• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولوی الیاس گھمن صاحب کے "رفع یدین نہ کرنے" کا جواب

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مزید یہ کہ اس کی مؤید احادیث بھی لکھی گئیں۔


ان تمام کے باوجود یہ ¯ حدیث ضعیف کیسے؟
یا تو آپ بات سمجھ نہیں رہے ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں؟
محترم بھائی اصول یہ ہے صحیحین میں مدلسین کی عن والی روایات دوسری جھت سے سماع پر محمول ہوں گی اور اس کی بنیاد پر آپ نسائی کی روایت کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں
میرا سوال یہ ہے کہ کیا نسائی کی مذکورہ بالا روایت صحیحین میں ہے ؟ اگر نہیں تو پھر یہ روایت کس طرح صحیح ہوئی؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
یا تو آپ بات سمجھ نہیں رہے ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں؟
محترم بھائی اصول یہ ہے صحیحین میں مدلسین کی عن والی روایات دوسری جھت سے سماع پر محمول ہوں گی اور اس کی بنیاد پر آپ نسائی کی روایت کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں
میرا سوال یہ ہے کہ کیا نسائی کی مذکورہ بالا روایت صحیحین میں ہے ؟ اگر نہیں تو پھر یہ روایت کس طرح صحیح ہوئی؟
بھائی میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ جب مدلس کا عنعنہ سماع پر محمول ہوگیا تو اس کا سماع نسائی میں اسی راوی سے کیسے ثابت نا رہا۔
مدلس راوی بھی وہی اور جس سے عنعنہ سے روایت کر رہا ہے وہ بھی وہی۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ سند کی حدیث صحیح مسلم میں ہے۔
کیا اس کو ضعیف کہیں گے اور سفیان کا سماع ثابت نا ہوگا؟
سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ کی جن روایات کو البانی مرحوم نے صحیح کہا ہے اس کے بارے کیا خیال ہے؟
سفیان عن عاصم بن کلیب کی جو روایت صحیحین میں ہے محدثین کے اصول کے مطابق اس روایت کو سماع پر محمول کیا جائے گا ناکہ کسی دوسری کتاب کی روایات کو، شاید آپ کو صحیحین کے راوی اور صحیحین کی روایت کا فرق نہیں معلوم؟
زیر بحث روایت کو محدثین کی بڑی جماعت نے ضعیف کہا ہے جبکہ بعض نے اس کی تحسین یا تصحیح بھی کی ہے، تصحیح یا تحسین کی صورت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے کئی معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھول اور خطا سے دو چار ہو گئے ہوں؟ خاص طور پر اس خیال کی تائید اس وقت اور ہو جاتی ہے کہ صحیح روایت کے مطابق صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی ہے.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
سفیان عن عاصم بن کلیب کی جو روایت صحیحین میں ہے محدثین کے اصول کے مطابق اس روایت کو سماع پر محمول کیا جائے گا ناکہ کسی دوسری کتاب کی روایات کو، شاید آپ کو صحیحین کے راوی اور صحیحین کی روایت کا فرق نہیں معلوم؟
زیر بحث روایت کو محدثین کی بڑی جماعت نے ضعیف کہا ہے جبکہ بعض نے اس کی تحسین یا تصحیح بھی کی ہے، تصحیح یا تحسین کی صورت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے کئی معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھول اور خطا سے دو چار ہو گئے ہوں؟ خاص طور پر اس خیال کی تائید اس وقت اور ہو جاتی ہے کہ صحیح روایت کے مطابق صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی ہے.
جب مدلس راوی کا سماع اپنے استاد راوی سے ثابت ہو گیا تو اب صحیحین کی تحدید کس دلیل سے رہی؟
وہی مدلس راوی اپنے اسی استاد راوی سے روایت کرے تو دوسری کتب میں وہ سماع پر محمول کس دلیل سے نا ہوگی؟

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خطا کا ہو سکنا ایک الگ مسئلہ ہے اور خطا ہوئی ایک الگ بات۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خطا ہوئی پر ثبوت دو۔

جس بات کو خطا کہہ کر ٹالنا چاہتے ہو ۔۔۔ اسی کو اگر اس پر محمول کیا جائے ۔۔۔ رفع الیدین میں تبدیلیاں آئیں ۔۔۔ اسی لئے مختلف انواع کی احادیث ذخیرہ احادیث میں مل رہی ہیں ۔۔۔ تو زیادہ مناسب ۔۔۔ اور حقیقت پر مبنی ہوگا۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اختلافی احادیث

چار جگہ کا اثبات انکار کسی جگہ کا نہیں
صحيح البخاري:
739 - حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ " إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ "، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

تین جگہ کا اثبات اور سجدوں کو جھکتے اور سجدوں سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین سے انکار
صحيح البخاري:
738 - حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَعَلَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ"

سجدہ کو جھکتے وقت رفع الیدین کرنے کا ثبوت
المعجم الكبير للطبراني:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن عَبْدِ الْوَهَّابِ ، قَالَ : نا أَبِي ، قَالَ : نا الْجَرَّاحُ بن مَلِيحٍ ، عَنْ أَرْطَاةَ بن الْمُنْذِرِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ ، وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سجدہ کے لئے جھکتے ہوئے تکبیر کہتے تب بھی رفع الیدین کرتے۔
رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کےطریقہ میں اختلاف
مسند الشافعي :
- 194 أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ كَانَ إِذَا ابْتَدَأَ فِي الصَّلاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا دُونَ ذَلِكَ.

195 - وَبِهَذَا الإِسْنَادِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا ابْتَدَأَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ.

ہر رکعت کو اٹھتے وقت رفع الیدین نا کرنے کا ثبوت
مصنف عبد الرزاق الصنعاني :
2518 - عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حِذْوَ مِنْكَبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا يَفْعَلُهُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ»

ہر تکبیر انتقال کے ساتھ رفع الیدین کا ثبوت
شرح مشكل الآثار:
5831 - كَمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ، وَرَفْعٍ، وَرُكُوعٍ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ، وَقُعُودٍ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ "
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع الیدین کرتے جب جھکتے اور اٹھتے اور رکوع کرتے اور سجدہ کرتے اور جب کھڑے ہوتے اور سجدوں کے درمیان قعدہ کرتے اور ان کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔

سجدوں میں رفع الیدین کا ثبوت
مصنف ابن أبي شيبة: في رفع اليدين بين السجدتين:
حدثنا أبو بكر قال نا أبو أسامة عن عبيدالله عن نافع عن ابن
عمر أنه كان يرفع يديه إذا رفع رأسه من السجدة الاولى.
ابن عمر رضی الله عنہ جب پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔

تکبیر تحریمہ کے سوا رفع الیدین نا کرنا
قرة العينين برفع اليدين في الصلاة :
15 - قَالَ الْبُخَارِيُّ: " وَيُرْوَى عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ , عَنْ حُصَيْنٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ لَمْ يَرَ ابْنَ عُمَرَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى.
موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني:
108 - قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ»
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر تحریمہ میں کانوں کے برابر رفع الیدین کرتے اس کے بعد پھر رفع الیدین نا کرتے۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
جب مدلس راوی کا سماع اپنے استاد راوی سے ثابت ہو گیا تو اب صحیحین کی تحدید کس دلیل سے رہی؟
وہی مدلس راوی اپنے اسی استاد راوی سے روایت کرے تو دوسری کتب میں وہ سماع پر محمول کس دلیل سے نا ہوگی؟
صحیحین کی تحدید میری اپنی ایجاد نہیں بلکہ یہ تو محدثین کا بیان کردہ قاعدہ ہے، جس کے قائل احناف بھی ہیں حوالے اسی تھریڈ میں اوپر موجود ہیں، اگر آپ کو یہ اصول غلط لگتا ہے تو ان علماء پر انگلی اٹھاؤ جنہوں نے یہ اصول بنایا ہے لیکن اس سے پہلے اک سوال کا جواب مطلوب ہے آپ کی عمر سے بیس پچیس سال کم عمر کا شخص جو اتفاقاً آپ سے علیک سلیک بھی رکھتا ہے اگر یہی شخص آپ کے بچپن کے واقعات آپ سے منسوب کرکے بیان کرتا ہے اتفاقاً یہ شخص مدلس بھی ہے تو کیا اس کی ان باتوں کو آپ سماع پر محمول کریں گے؟ صرف اس بنیاد پر کہ بڑے ہوکر آپ سے اس نے سماع کیا ہوا ہے؟
اگر صحیحین کے علاوہ کی روایت بھی کسی دوسری سند سے سماع کی صراحت کے ساتھ مؤید ہوجائے اور اس کی سند میں مزید کوئی خرابی نہیں ہے تو اس کو بھی سماع پر محمول کیا جائے گا ، آپ زیر بحث روایت کے سماع کی صراحت والی روایت پیش فرما دیں؟
یاد رہے مدلس راوی کی ہر ہر بات یا اس کی بات کے مفہوم کے صحیح ہونے کے لئے سماع کی صراحت ہونا ضروری ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خطا کا ہو سکنا ایک الگ مسئلہ ہے اور خطا ہوئی ایک الگ بات۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خطا ہوئی پر ثبوت دو۔
  1. خطا ہوئی یا نہیں ہوئی یہ تو تب کی بات ہے جب یہ روایت صحیح ہو جبکہ معاملہ اکثر محدثین کی مانیں تو یہ ہے کہ زیر بحث روایت ضعیف ہے اور اس کی کئی وجہ ہیں، مدلس کا عنعنہ ان میں سے ایک ہے، عاصم بن کلیب سے روایت کرنے والے صرف سفیان ان الفاظ کو روایت کرتے ہیں جبکہ دوسرے شاگرد ان الفاظ کو جن سے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا استدلال ہے روایت نہیں کرتے.
  2. آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ان روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں جن میں ہے کہ وہ رکوع میں تطبیق کے قائل تھے اور معوذتین کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے؟ مثالیں تو اور بھی ہیں فی الحال کے لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
جس بات کو خطا کہہ کر ٹالنا چاہتے ہو ۔۔۔ اسی کو اگر اس پر محمول کیا جائے ۔۔۔ رفع الیدین میں تبدیلیاں آئیں ۔۔۔ اسی لئے مختلف انواع کی احادیث ذخیرہ احادیث میں مل رہی ہیں ۔۔۔ تو زیادہ مناسب ۔۔۔ اور حقیقت پر مبنی ہوگا۔
یقیناً ایسا ہی ہوتا اگر آپ کی بیان کردہ روایات ضعیف نا ہوتیں یا اس پائے کی ہوتیں جس پائے کی رفع یدین کرنے پر دلالت کرنے والی ہیں، لیکن افسوس آپ کی بیان کردہ روایات اس درجہ کی نہیں ہیں، جسکا اعتراف علماء احناف کو بھی ہے، فیض الباری، التعلیق الممجد، حجۃ اللہ البالغہ وغیرہ میں اس کی صراحت دیکھی جا سکتی ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
جس بات کو خطا کہہ کر ٹالنا چاہتے ہو ۔۔۔ اسی کو اگر اس پر محمول کیا جائے ۔۔۔ رفع الیدین میں تبدیلیاں آئیں ۔۔۔ اسی لئے مختلف انواع کی احادیث ذخیرہ احادیث میں مل رہی ہیں ۔۔۔ تو زیادہ مناسب ۔۔۔ اور حقیقت پر مبنی ہوگا۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اختلافی احادیث

چار جگہ کا اثبات انکار کسی جگہ کا نہیں
صحيح البخاري:
739 - حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ " إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ "، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

تین جگہ کا اثبات اور سجدوں کو جھکتے اور سجدوں سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین سے انکار
صحيح البخاري:
738 - حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَعَلَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ"

سجدہ کو جھکتے وقت رفع الیدین کرنے کا ثبوت
المعجم الكبير للطبراني:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن عَبْدِ الْوَهَّابِ ، قَالَ : نا أَبِي ، قَالَ : نا الْجَرَّاحُ بن مَلِيحٍ ، عَنْ أَرْطَاةَ بن الْمُنْذِرِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ ، وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سجدہ کے لئے جھکتے ہوئے تکبیر کہتے تب بھی رفع الیدین کرتے۔
رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کےطریقہ میں اختلاف
مسند الشافعي :
- 194 أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ كَانَ إِذَا ابْتَدَأَ فِي الصَّلاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا دُونَ ذَلِكَ.

195 - وَبِهَذَا الإِسْنَادِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا ابْتَدَأَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ.

ہر رکعت کو اٹھتے وقت رفع الیدین نا کرنے کا ثبوت
مصنف عبد الرزاق الصنعاني :
2518 - عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حِذْوَ مِنْكَبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا يَفْعَلُهُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ»

ہر تکبیر انتقال کے ساتھ رفع الیدین کا ثبوت
شرح مشكل الآثار:
5831 - كَمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ، وَرَفْعٍ، وَرُكُوعٍ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ، وَقُعُودٍ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ "
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع الیدین کرتے جب جھکتے اور اٹھتے اور رکوع کرتے اور سجدہ کرتے اور جب کھڑے ہوتے اور سجدوں کے درمیان قعدہ کرتے اور ان کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔


سجدوں میں رفع الیدین کا ثبوت
مصنف ابن أبي شيبة: في رفع اليدين بين السجدتين:
حدثنا أبو بكر قال نا أبو أسامة عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يرفع يديه إذا رفع رأسه من السجدة الاولى.
ابن عمر رضی الله عنہ جب پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔

تکبیر تحریمہ کے سوا رفع الیدین نا کرنا
قرة العينين برفع اليدين في الصلاة :
15 - قَالَ الْبُخَارِيُّ: " وَيُرْوَى عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ , عَنْ حُصَيْنٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ لَمْ يَرَ ابْنَ عُمَرَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى.
موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني:

108 - قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ»
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر تحریمہ میں کانوں کے برابر رفع الیدین کرتے اس کے بعد پھر رفع الیدین نا کرتے۔
کیا آپ ان مختلف احادیث کی بنیاد پر ہر تکبیر اور اٹھتے و بیٹھتے وقت رفع یدین کی مشروعیت کے قائل ہیں؟ علماء احناف کے وہ حوالے درکار ہیں جن سے یہ معلوم ہو کہ ان احادیث میں بیان کردہ تمام طریقے مبنی بر حق ہیں، اور اگر آپ نہیں دکھا سکتے تو یہ اپنی مبنی بر حق بات اپنے پاس رکھو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہم مقلدین کی طرح لا خیرے نہیں کہ صحیح اور ضعیف کے فرق کو نا سمجھتے ہوں، اور جو احادیث قابل حجت ہیں اور جو نا قابل حجت ہیں سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے ہوں.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
اگر صحیحین کے علاوہ کی روایت بھی کسی دوسری سند سے سماع کی صراحت کے ساتھ مؤید ہوجائے اور اس کی سند میں مزید کوئی خرابی نہیں ہے تو اس کو بھی سماع پر محمول کیا جائے گا ، آپ زیر بحث روایت کے سماع کی صراحت والی روایت پیش فرما دیں؟
آپ لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ دوسرے کی تحریر پر دھیان نہیں دیتے اپنی ہانکتے رہتے ہو۔

سفیان عن عاصم بن کلیب کی جو روایت صحیحین میں ہے محدثین کے اصول کے مطابق اس روایت کو سماع پر محمول کیا جائے گا ناکہ کسی دوسری کتاب کی روایات کو، شاید آپ کو صحیحین کے راوی اور صحیحین کی روایت کا فرق نہیں معلوم؟
میں نے جس حدیث کا حوالہ دیا اس کا مدلس راوی وہی ہے جو صحیحین کا ہے اور اسی استاد راوی سے عن سے روایت کر رہا ہے جو صحیحین میں ہے۔
اب اس روایت پر تدلیس اور عنعنہ کی جرح ختم ہوگئی کہ اس کا سماع ثابت ہوچکا۔


جب مدلس راوی کا سماع اپنے استاد راوی سے ثابت ہو گیا تو اب صحیحین کی تحدید نا رہی بلکہ ہر حدیث کی کتاب میں اس سند کو سماع پر ہی محمول کیا جائے گا۔
 
Top