محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
موضوع تقلید پر مقلدین کا مفصل ترین رد :
مکمل پڑھیں, لازمی پڑھیں
جس طرح قادیانی، پرویزی، قبوری، رافضی اور دوسرے گمراہ فرقے قرآن و حدیث سے (غلط استدلال اور تحریف کرتے ہوئے) اپنے غلط عقائد کو ثابت کرنے کے لیئے قرآن و حدیث کو تروڑ مروڑ کر پیش کرکے اپنا باطل عقیدہ ثابت کرتے ہیں, ٹھیک اسی طرح مقلدین بھی آئمہ اربعہ کی تقلید کا واجب ہونا قرآن و حدیث سے ثابت کرتے ہیں، اس بحث میں مقلدین کے انہیں شبھات کا ازلہ کیا جائے گا ان شاءاللہ
پہلا شبھہ:
القرآن:
اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھو (سورہ النحل 43, سورہ الاانبیاء7) مقلدین کا خیال ہے کہ اس آیت میں تقلید کا حکم موجود ہے۔
الجواب
١- اس آیت سے تو جتنے (اھل الذکر) اہل علم گزر چکے اور جتنے قیامت تک آئیں گے سب مرآد ہیں, تو مقلدین صرف حنفیت تک منجمند ہی کیوں؟ اور کیونکہ مقلدین کا تو دعوی ہے کہ مسلمانوں پر ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ فیصلہ ہم عقلمند اور تعصب نہ رکھنے والے مقلدین (تقلید کرنے والے) پر چھوڑتے ہیں کہ آیا اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟
٢- اس آیت میں زندہ اہل علم سے پوچھنے کا زکر ہے یا فوت شدہ اہل علم سے؟
ظاہر ہے جس شخص کو کسی مسئلے کا علم نہیں وہ کسی زندہ عالم سے ہی جا کر مسئلہ پوچھے گا نہ؟ لیکن حیرت ہے مقلدین کی عقل پر کہ یہ لوگ اس آیت سے فوت شدہ اہل علم (آئمہ اربعہ) کی تقلید کا واجب ہونا ثابت کرتے ہیں.
٣- کتب فقہ کے مطابق "تقلید" کی تعریف, غیر نبی کی بات پر بنا دلیل, عمل کرنے کا نام تقلید ہے, دلیل ملاحظہ کریں...
حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“ میں لکھا ہے:
تقلید کسی دوسرے (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص۰۰۴)
جب تقید کی تعریف یہ ہے کہ, "بنا دلیل کسی غیر نبی کی بات مانی جائے, تو اس آیت میں اللہ تعالی نے کہاں کہا ہے بنا دلیل مسئلے پوچھو؟
4-عرف عام میں بھی اہل علم (علماء) سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں کہلاتا، جیسے آج مقلدین اپنے اپنے علماء سے مسائل پوچھ کر ان پر عمل کرتے ہیں تو کیا خیال ہے وہ اپنے علماء کے مقلد کہلائیں گے یا پھر آئمہ اربعہ ہی کے مقلد برقرار رہینگے؟
٥- خیر القرون اور قرون وسطی میں سے کسی اہل علم نے آج تک اس آیت سے تقلید کے وجوب پر استدلال نہیں کیا, اگر کیا ہے تو بحوالہ اس آیت کی تفسیر کے ساتھ نقل کریں؟
جاری ہے ---------
مکمل پڑھیں, لازمی پڑھیں
جس طرح قادیانی، پرویزی، قبوری، رافضی اور دوسرے گمراہ فرقے قرآن و حدیث سے (غلط استدلال اور تحریف کرتے ہوئے) اپنے غلط عقائد کو ثابت کرنے کے لیئے قرآن و حدیث کو تروڑ مروڑ کر پیش کرکے اپنا باطل عقیدہ ثابت کرتے ہیں, ٹھیک اسی طرح مقلدین بھی آئمہ اربعہ کی تقلید کا واجب ہونا قرآن و حدیث سے ثابت کرتے ہیں، اس بحث میں مقلدین کے انہیں شبھات کا ازلہ کیا جائے گا ان شاءاللہ
پہلا شبھہ:
القرآن:
اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھو (سورہ النحل 43, سورہ الاانبیاء7) مقلدین کا خیال ہے کہ اس آیت میں تقلید کا حکم موجود ہے۔
الجواب
١- اس آیت سے تو جتنے (اھل الذکر) اہل علم گزر چکے اور جتنے قیامت تک آئیں گے سب مرآد ہیں, تو مقلدین صرف حنفیت تک منجمند ہی کیوں؟ اور کیونکہ مقلدین کا تو دعوی ہے کہ مسلمانوں پر ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ فیصلہ ہم عقلمند اور تعصب نہ رکھنے والے مقلدین (تقلید کرنے والے) پر چھوڑتے ہیں کہ آیا اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟
٢- اس آیت میں زندہ اہل علم سے پوچھنے کا زکر ہے یا فوت شدہ اہل علم سے؟
ظاہر ہے جس شخص کو کسی مسئلے کا علم نہیں وہ کسی زندہ عالم سے ہی جا کر مسئلہ پوچھے گا نہ؟ لیکن حیرت ہے مقلدین کی عقل پر کہ یہ لوگ اس آیت سے فوت شدہ اہل علم (آئمہ اربعہ) کی تقلید کا واجب ہونا ثابت کرتے ہیں.
٣- کتب فقہ کے مطابق "تقلید" کی تعریف, غیر نبی کی بات پر بنا دلیل, عمل کرنے کا نام تقلید ہے, دلیل ملاحظہ کریں...
حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“ میں لکھا ہے:
تقلید کسی دوسرے (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص۰۰۴)
جب تقید کی تعریف یہ ہے کہ, "بنا دلیل کسی غیر نبی کی بات مانی جائے, تو اس آیت میں اللہ تعالی نے کہاں کہا ہے بنا دلیل مسئلے پوچھو؟
4-عرف عام میں بھی اہل علم (علماء) سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں کہلاتا، جیسے آج مقلدین اپنے اپنے علماء سے مسائل پوچھ کر ان پر عمل کرتے ہیں تو کیا خیال ہے وہ اپنے علماء کے مقلد کہلائیں گے یا پھر آئمہ اربعہ ہی کے مقلد برقرار رہینگے؟
٥- خیر القرون اور قرون وسطی میں سے کسی اہل علم نے آج تک اس آیت سے تقلید کے وجوب پر استدلال نہیں کیا, اگر کیا ہے تو بحوالہ اس آیت کی تفسیر کے ساتھ نقل کریں؟
جاری ہے ---------