راشدحسن مبارکپوری
مبتدی
- شمولیت
- فروری 06، 2016
- پیغامات
- 8
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 4
مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری کی عربی تفسیر
(’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ ۔ایک مطالعہ)
راشد حسن سلفی مبارکپوری(نئی دہلی)
قرآن مجید کے معانی و مطالب اور مفاہیم کی توضیح کو اہل علم ’’تفسیر‘‘ سے جانتے ہیں، اس علم کی حد درجہ اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام، تابعین عظام اور بعد کے علماء کرام اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، قرآن مجید میں غور و فکر اور شعور و آگہی کی بابت عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں: حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبداللہ بن مسعود جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے، وہ اللہ کے رسول ﷺ سے دس آیتیں سیکھتے تھے اور اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک کہ ان آیات میں موجود علم و عمل کو سکھ نہ لیتے، لہٰذا ہم نے قرآن مجید کو علم اور عمل ہر دو اعتبار سے سیکھا اور نہاں خانۂ دل میں جاگزیں کیا۔ شروع شروع میں صحابہ آیات کی تفسیر اللہ کے رسول ﷺ سے سیکھتے اور باہم اسے محفوظ کرتے، پھر علماء فقہاکا دور آیا، مثلاً، بخاری، مسلم اور اہل سنن اربعہ وغیرہ، جنہوں نے احادیث کی کتابوں میں الگ الگ ابواب التفسیر یا کتاب التفسیر قائم کیا، پھر تیسرا مرحلہ وہ تھا جس میں باقاعدہ تفسیر کے موضوع پر کتابیں تصنیف کی گئیں، مثلا ابن ماجہ (ت۲۷۳ھ) ابن جریر طبری (ت۳۱۰ھ)ابوبکر بن المنذر(۳۱۸ھ) ابن ابی حاتم(ت۳۲۷ھ) و حاکم (۴۰۵ھ)، ان ساری تفسیروں میں تفسیر ماثور یعنی اللہ کے رسول ﷺ سے منقول تفاسیر کا اہتمام کیا ہے، پھر اس کے بعد چوتھا مرحلہ ایسا آیا جس میں موضوع و اسرائیلیات ہر طرح کی چیزیں تفسیر میں جمع کی جانے لگیں۔ پھر بات آکر رائے و اجتہاد پر آ رکی، الگ الگ موضوعات کو ذہن میں رکھ کر تفسیریں ترتیب دی گئیں، ان میں ’’البحر المحیط‘‘ میں ابو حیان نے علم نحو پر ترکیز رکھی ہے، ’’مفاتیح الغیب‘‘ میں رازی نے فلاسفہ کے افکار و نظریات پیش کیے ہیں، ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں قرطبی نے شرعی احکام و مسائل اور فقہ و معاملات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ’’الکشف والبیان عن تفسیر القرآن‘‘ میں ثعالبی نے انبیاء کے قصوں پر نگاہ رکھی ہے۔ ان اقسام کے دو بدو حاصل موضوعی انداز کی طرف بھی اہتمام رہا، چنانچہ (قتادہ بن دعامہ الدوسی ت ۱۱۸ھ) نے سب سے پہلے ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ کے نام سے قرآن کے خاص موضوع پر کتاب لکھی، اسی طرح ابو عبیدہ معمر بن المثنی (ت۲۱۰ھ) نے ’’مجاز القرآن‘‘ پر لکھی اور ابو عبید القاسم بن سلام (ت۲۴۴ھ) نے بھی ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھی، ان تمام کی ایک طویل فہرست ہے۔
علماء اسلام نے تفسیر کے دو طریقے بتائے: ایک تفسیر بالماثور دوسرا تفسیر بالرائے، تفسیر بالماثور کا مرجع خود قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہیں اور تفسیر بالرائے کا مرجع عقلی استنتاج اور فکری استشہاد ہے، پہلا ممدوح ہے دوسرا مذموم، تفسیر بالماثور کے سلسلے کی مشاہیر کتابیں:
۱۔ جامع البیان عن تأویل آی القرآن از جریر طبری (ت۔۳۱۰ھ)
۲۔ الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی(ت۔۴۲۹ھ)
۳۔ معالم التنزیل از بغوی(ت۔۵۱۶ھ)
۴۔ تفسیر القرآن العظیم از ابن کثیر(ت۔۷۷۴ھ)
۵۔ الدر المنثور فی التفسیر الماثور از سیوطی(ت۔۹۱۱ھ)
اور تفسیر بالرأی کے سلسلہ میں مشہور کتابیں یہ ہیں:
۱۔ مفاتیح الغیب از رازی(ت۔۶۰۶ھ)
۲۔ الجامع الأحکام القرآن از قرطبی(ت۔۶۷۱ھ)
۳۔ ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم از ابو سعود عمادی حنفی(ت۔۹۸۲ھ)
۴۔ فتح القدیر از شوکانی(ت۔۱۲۵۰ھ)
۵۔ روح المعانی از آلوسی(ت۔۱۲۷۰ھ)
مذکورہ تمام تفاسیر میں آثار و آحادیث اور عقلیاتی تفکیر کا امتزاج ہے، بس یہاں اغلب کا اعتبار ملحوظ رکھا گیا ہے، ایسا نہیں کہ محض ان میں آراء و افکار ہی ہیں، اسی طرح تفسیر بالماثور کے ضمن میں مذکورہ کتب محض آثار و احادیث پر مشتمل ہیں ایسا بھی نہیں۔
ہندوستان میں کتب تفسیر کی ایک سنہری تاریخ اور درخشندہ تسلسل ہے، اگر ہم اس ضمن میں قلم سے صرف اشاراتی مدد لیں تو بھی حکایت لذیذ دراز گفتم کا مسئلہ آسکتا ہے، جن حضرات کو تفصیل کی ضرورت ہو انہیں مولانا عبدالحی حسنی کی نزھۃ الخواطر، نواب صدیق حسن خان کی ابجد العلوم، غلام علی آزاد بلگرامی کی سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان اور مولانا اسحاق بھٹی کی تاریخی کتابوں پر ایک نگاہ طائرانہ ڈال لینی چاہیے۔
باعظمت مفسرین کے سلسلۃ الذہب کی ایک شاندار کڑی حضرت مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری مرحوم(۱۸۶۸م -۱۹۴۸م) ہیں۔ مولانا امرتسری نہایت ہی ہمہ جہت عالم تھے، ہر میدان میں مرد مجاہد بن کر کودے، رزم حق و باطل میں فولادی قوت رکھتے تھے، تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ، مناظرہ و مباحثہ، فرق ضالہ پر نقدو جرح، باطل افکار و نظریات پر رد و انتقاد، القصہ وہ ہر میدان کی صف اول میں رہے، لیلائے علم و دعوت میں مجنونانہ جان نثاری کا شوق اور جذبہ جنون کی حد تک تھا، اسلام کی خاطر جینا اور اسلام کی خاطر مرنا ان کی زندگی کا اولین مقصد بن چکا تھا، ویسے تو وہ ہر میدان میں درہ نایاب گوہر شب ناب تھے مگر اہل باطل سے مناطرہ میں امتیاز حاصل تھا، ان کی کتابوں کی تعداد ایک سو تیس(۱۳۰) کو پہونچتی ہے، ساری مختلف النوع اور گوناگوں ہیں مگر ان میں ان کا خاص رنگ غالب ہے، ان کی زندگی پر جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ مولانا امرتسری کا اپنے زمانہ میں وہی مقام تھا یا انہوں نے اپنے زمانہ میں وہی کام کیا جو امام ابن تیمیہ(ت۔۷۲۸ھ=۱۳۲۸م) نے اپنے زمانہ میں کیا تھا، یعنی اس وقت بھی ابن تیمیہ نے مسیحیت، رافضیت، یہودیت، لادینیت، فلاسفہ، مناطقہ، ملحدین، مبتدعین کا نہ صرف قافیہ تنگ کیا بلکہ صحیح اسلام کی تصویر پیش کی، درء تعارض العقل والنقل، منہاج السنۃ، العقیدۃ الواسطیہ، بیان تلبیس الجہمیہ، الاکلیل فی المتشابہ والتاویل، الرد علی المنطقین، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، قاعدۃ جلیہ، العقیدۃ التدمریۃ،مجموع فتاوی وغیرہ اس سلسلہ کی واضح مثالیں ہیں۔
چنانچہ اگر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ مولانا امرتسری نے کس دل سوزی اور جگر کاوی سے اس وقت کے فتنوں کا پوری پامردی اور جواں ہمتی سے مقابلہ کیا اور ہر مرحلہ کو کامیابی سے ختم کیا، جب عیسائیت نے سر اٹھایا تو زبانی مناظرہ کے دو بدو پے در پے (۱) عالمگیر مذہب اسلام ہے یا مسیحیت (۲) دین فطرت اسلا م ہے یا مسیحیت؟ (۳)اصول البیان فی توضیح القرآن، جیسی گراں قدر کتابیں تحریر فرمائیں، جب آریت کے بال و پر ابھرے تو ’ستیارتھ پرکاش‘ کے جواب میں ’حق پر کاش‘ لکھی، ترک اسلام کے جواب میں ’ترک اسلام بر ترک اسلام‘ شائع کی۔ اسی طرح اسی فتنہ کے رد میں ’کتاب الرحمن‘ لکھ کر ان کے تارو پو بکھیر دیئے، پھر رنگیلا رسول کے جواب میں ’مقدس رسول‘ لکھی تو آریت کے خیمہ میں بھونچال آگیا اور وہ خاموش ہوگئے، اسی طرح حضرت محمدرشی، نماز اربعہ، الہامی کتاب، بحث تناسخ ، حدیث وید، اصول آریہ اور القرآن العظیم جیسے رسائل سے اہل اسلام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، اسی طرح مرزائیت وقادیانیت کے رد میں زندگی وقف کر دی، جنگ کا آغاز تو مولانا محمد حسین بٹالوی(ت۔۱۳۳۸ھ=۱۹۲۰م) نے کیا تھا مگر اختتام مولانا امرتسری کے ہاتھوں ہوا، یہاں بالکل وہ منطر سامنے آجاتا ہے جس کا سامنا حضرت امام احمد بن حنبل(ت۔۲۴۱ھ =۸۵۵م) نے کیا تھا، فتنۂ خلق قرآن کے مقابلہ میں تنہا رہے اور پورا عالم اسلام ایک طرف ہوگیا مگر تنہا اس مرد مجاہد کو خدائے واحد و قہار نے فتح و نصرت کا پر کیف نغمہ سنایا، یہاں مولانا امرتسری تنہا لڑے اور اس وقت اس فتنہ کا خاتمہ کیا، گو گردش روزگار پر یہ فتنہ وقتا فوقتا اٹھتا رہا، قادیانیت کے سلسلہ میں مولانا کی تحریرات کا شمار قدرے مشکل ہے۔ انہی کے لفظوں میں ملاحظہ ہو: ’’مختصر طور پر ی بتلاتا ہوں کہ قادیانی تحریک کے متعلق میری کتابیں اتنی ہی ہیں کہ مجھے خود ان کا شمار نہیں، ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس شخص کے پاس یہ کتابیں موجود ہوں قادیانی مباحث میں اسے کافی واقفیت حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔ اسی طرح مولانا نے باطل افکار و نظریات پہ بھی بہت سی کتابیں لکھیں مثلا اہل حدیث کا مذہب، تقلید شخصی و سلفی، فتوحات اہل حدیث، اجتہاد اور تقلید، عصمت النبی وغیرہ، ساتھ ہی ان کی خالص ادبی و علمی کتابیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ مثلاً ادب العرب، التعریفات النحویہ، شریعت اور طریقت اسلام اور برٹش لا وغیرہ، پانچویں اور سب سے آخری قسم جو تفسیر و قرآنی علوم کی ہے، اس شاخ کی بابت مولانا خود رقم طراز ہیں:
’’چوتھی شاخ میری تصنیفات کی تفسیر نویسی ہے یوں تو میری سب تصنیفات قرآن ہی کی خدمت میں ہیں مگر خاص تفسیر نویسی بھی میں غافل نہیں رہا۔ روزانہ درس قرآن کے علاوہ پہلے میں نے ’’تفسیر ثنائی‘‘ غیر مسبوق طرز پر اردو میں لکھی۔ جو آٹھ جلدوں میں ختم ہوکر ملک میں شائع ہوچکی ہے اس کے تھوڑا عرصہ بعد، بلکہ ساتھ ساتھ ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ خاص طرز پر عربی میں لکھی جس کی ملک میں خاص شہرت ہے۔
تیسری تفسیر موسومہ ’’بیان الفرقان علی علم البیان‘‘ عربی میں لکھنی شروع کی جس کا ایک حصہ (سورہ بقرہ تک) شائع ہو چکا ہے، باقی زیر غور ہے۔
تفسیر کے متعلق چوتھی کتاب موسومہ ’’تفسیر بالرای‘‘ لکھی، اس میں تفسیر بالرای کے معنی بتا کر مروجہ تفاسیر و تراجم قرآن (قادیانی، چکڑالوی، بریلوی اور شیعہ وغیرہ) کی اغلاط پیش کرکے ان کی اصلاح کی گئی، اس کا بھی ایک حصہ چھپ کر شائع ہو چکا ہے، باقی زیر غور ہے‘‘۔
پانچویں تفسیر برہان التفاسیر کے نام سے تحریر فرمائی، جو ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر میں علی الأقساط شائع ہوئی اور خوشی کی بات ہے کہ اب استاذ محترم مولانا محمد مستقیم صاحب سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس کی عنایت و توجہ خاص سے شائع ہوکر علمی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہے۔
(’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ ۔ایک مطالعہ)
راشد حسن سلفی مبارکپوری(نئی دہلی)
قرآن مجید کے معانی و مطالب اور مفاہیم کی توضیح کو اہل علم ’’تفسیر‘‘ سے جانتے ہیں، اس علم کی حد درجہ اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام، تابعین عظام اور بعد کے علماء کرام اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، قرآن مجید میں غور و فکر اور شعور و آگہی کی بابت عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں: حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبداللہ بن مسعود جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے، وہ اللہ کے رسول ﷺ سے دس آیتیں سیکھتے تھے اور اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک کہ ان آیات میں موجود علم و عمل کو سکھ نہ لیتے، لہٰذا ہم نے قرآن مجید کو علم اور عمل ہر دو اعتبار سے سیکھا اور نہاں خانۂ دل میں جاگزیں کیا۔ شروع شروع میں صحابہ آیات کی تفسیر اللہ کے رسول ﷺ سے سیکھتے اور باہم اسے محفوظ کرتے، پھر علماء فقہاکا دور آیا، مثلاً، بخاری، مسلم اور اہل سنن اربعہ وغیرہ، جنہوں نے احادیث کی کتابوں میں الگ الگ ابواب التفسیر یا کتاب التفسیر قائم کیا، پھر تیسرا مرحلہ وہ تھا جس میں باقاعدہ تفسیر کے موضوع پر کتابیں تصنیف کی گئیں، مثلا ابن ماجہ (ت۲۷۳ھ) ابن جریر طبری (ت۳۱۰ھ)ابوبکر بن المنذر(۳۱۸ھ) ابن ابی حاتم(ت۳۲۷ھ) و حاکم (۴۰۵ھ)، ان ساری تفسیروں میں تفسیر ماثور یعنی اللہ کے رسول ﷺ سے منقول تفاسیر کا اہتمام کیا ہے، پھر اس کے بعد چوتھا مرحلہ ایسا آیا جس میں موضوع و اسرائیلیات ہر طرح کی چیزیں تفسیر میں جمع کی جانے لگیں۔ پھر بات آکر رائے و اجتہاد پر آ رکی، الگ الگ موضوعات کو ذہن میں رکھ کر تفسیریں ترتیب دی گئیں، ان میں ’’البحر المحیط‘‘ میں ابو حیان نے علم نحو پر ترکیز رکھی ہے، ’’مفاتیح الغیب‘‘ میں رازی نے فلاسفہ کے افکار و نظریات پیش کیے ہیں، ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں قرطبی نے شرعی احکام و مسائل اور فقہ و معاملات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ’’الکشف والبیان عن تفسیر القرآن‘‘ میں ثعالبی نے انبیاء کے قصوں پر نگاہ رکھی ہے۔ ان اقسام کے دو بدو حاصل موضوعی انداز کی طرف بھی اہتمام رہا، چنانچہ (قتادہ بن دعامہ الدوسی ت ۱۱۸ھ) نے سب سے پہلے ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ کے نام سے قرآن کے خاص موضوع پر کتاب لکھی، اسی طرح ابو عبیدہ معمر بن المثنی (ت۲۱۰ھ) نے ’’مجاز القرآن‘‘ پر لکھی اور ابو عبید القاسم بن سلام (ت۲۴۴ھ) نے بھی ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھی، ان تمام کی ایک طویل فہرست ہے۔
علماء اسلام نے تفسیر کے دو طریقے بتائے: ایک تفسیر بالماثور دوسرا تفسیر بالرائے، تفسیر بالماثور کا مرجع خود قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہیں اور تفسیر بالرائے کا مرجع عقلی استنتاج اور فکری استشہاد ہے، پہلا ممدوح ہے دوسرا مذموم، تفسیر بالماثور کے سلسلے کی مشاہیر کتابیں:
۱۔ جامع البیان عن تأویل آی القرآن از جریر طبری (ت۔۳۱۰ھ)
۲۔ الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی(ت۔۴۲۹ھ)
۳۔ معالم التنزیل از بغوی(ت۔۵۱۶ھ)
۴۔ تفسیر القرآن العظیم از ابن کثیر(ت۔۷۷۴ھ)
۵۔ الدر المنثور فی التفسیر الماثور از سیوطی(ت۔۹۱۱ھ)
اور تفسیر بالرأی کے سلسلہ میں مشہور کتابیں یہ ہیں:
۱۔ مفاتیح الغیب از رازی(ت۔۶۰۶ھ)
۲۔ الجامع الأحکام القرآن از قرطبی(ت۔۶۷۱ھ)
۳۔ ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم از ابو سعود عمادی حنفی(ت۔۹۸۲ھ)
۴۔ فتح القدیر از شوکانی(ت۔۱۲۵۰ھ)
۵۔ روح المعانی از آلوسی(ت۔۱۲۷۰ھ)
مذکورہ تمام تفاسیر میں آثار و آحادیث اور عقلیاتی تفکیر کا امتزاج ہے، بس یہاں اغلب کا اعتبار ملحوظ رکھا گیا ہے، ایسا نہیں کہ محض ان میں آراء و افکار ہی ہیں، اسی طرح تفسیر بالماثور کے ضمن میں مذکورہ کتب محض آثار و احادیث پر مشتمل ہیں ایسا بھی نہیں۔
ہندوستان میں کتب تفسیر کی ایک سنہری تاریخ اور درخشندہ تسلسل ہے، اگر ہم اس ضمن میں قلم سے صرف اشاراتی مدد لیں تو بھی حکایت لذیذ دراز گفتم کا مسئلہ آسکتا ہے، جن حضرات کو تفصیل کی ضرورت ہو انہیں مولانا عبدالحی حسنی کی نزھۃ الخواطر، نواب صدیق حسن خان کی ابجد العلوم، غلام علی آزاد بلگرامی کی سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان اور مولانا اسحاق بھٹی کی تاریخی کتابوں پر ایک نگاہ طائرانہ ڈال لینی چاہیے۔
باعظمت مفسرین کے سلسلۃ الذہب کی ایک شاندار کڑی حضرت مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری مرحوم(۱۸۶۸م -۱۹۴۸م) ہیں۔ مولانا امرتسری نہایت ہی ہمہ جہت عالم تھے، ہر میدان میں مرد مجاہد بن کر کودے، رزم حق و باطل میں فولادی قوت رکھتے تھے، تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ، مناظرہ و مباحثہ، فرق ضالہ پر نقدو جرح، باطل افکار و نظریات پر رد و انتقاد، القصہ وہ ہر میدان کی صف اول میں رہے، لیلائے علم و دعوت میں مجنونانہ جان نثاری کا شوق اور جذبہ جنون کی حد تک تھا، اسلام کی خاطر جینا اور اسلام کی خاطر مرنا ان کی زندگی کا اولین مقصد بن چکا تھا، ویسے تو وہ ہر میدان میں درہ نایاب گوہر شب ناب تھے مگر اہل باطل سے مناطرہ میں امتیاز حاصل تھا، ان کی کتابوں کی تعداد ایک سو تیس(۱۳۰) کو پہونچتی ہے، ساری مختلف النوع اور گوناگوں ہیں مگر ان میں ان کا خاص رنگ غالب ہے، ان کی زندگی پر جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ مولانا امرتسری کا اپنے زمانہ میں وہی مقام تھا یا انہوں نے اپنے زمانہ میں وہی کام کیا جو امام ابن تیمیہ(ت۔۷۲۸ھ=۱۳۲۸م) نے اپنے زمانہ میں کیا تھا، یعنی اس وقت بھی ابن تیمیہ نے مسیحیت، رافضیت، یہودیت، لادینیت، فلاسفہ، مناطقہ، ملحدین، مبتدعین کا نہ صرف قافیہ تنگ کیا بلکہ صحیح اسلام کی تصویر پیش کی، درء تعارض العقل والنقل، منہاج السنۃ، العقیدۃ الواسطیہ، بیان تلبیس الجہمیہ، الاکلیل فی المتشابہ والتاویل، الرد علی المنطقین، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، قاعدۃ جلیہ، العقیدۃ التدمریۃ،مجموع فتاوی وغیرہ اس سلسلہ کی واضح مثالیں ہیں۔
چنانچہ اگر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ مولانا امرتسری نے کس دل سوزی اور جگر کاوی سے اس وقت کے فتنوں کا پوری پامردی اور جواں ہمتی سے مقابلہ کیا اور ہر مرحلہ کو کامیابی سے ختم کیا، جب عیسائیت نے سر اٹھایا تو زبانی مناظرہ کے دو بدو پے در پے (۱) عالمگیر مذہب اسلام ہے یا مسیحیت (۲) دین فطرت اسلا م ہے یا مسیحیت؟ (۳)اصول البیان فی توضیح القرآن، جیسی گراں قدر کتابیں تحریر فرمائیں، جب آریت کے بال و پر ابھرے تو ’ستیارتھ پرکاش‘ کے جواب میں ’حق پر کاش‘ لکھی، ترک اسلام کے جواب میں ’ترک اسلام بر ترک اسلام‘ شائع کی۔ اسی طرح اسی فتنہ کے رد میں ’کتاب الرحمن‘ لکھ کر ان کے تارو پو بکھیر دیئے، پھر رنگیلا رسول کے جواب میں ’مقدس رسول‘ لکھی تو آریت کے خیمہ میں بھونچال آگیا اور وہ خاموش ہوگئے، اسی طرح حضرت محمدرشی، نماز اربعہ، الہامی کتاب، بحث تناسخ ، حدیث وید، اصول آریہ اور القرآن العظیم جیسے رسائل سے اہل اسلام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، اسی طرح مرزائیت وقادیانیت کے رد میں زندگی وقف کر دی، جنگ کا آغاز تو مولانا محمد حسین بٹالوی(ت۔۱۳۳۸ھ=۱۹۲۰م) نے کیا تھا مگر اختتام مولانا امرتسری کے ہاتھوں ہوا، یہاں بالکل وہ منطر سامنے آجاتا ہے جس کا سامنا حضرت امام احمد بن حنبل(ت۔۲۴۱ھ =۸۵۵م) نے کیا تھا، فتنۂ خلق قرآن کے مقابلہ میں تنہا رہے اور پورا عالم اسلام ایک طرف ہوگیا مگر تنہا اس مرد مجاہد کو خدائے واحد و قہار نے فتح و نصرت کا پر کیف نغمہ سنایا، یہاں مولانا امرتسری تنہا لڑے اور اس وقت اس فتنہ کا خاتمہ کیا، گو گردش روزگار پر یہ فتنہ وقتا فوقتا اٹھتا رہا، قادیانیت کے سلسلہ میں مولانا کی تحریرات کا شمار قدرے مشکل ہے۔ انہی کے لفظوں میں ملاحظہ ہو: ’’مختصر طور پر ی بتلاتا ہوں کہ قادیانی تحریک کے متعلق میری کتابیں اتنی ہی ہیں کہ مجھے خود ان کا شمار نہیں، ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس شخص کے پاس یہ کتابیں موجود ہوں قادیانی مباحث میں اسے کافی واقفیت حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔ اسی طرح مولانا نے باطل افکار و نظریات پہ بھی بہت سی کتابیں لکھیں مثلا اہل حدیث کا مذہب، تقلید شخصی و سلفی، فتوحات اہل حدیث، اجتہاد اور تقلید، عصمت النبی وغیرہ، ساتھ ہی ان کی خالص ادبی و علمی کتابیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ مثلاً ادب العرب، التعریفات النحویہ، شریعت اور طریقت اسلام اور برٹش لا وغیرہ، پانچویں اور سب سے آخری قسم جو تفسیر و قرآنی علوم کی ہے، اس شاخ کی بابت مولانا خود رقم طراز ہیں:
’’چوتھی شاخ میری تصنیفات کی تفسیر نویسی ہے یوں تو میری سب تصنیفات قرآن ہی کی خدمت میں ہیں مگر خاص تفسیر نویسی بھی میں غافل نہیں رہا۔ روزانہ درس قرآن کے علاوہ پہلے میں نے ’’تفسیر ثنائی‘‘ غیر مسبوق طرز پر اردو میں لکھی۔ جو آٹھ جلدوں میں ختم ہوکر ملک میں شائع ہوچکی ہے اس کے تھوڑا عرصہ بعد، بلکہ ساتھ ساتھ ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ خاص طرز پر عربی میں لکھی جس کی ملک میں خاص شہرت ہے۔
تیسری تفسیر موسومہ ’’بیان الفرقان علی علم البیان‘‘ عربی میں لکھنی شروع کی جس کا ایک حصہ (سورہ بقرہ تک) شائع ہو چکا ہے، باقی زیر غور ہے۔
تفسیر کے متعلق چوتھی کتاب موسومہ ’’تفسیر بالرای‘‘ لکھی، اس میں تفسیر بالرای کے معنی بتا کر مروجہ تفاسیر و تراجم قرآن (قادیانی، چکڑالوی، بریلوی اور شیعہ وغیرہ) کی اغلاط پیش کرکے ان کی اصلاح کی گئی، اس کا بھی ایک حصہ چھپ کر شائع ہو چکا ہے، باقی زیر غور ہے‘‘۔
پانچویں تفسیر برہان التفاسیر کے نام سے تحریر فرمائی، جو ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر میں علی الأقساط شائع ہوئی اور خوشی کی بات ہے کہ اب استاذ محترم مولانا محمد مستقیم صاحب سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس کی عنایت و توجہ خاص سے شائع ہوکر علمی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہے۔