محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
مولوی نے موبائل کیوں ایجاد نہیں کیا ؟
ازقلم : ابوبکر قدوسی
دو طرح کے طبقات ہیں ایک وہ ہیں کہ جو مذھب بیزار ہیں اور مولوی کے دشمن ، دوسرے وہ جو مذھب سے محبت کرتے ہیں لیکن مولوی سے نفرت -
آج ایک دوست کہ مذھب سے محبت کرتے ہیں انہوں نے کچھ سوال اٹھائے ، لیکن یہ سوشل میڈیا پر ہونے والے عمومی اعتراضات میں سے ایک ہے سو اپنی وال پر لکھ رہا ہوں -
اعتراض ہے کہ جی مولوی ایجادات پر عموما حرام کے فتوے لگاتا ہے ، پھر جب وہ ایجادات معاشرے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے تو اس کے جواز کے فتوے لا کر اسے استعمال کرنے لگتا ہے ، اس پر مزید اعتراض ہے کہ خود مولوی نے تو آج تک کوئی ایجاد نہیں کی ..........-
میری بیٹی ڈاکٹر ہو گئی ہے اور اس سوال کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ اس سے پوچھوں کہ
" بیٹا آپ ڈاکٹر تو ہو گئی ہو سترہ برس سکول کالج اور میڈیکل کالج میں سر کھپایا ، پیسہ لگایا ، والدین نے اتنی محنت سے ذمے داری کو نبھایا ..لیکن یہ کیا کہ آپ نے آج تو کوئی سٹیم کا انجن نہیں بنایا ، کوئی کمپیوٹر ایجاد نہیں کیا ، کوئی ایپل کے مقابل موبائل ہی بنایا ہوتا چلو اور کچھ نہیں اپنی فیلڈ میں رہ کے کوئی الٹرا ساونڈ مشین ہی بنا لی ہوتی "
یقینا میری بیٹی اس سوال پر مجھے احتراما بھی جس نگاہ سے دیکھے گی اس میں یہی ہو گا کہ ابّا کا دماغ چل گیا ہے -
مجھے دنیا میں کوئی ایک ڈاکٹر بتائیے کہ جس نے اپنے ہسپتال کی مشینری ، یعنی الٹرا ساونڈ ، ایکسرے مشین ، ایم ار آئی مشین ، ایجاد کی ہو ؟
وہ اپنی ضروریات بتاتے ہیں ، انجینئرز ان کے لیے سوچتے ہیں ، پھر بناتے ہیں ، ڈاکٹر استعمال کرتے ہیں ، ان کے نقائص بتاتے ہیں یعنی درست نا درست کا فتوی جڑتے ہیں ، انجینیرز پھر اس کی اصلاح کرتے ہیں ....لیکن اگر انجنیرز ...بھی لبرل مفتی ہوتے تو فورا فتوی جڑتے کہ " ڈاکٹر نے آج تک خود ایجاد کیوں نہیں کیا ، میری ایجاد پر درست نا درست کا فتوی کیوں لگاتا ہے ، اور اگر لگاتا ہے تو پھر اسے برتتا کیوں ہے -
دوستو ! مولوی مدرسے میں دینی تعلیم کے لیے جاتا ہے نہ کہ سائنس پڑھنے ، ہاں آپ اس سے اس تعلیم کے حوالے سے سوال کیجئے کہ جو اس نے پڑھا ، اگر اس پر ایجاد نہ کرنے کا الزام آئے گا تو وہ بھی پوچھنے میں حق بجانب ہو گا کہ احمد ندیم قاسمی نے بلب کی کون سی قسم ایجاد کی تھی ، فیض نے کون سی توپ بنائی تھی - آپ کے اکنامکس کے ماہرین نے کون سا راکٹ بنا لیا تھا ..... بہت سی مثالیں ممکن ہیں لیکن آگے چلتے ہیں -
یہاں یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ مغرب میں پادری پر ایسے اعتراضات کیوں نہیں کیے جاتے ، کہ جہاں ایسی ایجادات کی بھر مار ہے - ؟؟
یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ پادری اپنے مذہبی انسٹیوٹ میں قوم کے قیمتی بچوں کو صرف پادری بنا چھوڑتا ہے ، یہ موبائل اور کمپیوٹر ایجاد کیوں نہیں کرتا ؟
اس کا جواب اصولا تو انہی احباب کو دینا چاھیے لیکن ہم عرض کیے دیتے ہیں - معاشرہ ایک نظم اور ترتیب کا نام ہے - اس سے محروم ہوویں تو محض جنگل - جس کا کام اسی کو ساجھے کے تحت وہاں بھی ایجادات اسی طبقے نے کیں جن کو آپ سائنسدان بولتے ہیں - ان کو حکومتیں اور بڑی کمپنیاں بھاری بھرکم بجٹ کی لیبارٹریاں بنا دیتی ہیں ، اربوں روپے کے فنڈز ملتے ہیں -
آپ کی حکومتیں مجرم تھیں ، کہ فنڈز آتے ہیں یہ اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور اپنی نسلیں سنوراتے ہیں ، تحقیق اور ریسرچ کا پیسہ بھی یہ دوست نوازی پر لگا دیتے ہیں - یہی وجہ ہے کہ آپ کے ہاں کا پی ایچ ڈی باہر کی دنیا میں کوئی مقام نہیں پا سکتا - ایجادات ، ریسرچ ، تحقیق اسی طبقے نے کرنا ہوتی ہے ، یہاں بھی تمام عمر نوکری پکی کرنے اور مفادات سمیٹنے میں گزار کے آخر میں دو مکان اور چار پلاٹ اس کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے - حکومتی مجرمانہ غفلت اور اپنی بے حسی اور نالائقی کو اس تمام طبقے نے ایک بہت پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی خرابی ہو مولوی پر الزام لگاؤ اور خود صاف ستھرے پتلی گلی سے نکل جاؤ -
اب آتے ہیں ایجادات پر فتوے سے متعلق معاملات پر -
لے دے کے ایک مثال ہے جس کو ہمارے دوست پہلوٹھی کے بچے کی طرح اٹھائے پھرتے ہیں- کبھی کسی دور میں کچھ مولویوں نے سپیکر کو حرام کہا تھا - جب کہ صورت حال ایسی نہیں ہے - بجا ہے کہ کچھ علماء نے ایسا کہا تھا اور سبب اس کا بھی یہی تھا کہ سوال پیدا ہوا تھا کہ کیا یہ آلہ مکبر الصوت یعنی "سپیکر " امام کے قائم مقام ہو سکتا ہے ؟ اور اس سوال کا سبب علماء کی اس الے کی بنیادی ماہیت سے لاعلمی تھی - سو ایک آدھ بزرگ نے احتیاط کے تقاضے سے اس کو ممنوع قرار دیا تھا ، سب نے نہیں - بلکہ اکثریت نے جواز کی بات ہی کی تھی - اور حرام بھی محض نماز کے لیے کہا گیا تھا - مجھے بتائیے کسی ایک مولوی نے دوسرے استعمال کے لیے کبھی تاریخ میں اس کو حرام کہا ہو ؟
آپ ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کر سکیں گے - اب رہا نماز اور خطبہ میں اس کے استعمال کا مسلہ - بہت واضح امر ہے کہ جب ان علماء کو بھی اس کی صورت بتائی گئی کہ یہ محض آواز کو بلند کر کے آگے پہنچاتا ہے تو انہوں نے اپنے فتوے سے رجوع کر لیا -
ہندستان میں کتنے مولوی تھے ؟
ہزاروں ...اگر ایک چھوٹے سے گروہ نے ایسا فتوی دیا تو کیا سب کو مجرم کہا جائے گا ؟
سوال یہی ہے ...کیا تمام طبقہ علماء کو اس پر طنز کا نشانہ بنانا اخلاقی طور پر درست ہے؟
اخلاقا تو جنہوں نے رجوع کیا ان کی بھی اچھائی کی دلیل ہونا چاہیے تھی کہ ان کو جب علم ہوا تو انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا - اگر چند ایک دوسری ایجادات پر کبھی علماء نے فتوی دیا بھی ہے تو اس کا سبب موجود رہا ہے - اور وہ اس شے کا استعمال ہے نہ کہ بذات خود وہ شے - آج بھی اگر کوئی اپنے موبائل میں ننگی فلمیں محفوظ کر دیکھتا ہے تو اس موبائل کا استعمال حرام ہی ہو گا - لیکن اگر کوئی محض بات چیت کے لیے استعمال کرتا ہے تو کسی مولوی کو کیا اعتراض - بھلے کوئی اس پر تلاوت نہ سنے اس کی بلا سے -