یہ بحث بہت طویل ہے، جس کا یہاں موقع نہیں۔ آپ ایک اوپن فورم میں ایک ”دیوبندی عالم دین“ کے دہشت گردی کے واقعہ میں ’شہید ہونے‘ پر اعتراض کرکے، اس افسوسناک واقعہ پر اظہار رنج کرنے کی بجائے مرنے والے کے مبینہ عیوب کو نمایان کرکے عوام الناس کو جو ’پیغام“ دے رہے ہیں، وہ دہشت گردی کے اس قسم کے واقعات کو بالواسطہ سپورٹ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ علمائے کرام کو دہشت گردی کے ذریعہ قتل کرنے والوں تک بھی آپ کا ”پیغام“ بخوبی پہنچ گیا ہے۔ وہ یہ جان گئے ہیں کہ ہم جب بھی کسی ایک مسلک کے علماء کو قتل کریں گے، دوسرے تمام مسالک کے وابستگان کی ”مورل سپورٹ“ ہمیں حاصل رہے گی۔
یہ بات نہیں ہے یوسف ثانی بھائی!
میں دہشتگردی کا حامی نہیں ہوں اور نہ ہی کسی بے قصور کے قتل پر مجھے خوشی ہوتی ہے چاہے وہ کوئی عالم ہو یا عام شخص۔ ایک انسان کا ناحق قتل ہر حال میں قابل مذمت ہے۔ لیکن فتنہ پرداز مولویوں کی موت پر خوشی کا فطری احساس ضرور ہوتا ہے جیسے ابوبکر غازی پوری دیوبندی اور سرفراز خان صفدر کی موت پر دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ میں نے جو تھوڑی بہت اسلم شیخوپوری صاحب کی تحریر پڑھی ہے اس معلوم ہوتا ہے کہ غالبا وہ اختلافی مسائل سے دور رہتے تھے۔ واللہ اعلم
اسلم شیخوپوری صاحب کی موت کا نہ تو مجھے افسوس ہے اور نہ ہی خوشی البتہ انکی موت کا سبب بننے والے لوگ ضرور قابل مذمت ہیں جنھوں نے ان کا خون اپنے سر لیا۔
یوسف ثانی بھائی میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر دیوبندی بھی شہید ہونے لگے اور انکی دعوت بھی مبنی برحق ہونے لگی تو وہ علماء اور عوام تو بے وقوف ہوئے جو دیوبندی مسلک کو باطل سمجھ کر اہل حدیث ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ جب دیوبندی مذہب میں ہی شہادت موجود ہے تو آخر اہل حدیث مذہب اختیار کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور وہ اہل حدیث علماء جو تقاریر، مناظرے اور تحریروں کے ذریعے رد باطل کا کام سرانجام دیتے ہیں ان کا تو یہ کام سراسر فضول اور بے معنی ہوا۔ کیا وہ دیوبندی مذہب کو رد کرکے حق کا رد کررہے ہیں؟؟؟