السلام علیکم
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا موطا امام مالک کی ساری احادیث بھی اسنادی طور پر صحیح مانی جاتی ہیں؟
اور کیا امام مالک نے اس طرح کی کوئی شرط رکھی تھی کہ میں صحیح روایات لکھوں گا؟
شکریہ
حافظ زبیر علی زئی صاحب رحمہ اللہ نے موطاء ( بروایۃ ابن القاسم ) کی تحقیق و تخریج کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے اور ساتھ حواشی بھی لگائے ہیں ۔السلام علیکم
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا موطا امام مالک کی ساری احادیث بھی اسنادی طور پر صحیح مانی جاتی ہیں؟
اور کیا امام مالک نے اس طرح کی کوئی شرط رکھی تھی کہ میں صحیح روایات لکھوں گا؟
شکریہ
جزاکم اللہ خیرا بھائی ۔حافظ زبیر علی زئی صاحب رحمہ اللہ نے موطاء ( بروایۃ ابن القاسم ) کی تحقیق و تخریج کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے اور ساتھ حواشی بھی لگائے ہیں ۔
کتاب کے مقدمہ میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ مؤطا مالک کی مختلف روایات ہیں مثلا ’’ روایت یحیی بن یحیی ‘‘ ’’ روایت ابی مصعب ‘‘ اور روایت ابن القاسم وغیرہ ۔
حافظ صاحب کی تحقیق کے مطابق مؤطا مالک ( بروایۃ ابن القاسم ( تلخیص القابسی ) میں صرف ایک روایت ضعیف ہے ۔ باقی تمام صحیح یا حسن درجے کی روایات ہیں ۔
مزید تفصیل کے لیے کتاب کے مقدمہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔
3۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ مؤطا کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس میں احادیث کی تعداد بھی کم ہے اور اس سے ذیادہ یا قریب قریب امام مالک رحمہ اللہ کے اقوال ہیں یا مختلف صحابہ کے بے سند اقوال ہیں جس کی وجہ سے کتاب فقہی جانب بھی مائل ہے۔ واللہ اعلم
- موطا کو سب کتابوں پر فضیلت اس وقت دی گئی تھی جب ’’ صحیحین ‘‘ کی تصنیف وجود میں نہیں آئی تھی ۔ چنانچہ بعد از تصنیف صحیحین تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ’’هما أصح الكتب بعد كتاب الله ‘‘ ۔
- کتب ستہ کے اندر بہت ساری روایات ایسی ہیں جو موطا مالک میں نہیں ہیں بلکہ بہت ساری دیگر علمی و فنی خصوصیات بھی ایسی ہیں جو موطا میں نہیں ، البتہ جو کچھ موطا میں ہے وہ تقریبا ان کتب میں سمو لیاگیاہے ۔ ’’ مالک عن نافع عن ابن عمر ‘‘ کی سند سے کتب ستہ میں ہر کتاب میں کثیر تعدادمیں روایات موجودہیں۔ لہذا اس صورت حال کومدنظر رکھتے ہوئے موطا کو مستقل شمار کرنےکی ضرورت نہیں سمجھی گئی ۔ واللہ اعلم ۔