عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
*مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی کتابوں کا مطالعہ نفع بخش یا گمراہی کا پیش خیمہ؟ (1).*
گذشتہ دنوں ایک مضمون *"چند کتابیں"* کے عنوان سے زیرِ نظر ہوا، مضمون نگار نے اہل بدعت ومنکرینِ سنت کی کتابوں پڑھنے کا مشورہ دیا ہے، جس میں مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی تالیفات کو بطورِ خاص زیرِ مطالعہ لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
*نوٹ*: [اگر یہ مضمون دیگر مکاتبِ فکر کی جانب سے لکھا گیا ہوتا تو میں اس سے قطعا تعرض نہیں کرتا، چونکہ جنہوں نے یہ مضمون تحریر کیا ہے انہیں حلقہ اہل حدیث کے خواص احباب کے یہاں پذیرائی حاصل ہے، اس لئے نوکِ قلم کو تکلیف دینے کی نوبت آئی، کیوں کہ منہجِ سلف سے جڑے لوگوں کے متعلقین اگر منہجِ سلف کی مخالفت کریں تو اس کا اثر بہت گہرا اور دیر پا ہوتا ہے، اور ہم اہل حدیثوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہم کسی کی ظاہری حماست کو دیکھ کر اس کو قریب کرلیتے ہیں، لیکن بعد میں ہمارے لئے وہ ناسور بن جاتا ہے، اللہ ہم سبھوں کو ہدایت دے اور منہج سلف پر قائم ودائم رکھے]۔
اپنے مضمون کی شروعات کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ : *"دو ایسی کتب جن کو پڑھ کر امید ہے کہ انسان انکار حدیث کی گمراہی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا، ان میں پہلی اہلحدیث عالم علامہ عبدالرحمٰن کیلانی کی ’’آئینہ پرویزیت‘‘ ہے اور دوسری سید مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘.*
غیور سلفی بھائیو! اوپر کے سطور کو بغور پڑھیں اور پھر سوچیں کہ مودودی صاحب کی مذکورہ کتاب پڑھ کوئی انسان انکار حدیث میں کبھی مبتلا نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے مصنف مولانا مودودی خود اس کتاب کی تالیف کے بعد منکرین سنت کے علمبردار اور مشعلِ راہ بنے۔
یہ بات کسی بھی سلفی العقیدہ شخص پر مخفی نہیں کہ مولانا مودودی کی تعلیمات افکارِ سیئہ وضالہ وباطلہ کا مجموعہ ہے، جہاں آپ کو انکار حدیث کے ساتھ ساتھ اعتزال، اشعریت، صوفیت، خارجیت، رافضیت اور وحدۃ الوجود جیسے تمام عقائد آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔
ماضی قریب میں ہندوستان میں انکارِ حدیث کے سرخیل سر سید، امین احسن اصلاحی اور مولانا مودودی وغیرہ ہی رہے ہیں۔
لوگوں کو حدیث کا انکار کرنا نہیں آتا تھا، لیکن مولانا مودودی اور ان جیسے حضرات کی کاوشوں کی بدولت لوگوں نے حدیث پر اعتراض کرنا، عقل و درایت کی کسوٹی پر پرکھ حدیث کا انکار کرنا، اور اسے عجمی سازش کا نتیجہ بتانا سیکھا ہے۔
لوگوں کو صحابہ پر کلام کرنا نہیں آتا تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان درازی کرنا، دل میں بغض وعناد پالنا مولانا مودودی کی تحریروں سے لوگوں نے سیکھا۔
عام مسلمانوں کی رافضیوں سے قربت بھی بہت کم تھی، لیکن مولانا مودودی خمینی زندیق گمراہ کی حکومت سے ایسے مسحور ہوئے کہ وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے، چنانچہ اس کا اثر خاص حلقے میں آج تک دکھائی دیتا ہے، اور رافضیوں نے بھی اس کا صلہ انہیں اور ان کی جماعت کو گاہے بگاہے دیا ہے۔
جامعہ اسلامیہ کے ایک طالب نے مذکورہ مضمون
کو اپنے فیس بک پیج پر نشر کیا تھا، جس پر کسی بھائی نے تعلیق چڑھائی تو اس طالب علم نے" خذ ما صفا ودع ما كدر" کا اس معلِّق کو مشورہ دیا۔
مثال کے طور پر یوں سمجھ لیں کہ مذکورہ طالب علم نے سونے کی دکان کھول رکھی ہے جس میں اصلی سونا، جعلی سونا اور تھوڑے سے پیتل کا کاروبار چلاتے ہیں، بس مشکل یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کے سونا اور پیتل کو ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اب لوگ اسے سونا ہی سمجھ کر اس کا بھاؤ کرتے ہیں، کوئی کم علم ان پر جب اعتراض کرتا ہے کہ بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو یہ طالبِ علم کہتے ہیں کہ بھائی جو اصلی سونا ہے وہ لے لو اور جو نقلی سونا یا پیتل ہے اسے چھوڑ دو، اب بیچارا خریدار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ مجھے جب اصلی سونے کی پرکھ نہیں تو میں جعلی سونا اور پیتل کی پہچان کیسے کروں؟
صفا وکدر کا کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے اور کہے کہ اللہ رب العالمین نے شہد میں شفا رکھی ہے، تم کو شہد سے مطلب ہونا چاہیے زہر سے نہیں۔
محترم قارئین! آخر وہ کون سا ایسا موضوع جس پر سلف نے اور منہجِ سلف کے پیروکار وں نے سیر حاصل بحث نہ کی ہو کہ ہمیں ایک خارجی و معتزلی فکر کے حامل سے اس کو سمجھنے کی ضرورت پڑ گئی؟
قارئین کرام! انکارِ حدیث سے بچنے کیلئے مولانا مودودی کی کتاب پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ظلم سے بچنے کیلئے ظالم سے مشورہ لینا، قتل جیسے شنیع عمل سے دور رہنے کیلئے قاتل سے نصیحت طلب کرنا، نماز کی اہمیت جاننے کیلئے بے نمازی کے پاس جانا، سود کے حرمت پر سود خور سے معلومات حاصل کرنا۔
شیخ البانی اور شیخ ابن باز رحمہما اللہ، اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ حفظہم اللہ جمیعا فرماتے ہیں کہ: اخوان المسلمین اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے، یاد رہے کہ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کا منہج ومشرب ایک ہی ہے، ان دونوں کے درمیان وہی رشتہ ہے جو اشعریت وماتریدیت کے درمیان ہے۔
اہل علم و فضل کے نزدیک یہ نیا فرقہ ہے جس کے اصول منہج سلف کے اصول کے مخالف ہے جیسا کہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں، تو پھر ان کے بانی ومؤسس کو کس خانے میں رکھا جائے؟
اس لئے قطاع الطریق کی پہچان کریں، اور منہجِ سلف کے دشمن کو پروموٹ کرنے والوں سے ساودھانی اختیار کریں۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ملاحظہ*: اہل بدعت کی کتابوں سے استفادہ کے سلسلے میں سلف کا موقف کیا ہے، ان شاءاللہ آخری قسط میں تفصیل آئے گی۔
ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
گذشتہ دنوں ایک مضمون *"چند کتابیں"* کے عنوان سے زیرِ نظر ہوا، مضمون نگار نے اہل بدعت ومنکرینِ سنت کی کتابوں پڑھنے کا مشورہ دیا ہے، جس میں مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی تالیفات کو بطورِ خاص زیرِ مطالعہ لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
*نوٹ*: [اگر یہ مضمون دیگر مکاتبِ فکر کی جانب سے لکھا گیا ہوتا تو میں اس سے قطعا تعرض نہیں کرتا، چونکہ جنہوں نے یہ مضمون تحریر کیا ہے انہیں حلقہ اہل حدیث کے خواص احباب کے یہاں پذیرائی حاصل ہے، اس لئے نوکِ قلم کو تکلیف دینے کی نوبت آئی، کیوں کہ منہجِ سلف سے جڑے لوگوں کے متعلقین اگر منہجِ سلف کی مخالفت کریں تو اس کا اثر بہت گہرا اور دیر پا ہوتا ہے، اور ہم اہل حدیثوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہم کسی کی ظاہری حماست کو دیکھ کر اس کو قریب کرلیتے ہیں، لیکن بعد میں ہمارے لئے وہ ناسور بن جاتا ہے، اللہ ہم سبھوں کو ہدایت دے اور منہج سلف پر قائم ودائم رکھے]۔
اپنے مضمون کی شروعات کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ : *"دو ایسی کتب جن کو پڑھ کر امید ہے کہ انسان انکار حدیث کی گمراہی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا، ان میں پہلی اہلحدیث عالم علامہ عبدالرحمٰن کیلانی کی ’’آئینہ پرویزیت‘‘ ہے اور دوسری سید مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘.*
غیور سلفی بھائیو! اوپر کے سطور کو بغور پڑھیں اور پھر سوچیں کہ مودودی صاحب کی مذکورہ کتاب پڑھ کوئی انسان انکار حدیث میں کبھی مبتلا نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے مصنف مولانا مودودی خود اس کتاب کی تالیف کے بعد منکرین سنت کے علمبردار اور مشعلِ راہ بنے۔
یہ بات کسی بھی سلفی العقیدہ شخص پر مخفی نہیں کہ مولانا مودودی کی تعلیمات افکارِ سیئہ وضالہ وباطلہ کا مجموعہ ہے، جہاں آپ کو انکار حدیث کے ساتھ ساتھ اعتزال، اشعریت، صوفیت، خارجیت، رافضیت اور وحدۃ الوجود جیسے تمام عقائد آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔
ماضی قریب میں ہندوستان میں انکارِ حدیث کے سرخیل سر سید، امین احسن اصلاحی اور مولانا مودودی وغیرہ ہی رہے ہیں۔
لوگوں کو حدیث کا انکار کرنا نہیں آتا تھا، لیکن مولانا مودودی اور ان جیسے حضرات کی کاوشوں کی بدولت لوگوں نے حدیث پر اعتراض کرنا، عقل و درایت کی کسوٹی پر پرکھ حدیث کا انکار کرنا، اور اسے عجمی سازش کا نتیجہ بتانا سیکھا ہے۔
لوگوں کو صحابہ پر کلام کرنا نہیں آتا تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان درازی کرنا، دل میں بغض وعناد پالنا مولانا مودودی کی تحریروں سے لوگوں نے سیکھا۔
عام مسلمانوں کی رافضیوں سے قربت بھی بہت کم تھی، لیکن مولانا مودودی خمینی زندیق گمراہ کی حکومت سے ایسے مسحور ہوئے کہ وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے، چنانچہ اس کا اثر خاص حلقے میں آج تک دکھائی دیتا ہے، اور رافضیوں نے بھی اس کا صلہ انہیں اور ان کی جماعت کو گاہے بگاہے دیا ہے۔
جامعہ اسلامیہ کے ایک طالب نے مذکورہ مضمون
کو اپنے فیس بک پیج پر نشر کیا تھا، جس پر کسی بھائی نے تعلیق چڑھائی تو اس طالب علم نے" خذ ما صفا ودع ما كدر" کا اس معلِّق کو مشورہ دیا۔
مثال کے طور پر یوں سمجھ لیں کہ مذکورہ طالب علم نے سونے کی دکان کھول رکھی ہے جس میں اصلی سونا، جعلی سونا اور تھوڑے سے پیتل کا کاروبار چلاتے ہیں، بس مشکل یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کے سونا اور پیتل کو ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اب لوگ اسے سونا ہی سمجھ کر اس کا بھاؤ کرتے ہیں، کوئی کم علم ان پر جب اعتراض کرتا ہے کہ بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو یہ طالبِ علم کہتے ہیں کہ بھائی جو اصلی سونا ہے وہ لے لو اور جو نقلی سونا یا پیتل ہے اسے چھوڑ دو، اب بیچارا خریدار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ مجھے جب اصلی سونے کی پرکھ نہیں تو میں جعلی سونا اور پیتل کی پہچان کیسے کروں؟
صفا وکدر کا کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے اور کہے کہ اللہ رب العالمین نے شہد میں شفا رکھی ہے، تم کو شہد سے مطلب ہونا چاہیے زہر سے نہیں۔
محترم قارئین! آخر وہ کون سا ایسا موضوع جس پر سلف نے اور منہجِ سلف کے پیروکار وں نے سیر حاصل بحث نہ کی ہو کہ ہمیں ایک خارجی و معتزلی فکر کے حامل سے اس کو سمجھنے کی ضرورت پڑ گئی؟
قارئین کرام! انکارِ حدیث سے بچنے کیلئے مولانا مودودی کی کتاب پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ظلم سے بچنے کیلئے ظالم سے مشورہ لینا، قتل جیسے شنیع عمل سے دور رہنے کیلئے قاتل سے نصیحت طلب کرنا، نماز کی اہمیت جاننے کیلئے بے نمازی کے پاس جانا، سود کے حرمت پر سود خور سے معلومات حاصل کرنا۔
شیخ البانی اور شیخ ابن باز رحمہما اللہ، اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ حفظہم اللہ جمیعا فرماتے ہیں کہ: اخوان المسلمین اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے، یاد رہے کہ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کا منہج ومشرب ایک ہی ہے، ان دونوں کے درمیان وہی رشتہ ہے جو اشعریت وماتریدیت کے درمیان ہے۔
اہل علم و فضل کے نزدیک یہ نیا فرقہ ہے جس کے اصول منہج سلف کے اصول کے مخالف ہے جیسا کہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں، تو پھر ان کے بانی ومؤسس کو کس خانے میں رکھا جائے؟
اس لئے قطاع الطریق کی پہچان کریں، اور منہجِ سلف کے دشمن کو پروموٹ کرنے والوں سے ساودھانی اختیار کریں۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ملاحظہ*: اہل بدعت کی کتابوں سے استفادہ کے سلسلے میں سلف کا موقف کیا ہے، ان شاءاللہ آخری قسط میں تفصیل آئے گی۔
ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ