیطان ہے,,(مصنف ابن ابی شیبہ: رقم: 1885، تحقيق الألباني لرسالة "المسح على الجوربين و النعلين" القاسمي (58)
(۶)حضرت سعید بن مسیب(مشہور تہجد گزار‘مدنی تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کپڑے یا اون کا موزہ مسح کرنے میں چمڑے کے موزے کے حکم میں ہی ہے یعنی اس پر بھی ویسا ہی مسح ہوگا جیسے چمڑے کے موزے پر ہوتا ہے(مصنف ابن ابی شیبۃ برقم:۱۹۷۶)
(۷)حضرت عطاء بن ابی رباح (مشہور فقیہ اور معروف تابعی) رحمہ اللہ سے جورب پر مسح کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں اس پر ویسے ہی مسح کرو جیسے چمڑے کے موزے پر کرتے ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: برقم:۱۹۹۱)
(۸)ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے نزدیک کپڑے کے موزے پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے(مصنف بن ابی شیبۃ برقم:۱۹۷۷)
(۹)امام اعمش(سلیمان بن مہران (مشہور محدث و فقیہ ‘اور بقول امام ذہبی :شیخ المحدثین) سے کپڑے کے موزے پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا کوئی کپڑے کا موزہ پہنے رات گزارا ہو تو اس پر مسح کیا جاسکتا ہے؟ تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا(مصنف بن ابی شیبہ برقم:۱۹۸۴)
(۱۰)امام عامر بن شراحیل الشعبی(مشہور محدث و فقیہ ) سے منقول ہے کہ یہودی اور شیعہ حضرات مسح کے قائل نہیں ہیں(باقی سب ہیں)(دیکھئے:منہاج السنۃ :۱/۳۳)
(۳)جرموق : چھوٹا موزہ جو دوسرے موزہ پر پہنا جاتا ہے(دیکھئے:لسان العرب ‘المعجم الوسیط ‘المجموع المہذب :۱/۴۹۰)‘چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف۔رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں کہ میں حضرت بلال (رضی اللہ عنہ)سے رسول ِ گرامی ﷺکے وضوء کے متعلق سوال کیا ‘تو انہوں نے کہا:آپﷺ قضائے حاجت کو نکلتے تھے ‘میں پانی لے کر حاضر ہوتا تھا‘آپﷺوضوء کرتے تھے‘اور اپنی پگڑی اور موق پر مسح کیا کرتے تھے (دیکھئے:سنن کبری بیہقی برقم:۱۲۷۴‘۱۲۷۵‘))
نیزامام ابو داؤد فرماتے ہیں: شَهِدَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ يَسْأَلُ بِلَالًا، عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فَقَالَ: كَانَ يَخْرُجُ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَآتِيهِ بِالْمَاءِ فَيَتَوَضَّأُ، وَيَمْسَحُ عَلَى عِمَامَتِهِ وَمُوقَيْهِ(محدث ِ مدینہ علامہ عبد المحسن بن حمد العباد البدر نے ابو داؤد(حدیث نمبر:۱۳۷) کا درس دیتے ہوئے اس حدیث کو صحیح قرار دیا‘اس لنک پر آپ کا درس سن سکتے ہیں:( https://www.mimham.net/dar-1805-1 )
(۴)العصائب و التساخین:اس سلسلہ میں یہ روایت ملاحظہ فرمائیں : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فأصابهم البرد فلما قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم شكوا إليه ما أصابهم من البرد فأمرهم أن يمسحوا على العصائب والتساخين) (ابو داؤد برقم:۱۴۶‘مستدرک حاکم برقم:۶۰۶‘سنن بیہقی برقم:۲۹۰‘مسند أحمد برقم:۲۲۸۱۸ و ہو حدیث صحیح‘)،تساخین ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے پاؤں کو گرم کیا جا سکے ‘چاہے وہ اونی موزہ ہو یا چمڑے کا یا اس جیسی کوئی دوسری چیز (دیکھئے:غریب الحدیث للقاسم بن سلام ۱ ۱۸۷‘النہایہ فی غریب الحدیث :۲/۳۵۲‘تحفۃ الأحوذی: ۱/۲۸۷‘ كتاب تحقيق المسح على الجوربين والنعلين ص:۷۷‘شرح سنن ابی داؤد للعینی :۱/۲۴۵)(ترجمہ ٔ حدیث :رسول اللہ ﷺنے ایک سریہ روانہ فرمایا‘انہیں سردی لگی ‘جب آﷺ کے پاس وہ لوگ آئے‘اور اس کا شکوہ کیا ‘تو آپ ﷺنے پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا ) راوی نے (العصائب کی تفسیر :العمائم اور التساخین کی تفسیر (خفاف)سے کردی ہے
موزوں پر مسح کی شرائط
موزوں پر مسح کے لئے چار شرطیں ہیں‘جن کی پابندی ضروری ہے :
(1)دونوں موزے حالت طہارت میں پہنے گئے ہوں
(2)موزے پاک ہوں‘چنانچہ اگر ناپاک ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہ ہوگا
(3)مسح صرف حدث اصغر کے لئے کیا جا سکتا ہے ‘لہذا اگر کوئی جنبی ہوگیا ہو ‘یا ایسا امر سرزدہوگیا ہو ‘جس سے غسل لازم ہوتا ہو تو مسح سے کام نہیں چلے گا ‘بلکہ اس کے لئے غسل کرنا ہوگا
(4)مسح وقت مقرر ہی تک کیا جا سکتا ہے ‘جس کی حد بندی شریعت نے کی ہے‘چنانچہ مقیم کے لئے ایک دن اورایک رات (۲۴ گھنٹے) اور مسافر کے لئے تین دن ‘اور تین رات (۷۲ گھنٹے) شریعت نے مقرر کئے ہیں‘جیسا کہ حضرت صفوان بن عسال (رضی اللہ عنہ)کی حدیث سے واضح ہے ‘فرمایا: كان يأمرُنا إذا كنا سفرًا - أو مسافرين - أن لا ننزعَ خفافَنا ثلاثةَ أيامٍ ولياليهن إلا من جنابةٍ لكن من غائطٍ وبولٍ ونومٍ (ترمذی رقم :۳۵۳۵‘وعلامہ البانی نے اس کی سند صحیح قرار دیا ہے)( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم سفر میں رہیں یا مسافر کی حالت میں قیام کریں تو تین دن اور تین رات اپنے موزے کو سوائے جنابت یعنی حدث اکبر لاحق ہونے کے نہ نکالیں اور قضاء حاجت یا نیند کی وجہ سے نہ نکالیں البتہ وقت مقررہ گزر جائے تو نکالیں‘‘)
شریعت کی طرف سے مقررہ یہ مدت مسح کے بعد حدث ہونے کے بعد سے شروع ہوگی ‘مثلا اگر کسی شخص نے ظہر کی نماز کے لئے مسح کیا ‘اور اس کا وضوء عصر کے بعد ٹوٹا ‘تو عصر کے بعد مسح کرنے سے لے کر ۲۴ گھنٹے تک مسح کیا جا سکتا ہے
مسح کرنے کا طریقہ
۔موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ مسح کرنے والا اپنے دونوں ہاتھوں کو بھگائے‘اور انگلیوں سے شروع کرے ‘پھر پنڈلی تک مسح کرے ‘دایاں پاؤں کو دایاں ہاتھ سے اور بایاں ہاتھ سے بایاں پاؤں کو مسح کرے(دیکھئے:الملخص الفقہی للشیخ صالح الفوزان: ۱/۴۳‘فتاوی المرأۃ المسلمۃ ۱/۲۵۰‘نیز دیکھاجائے:الشرح الممتع :۱/۲۱۳)
۔مسح ایڑی میں کیا جائے گا ‘اور نہ پاؤں کے نِچلے حصہ میں کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا(جیساکہ گزرا) کہ اگر دین کا معاملہ رائے زنی پر ہوتا تو پاؤوں کے نچلے حصہ کرنا زیادہ اولی تھا (ابو داؤدبرقم(162) بہ سند صحیح)
۔موزے (چاہے چمڑے کے ہوں ,یا اونی کےیا سوتی کے) ,چاہے ‘سفر کی بنیاد پر پہنے گئے ہیں ‘یا سردی کی وجہ سے ‘یا زینت کی غرض سے بلا کسی تفریق اور قید مسح جائز ہے
مسح کرنے کا طریقہ اور اس کی دلیل
موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دایاں ہاتھ سے دایاں پاؤں پر مسح ‘اور بایاں ہاتھ سے بایاں پاؤں کے موزے پر مسح کیا جائے گا ‘یہی طریقہ بہتر اور افضل ہے ۔
اللہ کا فضل و کرم ہے کہ انتہائی بحث و جستجو کے بعد ناچیز کو اس کی درج ذیل دلیل بھی مل گئی ‘فللہ الحمد و المنۃ ‘ کہ مسح کا طریقہ کیا ہے؟ مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دایاں ہاتھ سے دایاں پاؤں پر مسح ‘اور بایاں ہاتھ سے بایاں پاؤں کے موزے پر مسح کیا جائے گا ‘ اس کی کوئی دلیل نہیں ‘کان پر قیاس کرتے ہوئے ایسا کیا جائے گا جس کے الفاظ اس طرح ہیں حضرت مغیرہ فرماتے ہیں :
’’رأیت رسول اللہ صلى الله عليه و سلم بال ثم جاء حتی توضأ ومسح على الخفين، فوضع يده اليمنى على خفه الأيمن ووضع يده اليسرى على خفه الأيسر، ثم مسح أعلاهما مسحة واحدة، حتى كأني أنظر إلى أثر أصابع رسول اللہ ﷺ على الخفين‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ برقم:1968‘السنن الکبری للبیہقی برقم:1385)( المغنی از :ابن قدامہ :۱/ ۱۷۲ الفقہ الاسلامی و أدلتہ :۳۲۰)
ایک وضاحت :
جس حدیث میں پاؤں کے اوپر نیچے مسح کرنے کا تذکرہ ہے ‘وہ حدیث سندا محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہے ‘حافظ ابن حجر نے اسے ضعیف کہا ہے (بلوغ المرام ص ۲۷‘البانی :ضعیف ابو داؤد:۲۲‘مشکاۃ:۵۲۱)
وضاحت :
موزوں پر مسح کے تعلق سے بہت سے لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں ‘چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے دایاں پاؤں کو مسح کیا جاتا ہے ‘اور پھر دونوں ہاتھ سے بایاں پاؤں کے موزْ پر مسح کیا جاتا ہے ‘حالانکہ اس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے
اس لئے :دایاں ہاتھ سے دایاں پاؤں ‘اور بایاں ہاتھ سے بایاں پاؤں مسح کیا جائے گا ‘ٹھیک اسی طرح ‘جیسے کہ دایاں کان کو ‘دایاں ہاتھ سے اور بایاں کان کو بایاں ہاتھ سے مسح کیا جاتا ہے
اگر کسی نے ایک ہی ہاتھ سے مسح کرلیا تب بھی جائز و درست ہے۔
اگر کسی نے دونوں نے ہاتھ سے مسح کر لیا ہے ‘تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ‘مگر اصل کے خلاف ہے (ایسا نہیں کرنا چاہئے)‘اور مسنون یہ ہے کہ پہلے دایاں پاؤں پھر بایاں پاؤں کا مسح کرے(دیکھئے:مجموع فتاوی ابن باز ۱۰/۱۰۵)
مسح کرتے ہوئے صرف ایک بار ہی مسح کیا جائے گا ‘کیوں کہ یہی اصل و اساس ہے ‘اسی لئے فقہاء کرام نے تکرار ِ مسح کو مکروہ قرار دیا ہے (الموسوعۃ الفقہیۃ:۳/ ۲۷۰)
جن چیزوں پر مسح کیا جاتا ہے ‘ان(ممسوحات) پر مسح ایک ہی بار کیا جائے گا ‘جیسے سر ‘کان ‘ ‘اوڑھنی ‘عمامہ ‘موزہ‘اور (زخم پر )پٹی ۔
مسح کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے ؟
مسح کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے‘اس سلسلہ میں لوگ بڑی عجیب کشمکش میں ہوتے ہیں ‘اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وضاحت بھی ہوجائے ‘چنانچہ مسح کی ابتدا اول حدث سے ہوتی ہے‘مثلا کسی نے ظہر کے وقت وضوء کیا ‘پھر موزے پہنے ‘نماز ِ ظہر پڑھی‘پھر اسی وضوء سے عصر ادا کی ‘پانچ بجے (عصر کے بعد)اس کا وضوء ٹوٹا ‘پھر اس نے وضوء کیا‘اور مسح کیا ‘تو اس کے لئے جائز ہے کہ دوسرے دن پانچ بجے شام تک مسح کرے (دیکھئے:المجموع از نووی:۱ ۴۸۷‘ابن منذر کی الأوسط :۲ ۹۳‘مجموع فتاوی ابن باز ۲۹/۷۳‘مجموع فتاوی ابن عثیمین ۱۱/۱۶۰)
امام ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں : حضرات سعد اور ابن عمر ۔رضی اللہ عنھم۔کے یہاں میں حاضر ہوا تو وہ لوگ حضرت عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ کے پاس ایک مسئلہ لے کر گئے‘مسئلہ یہ تھا کہ مسح کی مدت کیا ہے؟تو حضرت عمر نے فرمایا :,, اسی وقت سے ابتدا کرے گا ‘جس وقت شروع کیا تھا‘ ایک دن اور ایک رات تک‘‘(دیکھئے:مصنف عبد الرزاق برقم:۸۰۸‘شرح معانی الآثار از طحاوی:۵۳۱‘المحلی از ابن حزم:۲ ۸۷‘تمام النصح للألبانی:۹۱)
مسئلہ : موزوں پر مسح کرنے کے بعد اگر مدت ختم ہونے سے پہلے کسی نے موزے نکال لئے ‘تو اس کا وضوء نہیں ٹوٹے گا ‘یہی راجح قول ہے (یہی قول شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین ۔رحمہما اللہ کا ہے‘دیکھئے :التمہید :۱۱/۱۵۷‘الإختیارات الفقہیۃ ص ۱۵‘الشرح الممتع :۱/۲۶۴)‘لہذا جب تک وضو نہیں ٹوٹتا ہے ‘نماز ادا کرسکتا ہے۔
اگر وضو ٹوٹ گیا تو پھر دوبارہ وضو کرنا پڑے گا ‘بنابریں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسح کے بعد موزے نکالنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے‘البتہ مسح ٹوٹ جاتا ہے ‘و اللہ اعلم
پھٹے ہوئے موزوں پر مسح
پھٹے ہوئے موزوں پر مسح کرنا جائز ہے ‘کیوں کہ صحابہ ٔ کرام میں سے کچھ تو ایسے تھے ‘جو فقر و فاقہ سے دو چار تھے ‘اور ان کے موزے یقینا پھٹے ہوتے تھے ‘غزوہ ذات الرقاع میں کچھ ایسی ہی حالت صحابہ کرام کی تھی ‘اس کے باوصف موزوں پر مسح کئے گئے (فتاوی ابن تیمیہ :۲۱/۲۱۲,السعدی :المختارات:۹۷‘مجموع فتاوی رسائل و ابن عثیمین :۱۱/۱۶۷)‘بعض لوگوں نے کم اور زیادہ پھٹے ہونے کی تفریق کی ہے‘چنانچہ اگر موزوں کم پھٹے ہوں‘تو جائز ہے اور اگر زیادہ پھٹے ہوئے ہوں تو ان پر جائز نہیں ہوگا ‘معاصرین علمائے اسلام میں سے سماحۃ الشیخ ابن باز کا یہی فتوی ہے (دیکھئے:مجموع فتاوی ابن باز :۱۰/۱۱۰‘المغنی لابن قدامہ :۱/۲۱۵‘مجموع نووی:۱/۴۹۹‘حاشیۃ ابن عابدین ۱/۱۶۹)
البتہ راجح اور صحیح بات یہی ہے کہ چاہے موزے زیادہ پھٹے ہوں یا کم ‘ان پر مسح جائز ہے ‘جیساکہ اوپر گزرا ‘نیز اس لئے بھی کہ مسح کا مقصد مشقت دور کرنا ہے ‘کہ بار بار آدمی موزے اتارے ‘اور پہنے‘جس میں فرد ِ مؤمن کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘اور اسلام کی منشا یہ ہے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرے ۔
جس طرح موزوں پر مسح کیا جائے گا ‘ٹھیک اسی طرح عمامہ ‘اوڑھنی اورزخموں پر بندھی ہوئی پٹیوں پر بھی مسح کیا جا سکتا ہے‘یہی مسلک شیخ الإسلام ابن تیمیہ ‘شیخ ابن عثیمین وغیرہ کا ہے (دیکھئے:مجموع فتاوی ابن تیمیہ :۲۱/۱۸۷‘الشرح الممتع:۱/۲۳۶)
موزوں اور پٹیوں پر مسح کے درمیان فرق :
۱۔موزوں پر مسح کی مدت متعین ہے جبکہ پٹیوں پر مسح کی کوئی مدت نہیں ہے
۲۔ موزوں پر مسح کے لئے شرط ہے کہ وضوء یا غسل کے بعد پہنے گئے ہوں ‘جبکہ پٹیوں پر مسح کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں ہے
۳۔ موزوں پر مسح صرف اوپر حصے میں کیا جائے گا ‘جبکہ پٹیوں پر پورے طور مسح کا جائے گا
۴۔موزٰوں پر مسح صرف حدث اصغر میں ہی کیا جائے گا ‘جبکہ پٹیوں پر مسح حدث اصغر میں بھی کیا جائے گا ‘اور حدث اکبر میں بھی۔
دوپٹہ (اوڑھنی )پر مسح
اہل علم کے یہاں اس مسئلہ میں قدرے کلام ہے کہ دوپٹہ پر مسح کیا جائے گا ‘یا نہیں
مگر راجح قول یہ ہے کہ اگر اس کے کھولنے میں مشقت ہو تو مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘کیوں کہ شریعت کا مقصود رفع ِ حرج ہے ‘یعنی مسح اس لئے مشروع قرار دیا گیا ہے ‘تاکہ آسانی پیدا کیا جا سکے,اور پریشانی اور مشقت دور ہو
چنانچہ حضرت ام سلمہ ۔رضی اللہ عنہا ۔ اپنی اوڑھنی پر مسح کیا کرتی تھیں جیسا کہ ابن ابی شیبہ میں ہے( ابن ابی شیبہ ,برقم:250 بإسناد حسن،عن الحسن عن أم سلمة-رضي الله عنها-، واختاره ابن تيمية (21/218))
معاصرین میں شیخ ابن عثیمین۔رحمہ اللہ۔ اور شیخ عبد المحسن الزامل ۔حفظہ اللہ ۔ انتہائی شدو مد کے ساتھ اس کے جواز کے قائل ہیں ‘کہ اگر مردوں کے لئے پگڑی پر مسح کرنا جائز ہو سکتا ہے (اور یقینا ہے)تو عورت بھی اس کے جواز کی مستحق ہے ‘کیوں کہ مسح سے مراد اور مقصد آسانی پیدا کرنا اور مشقت اور پریشانی دور کرناہے (تفصیل کے لئے دیکھئے: مجموع فتاوی بن باز :۱۰/۱۶۸‘الشرح الممتع:۱/۲۳۹‘ابن المنذر نے امام حسن بصری سے بھی جواز نقل فرمایا ہے‘دیکھئے:الأوسط ۱/۴۷۱‘نیز دیکھئے:المغنی لابن قدامہ :۱/۲۲۲‘نیز دیکھاجائے ‘المحلی :۲/۵۸۔۶۱)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
فَإِنَّ مَذْهَبَ فُقَهَاءِ الْحَدِيثِ. اسْتَعْمَلُوا فِيهَا مِنْ السُّنَنِ مَا لَا يُوجَدُ لِغَيْرِهِمْ وَيَكْفِي الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَغَيْرِهِمَا مِنْ اللِّبَاسِ وَالْحَوَائِلِ. فَقَدْ صَنَّفَ الْإِمَامُ أَحْمَد " كِتَابَ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ " وَذَكَرَ فِيهِ مِنْ النُّصُوصِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَالْجَوْرَبَيْنِ وَعَلَى الْعِمَامَةِ بَلْ عَلَى خُمُرِ النِّسَاءِ - كَمَا كَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرُهَا تَفْعَلُهُ. وَعَلَى الْقَلَانِسِ - كَمَا كَانَ أَبُو مُوسَى وَأَنَسٌ يَفْعَلَانِهِ : مَا إذَا تَأَمَّلَهُ الْعَالِمُ عَلِمَ فَضْلَ عِلْمِ أَهْلِ الْحَدِيثِ عَلَى غَيْرِهِمْ مَعَ أَنَّ الْقِيَاسَ يَقْتَضِي ذَلِكَ اقْتِضَاءً ظَاهِرًا....إلى أن قال: وَمَعْلُومٌ أَنَّ فِي هَذَا الْبَابِ مِنْ الرُّخْصَةِ الَّتِي تُشْبِهُ أُصُولَ الشَّرِيعَةِ وَتُوَافِقُ الْآثَارَ الثَّابِتَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَاعْلَمْ أَنَّ كُلَّ مَنْ تَأَوَّلَ فِي هَذِهِ الْأَخْبَارِ تَأْوِيلًا - مِثْلُ كَوْنِ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ مَعَ بَعْضِ الرَّأْسِ هُوَ الْمُجْزِئَ وَنَحْوِ ذَلِكَ - لَمْ يَقِفْ عَلَى مَجْمُوعِ الْأَخْبَارِ وَإِلَّا فَمَنْ وَقَفَ عَلَى مَجْمُوعِهَا أَفَادَتْهُ عِلْمًا يَقِينًا بِخِلَافِ ذَلِكَ (مجموع الفتاوى :21/21)
نیز فرماتے ہیں: وفي مسح المرأة على مقنعتها وهي خمارها المدار تحت حلقهما روايتان :
إحداهما : لايجوز ؛ لأن نصوص الرخص إنما تناولت الرجل بيقين ، والمرأة مشكوك فيها ، ولأنها ملبوس على رأس المرأة فهو كالوقاية .
والثانية : يجوز ، وهي أظهر لعموم قوله " امسحوا على الخفين والخمار " – رواه أحمد ( 39 / 325 ) وقال المحققون : حديث صحيح من فعله صلى الله عليه وسلم لا من قوله - ، والنساء يدخلن في الخطاب المذكور تبعاً للرجال كما دخلن في المسح على الخفين
ولأن الرأس يجوز للرجل المسح على لباسه فجاز للمرأة كالرجل ، ولأنه لباس يباح على الرأس يشق نزعه غالباً فأشبه عمامة الرجل وأولى ؛ لأن خمارها يستر أكثر من عمامة الرجل ، ويشق خلعه أكثر ، وحاجتها إليه أشد من الخفين .(شرح العمدۃ ۱/۲۶۵۔۲۶۶)
شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں: ,,وعلى كُلِّ حالٍ : إِذا كان هناك مشقَّة إِما لبرودة الجوِّ ، أو لمشقَّة النَّزع واللَّفّ مرَّة أخرى : فالتَّسامح في مثل هذا لا بأس به ، وإلا فالأوْلى ألاَّ تمسح ، ولم ترد نصوصٌ صحيحة في هذا الباب‘‘(دیکھئے:الشرح الممتع:۱/۲۳۹)شیخ محمد صالح المنجد نے یہی قول راجح قرار دیا ہے
پٹیوں/پلاسٹر پر مسح
ہر وہ چیز جو زخم کی جگہ پر لگائی جائے (جو بھی چیز زخم کو پانی سے بچانے کےلئے استعمال ہوگی ،وہ کچھ بھی ہو اس پر مسح کرنا جائز ہے )
اس باب میں حضرات علی‘ابن عمر ‘اور جابر ۔رضی اللہ عنہم۔ سے ورایتیں مروی ہیں ‘حضرت علی ۔رضی اللہ عنہ۔ کی روایت ضعیف ہے ‘حضرت ابن عمر کی روایت موقوفا صحیح ہے ‘اور حضرت جابر کی حدیث ۔۔و یعصر۔۔ کی زیادتی کے بغیر صحیح ہے ‘کل ملاکر بعض کی سندوں سے حدیث صحیح ہو جاتی ہے
عن علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، أنه قال:انكسر أحد زندي، فسألت النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فأمرني أن أمسح على الجبائر(سنن ابن ماجہ :۶۷۵‘سنن کبری از:بیہقی رقم:۱۱۰۰‘دارقطنی برقم:۸۷۶‘۸۷۷‘مصنف عبد الرزاق:۶۲۳ )
حضرت علی ۔رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں کہ میری بعض ہڈیاں ٹوٹ گئیں‘میں نے نبی ٔ اکرم ﷺ سے(اس تعلق سے ) پوچھا تو آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ میں پٹیوں پر مسح کروں
(یہ روايت ابن ماجہ کی ہے ‘اور انتہائی کمزٰور ترین سند سے مروی ہے ,دیکھئے : https://taimiah.net/index.aspx?function=Printable&id=936&node=2776)‘نیز دیکھئے ‘ضعیف ابن ماجہ للألبانی برقم:۶۵۷)مذکورہ حدیث میں گوکہ اہل علم کے مابین سندا کلام ہے ‘لیکن چونکہ اس معنی کی اور کئی روایات موجود ہیں‘جو اس حدیث کو تقویت پہنچاتی ہیں‘اس لئے اس سے پٹیوں پر مسح کے جواز پر استدلال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (دیکھئے:فتح العلام لشرح بلوغ المرام للقنوجی ۱/ ۱۳۱‘فتح ذی الجلال و الإکرام بشرح بلوغ المرام ۱ ۲۷۶۔۲۷۸‘نیز دیکھئے‘توضیح الأحکام فی شرح بلوغ المرام للشیخ البسام ‘و تسہیل الإلمام للشیخ صالح الفوزان )
حضرت جابر۔رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں:آپ فرماتے ہیں: خرجنا في سفر فأصاب رجلا منا حجر فشجه في رأسه، ثم احتلم فسأل أصحابه فقال: هل تجدون لي رخصة في التيمم؟ فقالوا: ما نجد لك رخصة وأنت تقدر على الماء فاغتسل فمات، فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم أخبر بذلك فقال: «قتلوه قتلهم الله ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال، إنما كان يكفيه أن يتيمم ويعصر - أو» يعصب «شك موسى - على جرحه خرقة، ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده»(،ابو داؤد برقم 336 ،ابن ماجه : 572 , بيهقي 1019 : صححه الألباني في تمام المنة ص134)
حضرت عبد اللہ بن عمر۔رضی اللہ عنہما۔ فرمایا کرتے تھے :من کان لہ جرح معصوب علیہ توضأ ومسح علی العصائب ویغسل ماحول العصائب‘‘ (بیہقی:۱/۲۲۸‘اس کی سند صحیح ہے‘دیکھئے:التحریر شرح الدلیل ص ۱۱۶‘)
’’اگر زخم پر پٹی بندی ہوئی ہو تو وضو کرتے وقت پٹی پر مسح کرکے ارد گرد کو دھولے۔‘‘
عن نافع قال: توضأ ابن عمر - رضي الله عنهما - وكفه معصوبة , فمسح عليها وعلى العصائب، وغسل سوى ذلك(البيهقي :1019،و صححه الالباني :تمام المنة:134‘نیز دیکھئے:الشرح الممتع:۱/۲۵۰)
عمامہ (پگڑی) پر مسح
من جملہ ممسوحات کے ایک پگڑی پر مسح بھی ہے ‘نبی ٔ اکرم ﷺ سے مسح کرنا اور ہونا ثابت ہے ‘حضرت مغیرہ۔رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں : ’’رأیت النبی ﷺ یمسح علی عمامتہ وخفیہ‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۵)
’’میں نے نبیﷺ کو اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔‘‘
نیز رسول اللہ ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پیشانیوں ‘اور عمامہ پر مسح فرمایا (مسلم :۲۷۴)
نیز فرمایا : ’’أن نبی ﷲ ﷺ مسح علی الخفین ومقدم راسہ وعلی عمامتہ‘‘ (صحیح مسلم:۲۷۴)
’’بے شک نبیﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا اور اپنے سر کے اگلے حصے (پیشانی کے بالوں) پر اور اپنی پگڑی پر مسح کیا۔‘‘
نیز حضرت مغیرہ ۔رضی اللہ عنہ ۔ نےفرمایا ,,أن النبي ﷺ توضأ فمسح بناصيته وعلى العمامة والخفين ,,( مسلم برقم:۲۷۴‘نیز دیکھئے: بخاری برقم:۲۰۵‘عن عمرو بن أمیۃ الضمری ۔رضی اللہ عنہ) ترجمہ: نبی ﷺ نے وضوء فرمایا ‘اپنی پیشانی کا مسح کیا ‘اور اپنےعمامے اور دونوں موزوں پر بھی
بعینہ یہی حکم ان تمام چیزوں کا ہوگا ‘جو اس قبیل سے ہوں ‘جیسے :پٹی ,پلاسٹر ‘کوئی بھی کپڑا جو زخم پر ایسے ہی لپیٹ دیا گیا ہو ,یا وہ کوئی چیز ہو جس کوباندھا گیا ہو وغیرہ وغیرہ
مسح افضل یا دھونا افضل؟
اگر موزے پہنے ہوئے ہوں تو مسح افضل ہے ‘‘کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ((صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته))(مسلم :۶۸۶) یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہیں ‘لہذا اللہ کی طرف سے کیا ہوا صدقہ قبول کرو ‘‘نیز نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ( لأن الله يحب أن تؤتى رخصه كما يحب أن تؤتى عزائمه( كما رواه أحمد وصححه الألباني في صحيح الجامع 1885) نیز اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسح کیا ہے ‘اور اسی پر مواظبت برتی ہے ‘یہی بات حافظ ابن قیم جوزیہ نے زاد المعاد (۱/۱۹۹)میں لکھی ہے ‘ہاں اگر پاؤں کھلے ہوں تو دھونا نہ صرف افضل بلکہ واجب ہے‘اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک و ارتیاب نہیں ہے
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین ِ صحیح کی فہم ِ صحیح عطا فرمائے ‘آمین یا رب العالمین