• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولوی اور ہمارا معاشرہ

شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
9
مولوی اور ہمارا معاشرہ
جو قوم اپنے اکابر اپنے علما کا خون چوسے وہ قوم کبھی بھی رحمت خدا وندی کی مستحق نہیں ہو سکتی
اس بات پر کسی کو کوئ اعتراض نہیں ہو گا کہ مولوی زندگی کے ہر شعبہ میں کام کی چیز ہے
مثلا
نماز روزہ حج زکوة وضو غسل میت کا غسل جنازہ نکاح پیدائش غرض ہر جگہ پر مولوی کے بنا سب ناکام.
چاہے انجنیئر ہو وکیل ہو یا ڈاکٹر
پر پھر بھی ہمارۓ معاشرے میں مولوی کی حثیت ایک میراثی سے بھی کم ہے
بیٹے کی شادی پر ڈھول بجانے والے میراثی کو چپ چاپ دس ہزار نکال کر دۓ دیا اور نکاح کے وقت لڑکے کا باپ مولوی سے پوچھتا ہے کتنے دوں
مولوی صاحب کہتے ہیں خدارا میراثی سے کم نا سمجھنا
ہمارۓ معاشرے میں مولوی کی قدر صرف غلام کی سی ہے
اور مولوی کی تنخواہ اتنی کہ اگر بیمار ہو جاۓ تو دوائ بھی ٹھیک سے نہیں آتی
مسجد کی تعمیر پر پچاس لاکھ لگا دیا جاتا ہے پر مولوی صاحب کی تنخواہ براۓ نام ہوتی ہے
مسجد کی کمیٹی کے پاس کچھ اضافی پیسے بچ جائیں تو ان کی سوچ و فکر کسی طرح اس پیسے کو پیشاب خانہ بیت الخلاء
اینٹ گارا مٹی میں کسی طرح لگا دیا جاۓ چاہے ان کو کوئ چیز بنی بنائ توڑ کر ہی کیوں نہ بنانی پڑۓ
مگر ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا امام یا مدرس کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جاۓ یا ان کی کوئ ضرورت پوری کر دی جاۓ
میں جہاں رہتا ہوں میرۓ گھر کے قریب مسجد ہے وہاں پر امام مسجد کی تنخواہ صرف اٹھارہ سو روپے ہے
فروری کے آغاز ہی میں جب میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئیے مسجد گیا تو وہاں امام مسجد کی تنخوا پر بات ہو رہی تھی جو ابھی تک امام صاحب کو ادا نہیں کی گئ تھی
نمازیوں میں سے ایک شخص بولا مولوی صاحب کیا کریں ہم بمشکل آپ کی تنخوا ادا کرتے ہیں اگر آپ فری میں پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آپ کو اجازت ہے ہم خود اپنی اپنی نماز پڑھ لیا کریں گے
اور اس مسجد کے ساتھ منسلک جو گھر ہیں ان کی ماہانہ آمدن تقریبا ایک لاکھ فی گھر ہے
یہ آمدن میں نے امیر گھروں کی لکھی غریب گھر بھی منسلک ہیں
اور تقریبا پندرہ گھر امیر جبکہ باقی طبقہ کی بھی چالیس ہزار فی گھر ماہانہ آمدن ہے.
تین دن قبل میں اور میرا دوست مارکیٹ گۓ میرۓ دوست کو وہاں سے کچھ خریدنا تھا
ایک جوتا خریدا جو بارہ سو کا ملا
اب ایک شخص جس کا جوتا بارہ سو کا اور ایک امام مسجد کی تنخواہ دو ہزار سے بھی کم
کس طرح سے وہ اپنا اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہو گا
آقا ص کے فرمان کے مطابق ایک مسلمان حجر اسود سے افضل ہے تو ایک عالم دین کا مقام کیا ہو گا
اللہ تعالی کی رحمت تب ہی برسے گی جب ہم اس کے مقرب بندوں کو ان کا اصل اور حقیقی مقام دیں گے
قلم کار ولید رضا فاروقی
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فکر انگیز تحریر ، جزاک اللہ خیرا ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
تشویشناک بهی ، ملتے جلتے حالات پورے برصغیر میں عام ہیں ۔ اللہ ہم سب کو بہتر توفیق دے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولوی اور ہمارا معاشرہ

اوریا مقبول جان
شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے۔​
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ایک بات ہمیں اپنے پلے باندھ لینی چاہیئے کہ جب تک اپنے مدارس سے صرف ''عالم دین'' پیدا کرتے رہیں گے، اور وہ معاشرے کے دیگر امور سے علیحدہ رہیں گے، معاملہ حل نہیں ہو گا۔
وہ زمانہ گذر گیا جب مسجد کا مولوی لوگوں کے خط لکھتا اور پڑھتا تھا، اس وقت یہ مولوی کا معاشرے میں ایک کردار تھا، جو ''دیگر امور'' میں شامل ہے۔ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہمیں اپنے مدارس کے نظام میں ایسی تبدیلی لانی ہوگی کہ مدارس سے سند یافتہ ایک عالم دین کے علاوہ کوئی علیحدہ پیشہ بھی اختیار کرسکے، جو معاشرے میں بڑا اثر رکھتا ہو! مثلاً پرائمری تا سیکنڈری اسکول کے ٹیچر کا اضافی کورس کروایا جائے، صحافی کا اضافی کورس کروایا جائے، آئین اور انٹر نیشنل سیاست کی کلاسیں وغیرہ، یعنی کہ مدارس کے طالب علم کو ایک شعبہ کے انتخاب کا اختیار ہو، جسے علاقائی یونیوسٹی سے رکارگنائز بھی کروایا جائے!
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شعر و نثر میں لفظ "" مولوی "" کا مذاق اُڑانے والوں کے لیے " شہاب نامہ " سے ایک انمول اقتباس !!
پیشکش : عابی مکھنوی
’’یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا ہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتا ہے۔
یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔ برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔ اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہو تو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتا ہے، انگلیاں ٹیڑھی کر کر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کر مولوی صاب مولوی صاب کر رہے ہوتے ہیں اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے‘‘ ۔
اوپر بیان کردہ یہ وہ کارنامے ھیں جسکا تعلق ھر عام وخاص سے ھے !!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مولوی پر کیا گزری...

یہ ریڈیو پاکستان کا خاص اجلاس تھا....زیڈ اے بخاری اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ...یہ ذوالفقار علی بخاری وہی پطرس بخاری کے بھائی ہیں جناب...
اجلاس جاری تھا کہ موصوف کہنے لگے "ہم نے اس ملک سے مولوی کے اثرات کو ختم کرنا ہے"...
لیجئے مملکت خداد داد پاکستان کہ جس کو بنے ابھی سال نہیں مہینے ہوۓ ہیں اس کی میڈیا کی پالیسی طے پا رہی ہے....
پاکستان کی پہلی کابینہ کی تشکیل ہو رہی ہے...ارے یہ کیا بھائی جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا جا رہا ہے...ایک قادیانی کو وزیر خارجہ لگا دیا گیا.....کیوں؟...ہم نے تو اسلام کے نفاذ کے لیے یہ ملک حاصل کیا تھا... تو کیا اسلامی قانون ایک ہندو نافذ کرے گا....؟..ارے نہیں بھائی اب ایسی بھی بات نہیں پاکستان کا قومی پرچم کس نے لہرایا..؟جی یہ مولانا شبیر احمد عثمانی تھے....لیکن اس کے بعد مولوی پر کیا گزری؟ یہ تاریخ کا المناک باب ہے
....ایک مولوی سے پرچم ضرور لہروا لیا ... لیکن اس دیس کی پالیسی وہی رہی جو زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے اجلاس میں بتائی تھی....اسلام نافذ کرنا کس نے تھا؟..یہ بس ایک نعرہ تھا ..وقت گذر گیا ...اب تو اس نعرے کو دفن کرنا تھا...لیکن یہ ایسا آسان کام نہ تھا ...سو اس کام کا آغاز مولوی سے شروع کیا گیا ...مولوی اسلام کا نمائندہ تھا..سو مولوی کی ذات پر اتنا کیچڑ اچھالا گیا کہ مذھب کی بات کرنا ہی مشکل ہونے لگی...خود مولوی کو اپنی بقا کے لالے پڑ گیے
میں نہیں جانتا کہ اس اجلاس میں مولوی کے اثرات سے اس معاشرے کو "پاک" کرنے کے لیے کیا فیصلے کیے گئے ہوں گے...لیکن تب سے لے کر آج تک پاکستان میں مولوی کے ساتھ جو ہوئی ہے اسے دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیا فیصلے ہوۓ ہوں گے..
پراپیگنڈا آج کے دور میں ایک فیصلہ کن ہتھیار کی صورت اختیار کر چکا ہے..اور اس میں سب موثر کردار میڈیا کا ہے....آپ دیکھ لیجئے کہ میڈیا کا مشن صبح شام مولوی کو بدنام کرنا ہے...
ذرا پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو فیصلہ کرنے والی طاقتوں کے مرکز میں ، اقتدار کی غلام گردشوں میں، عدالتوں کے ایوانوں میں ، مولوی دور دور تک نظر نہیں آتے....اخبارت اٹھائیے ، فحاشی عریانی نے اپنے پنجے گاڑے ہوۓ ہیں...مولوی کا نام نشان نہیں...اسمبلیاں اور ان کی تاریخ اور آج تک کے ممبران کی فہرست دیکھ لیں دو فیصد بھی مولوی نہ دکھائی دیں گے...آغاز سے لے کر نواز شریف تک سب مولوی کے مخالف یا بیزار رہے..
اندروں سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سردار اور فیوڈل لارڈ اکثر مذھب بیزار..اباحیت پسند. ذاتی زندگی میں پرلے درجے کے عیاش.. اور ان کے علاقوں میں مولوی کی حیثیت گاؤں کی کمی سی ہوتی ہے..لیکن وہ بھی جب کوئی ظلم کریں تو خبر یوں دی جاتی ہے جیسے مولوی کا کیا دھرا..یار کچھ تو شرم ہونی چاہیے.....
..لیکن یہی سردار بڑے شہروں میں آ کر ہمارے دانش وروں کی جیب گرم کرتے ہیں سو مہذب ٹہرتے ہیں
اب عوام کی طرف آئیے....عوام بے عمل مگر اپنے مذہب سے محبت کرتی ہے ... دس فیصد افراد بھی با جماعت نماز نہیں پڑھتے...ورنہ مسجد میں جگہ نہ ملے...کہاں گئے مولوی کے اثرات؟
کسی بھی شہر کے بازار میں چلے جائیے...عورتوں کی اکثریت بے پردہ ہے....بہت کم پردہ کرتی ہیں...مولوی کے اثرات کہاں ہیں ؟
ذرا داڑھی والے لوگوں کا بھی تناسب دیکھئے گا...اکثریت بے داڑھی....
تو مولوی جس نے معاشرے کو برباد کر دیا ...بقول آپ کے....لوگوں کی ذاتی زندگی پر اثر انداز کیوں نہ ہو سکا؟؟؟؟
یہ سوال ہے جس کا جواب ان کو بھی معلوم ہے..لیکن.....صبح شام جھوٹ کی روٹی کھاتے ہیں..معاشرے کی بربادی کی حقیقی مجرم ہیں...اور اپنے اس جرم کو چھپانے کے واسطے انہوں نے پراپیگنڈہ کو بطور ہتھیار استعمال کیا.....اصل مجرم یہ تھے معاشرے کی بربادی کے
اخبارات ان کے میڈیا ان کا ، اقتدار ان کا اختیار ان..لیکن جب لوٹ لوٹ کے ملک کو کھا گئے...تو دانشور بن بیٹھے..
.."جی اس ملک کو مولوی نے برباد کیا..."
کب برباد کیا ؟
کیسے برباد کیا؟
کون سے قانون مولوی نے بنائے؟
کون سی کرپشن کی؟...کون سے کلیدی فیصلے مولوی نے کیے؟،.. مولوی کا نام بھی بتاؤ.....
.......مولوی لیاقت علی ... مولوی سکندر مرزا...مولوی ایوب،،یحیی ،مولوی بھٹو..مولوی مشرف...کوئی تو نام بتاؤ؟؟؟؟

......................ابو بکر قدوسی
 
Top