مولانا رمضان یوسف سلفی ۔۔۔ چند یادیں اور ملاقاتیں
ہاشم یزمانی ،اخبار جہاں ،16۔12۔2016
7 دسمبر 2016 بروز بدھ عصر اور مغرب کا درمیانی وقت تھا کہ پی آئی اے کے طیارے کی تباہی اور اس میں سوار 47 لوگوں کی وفات کی خبر نے ہلا کے رکھ دیا تھا ۔ ابھی ٹھیک طرح سے سنبھل نہ پائے تھے کہ پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ صاحب کے فیس بک اکاؤنٹ پر نظر پڑی اور نگاہ تو ایسے تھی کہ جیسے ٹھہر ہی گئی ہو۔ انہوں نے درج ذیل سٹیٹس اپ ڈیٹ کر رکھا تھا ’’ جماعت غرباء اہل حدیث کے نامور ادیب ، جماعت اہل حدیث کے گراں قدر سوانحی خاکہ نگار ،عزلت نشیں مگر احباب کے قدر شناس، دوستوں کے پر خلوص دوست جناب محمد رمضان یوسف سلفی رحمہ اللہ چند روزہ شدید بیماری کے بعد وفات پا گئے ہیں ‘‘۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !!
ابھی گزشتہ برس 22 دسمبر 2015 کو ہم نے ذہبیِ دوراں، بے مثال مؤرخ وادیب جناب مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو الوداع کیا تھا کہ ٹھیک ایک برس بعد ان کے ہمدم اور دیرینہ دوست مولانا رمضان یوسف سلفی بھی اللہ کو پیارے ہو گئے! لا ریب کہ بھٹی صاحب کے بعد اس میدان میں سلفی صاحب اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی اس اچانک وفات سے پیدا ہونے والا خلاء جلدی سے پر ہونے والا نہیں ہے۔
1967 میں پیدا ہونے والے رمضان یوسف سلفی صاحب ابھی 12 برس کے ہی تھے کہ ان کے والدِ گرامی کا انتقال ہو گیا، چنانچہ انہوں نے حالتِ یتیمی میں ہی حصول علم کا سفر جاری رکھا۔ شروع سے ہی ماشاء اللہ بڑے ذہین اور نمایاں طالب علم تھے ، مختلف اعزازات اور انعامات سے سلفی صاحب کا حوصلہ بڑھتا رہا اور وہ علم کی منزلیں طے کرتے رہے۔ 1990 کی بات ہے کہ اہل حدیث یوتھ فورس نے سیرت نگاری پر تحریری مقابلے کا انعقاد کیا جس میں ہمارے ممدوح مولانا سلفی صاحب نے بھی قسمت آزمائی اور بڑے ہی نمایاں مقام پر فائز ہوے۔ اس اعزاز نے ان کے لکھنے کے ’’ٹھرک‘‘ کے لیے ’’مہمیز‘‘ کا کام کیا۔ چنانچہ اس کے بعد سلفی صاحب نے سیرت وسوانح نگاری اور اعلام وعلم الرجال کو ہی اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ یومیہ اخبارات، ہفت روزہ جرائد اور ہاہانہ مجلات میں ان کے قلمی شاہ پارے اپنی پہچان بنانے لگے۔ اللہ تعالی نے قلم میں نکھار، تحریر میں سلاست اور الفاظ وعبارات میں بے پناہ شستگی عطا فرمائی تھی کہ ان کی تحریروں نے جلد ہی قارئین کو ان کا گروید بنا لیا۔
دوسرے اخبارات اور مجلات میں لکھنے والے سلفی صاحب کو اللہ تعالی نے توفیق عطا فرمائی کہ ’’صدائے ہوش‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوے اور اب ’’صحیفۂ اہل حدیث‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی گراں قدر اور قیمتی کتب اضافہ کیا ۔ 250 صفحات پر مشتمل ’’مولانا اسحاق بھٹی، حیات وخدمات‘‘ کے علاوہ ’’چار اللہ کے ولی‘‘، ’’مولانا عبد الوہاب دہلوی اور ان کا خاندان‘‘، ’’ تحفظِ عقیدہ ختم نبوت میں اہل حدیث کی مثالی خدمات‘‘ اور ’’منشی رام سے عبد الواحد تک‘‘ جیسی تصانیف پر مشتمل ایک علمی ورثہ انہوں نے اپنے بعد والوں کے لیے چھوڑا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ تالیفات ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں !
مولانا رمضان یوسف سلفی صاحب سے میری جان پہچان اور ملاقات کا آغاز 1999 کو ہوا کہ جب میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں حصولِ علم کے لیے آیا تھا۔ تب میرے بڑے بھائی شیخ حبیب الرحمن یزمانی رحمہ اللہ بھی فیصل آباد میں استاذ العلماء شیخ الحدیث حافظ محمد شریف صاحب حفظہ اللہ کے زیرِ سایہ مرکز تربیہ میں تعلیم کے آخری مراحل میں تھے۔ ہم دونوں بھائی تقریبا ایک سال تک فیصل آباد میں ایک ساتھ رہے۔اس کے بعد برادرِ محترم جامعہ تعلیم الاسلام مامونکانجن میں بطورِ مدرس خدمات انجام دینے لگ گئے کہ جہاں گنتی کے چند ماہ ہی یہ مبارک سلسلہ وہ جاری رکھ سکے؛ کیونکہ وہ کینسر جیسے مرض کا شکار ہو گئے تھے اور نو دس ماہ صاحبِ فراش رہنے کے بعد 30 نومبر 2000 کو جمعرات کے روز وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وأدخلہ الجنۃ الفردوس! برادرِ گرامی کی وفات پر مولانا رمضان یوسف سلفی صاحب نےمجھ سے ہمارے خاندانی پس منظر اور کچھ دیگر ضروری معلومات لے کر اپنے دوست اور میرے بھائی شیخ حبیب الرحمن یزمانی رحمہ اللہ کے حالات قلم بند کیے اور مختلف رسالوں کو یہ مضمون ارسال کیا۔
برادرِ محترم مولانا حبیب الرحمن یزمانی کو کتاب بینی کا بہت ذوق تھا، دینی کتب اور مطالعے سے انہیں جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ اکثر وبیشتر چھٹی کے وقت وہ فیصل آباد کے مکتبات کا رخ کرتے اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ مکتبہ اسلامیہ بھوانہ بازار اور مکتبہ دار ارقم امیں پور بازار پہ ہم زیادہ وقت گزارا کرتے۔ مکتبہ اسلامیہ اب تو ماشاءاللہ امین پور بازار کے مین پہ آچکا ہے اور اللہ تعالی نے محترم سرور عاصم صاحب کو اتنی ترقی سے نوازا ہے کہ اب ماشاء اللہ لاہور میں بھی اس مکتبے کی برانچ موجود ہے، اپنا پریس ہے اور دکان بھی کرائے کی نہیں بلکہ ملکیتی ہے۔ اللہ تعالی مزید برکتوں سے نوازے اور بری نظر سے محفوظ رکھے ( ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ! )
مکتبہ دار ارقم کے مالک مولانا اشرف جاوید صاحب تھے، جو تیس سال تک جامعہ سلفیہ فیصل آباد کی وسیع وعریض لائبریری کے انچارج کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسی مکتبہ دار ارقم پر ہمارے ممدوح مولانا رمضان یوسف سلفی صاحب بھی ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہی علم دوست اور اہل علم سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ بڑی بڑی کتاب دوست شخصیات سے اکثر انہی مکتبات پہ برادر محترم کی معیت میں ہی ملاقات ہوتی۔ ذاتی لائبریریوں میں نمایاں مقام پانے والے محترم علی ارشد مرحوم اور پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ صاحب سے اکثر وبیشتر انہی مکتبات پہ ہی ملاقات ہوا کرتی تھی۔
ستمبر 2006 تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا کہ پھر اللہ تعالی نے راقم الحروف کو مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا۔سالانہ تعطیلات پہ جب میں پاکستان آیا تو اساتذہ ومادر علمی کی زیارت کے لیے فیصل آباد بھی گیا۔ وہاں مکتبات کا بھی چکر لگا۔ مکتبہ دار ارقم پہ مولانا رمضان یوسف سلفی صاحب کو نہ پایا تو استفسار پر معلوم ہوا کہ امیں پور بازار میں ہی انہوں نے اپنا الگ کاروبار شروع کر لیا ہے۔چنانچہ ان سے ملنے کے لیے ادھر کا رخ کیا۔ کوتوالی روڈ کی طرف سے امیں پور بازار مین داخل ہوں تو بائیں طرف تیسری چوتھی دکان کلیہ دار القرآن والحدیث کے مدیر مولانا انس مدنی حفظہ اللہ کے والد گرامی کی ہے جہاں وہ شربت اور مربہ جات وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ سیالکوٹ میں میری مولانا انس مدنی صاحب سے ایک پروگرام مین ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا جی مرحوم مولانا عبد اللہ محدث کا یہ مشن تھا کہ بلا معاوضہ خدمتِ دین کرنے میں ہی اصل مزا ہے اور اس کے لیے ذاتی کام ضروری ہے۔ چنانچہ آج بھی ان کی اولاد اس سلسلے کو جاری رکھے ہوے ہے۔ اللہ تعالی نیک مقصد کے لیے شروع کیے ہوے اس کاروبار میں مزید برکتیں عطا فرمائے!
ان کی دکان سے متصل ایک چھوٹی سی تنگ گلی بائیں جانب جاتی ہے ۔ وہاں پر مولانا رمضان یوسف سلفی صاحب مرحوم نے سٹیشنری وغیرہ کے سامان پر مشتمل دکان بنا رکھی تھی۔ کافی دیر بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ملاقات میں کافی باتیں ہوئیں، ایک بات جو بطور خاص انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ برادر محترم مولانا حبیب الرحمن یزمانی رحمہ اللہ کے تحریر کردہ رسالہ "اہمیتِ سترہ" کی اشاعت کے وہ متمنی تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ سے اس کا اظہار کر چکے تھے۔ ان کے علاوہ مکتبہ اسلامیہ کے مالک مولانا سرور عاصم صاحب بھی کئی دفعہ اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے۔ مرکز تربیہ فیصل آباد کے فاضل ہونے کے ناطے مرکز کی انتظامیہ کی خواہش تھی کہ اپنے طالب علم کا یہ رسالہ وہ خود شائع کریں گے، اسی کشمکش میں یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اللہ کرے کہ اس کی اشاعت کا کوئی مناسب انتظام ہو جائے!
وقت گزرتا گیا،میں مدینہ منورہ سے سندِ فراغت پا کر 8 دسمبر 2014 کو پاکستان آ گیا۔ اللہ تعالی کے خاص فضل کے بعد پیغام ٹی وی کی انتظامیہ کے اعتماد کی بدولت، میں اپریل 2015 کو اس عظیم مذہبی چینل سے بطور ریسرچ سکالر منسلک ہو گیا۔ 2016 کے اوائل کی بات ہے کہ ایک دن مجھے کال موصول ہوئی، دوسری طرف سے آواز سنائی دی: ’’ یزمانی صاحب! میں رمضان یوسف سلفی بات کر رہا ہوں۔‘‘ مٹھاس بھرا یہ دھیما لہجہ میرے لیے کوئی اجنبی نہ تھا۔ بڑی ہی خوش کن حیرت مجھے ہوئی، لیکن ساتھ ہی ساتھ ندامت کا شدت سے احساس ہوا کہ کس قدر سستی کا میں شکار رہا کہ مدینہ منورہ سے واپسی پر بھی سلفی صاحب کو کال تک نہ کر سکا۔ سلام دعا کے بعد فرمانے لگے کہ وہ مجلہ اہل حدیث میں چھپنے والے حرمین شریفین کے خطبات کا ترجمہ دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے فیس بک پر لکہی جانے والی میری دیگر مختصر تحریروں کو سراہتے ہوے میری حوصلہ افزائی کی اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ ان کے مجلے کے لیے تحریریں بھیجنے کا بھی کہا۔ اسی طرح انہوں نے مجھ سے پیغام ٹی وی کے ویب ڈیپارٹمنٹ کے انچارج پروفیسر عاصم حفیظ صاحب اور پیغام ٹی وی کے منفرد پروگرام ’’ٹائم لائن‘‘ کے اینکر جناب عدیل آزاد صاحب کے موبائل نمبرز بھی لیے تاکہ پرچے کے لیے تحریروں کے متعلق وہ ان سے بھی بات کر سکیں۔ لیکن افسوس کہ ایک بار پھر میں سستی کا شکار رہا اور اس کے بعد ان سے دوبارہ رابطہ تب ہوا جب چند ماہ قبل انکی والدہ محترمہ کی وفات پر ان سے تعزیت کے لیے میں نے انہیں کال کی۔
بالآخر 7 دسمبر کو ان کی وفات کی اطلاع بھی مل گئی! سلفی صاحب کی اچانک وفات جماعت اہل حدیث کے لیے بالخصوص اور اہل علم کے لیے بالعموم بہت بڑا نقصان ہے، جسے ہم سب کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول اور برداشت کرنا ہے۔ مولانا سلفی مرحوم کی اللہ تعالی مغفرت فرمائے,،ان کی حسنات کو قبول کرے،انہیں جنتوں کا مہمان بنائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل کی توفیق بخشے!!