امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تصوف کا بارے نقطہ نظر بہت ہی معتدل ہے۔ تصوف کے بارے ذہن میں رکھیں کہ یہ چار ادوار سے گزرا ہے۔ اس کا پہلا دور وہ ہے جس کی ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ حمایت کرتے ہیں یعنی اپنی طبیعت ومزاج میں خشوع وخضوع، تقوی، للہیت، انابت، رجوع الی اللہ، عاجزی، انکساری، تقرب الی اللہ یعنی جملہ اوصاف حسنہ سے اپنے نفس کو مزین کرنا اور جملہ رذائل یا باطنی امراض سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی محنت اور کوشش کرنا۔ اسی معنی میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ، جنید بغدادی وغیرہ کو متصوفین میں بعض لوگ شمار کرتے ہیں۔ یہ تصوف کا وہ دور ہے کہ جس میں تصوف کی باقاعدہ اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی بلکہ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے نیکی اور نیک بننے کا حد درجہ شوق کرنے والے کچھ لوگ تھے جو زہاد اور صلحاء کہلاتے تھے۔ عصر حاضر میں بعض اہل حدیث اہل علم جو تصوف کی حمایت میں کچھ لکھتے یا نقل کرتے ہیں تو ان کی مراد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ ، حسن بصری، سعید بن مسیب، جنید بغدای رحمہم اللہ جیسے سلف صالحین اور ان کا زہد وتقوی ہوتا ہے نہ کہ آج کل کے مداری۔
دوسرا دور تصوف کا وہ ہے کہ جس میں زہد و تقوی کے نام پر تصوف کے ادارے میں کچھ بدعتی اعمال وافعال اور نظریات کی آمیزش شروع ہو گئی جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب منہاج العابدین اور احیاء العلوم میں اگرچہ بہت ہی خوبصورت نکات، اصلاح نفس کے بہترین طریقوں کی طرف رہنمائی موجود ہے لیکن ساتھ ہی ضعیف وموضوع روایات سے استدلال کی وجہ سے دین کا تصور تزکیہ نفس معتدل نہ رہ سکا۔ مثلا امام غزالی رحمہ اللہ نے اصلاح نفس کے لیے سالک کو جمعہ کی نماز ترک کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
تصوف کا تیسرا دور وہ ہے کہ جس میں بدعت سے بھی آگے بڑھتے ہوئے شرکیہ نظریات اور اعمال و افعال کو یونانی فلسفہ و کلچر سے کشید کر کے اسلامی عقیدہ و کلچر کے طور متعارف کروانے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ ان لوگوں میں شیخ ابن عربی کا نام معروف ہے جو وحدت الوجود کا واضع سمجھا جاتا ہے۔ رومی، شیرازی اور سعدی میں کسی درجہ میں انہی لوگوں میں سے ہیں۔ اس دور میں تصوف عمل سے زیادہ ایک نظریہ بن گیا اور صوفی کے ہاں اصلاح نفس سے زیادہ اپنے نفس کا مقام متعین کرنا اہم مسئلہ ٹھہرا۔ شیخ ابن عربی سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ اپنا روحانی مقام متعین کرنے اور اس کی لوگوں کو پہچان کروانے میں میں بہت حساس ہیں۔ یہ دور وحدت الوجودم وحدت الشہود کی گتھیاں سلجھانے کا دور ہے۔ اور اسی دور میں وحدت الوجود کے فلسفہ کے زیر اثر شرکیہ اعمال و افعال کو تصوف میں داخل کیا گیا۔
چوتھا دور یہ گدیوں اور درباروں دور ہے جہاں تصوف کا ادارہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی، مذہبی استحصال، شریعت سے دوری، جنت کے ٹکٹ بانٹنے، مریدوں کی تعداد میں اضافے، اذیت نفس، شعبدہ بازیوں وغیرہ کا دوسرا نام بن کر رہ گیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ اپنے ایک مستقل مضمون میں کروں گا۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تصوف کی اصطلاح استعمال کرنے میں اگرچہ کوئی ممانعت نہیں تھی کیونکہ لا مشاحۃ فی الاصطلاح لیکن اس کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جو لوازمات ملحق ہو چکے ہیں، ان کی وجہ سے اس کو نہ استعمال کرنا ہی بہتر ہے۔ اور تصوف کا جو مقصود ہے یعنی اصلاح نفس تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہے اور اس کے لیے قرآن کی بہترین اصطلاح تزکیہ نفس ہے۔
قد افلح من زکھا۔الشمس
تحقیق اس نے فلاح پائی، جس نے اپنا تزکیہ نفس کیا۔
یہ واضح رہے کہ جب اہل حدیث تصوف کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کا مقصود یہ نہیں ہوتا کہ وہ زہد، تقوی، للہیت، خشیت، اصلاح نفس، اصلاح احوال، اصلاح باطن کے قائل نہیں ہے بلکہ ان کی تردید کا مقصود وہ جملہ بدعی وشرکیہ عقائد اور اعمال وافعال ہوتے ہیں جو تصوف کے ادارے کا بدقسمتی سے ایک جزو لاینفک بن چکے ہیں۔ مثنوی معنوی کو جب قرآن کا مرتبہ دے دیا جائے گا تو رد عمل تو ضرور پیدا ہو گا۔
ہاں متصوفین کو اہل حدیث سے یہ شکایت ضرور ہو سکتی ہے کہ ان کے معاصر اہل علم نے تصوف کے متبادل کے طور پر موجود کتاب و سنت کا تصور تزکیہ نفس اور اصلاح باطن ایک جامع پروگرام کی صورت میں متعارف نہیں کروایا جس وجہ سے متصوفین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ شاید اہلحدیثیت خشکی کا دوسرا نام ہے۔ میرے خیال میں یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کے تصور تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کے پروگرام کو ایک مکمل نظریہ کی صورت میں پیش کیا جائے تا کہ اہل حدیث کے بارے یہ بدگمانی ختم ہو سکے وہ اپنی طبیعتوں اور مزاج میں زہد و تقوی سے دور ہوتے ہیں۔