سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
طالب علمی کے زمانہ میں بہت تھوڑے اساتذہ ایسے ملے جن پر بڑے علماء کا اطلاق کیا جاسکتا ہے ۔ ان '' بہت تھوڑے'' میں سے ایک مولانا عبدالسلام رحمانی تھے۔ مولانا سے میرے تعلقات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ میرے خاندان کی تین نسلوں کو مولانا سے تلمذ کاشرف حاصل ہے ۔ ہمارے والد جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں مولانا سے پڑھ چکے ہیں ۔ میں نے سن 2004 میں جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں مولانا سے تفسیر قرآن پڑھی۔ اور میرے بھتیجہ نے بھی بونڈھیار میں مولانا سے کچھ اسباق پڑھے ہیں ۔
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں میں نے الگ الگ وقفوں میں تیسری اور چوتھی جماعت میں تعلیم حاصل کی۔ 2004 میں چوتھی جماعت میں مولانا عبدالسلام رحمانی سے تفسیر قرآن پڑھی۔ اس وقت میری عمر تقریبا 17/ 18 سال کی تھی۔ اس عمر میں ظاہر سی بات ہے شعور ایسا پختہ نہیں ہوتا ہے کہ کسی بڑی شخصیت کا احاطہ کرسکے ۔ پھر بھی مولانا عبدالسلام کی شخصیت اتنی بڑی تھی کہ اس کی پرچھائیاں اب تک ذہن کے مختلف گوشوں میں محفوظ ہے ۔ کوشش کرتا ہوں کی ان پرچھائیوں کو ان صفحات پر اتار سکوں ۔
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں میں نے الگ الگ وقفوں میں تیسری اور چوتھی جماعت میں تعلیم حاصل کی۔ 2004 میں چوتھی جماعت میں مولانا عبدالسلام رحمانی سے تفسیر قرآن پڑھی۔ اس وقت میری عمر تقریبا 17/ 18 سال کی تھی۔ اس عمر میں ظاہر سی بات ہے شعور ایسا پختہ نہیں ہوتا ہے کہ کسی بڑی شخصیت کا احاطہ کرسکے ۔ پھر بھی مولانا عبدالسلام کی شخصیت اتنی بڑی تھی کہ اس کی پرچھائیاں اب تک ذہن کے مختلف گوشوں میں محفوظ ہے ۔ کوشش کرتا ہوں کی ان پرچھائیوں کو ان صفحات پر اتار سکوں ۔