مولانا محمد حنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ
پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب گنج ہائے گرانمایہ میں لکھتے ہیں : موت سے کسی کومفر نہیں لیکن جولوگ کلّی مقاصد کی تائید وحصول میں تادم آخر کام کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں ۔ ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے ۔
مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ پر یہ جملہ مکمل طور پر صادق آتا ہے ۔ مولانا ندوی نے اپنی زندگی دین اسلام کی نشرو اشاعت ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج اور شرک وبدعت اور محدثات کی تردید میں وقف کر دی تھی۔
ندوۃ العلماء نے اپنے مختلف ادوار میں ایسے ایسے گوہر پیدا کئے جنہوں نے دینی وعلمی اور قومی وملی کارنامے انجام دے کر ندوۃ العلماء کا نام روشن کیا۔ مثلاً علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا عبد السلام ندوی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ، مولانا سید ریاست علی ندوی ، مولانا محمد ناظم ندوی ، مولانا عبد السلام قد وائی ندوی، مولانا حافظ محب اللہ ندوی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولانا محمد عمران خاں ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبد اللہ عباس ندوی، مولانا مختار احمد ندوی، مولانا ہدایت اللہ ندوی ، مولانا محمدرئیس ندوی اور مولانا محمد حنیف ندوی اور کئی دوسرے اصحاب ندوہ جنہوں نے ساری زندگی دین اسلام کی نشر واشاعت، کتاب وسنت کی ترقی وترویج اور شرک وبدعت کی تردید کے علاوہ ملی وقومی خدمات انجام دے کر وہ کا رہائے نمایاں انجام دئیے ۔ جن کا تذکرہ ان شاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک رہے گا۔
مولانا محمد حنیف ندوی اپنے دم سے ایک عہد تھے ۔ وہ اپنی ذات سے خود ایک انجمن تھے ۔ مولانا ندوی ایک نہایت اصولی ، راست گو، راست باز، حق پسند، اور مرنجاں مربج طبیعت کے مالک تھے ۔ علم وحلم کے پیکر تھے سلامت طبع کی نعمت انہیں وافر ملی تھی۔ مولانا ندوی میں ایک صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی کہ آپ کم گو، فعّال ، سنجیدہ، مگر سرگرم اورنبض شناس تھے ان کی پیشانی کی شکنیں ہمہ وقت معنی خیز نتائج کی متلاشی ہوتی تھیں ۔ وہ عمربھر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کی مجلس عاملہ وشوریٰ کے رکن رہے اور ہر نازک موقع پر مرکزی جمعیت کی عظمت و وقار کے لئے سینہ سپر رہے ان کی اصابت رائے کا یہ عالم تھا کہ ارکان شوریٰ نہ صرف یہ کہ ان کے مشوروں کی قدر کرتے تھے بلکہ اُسے اختیار بھی کرتے تھے یہ حقیقت ہے اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کہ : مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ ذہانت وذکاوت، عدالت وثقاہت اور فطانت ، فہم وبصیرت، تقویٰ وطہارت، زہدو ورع، علم وحلم، جو دوسخا، اور بیدار دماغی میں ممتاز تھے اور بڑ ا بلند مقام رکھتے تھے ۔
قدرت کی طرف سے بڑ ے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے ۔ روشن فکر ، دردمند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ ذہن وذکاوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حافظہ کی غیر معمولی نعمت سے بھی نوازا تھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا۔ تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے ۔ فلسفہ پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا ملکی سیاسیات سے نہ صرف باخبر تھے بلکہ اس پر اپنی ناقدانہ رائے رکھتے تھے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی تحریکات کے پس منظر سے واقف تھے نہ صرف برصغیر کی قومی وملی اور دینی وعلمی اور سیاسی تحریکات سے انہیں مکمل واقفیت اور ان کے قیام کے متعلق انہیں مکمل آگاہی تھی بلکہ عالم اسلام کی دینی وعلمی اور مذہبی اور قومی وملی تحریکات سے بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے ۔ادب عربی بہت اعلیٰ اور صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے ۔لغت وقواعد پر ان کی گہری نظر تھی اور اس کی باریکیوں کے مبصر تھے ۔الفاظ کی تحقیق میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ عربی واردو کے وہ غیر پایہ اور فطری انشاپرداز تھے ۔ قلم برداشتہ تحریر کا ان کو عجیب ملکہ حاصل تھا۔تحریر میں برجستگی، سلامت اور روانی ہوتی ، جچے تلے الفاظ، چست ترکیبیں ، اچھوتے استعارات ، نادر تشبہیں ، مولانا ندوی کی تحریرکی خاص خصوصیت تھی ان کی تحریر حشو وزوائد سے پاک ہوتی تھی۔ موقع موقع سے محاورات و امثال بھی استعمال کرتے مگر اس میں کوئی تکلف نہ ہوتا پڑ ھنے والا محسوس کرتا کہ جیسے جگہ جگہ موتی جڑ دئیے گئے ہیں ۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے شغف
مولانا ندوی کو قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ سے بہت زیادہ شغف تھا۔ قرآن مجید سے اتنا ذوق بڑ ھ چکا تھا۔ کہ شاید اس کتاب سے زیادہ وہ کسی کتاب کو نہیں پڑ ھتے تھے ۔قرآن مجید سے محبت کی وجہ سے آپ نے فراغت تعلیم کے بعد جامع مسجد مبارک اہلحدیث اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لا ہور (جہاں آپ کا تقرر بحیثیت خطیب ہوا) میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا مولانا محمد اسحاق بھٹی آپ کے درس قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
مولانا محمد حنیف ندوی ندوہ سے فارغ ہونے کے بعد 1930ء میں وطن واپس لوٹے ۔ تو لا ہور کی مسجد مبارک میں جو اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) سے متصل ہے ۔ درس قرآن اور خطابت کے فرائض سرانجام دینے لگے ۔ اس سے پہلے لا ہور میں درس قرآن کے دو حلقے قائم تھے ۔ ایک مولانا احمد علی صاحب کا شیرانوالہ گیٹ کی مسجد میں اور دوسرا بادشاہی مسجد کے سابق خطیب مولانا علام مرشد کاسنہری مسجد رنگ محل میں ۔اب تیسرا حلقہ درس مسجد مبارک میں مولانا حنیف ندوی کا قائم ہوا۔ یہ حلقہ اس اعتبار سے پہلے دونوں حلقوں سے منفرد تھا کہ اس میں قدیم اسلوب درس کے علاوہ جدید انداز بھی کارفرما تھا۔ اور علوم وفنون نے جو پھیلاؤ اختیار کر لیا ہے اس کا تذکرہ نہایت مؤثر اور اچھوتے انداز میں ہوتا تھا۔ نیز قرآن کے جن جن پہلوؤں کو مستشرقین نشانہ اعتراض بناتے ہیں اس کی وضاحت کی جاتی تھی اور معترضین کے نئے اسلوب کلام میں جواب دیا جاتا تھا۔ (قافلہ حدیث ص/276)
قرآن مجید سے محبت اور شغف کے نتیجہ میں آپ نے تفسیر سراج البیان اور مطالعہ قرآن تصنیف فرمائیں ۔ حدیث نبوی ﷺ سے بھی آپ کو بہت زیادہ شغف تھا ۔حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنتی بھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔ جب بھی کسی طرف سے حدیث پر اعتراضات ہوئے اور تنقید کی جاتی ۔مولانا ندوی اس کا اسی وقت نوٹس لیتے تھے اور دلائل سے معترضین کے اعتراضات کا جواب دیتے تھے (اس سلسلہ میں ہفت روزہ الاعتصام کی فائلز دیکھی جا سکتی ہیں ۔ جو آپ کی ادارت میں 1949ء میں شائع ہوا اور آپ اس کے جون 1953ء تک ایڈیٹر رہے ) الاعتصام میں آپ نے محدثین کے حالات اور ان کی خدمت حدیث پر کئی مضامین لکھے ۔ حدیث نبوی ﷺ سے شغف اور محبت کے سلسلہ میں آپ نے مکالمہ حدیث کے نام سے کتاب تالیف فرمائی۔
صحافت
مولانا محمد حنیف ندوی کا صحافت سے بھی تعلق رہا ہے کئی رسائل کے آپ مدیر رہے ہیں اور کئی رسائل میں بطور مدیر معاون فریضہ انجام دیتے رہے ۔ تفصیل درج ذیل ہے ۔
1۔ ماہنامہ ، اسلامی زندگی (لا ہور) یہ شرکت علمی لمیٹڈ(لا ہور) کا رسالہ تھا مولانا کچھ عرصہ اس کے مدیر رہے ۔
2۔ ہفت روزہ ’مسلمان‘ (سوہدرہ) اس کے مالک ومدیر مولانا عبد المجید سدہدروی تھے اس میں آپ نے بطور مدیر معاون کام کیا۔ مولانا ندوی اس اخبار کو دینی وعلمی بنانا چاہتے تھے اور مولانا سوہدروی اس سے اتفاق نہیں کرتے تھے اس لئے آپ نے علیحدگی اختیار کر لی۔
3۔ ہفت روزہ ’الاخوان‘ (گوجرانوالہ) انجمن اہلحدیث گوجرانوالہ نے جاری کیا مولانا ندوی کو ایڈیٹر مقرر کیا گیالیکن اس کا ایک ہی شمارہ شائع ہوا جو پہلا بھی تھا اورآخری بھی۔
4۔ ہفت روزہ ’الاعتصام‘ (گوجرانوالہ ۔ لا ہور) اس اخبار کا ڈیکلرنیس مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے حاصل کیا اور اس کا پہلا شمارہ گوجرانوالہ سے اگست 1949ء میں شائع ہوا ۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس کے پہلے ایڈیٹر تھے ۔ آپ جون 1953ء تک اس کے ایڈیٹر رہے ۔
تصانیف
مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اعلیٰ پایہ کے مصنف بھی تھے آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں یہ کتابیں آپ کے تبحر علمی ، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا آ ئینہ دار ہیں ۔ تفصیل درج ذیل ہے ۔
1۔ تفسیر سراج البیان (5 جلد)
2۔ ترجمہ قرآن مجید مولانا فتح محمد جالندھری پر نظر ثانی
3۔مطالب القرآن فی ترجمۃ القرآن
4۔ ترجمہ صحیح بخاری بنام الاسوئہ
5۔ گاندھی جی کی پیدا میں شردھا کے پھول
6۔ مجبوریاں
7۔ مسئلہ اجتہار
8۔افکارابن خلدون
9۔سرگزشتِ غزالی
10۔ تعلیمات غزالی
11۔ مکتوب مدنی
12۔ افکار غزالی
13۔ عقلیات ابن تیمیہ رحمہ اللہ
14۔ مسلمانوں کے عقائد وافکار (2 جلدیں )
15۔ اساسیاتِ اسلام
16۔ تہافتہ الاسلام (تلخیص وتفہیم)
17۔ مطالعہ قرآن
18۔ مطالعہ حدیث
19۔ لسان القرآن (2 جلدیں )
20۔ چہرہ نبوت قرآن کے آئینہ میں
21۔ مرزانیت نئے زاویوں سے
(چالیس علمائے اہلحدیث ص/372، 373)
جماعت اہلحدیث کیلئے خدمات
قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس تھی اور صوبائی جماعت انجمن اہلحدیث پنجاب تھی۔ مولانا محمدحنیف ندوی ان دونوں جماعتوں کی مجلس عاملہ کے رکن تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی سعی وکوشش سے مرکزی جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو صدر اور پروفیسر عبد القیوم کو جنرل سکرٹری بنایا گیا مولانا ندوی کو مجلس عاملہ وشوریٰ کارکن نامزد کیا گیا۔
اپریل 1955ء میں لائل پور (فیصل آباد) میں سالانہ اہلحدیث کانفرنس ہوئی اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ جماعت اہلحدیث کا ایک مرکزی دار العلوم قائم کیاجائے علمائے کرام نے اس سے اتفاق کیا اس دار العلوم کانام مولانا ندوی نے الجامعۃ السلفیہ تجویز کیا ۔ جو بالاتفاق منظور ہوا۔
تلامذہ
مولانا محمد حنیف ندوی نے باقاعدہ کسی دار العلوم میں تدریس نہیں فرمائی لیکن جامعہ سلفیہ کے ابتدائی دور( لا ہور) میں اور ادارۃ العلوم الاثریہ (فیصل آباد) میں ان سے چند حضرات نے استفادہ کیا ۔ جن کے نام یہ ہیں ۔
حافظ عبد الرشید گوہڑ وی ، حافظ عزیز الرحمان لکھوی ، مولانا عبد الرشید (نومسلم) ، مولانا قاضی محمد اسلم سیف ، ڈاکٹر مجیب الرحمان صدر شعبہ اسلامیات راج شاہی یونیورسٹی (بنگلہ دیش) ، مولانا ارشاد الحق الاثری، صاحبزادہ برق التوحیدی، مولانا محمد مدنی(جہلم) مولانا محمد خالد سیف اسلامی نظرتی کونسل (اسلام آباد)
علمی تبحر
مولانامحمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اپنے علمی مرتبہ کے لحاظ سے صاحب کمال تھے ۔ تفسیر قرآن، حدیث، فقہ الحدیث، تاریخ وسیر، اسماء الرجال، ادب وانشاء، فقہ واصول فقہ، فلسفہ وکلام، اور منطق ، لغت وعربیت اور صرف ونحو میں عبور واستحضار حاصل تھا۔ فلسفہ قدیم وجدید پر ان کی نظر بہت زیادہ وسیع تھی ۔ ان کے علمی تبحر اور صاحب فضل وکمال ہونے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے ان کو اسلامی نظریاتی کونسل کارکن نامزد کیا آپ 1973ء تا 1982ء تک اس کے رکن رہے ۔
مولانا ندوی رحمہ اللہ کے علمی تبحر کا علمی حلقوں میں اعتراف کیا گیا ہے ۔ پروفیسر سراج منیر مرحوم لکھتے ہیں کہ مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم کو علوم دینیہ کے تمام میدانوں میں یکسانیت حاصل تھی۔
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مولانا محمد حنیف ندوی بڑ ے عالم وفاضل، محقق ، مؤرخ ، فلسفی اور علوم جدیدہ کے ماہر تھے ۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ سیاسیات حاضرہ کے علاوہ عالمی سیاست سے بھی پوری طرح باخبر تھے ۔ بڑ ے خوش اخلاق وکردار کے مالک تھے مولانا ظفر علی خاں سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ اور ان کی علمی وسیاسی خدمات کے معترف تھے مجھ سے جب بھی ملاقات ہوتی مولانا ظفر علی خاں کے اشعار سننے کی فرمائش کرتے اور اشعار سن کر بہت محظوظ ہوتے تھے ۔
مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ 1908ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے علوم اسلامیہ کی تحصیل شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی سے کی۔بعدازاں ندوۃ العلماء لکھنو میں داخل ہوئے ۔ اور پانچ سال ندوہ میں رہ کر سند حاصل کی۔ 1930ء میں ندوہ سے فارغ ہوکر واپس وطن تشریف لائے کچھ مدت گوجرانوالہ میں رہے بعدازاں لا ہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ 12 جولائی 1987ء کو لا ہور میں (79) برس کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
مقالہ نگار: عبدالرشید عراقی