- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
"مولانا" کے ہاتھوں میں مہندی اور چوڑیاں!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نیو کراچی میں ہمارے ایک عالم دوست ہیں۔ مندرجہ ذیل عجیب مگر دلچسپ قصہ مجھےانہوں نے کچھ دن پہلے سنایا۔ آئیے ان کے الفاظ میں سنتے ہیں:
"ہوا یوں کہ ہمارے ایک انکل جی جو کہ ماشاء اللہ قاری صاحب بھی ہیں اور ان کے چار بچے ہیں، دو بیٹے، دو بیٹیاں… انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کشمیر کی سیر کا پروگرام بنایا تو اپنی بیگم صاحبہ سے اجازت مانگی یعنی مشورہ چاہا ۔ بیگم صاحبہ نے سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوشی سے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ میاں جی اپنے عالم دوستوں کے ساتھ سیر وتفریح کے لیے روانہ ہوگئے… دس دن کے بعد واپسی ہوئی…جب واپس آئے تو ان کے ساتھ کچھ مہمان بھی تھے…جنہیں قاری صاحب نے بیٹھک میں ٹھہرایا، جس کا دروازہ باہر سے تھا اور گھر والوں کو بتایا کہ خصوصی مہمان ہیں، ہمارے یہاں چند دن ٹھہریں گے… بیگم صاحبہ نے خوشی سے مہمانوں کی خدمت اجر وثواب سمجھ کر شروع کردی… قاری صاحب کبھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتے اور کبھی گھر والوں کے ساتھ… اسی طرح کبھی مہمانوں کے ساتھ سو جاتے تو کبھی گھر میں سوجاتے اور چونکہ قاری صاحب کے بچے ایک مدرسہ میں رہائشی طالب علم تھے… اس لیے قاری صاحب مہمانوں کی خدمت خود کرتے… بیگم صاحبہ بھی جی ہی جی میں خوش ہوتیں کہ علماء کرام مہمان ہیں… ہم دونوں میاں بیوی مہمان علماء کرام کی خدمت کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہوں گے! چوں کہ بیٹھک بالکل الگ تھی…اس لیے پردے کی کوئی پریشانی بھی نہیں تھی…
ناگہاں ایک دن یہ ہوا کہ قاری صاحب ضروری کام سے کہیں گئے تو بہت دیر تک نہیں لوٹے۔ دوپہر کھانے کا وقت ہوگیا مگر وہ نہیں آئے۔ ہوتے ہوتے دوپہر کے چار بج گئے۔ ادھر قاری صاحب کی اہلیہ پریشان کہ یااللہ مہمان بھوکے ہیں… انہیں کھانا کون کھلائے؟ جب کافی دیر ہوگئی تو بیگم صاحبہ نے ہمت کی، کھانا تیار کیا… ڈشوں میں سجا کر دروازہ بجایا اور آواز بھی دی!
’’حضرت! پردے کے پیچھے سے کھانا لے لیں…‘‘
کافی دیر دروازہ بجایا مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آیا… بے چاری بیگم صاحبہ پریشان ہوگئیں۔’’ الٰہی خیر! مہمانوں کو کیا ہوگیا؟ شاید کھانے میں اتنی دیر کی وجہ سے ناراض ہو گئےہیں!‘‘
ایک بار پھرزور سے دروازہ بجا کر کہا۔’’ حضرت کھانا لے لیں!‘‘
مہمانوں کو شاید ترس آگیایا بھوک ہی بہت زور کی لگی تھی کہ بیگم صاحبہ نے دیکھا کہ دروازہ آہستہ آہستہ کھل رہا ہے۔ بیگم صاحبہ نے اللہ کا شکر ادا کیا… کھانا پردے کے پیچھے رکھا تھا، مگر پھر بھی وہ دوسرے کمرے کی اوٹ میں ہو گئیں…
مہمان علما ء کرام میں سے ایک نے کھانے کی ٹرے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازے کی اوٹ میں کھڑی بیگم صاحبہ پر ایک عجیب منظر دیکھ کر کچھ دیر کے لیے تو سکتہ سا طاری ہو گیا… پھر انہوں نے بے اختیار اپنا دل تھاما اور دہشت سے امڈتی چیخ کو کسی طرح روکا:’’ یہ… یہ کیا؟؟؟‘‘
مولانا صاحب کے ہاتھوں پر مہندی چمک رہی تھی اور ہاتھوں میں خوب صورت چوڑیاں بھی چھن چھنا چھن کررہی تھیں!… حنائی ہاتھ کھانے کی ٹرے اٹھائے دروازے کے پیچھے غائب ہو چکے تھے اور کمرہ بند ہو گیا تھا۔
بیگم صاحبہ کے ہوش ہی نہیں ہاتھوں کے طوطے مینا بھی سب "پھر" سے اڑ گئے، دماغ بھی بھک سے اڑ گیا کہ میرے اللہ! یہ کیسا مولانا صاحب ہے کہ ہاتھوں پر مہندی اور چوڑیاں؟؟ نہیں نہیں بالکل نہیں…یہ…یہ کوئی اور معاملہ ہے!
ابھی وہ حیرت کا مجسمہ بنی گنگ کھڑی تھیں کہ قاری صاحب کسی حسین خیال میں گم مست چال چلتے گھر میں داخل ہوئے… ان کے لبوں پر ایک آسودہ مسکان تھی!
”ارے سنتی ہو نیک بخت!.... بھئی کہاں چھپی ہوئی ہو؟“
” میں یہاں ہوں....“ شوہر نامدار کو دیکھ کر تو بیگم صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ وہ تو کسی بم کی طرح پھٹ پڑیں۔ ”ذرا یہ تو بتائیں کہ یہ....یہ مہمان کون ہیں؟....اے میں کہتی ہوں یہ کیسے مولانا ہیں؟“
اب ہاتھوں کے طوطے اڑنے کی باری قاری صاحب کی تھی۔ وہ ہکلانے لگے۔
’ ’کک....کیا مطلب؟مہمان ہیں اور … اور کون ہیں بھلا؟!“
”مہمان.... مہندی چوڑیوں والا مہمان.... اے غضب خدا کا، میں مولانا سمجھ کر خوب خدمتیں کرتی رہی، اور یہ صاحب کوئی اور ہی گل کھلا تے رہے میری چھت کے نیچے....اے کون ہے یہ ملانی.... بتاتے کیوں نہیں؟“
اس زبردست دھچکے پر بیگم صاحبہ کا پارہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا اور اس آفت ناگہانی پر بے چارے قاری صاحب بالکل ہونق سے ہو ئے کھڑے تھے!
قصہ مختصر یہ کہ کافی دنگل کے بعد جب بیگم صاحبہ قاری صاحب کے ہمراہ اندر گئیں تو پتا چلا وہاںرہنے والا مہمان کوئی مولانا نہیں، بلکہ قاری صاحب کی نئی نویلی بے چاری دلہن بیٹھی تھر تھر کانپ رہی ہے… اسے موصوف کشمیر سے نکاح فرما کر اپنے ہمراہ لے کر آئے تھے اور انہیں اپنا دوست بتا کر مہمان بنایا ہوا تھا اور بیگم صاحبہ سے خدمت بھی کروا رہے تھے۔ بیگم صاحبہ نے زیادہ احتجاج کیا تو قاری صاحب نے بھی سینہ چوڑا کر کے نکاح نامے کا پھریرا لہرا دیا۔
خیر تو دوستو! آپ نے شادیاں تو بہت دیکھی ہوں گی مگر ایسی انوکھی شادی کے بارے میں کبھی نہیں پڑھا ہو گا! چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ راوی کے مطابق دو تین ماہ تک تو گھر میں وہ جھگڑا رہا کہ قاری صاحب بے چارے فکر میں آدھے ہو گئے مگر… موصوف بڑی حکمت عملی سے دونوں بیویوں میں مکمل انصاف کرنے کی کوشش کرتے رہے… خصوصاً پہلی بیوی سے محبت کرنے میں،ان کا خیال رکھنے میں کوئی کمی نہ آنے دی تو آہستہ آہستہ پہلی بیگم صاحبہ کا دل بھی اللہ نے نرم کر دیا اور انہوں نے سوتن کو نہ صرف دل سے قبول کر لیا بلکہ اپنی چھوٹی بہن بنا لیا… اب ماشاء اللہ دو منزلہ مکان ہے، اوپر نیچے رہائش ہے۔ ایک دوسرے کے ہاں تحفے تحائف بھی بھیجتی رہتی ہیں۔ محبت سے رہ رہی ہیں مگر جب کبھی بھی مہمان علماء کا ذکر چھڑتا ہے تو گھر میں قہقہوں کی بہار آجاتی ہے!"
نوٹ: یہ بالکل سچا واقعہ ہے جو اسی طرح پیش آیا۔ الفاظ صرف بندے کے ہیں!
محمد فیصل شہزاد
بشکریہ فیس بُک