• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولوی ثنااللہ امرتسری بچ گئے....اور وہ مارا گیا.........*

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مولوی ثنااللہ امرتسری بچ گئے....اور وہ مارا گیا.........*
...
وہ اس کے آگے بھاگ بھاگ کے تھک چکا تھا ..لیکن حریف عجیب ظالم تھا نہ تھکا تھا نہ اکتا رہا تھا..بس اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا.....
اداس اور تھکا دینے والی رات اس کے اعصاب کو شل کیے دے رہی تھی......رات بھر اس نے سوچا .....اٹھارہ برس کا طویل سفر،،،جگہ جگہ جگ ہنسائی ، ہر جا رسوائی...اس کو اپنے دامن کی آلودگی پر رونا ہی آ گیا...اس کا دماغ تھا عجیب ہی کہ ایسے میں بھی ایک لمحہ کو اس کے ذہن میں یہ خیال نہ آیا کہ اپنا احتساب ہی کر لوں ، اک سجدہ کر لوں معافی کا ...رسوائی بھی دامن چھوڑ دے....اندر کے عذاب سے بھی نجات مل جایے ...
..انہی اداس سوچوں کے بیچ سفر کرتا ہوا وہ دور ماضی میں نکل گیا.اس کی یادوں میں وہ شام آج بھی ویسے ہی تازہ تھی...اس نے اپنی بند آنکھوں میں وہ پرانا منظر قید کیا جب ٢٣ مارچ 1889 کی شام ڈھل رہی تھی ....درختوں کے مہیب سائے دیواروں پر یوں اتر رہے تھے ...جیسے پاتال میں قید چڑیلیں پیرول پر رہا ہو کر اپنے اپنے بھوتوں کا ہاتھ تھامیں شکار کو نکل رہی تھیں.....
..ان " پچھل پیریوں" کے بیچ میں چالیس افراد دائرہ بناے بیٹھے تھے...سب خاموش تھے ..لیکن اس کا دل خوش تھا ...کوئی اس کا کان میں بھائیں بھائیں کی آواز میں بول رہا تھا ..."تو نے حق ادا کر دیا... میرا یہ کام تو مسیلمہ بھی نہ کر سکا تھا"..اس نے ہاتھ آگے بڑھایا....اس کو یاد تھا سب سے پہلے اس کے جگری یار نور الدین نے اس کا ہاتھ تھاما تھا...پھر سب نے اس کی بیعت کر لی...دو برس میں ہی اس نے اپنے مسیح ہونے کا اعلان کر دیا...پھر اس نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا..... ہر روز نیا دعوی ، نیا الہام ، نئی پشین گوئی....اس کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ..اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی سب ہی ہاتھ دھو کے اس کے پیچھے تھے.....
.لیکن ایک بندہ اسے بہت تنگ کر رہا تھا...امرتسر کا مولوی تھا...ثنااللہ امرتسری...جگہ جگہ اس کے پیچھے پہنچ جاتا...اس سے مناظرے کرتا. مضامین لکھتا ، جلسے کرتا....اپنا رسالہ "اہل حدیث " تو جیسے اس نے اس کے لیے ہی مخصوص کر چھوڑا تھا...نہ دشنام طرازی کرتا نہ بدزبانی لیکن بات ایسے کرتا کہ اس کا جی جل جاتا..ظالم نہ تھکتا تھا نہ اکتاتا تھا......
.ویسے تو اور بھی مولوی اس کے خلاف دن رات ایک کیے ہوۓ تھے...لیکن اسے یاد ہے ان دو عشروں میں اس ثنااللہ نے اس کی جان کو عذاب میں ہی ڈال دیا تھا.......
.......آج پندرہ اپریل تھی... سن تھا١٩٠٧ ..
.........اور آج اس کا جی اکتا گیا تھا..اس نے حتمی قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا
اپنا گریبان چاک یا دامن یزداں چاک.........
..... بیچ میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں....لیکن وہ بلا کا ضدی بھی تو تھا.....اخلاق اور ضمیر اس کے نزدیک بے معنی الفاظ تھے......اس نے قلم اٹھایا اور لکھنے لگا. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
..........اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ اکثر اوقات اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجائوں گا۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ امرتسری ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتاہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کرمگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ کے امراض مہلکہ سے.....اے الله مجھ میں اور ثنااللہ میں سچا فیصلہ فرما...اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے......
............اس نے اشتہار جاری کر دیا...اس بیچ حکیم نورالدین نے اس کو منع بھی کیا...کہ نہ کرو کہیں گلے ہی نہ پڑ جائے...لیکن اس نے "چانس " لینے کا فیصلہ کیا....اور اشتہار جاری کر دیا
...دن گزرنے لگے....کبھی کبھی اس کا دل بیٹھ جاتا جب وہ دیکھتا کہ مولوی ثنااللہ تو بھلا چنگا شہر شہر ، قریہ قریہ پھرتا ہے...کبھی وہ فکر مند ہو کے نور دین کو بول ہی اٹھتا کہ
"یار کیا ہو گا...یہ ثنااللہ تو گاؤں گاؤں قلانچیں بھرتا پھر رہا ہے..."
نور دین بجائے اسے تسلی دینے کے برا سا منہ بنا کے کہتا
"میں نے منع نہیں کیا تھا ...اب بھگتو خود ہی..."
سال گزر چکا تھا اور معامله پرانا ہو چکا تھا...کچھ کچھ ذہنوں سے نکل ہی گیا تھا...خود اس کو بھی اب کم ہی یاد آتا تھا....
..مئی کا مہینہ تھا ..وہ لاہور میں رکا ہوا تھا.....پیٹ کچھ گڑبڑ کر رہا تھا....بیماریوں کا اور اس کا بچپن سے ہی یارانہ تھا....وہ ان کا اتنا عادی تھا کہ اسے ان بیماریوں کی تفصیل، جزیات سب ازبر تھیں...وہ تو لکھنے میں بلاتکلف سب حال لکھ جاتا...اک بار اس نے اپنی کتاب " ضمیمہ اربعین " میں لکھ دیا..
" ہمیشہ سر درد ، دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے، اور دوسری بیماری جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے ، وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے، اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔"
وہ تو ہمیشہ کی طرح نور الدین نے آکر پاؤں پکڑے...
"حضور جو من میں آتا ہے لکھ دیتے ہیں ، جو منہ میں آتا ہے بول دیتے ہیں...اور ہم صفائیوں پر رہتے ہیں".............تب جا کر اس نے احتیاط شروع کی
اس بار بیماری کا حملہ شدید لگ رہا تھا یعنی جو اس نے کبھی لکھیں تھیں ، سب ایک بارگی ہی اس پر پل پڑیں.....رات بھر اسہال کی شدت رہی...گھڑی بھر کی بیماری نے جیسے جسم کی ساری توانیاں کھینچ لی ہوں.....رات اسے ڈراونے خواب آتے رہے....اس کو شدت سے سال پرانا اشتہار یاد آ رہا تھا.....وسوسے جان کو لگے ہوۓ تھے..لیکن منہ سے کس کو کہہ سکتا کہ کہ من میں کیا خوف پل رہا ہے؟......ایسے میں اس کا بڑا بیٹا بشیر الدین اندر داخل ہوا....اس کی حالت دیکھ کر فکر مند سا ہو گیا...بے اختیار بولا.."الله یہ کیا ہونے لگا ہے؟..."....
نقاہت کے عالم میں بھی اس کے منہ سے نکلا..."وہی جو میں کہا کرتا تھا..."...(سیرت المہدی).....
الفاظ تو اس کے منہ سے نکل گئے لیکن وہ خود ہی اپنے الفاظ سے خوف زدہ سا ہو گیا...اور سوچنے لگا کہ یہ الفاظ میرے منہ سے کیوں نکلے؟.....شام تک اس کی حالت بہت نازک ہو گئی...اس کو مسلسل اشتہار کے الفاظ اذیت پہنچا رہے تھے....اور پچھتاوا ہو رہا تھا.....
...اسے ایسا لگا کہ اس کی جان نکل رہی ہے..........اور دور امرتسر میں مولوی ثنااللہ ہاتھ میں اشتہار پکڑے مسکرا رہا ہے.......
..اس کی نگاہ کیلنڈر پر پڑی آج ١٩٠٨ کے سن کی 26 مئی تھی..................


ابوبکرقدوسی
 
Top