محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا مضمون تو ان شاء اللہ الواقعۃ کی جمادی الاول کی اشاعت میں طبع ہوگا لیکن اس سے پہلے ایک دوسرے مضمون کا لنک پیش خدمت ہے :
http://baseeratonline.com/2902
مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی__وہ بھی کر گئے آخر کویہ دنیا خالی
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امار ت شرعیہ
’’ عام الحزن‘‘ کو اگر لغوی معنی میں لیں اور اسکو وسعت دیں تو ہندستانی مسلمانوں کے لئے ۱۴۳۶ھ اور ۲۰۱۵ عام الحزن قرار پائے گا ، پہلے تبلیغی جماعت بہار کے امیر مشہور شاعرپد م شری ڈاکٹر کلیم عاجز نے آنکھیں بند کیں ، پندرہ دن نہیں گذرے تھے کہ حضرت جی مولانا ذوالفقار صاحب چل بسے ، جمعیت اہل حدیث بہار کے امیر ڈاکٹر عبدالحلیم سلفی نے رخت سفر باندھا اور۵/ اکتوبر ۲۰۱۵ مطابق ۲۰ ذی الحجہ ۱۴۳۶ھ کی شب مولانا عبدالسمیع جعفر ی ندوی امیر امارت اہل حدیث صادق پور نے بھی داغ مفارقت دیدیا۔۱۴۳۶ھ میںچند یوم اور ۲۰۱۵ میں ابھی چندماہ باقی ہیں ، اللہ کرے آگے ملت کو اور کوئی صدمہ نہ برداشت کرنا پڑے ۔
جنازہ میں جلدی کی گئی ،پونے گیارہ بجے شب میں انتقال ہوا اور صبح ساڑھے دس بجے سنیچراعید گاہ میں جنازہ کی نمازان کے صاحبزادے نائب امیر مولانا غازی اصلاحی نے پڑھائی اور میر شکار ٹولی مرکزی مسجد میں دوبارہ نماز جنازہ ظہر کی نماز سے فراغت کے بعداسی مسجد کے پیچھے آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، کھلے آسمان کے نیچے چلچلاتی دھوپ میںبغیر کسی اخباری خبر کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے ۔جو ان سے والہانہ محبت وعقیدت کے غماز تھے ، امارت شرعیہ کی جانب سے راقم الحروف ( محمد ثناء الہدی قاسمی )اور مفتی محمد سہراب ندوی بھی جنازہ میں شریک ہوئے ۔
مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی مولانا عبدالخبیر صاحب کے نامور فرزند تھے۱۴ ستمبر ۱۹۳۶ کو ولادت باسعادت صادق پور ( میر شکار ٹولی ) پٹنہ میں ہوئی ابتدائی تعلیم والد مولانا عبدالخبیرؒ سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ سے سندفراغت حاصل کی ، دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عربی ادب میں تخصص کیا ، مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا ،
لیکن جلد ہی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چار سال تک وہاں اعلی تعلیم کے حصول میں لگے رہے ان کے اندر داعیانہ صفات کا ادراک کرتے ہوئے سعودی حکومت کی جانب سے بحیثیت داعی ومبلغ انہیں نائجیریا بھیج دیا گیا، وہاں کی آب و ہواراس نہ آنے کی وجہ سے دو سال بعد مکۃ المکرمہ لوٹ آئے اور یہاں جامعۃ ام القری کی مرکزی لائبریری میںخدمات انجام دیتے رہے ۔
۱۹۹۴ ء میں سعودی عرب کی ملازمت چھوڑ کر والدکے انتقا ل کے بعد امارت اہل حدیث کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے بہار آگئے اور انتہائی سادہ زندگی گذاری ، خشیت الہی اور خانگی احوا ل و کوائف نے ان کی ہڈیوں کو گلا دیا تھا دبلے پتلے توہر دور میں تھے ، لیکن مسلسل امراض نے ان کی پیٹھ کو بستر سے لگا دیا تھا ، کولہے کی ہڈی کے ٹوٹنے کے بعد وہ برسوں سے معذور والی زندگی گذار رہے تھے ، ایک ماہ پہلے انہیں شری رام اسپتال کنکڑ باغ میں داخل کرایا گیا تھا ، کئی دنوں سے وہ انوی لیٹر پر تھے اور بالاخر وقت موعود آگیا۔
مولاناعبدالسمیع جعفری کے نامور والد مولانا عبدالخبیر صاحب سے میرے دادا کے ہم زلف حافظ محمود عالم صاحب کا والہانہ تعلق تھا،اس تعلق کے نتیجے میں وہ اپنی اہلیہ کا علاج کرانے پٹنہ آئے تو انہیں کے یہاں قیام ہوا ، اہلیہ تو اچھی ہوگئیں ، لیکن خود حافظ محمود عالم صاحب کا انتقال یہیں صادق پور میں ہوگیا اورمولانا عبدالخبیرصاحب ؒ کی ہدایت پر ان کی تدفین بھی یہیں ہوئی ، اس تعلق کی وجہ سے والدصاحب کی زبان مولانا کا تذکرہ کانوں میں پڑتا تھا ،فراغت کے بعد جب میں نے مدرسہ احمدیہ ابابکر پورجوائن کیا ، اور جلسوں میںجانا آنا شروع ہوا تو پہلی بار میگھون ضلع مدھوبنی کے جلسے میں ہم لوگ ایک ساتھ شریک ہوئے ، لوگ مجلس جمائے ہوئے تھے ، ہوتے ہوتے بات تراویح کی رکعات پر پہنچ گئی ، ایک صاحب نے مولانا سے سوال کیا کہ تراویح تو آٹھ ہی رکعت ہے پھر حنفی لوگ بیس کیوں پڑھتے ہیں ؟کہنے لگے آٹھ کے بعد ہی تو بیس تک پہونچتا ہے ، پھر اعتراض کیا ہے ؟ آٹھ سے کم پڑھے تب پوچھو، پٹنہ میں جو مسجد مولانا کی زیر نگرانی تھی اور ان کے مصلی حنفی اور اہل حدیث دونوںہوتے تو مولانا کی ہدایت ہوتی کہ آٹھ رکعت میں اما م پارہ سنائے اور امام تراویح کی بقیہ رکعات سورہ لگا کر پورا کرے۔اسی موقع سے ایک صاحب نے سوال کیاکہ کھانے کے وقت سلام کرنا چاہئے یانہیں ؟فرمایا ، ممانعت کی کوئی روایت میری نظر سے نہیں گذری ، ایک اور موقع سے کسی موضوع پر مختلف تنظیموں کی طرف سے بیان آنا تھاوہ اپنی علالت کی وجہ سے مجلس میں تشریف نہیں لاسکے تھے ، ہم لوگ اعلانیہ لے کر ان کے پاس گئے ، بہت خوش دلی سے ملے او ر فرمایا کہ مسلکی معاملات الگ ہیں ، لیکن ملت کے مفاد کا جو اجتماعی کام ہے ہم سب کو مل کر نا چاہئے ، اور مسلکی معاملات میں بھی ایسا کچھ نہیں کرنا چاہئے جس سے غیروں میں انتشار واختلاف کا پیغام جائے ، ان تینوں جواب سے ان کی میانہ روی، اعتدال پسندی اور اپنے مسلک کے معاملے میں سختی اور دوسرے مذاہب والوں کے تئیں روا داری کا پتہ چلتا ہے ، دوسری بڑ ی خوبی ان کے اندر یہ تھی کہ جس بات کو حق سمجھتے اسے برملا کہتے ، اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اخبار میں اعلان شائع کروادیتے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک موقع سے حسب سابق امارت شرعیہ کے ساتھ چاند کی رویت کا انہوں نے اعلان کردیا ، لیکن دوسرے دن بھی عمومی رویت نہیں ہوئی ، ایک سربرآوردہ اور بااثر دانشورنے میٹنگ بلائی، قرب و جوار کے اضلاع سے بھی بعض لوگو ں کو طلب کیا گیا تھا، بندہ ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں ہوا کرتا تھا ، طلبی پر حاضر ہوا ، حضرت قاضی صاحب نور اللہ مرقدہ بھی مجلس میں تھے ، حضرت قاضی صاحب نے شرعی دلائل سے چاندکی رویت کے اعلان کو حق بجانب قرار دیا ، مولانا عبدالسمیع جعفری کوانشراح نہیں ہوا انہوں نے برملا مجلس میں اعلان کیا کہ اس معاملہ میںمجھ سے غلطی ہوگئی، چاندہی کا ایک اور موقع تھا ، امار ت شرعیہ کے اعلان کے ساتھ ان کے ادارہ کا نام کا اعلان نہ ہوسکا ، انہوں نے اس زمانہ میں شعبہ اردو کے ذمہ دار اور نمائندے جو امارت شرعیہ تشریف لائے تھے ان کو مورد لزام ٹھہرایا ، خبر یں اخبار میں بھی آگئیں ، ان صاحب نے مولانا کویقین دلایا کہ میں تو صرف ڈاکیہ تھا ریڈیو پر خبر کی ترتیب واشاعت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ،مولاناکو جیسے ہی یقین آیا کہ یہ سب بدگمانی کے نتیجے میں ہوا ہے ، فورا ہی اخبار میں اعلان شائع کیا کہ یہ سارا کچھ بدگمانی کا نتیجہ تھا ، اور اللہ مجھے اس بدگمانی کے لئے معاف کردے میں نے اپنی تدریسی اور تنظیمی زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھا جو اتنی آسانی سے نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہو بلکہ کھلے عام اعلان میں بھی اسے تامل اور جھجھک نہ ہو ۔
ایک ملاقات میں مولانا فرمانے لگے کہ جب میں نے سعودی سے ہندستان آنے کا فیصلہ کیا توبہت سارے احباب ورفقاء منع کرنے لگے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے مجھے بھی تردد تھا کہ آرام و راحت کی زندگی چھوڑ کر ہندستان میں رہ پائوں گا یا نہیں ؟ چنانچہ میں نے ایک دن اپنا کمرہ بند کیا اے سی بند رکھا ، گدے بستر الگ کرکے فرش پر سویا ، تکیہ کی جگہ سرہانے اینٹ تھی ، مجھے نیند آگئی تومجھے یقین ہوگیا کہ میںہندستان جاکر کام کرسکوں گا ، چنانچہ مولانا ہندستان وارد ہوگئے ، اپنے باپ دادا وغیرہ کی علمی اور عملی وراثت کو بچانے، سنوارنے اور مستحکم کرنے کا کا م کیا ، مدرسہ اصلاح المسلمین کو جامعہ اصلاحیہ تک پہونچایا ، انہوں نے خدمت خلق کے لئے مریم اسپتال بھی کھولا تھا جو اپنوں کی رسہ کشی کی نظر ہوگیا ۔بھائی کے قتل اور بیٹیوں کے انتقال کے اثرات نے بھی انہیں مضمحل کردیا تھا لیکن انتہائی صابر وشکر ہونے کی وجہ سے راضی برضا الہی تھے ، سوگوار خاندان میں بیوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔اللہ رب العزت سے دعا ء ہے کہ وہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے ،سیئات سے درگذر فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے آمین ۔