• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مومل بن اسماعیل پر جرح و تعدیل

شمولیت
جولائی 31، 2018
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
توثيق المؤمل بن إسماعيل عند أهل الحديث


تحریر کے مولف كا نام:
محمد طلحہ سلفی






تعارف
یہ مضمون ہم نے مومل بن اسماعیل مکی نامی ایک راوی کی توثیق پر لکھا ہے بہت سارے لوگوں کی طرف سے یہ باتیں آ رہی تھیں کہ یہ راوی ضعیف ہے اور محدّثین کی اس پر سخت جرح ہے تو یہ مضمون ہم نے اسی لیے لکھا ہے تاکہ اس بات کو ثابت کر سکوں کہ مومل بن اسماعیل سقہ و صدوق ہیں
ایک سوال کہ مومل بن اسماعیل سکّہ راوی ہے یا ضعیف

جواب: *مومل بن اسماعیل جمہور محدثین کے نزدیک سکّہ و صدوق ہیں اُن پر جرح مردود ہے کیوں کہ صرف 4 سے 5 محدّثین ہیں جنہوں نے اُن پر جرح کی ہے اور اُن میں اکثریت متشدّدیں کی ہے اور یہ اصول ہے کہ اگر متشدد محدث معتدل کے خلاف ہو تو اس کی جرح مردود ہے اور 15 یا 16 محدّثین ہیں جنہوں نے مومل کی توثیق کی ہے اور اصول ہے کہ ہمیشہ جمہور کی بات کو ترجیح ہوتی ہے*



پہلے ہم مومل پر جارحین کے قول بیان کریں گے پھر معدلین کے اقوال بیان کریں گے








جارحین کے اقوال:
(۱)
پہلی جرح امام ابو حاتم نے کی ہے مومل پر جرح کے الفاظ یہ ہیں امام ابو حاتم نے کہا
"مومل صدوق ہیں اور سنت میں شدید ہیں لیکن زیادہ غلطی کرنے والے ہیں"

عرض ہے کہ امام ابو حاتم متشدد ہیں
1۔ امام ذہبی نے کہا امام ابو حاتم راویوں پر کلام کرنے میں متشدد ہیں
(دیکھیے سیر اعلام النبلا جلد 13 صفحہ 260)

2۔کامام حافظ ابن حجر نے کہا امام ابو حاتم کے ہاں تشدّد ہے
(دیکھیے المقدمة الفتح الباري صفحہ نمبر 441
_____________________________
(۲)
لہٰذا پہلی جرح تو مردود ہے


دوسری جرح جو مومل بن اسماعیل پر پیش کی جاتی ہے وہ امام ابن سعد کی جرح ہے اُنہوں نے طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ
"مومل سقہ ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں"

جواب: عرض ہے کہ امام ابن سعد نے پہلے کہا سقہ ہے پھر کہا زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں لہٰذا ان کا قول تو ساقط ہوگیا
اگر مان بھی لیا جائے کہ اُنہوں نے اس پر جرح کی تو عرض ہے کہ یہ جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے
_______________________________
(۳)
تیسری جرح جو عموماً پیش کی جاتی ہے وہ ہے امام مروزی رحم اللہ کی اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کی روایت کے بارے میں کہا
"جب یہ کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہوں تو توقف کیا جائے گا اور چھان بین کی جائے گی کیوں کہ یہ برے حافظے والے تھے اور زیادہ غلطیاں کرتے تھے"


جواب۔
یہ بات صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہے امام مروزی سے۔ امام حافظ ابن حجر نے اس جرح کو بسند نقل کیا ہے لہٰذا یہ جرح ثابت ہی نہیں ہوتی
تو اس کو تو جرح کہا ہی نہیں جا سکتا
______________________________
(4)
*چوتھی جرح جو پیش کی جاتی ہے وہ ہے امام نسائی کی جرح کے امام نسائی نے کہا*
*"مومل بن اسماعیل زیادہ غلطی کرنے والے تھے"*


جواب: امام نسائی جرح کرنے میں متشدد ہیں
۱. امام ذہبی نے کہا امام نسائی نے راویوں پر متشدد ہونے کے باوجود اُن سے حجت پکڑی ہے
(دیکھیے میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 437)

2۔ *امام حافظ ابن حجر نے کہا امام نسائی نے متشدد ہونے کے باوجود اُن سے حجت پکڑی ہے*

*(دیکھیے المقدمة الفتح الباري صفحہ 387)*

*لہٰذا یہ جرح بھی قابل قبول نہیں*

________________________________









(۵)
پانچویں جرح جو پیش کی جاتی ہے وہ امام ذکریا الساجی کی جرح کہ امام ذکریا الساجی نے کہا
"مومل صدوق ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں"

جواب: یہ جرح حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بسند نقل کی ہے۔ سند کے ساتھ یہ قول امام ذکریا الساجی سے ثابت ہی نہیں میرا چیلنج ہے پوری حنفیوں کو کہ یہ قول امام ذکریا الساجی سے صحیح سند کے ساتھ ثابت کریں۔ اور مزید یہیں کہوں غا کہ یہ قول بسند ہے اور بسند باتیں حجت نہیں ہوتیں اور حافظ ابن حجر نے بسند نقل کیا*
*(دیکھیے تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 381)*
___________________________

) ۶)
*************************

*چھٹی جرح پیش کی جاتی ہے امام احمد بن حنبل رحم اللہ کی کہ اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں کہا کہ*
*"مومل غلطی کرتے تھے "*


*جواب*:
*حدیث کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ محض غلطی کرنے سی کوئی راوی ضعیف نہیں ہو جاتا جب تک اس کا کثیر الخطا ہونا ثابت نا ہو جائے اور ایک بات ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ غلطی بڑے سے بڑے سقہ کو بھی لگ سکتی ہے*
*اور یہ اصول ہے کہ اگر ایسا راوی موثق عند الجمہور ہو تو اس کی ثابت شدہ خطا کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی روایتوں میں وہ حسن الحدیث یا صحیح الحدیث ہوتا ہے
لہٰذا اس قول سے بھی جرح ثابت نہیں ہوتی
_________________________



(7)
**************************

*ساتویں جرح پیش کی جاتی ہے امام یعقوب بن سفیان کی کہ اُنہوں نے مومل کے بارے میں کہا*
*"(مومل ) جلیل القدر سنی شیخ تھے میں نے سلیمان بن حرب کو اُن کی تعریف کرتے ہوئے سنا وہ فرماتے تھے ہمارے استاد اُن کی پہچان رکھتے تھے اور اُن کے پاس جانے کا حکم دیتے تھے الا یہ کہ اُن کی حدیث اُن کے استاد کی حدیث سے مشابہ نہیں ہے حتٰی کہ بعض اوقات اُنہوں نے کہا ہے اس کے لیے حدیث بیان کرنا جائز نہیں تھا اہل علم پر واجب ہے کہ وہ اس کی حدیث سے توقف کریں اور اس سے روایتیں کم لیں کیوں کہ وہ ہمارے سقہ اساتذہ سے منکر روایتیں بیان کرتے ہیں یہ شدید ترین بات ہے اگر یہ منکر روایتیں ضعیف سے ہوتیں تو ہم اُنہیں ضعیف سمجھتے"*


*جواب:*
*اگر یہ طویل جرح سلمان بن حرب کی ہے تو یعقوب ال فارسی مومل کے مؤثقین میں سے ہیں اور اگر یہ جرح یعقوب کی ہے تو سلمان بن حرب مومل کے موثقين میں سے ہیں مزید یہ کہوں گا کہ یہ پہلی جرح ہے جو کسی معتدل محدث نے کی ہے اس سے پہلے جیتنے محدّثین کا میں نے ذکر کیا یا تو اُن کی جرح ثابت نہیں یا پھر وہ متشدّدين ہیں اور یہ جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے*
_____________________


( 8 )
*************************



*آٹھویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی ہے امام ابو زرعه الرازى نے مومل کے بارے میں کہا ہے کہ*
*"یہ زیادہ غلطیاں کرتے ہیں"*

(دیکھیے ميزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 218 )
اس کا اسکین مل جائے گا نیچے
_________________________

*جواب:* *یہ قول ہی بسند ہے میزان الاعتدال میں حافظ ذہبی نے بيسند نقل کیا ہے اور بسند باتیں دین میں حجت نہیں۔ لہٰذا یہ قول امام ابو زرعه سے ثابت نہیں
______________________________




) ۹)
****************************


*نویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی امام بُخاری رحم اللہ کی اور تین کتابوں سے یہ جرح پیش کی جاتی کہ امام بُخاری رحم اللہ نے مومل کے بارے میں کہا*
*"منکر الحدیث"*

_(دیکھیے تہذیب الکمال جلد 18 صفحہ 526، میزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 228، تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 381)_

___________________________


*جواب:*
*اس سوال کا جواب بڑے مزے کا ہے کہ اُن تینوں کتابوں میں امام بُخاری کا قول بیسند ہے اور یہ قول بسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور امام بُخاری نے کتاب الضعفاء میں مومل کا کوئی ذکر نہیں کرا جو اس بات کی دلیل ہے کہ مومل بن اسماعیل امام بُخاری کے نزدیک سقہ ہے اگر ضعیف ہوتا تو وہ لازمی ذکر کرتے اور تاریخ الکبیر میں امام بُخاری نے مومل کو ذکر کیا اور کوئی جرح نہیں کری اور یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امام بُخاری کے نزدیک مومل سقہ ہے ایک اور دلیل مومل کے سقہ ہونے کی یہ ہے کہ امام بُخاری نے مومل سے تعليقا صحیح بُخاری میں روایت لی ہے دیکھیے صحیح بُخاری حدیث*
*صحیح البخاری حدیث 2700*



*Sahih Bukhari Hadees # 2700*

*وَقَالَ مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ:‏‏‏‏ عَلَى أَنَّ مَنْ أَتَاهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ رَدَّهُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَتَاهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يَرُدُّوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا مِنْ قَابِلٍ وَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ السَّيْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَبُو جَنْدَلٍ يَحْجُلُ فِي قُيُودِهِ فَرَدَّهُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ لَمْ يَذْكُرْ مُؤَمَّلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَبَا جَنْدَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَّا بِجُلُبِّ السِّلَاحِ.*


*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ مشرکین کے ساتھ تین شرائط پر کی تھی، ( 1 ) یہ کہ مشرکین میں سے اگر کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیں گے۔ لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو یہ لوگ ایسے شخص کو واپس نہیں کریں گے۔ ( 2 ) یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مکہ آ سکیں گے اور صرف تین دن ٹھہریں گے۔ ( 3 ) یہ کہ ہتھیار، تلوار، تیر وغیرہ نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ابوجندل رضی اللہ عنہ ( جو مسلمان ہو گئے تھے اور قریش نے ان کو قید کر رکھا تھا ) بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( شرائط معاہدہ کے مطابق ) مشرکوں کو واپس کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مؤمل نے سفیان سے ابوجندل کا ذکر نہیں کیا ہے اور «إلا بجلبان السلاح» کے بجائے «إلا بجلب السلاح‏.» کے الفاظ نقل کیے ہیں"*


*اِس روایت میں امام بُخاری نے مومل سے تعلیقا روایت لی ہے مومل سے*
*تو اس بات سے ثابت ہوگیا کہ امام بُخاری نے مومل سے صحیح بُخاری میں تعلقیا روایت لی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مومل امام بُخاری کے نزدیک سقہ ہے پس ثابت ہوا اب اگر کوئی یہ کوشش کرے گا کہ امام بُخاری کے نزدیک وہ راوی ضعیف ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے امام بُخاری پر*


*اب ایک سوال ہے کہ جب امام بُخاری نے اُن کو ضعیف کہا ہی نہیں تو پھر حافظ مزی نے تہذیب الکمال اور حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں یہ قول کیسے لکھ دیا اس کا جواب میں دے دیتا ہوں*

*چونکہ امام بُخاری نے اپنی تاریخ الکبیر میں دو مومل کے نام ذکر کیے ہیں ایک مومل بن اسماعیل اور دوسرا مومل بن سعید بن یوسف یہ دونوں کا تذکرہ ایک ساتھ ہے تاریخ الکبیر میں اور امام بُخاری کی جرح مومل بن سعید بن یوسف پر ہے اور مومل بن سعید پر حافظ مزی اور حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے جرح نقل تک نہیں کری اور حافظ مزی نے اپنی کتاب میں غلطی سے مومل بن اسماعیل پر جرح نقل کری حالانکہ جرح امام بُخاری کی مومل بن سعید پر ہے اس کا اسکین آپ کو نیچے مل جائے گا تو لہٰذا ثابت ہوا کہ حافظ مزی نے غلطی سے غلط جرح نقل کی اور حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بھی حافظ مزی سے آگے یہ جرح نقل کی۔*


*ابھی جو میں نے اوپر گفتگو کری اُس کا خلاصۃ یہ ہے کہ مومل امام بُخاری کے نزدیک سقہ ہے اور امام بُخاری نے مومل بن سعید کو منکر الحدیث کہا ہے*

_____________________



(10)


*دسویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی ہے امام دار قطنی کی کہ امام دار قطنی نے کہا کہ*

*"مومل صدوق ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے"*
_(دیکھیے سوالات الحاکم للدار قطنی: 492)_
________________________________________


*جواب:*
*اس کا ایک جواب یہ ہے کہ امام دار قطنی نے اپنی جرح سے رجوع کر لیا وہ اس لیے کیوں کہ امام دار قطنی نے اپنی کتاب الضعفاء میں مومل کا کوئی تذکرہ نہیں کرا نیز ان کے کثیر الخطا کہنے سے بھی مومل کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی وہ اس لیے کیوں کہ اُنہوں نے اسے اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر نہیں کرا اگر تو مومل راوی اُن کے نزدیک ضعیف ہے پھر انہیں لازمی اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کرنا چاہیے تھا اور اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کی ایک روایت کے بارے میں کہا
"اسنادہ صحیح"
(دیکھیے سنن دار قطنی جلد 2 حدیث 2261، اور بعض نُسخو میں اُس حدیث کا نمبر 2283 ہے)

*ایسے راوی اُن کے نزدیک سقہ ہیں ضعیف نہیں تو لہٰذا مومل امام دار قطنی کے نزدیک سقہ ہیں وہ کیسے وہ الحمدللہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں*
_______________________________




(۱۱)
***************************************



گیارویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی کہ حافظ ابن حجر نے مومل پر جرح کی ہے کہ وہ صدوق ہیں اور برے حافظے والے ہیں
( _دیکھیے تقریب التہذیب: 7029_ )
_______________________________


جواب:
ایک یہ جرح ہے جو حافظ ابن حجر نے کی ہے لیکن یہ جرح بھی جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور اگر احناف یہ دلیل پیش کرتے ہیں تو امام ابو حنیفہ پر خود یہیں جرح ہے امام ابن عبد البر نے امام ابو حنیفہ کو برے حافظے والا لکھا ہے
(دیکھیے كتاب التمهيد جلد 11 صفحہ 48 )
________________________________________



____________________________



_تو الحمدللہ میں نے پوری کوشش کری کہ اس بات کو مکمل صحیح طرح ثابت کر سکوں کہ مومل بن اسماعیل مکی پر جرح مردود ہے_
______________________________________


*****************************************


*مومل بن اسماعیل پر جارحین کی تعداد*

1. *امام ابو حاتم*

2۔ *امام ابن سعد* ( امام ابن سعد کا قول ساقط ہے کیوں کہ اُنہوں نے جرح و تعدیل دونوں کی ہے )

* *امام مروزی رحم اللہ* ( یہ قول ثابت نہیں ہے )

3۔ *امام نسائی* ( امام نسائی متشدد ہیں )

* *امام ذکریا الساجی* ( یہ جرح باسند ثابت نہیں بلکہ بیسند ہے )

4۔ *امام یعقوب بن سفیان*

* *امام ابو زرعه* ( یہ قول باسند ثابت نہیں )

* *امام بُخاری* ( یہ جرح ثابت نہیں ہے )


* *امام دار قطنی ( امام دار قطنی نے رجوع کر لیا )*

5۔ *امام حافظ ابن حجر عسقلانی*
_______________________________________


*اب ہم اُن محدّثین کی جرح بتائیں گے جن سے باسند ثابت ہے صحیح*

1۔ *امام ابو حاتم*
2۔ *امام نسائی*
3۔ *امام ابن سعد*
4۔ *امام یعقوب بن سفیان*
5۔ *امام حافظ ابن حجر*



*صرف ان پانچ محدّثین سے مومل بن اسماعیل پر جرح ثابت ہے*

*ان میں سے بھی امام ابو حاتم اور امام نسائی تو متشدد ہیں وہ ہم اوپر بتا چکے ہیں*

اور صرف تین معتدل محدّثین جنہوں نے مومل پر جرح مفسر کی ہے اور اُن کی جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے

________________________________________



مومل بن اسماعیل کی تعدیل کرنے والے محدّثین:


1۔ امام یحییٰ بن معین نے مومل کے بارے میں کہا:
"ثقة"
(دیکھیے تاریخ ابن معین:۲۳۶)
اور ( دیکھیے کتاب الجرح وتعديل جلد ۸ صفحہ ۳۷۴)

ایک اور جگہ امام یحییٰ بن معین سے مومل کے بارے میں پوچھا گیا کہ مومل سفیان کے حال میں کیسا ہے ( یعنی مومل کی روایت سفیان ثوری کے ساتھ کیسی ہے ) تو اُنہوں نے کہا:
" ثقة"
ترجمہ: یہ سقہ ہے
(دیکھیے کتاب جرح و تعدیل جلد ٨ صفحہ ٣٧٤)

________________________________________



2۔ امام بُخاری:
امام بُخاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کو منکر الحدیث کہا جب کہ یہ سرا سر بہتان ہے امام بُخاری پر اُنہوں نے مومل بن سعید کو منکر الحدیث کہا جو ہم اوپر تفصیل سے بتا چکے ہیں حنفیوں کے اس الزام کے برعکس امام بُخاری نے مومل کو تاریخ الکبیر میں ذکر کیا اور کوئی جرح نہیں کری اسی طرح امام بُخاری نے اپنی کتاب الضعفاء میں بھی مومل کا کوئی ذکر نہیں کرا جو اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ مومل امام بُخاری کے نزدیک سقہ ہے ورنہ وہ اُن کا ذکر ضرور کرتے اُس سے بھی بڑا ثبوت یہ ہے مومل کے سقہ ہونے کا کہ امام بُخاری نے تعليقا صحیح بُخاری میں اُن سے لی ہے ( دیکھیے صحیح بُخاری حدیث 2700) اتنے سارے ثبوت ہیں مومل کے سقہ ہونے کے اس کے باوجود یہ لوگ امام بُخاری پر الزام لگاتے ہیں۔اللہ ہمیں سچ بولنے کی توفیق دے اور اس کو سمجھ کر اسے اپنانے کی بھی توفیق دے



________________________________________


3۔ امام ابن حبان نے مومل کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے
(دیکھیےكتاب الثقات لا بن حبان جلد 9 صفحہ 187)

جو اس بات کی دلیل ہے کہ مومل بن اسماعیل امام ابن حبان کے نزدیک سقہ ہے ورنہ وہ کتاب الضعفاء میں ذکر کرتے


_________________________________________


4۔ امام ترمذی نے مومل کی درج ذیل حدیثوں کو صحیح کہا (دیکھیے سنن ترمذی حدیث 415، 672، اور 1948)
امام ترمذی نے مومل کی درج ذیل حدیثوں کو حسن کہا (دیکھیے سنن ترمذی حدیث 2146، 3266)

پس ثابت ہوا مومل بن اسماعیل امام ترمذی کے نزدیک حسن الحدیث اور صحیح الحدیث ہیں

__________________________________________


5۔ امام ابن خزیمہ مومل بن اسماعیل کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں لے کر آئیں ہیں
(دیکھیے صحیح ابن خزیمہ جلد 1 حدیث 479)
جس کا مطلب ہے کہ امام ابن خزیمہ کے نزدیک مومل صحیح الحدیث ہیں

________________________________________

6۔ امام دار قطنی نے مومل بن اسماعیل کی حدیث کے بارے میں کہا
"اسنادہ صحیح"
دیکھیے سنن دار قطنی جلد 2 حدیث 2261 اور بعض نُسخو میں حدیث نمبر 2283 بھی ہے۔

__________________________________________


7۔ امام حاکم نے مومل کی حدیث کے بارے میں کہا
" هذا حديث صحيح على شرط الشيخين"
ترجمہ: "یہ حدیث امام بُخاری اور مسلم دونوں کے معیار کے مطابق صحیح ہے"
(دیکھیے المستدرک للحاکم جلد 1 حدیث 1418)

________________________________________


8۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
"كان من ثقات البصرين"
ترجمہ:
"یہ بصرہ کے سقہ لوگوں میں سے تھے"
(دیکھیے "العبر في خبر من غبر" جلد 1 صفحہ 274)

_________________________________________


9۔ امام احمد نے مومل سے روایت بیان کری ہے
(دیکھیے مسند احمد جلد 1 حدیث 97)
اور یاد رکھیے امام احمد صرف سقہ سے ہی روایت کرتے ہیں اس کی بھی دلیل دیتا ہوں

"امام عبداللہ ابن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ جب میرے والد (احمد بن حنبل) جب کسی انسان سے راضی ہوتے ہیں اور وہ انسان اُن کے نزدیک سقہ ہوتا ہے تو اس سے روایت کرتے ہیں"
(دیکھیے المعرفة والرجال لأحمد جلد 1 صفحہ 238)

اور ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں امام احمد کے تمام اساتذہ سقہ تھے
(دیکھیے قواعد فی علوم الحدیث صفحہ 133، اعلان السنن جلد 19 صفحہ 218)


لہٰذا مومل امام احمد کے نزدیک بھی سقہ ہے
_________________________________________


10۔ امام علی بن المدینی:
"امام علی بن مدینی صرف سقہ سے روایت کرتے ہیں"
(دیکھیے تہذیب التہذیب لا بن حجر 114/9 ت 155)

_________________________________________


11۔ امام ابن کثیر:
امام ابن کثیر نے مومل کی روایت کے بارے میں کہا
"اسنادہ صحیح"
(دیکھیے تفسیر ابن کثیر/دار طيبة جلد 3 صفحہ 52، اور تفسیر ابن کثیر ت سلامة جلد 3 صفحہ 52)

تفسیر ابن کثیر کے ان دونوں نُسخو میں یہ بات اسی جگہ ملے گی

__________________________________________


12۔ حافظ ضیاء المقدسی نے الاحادیث المختارۃ میں مومل کی روایت لی ہے
(دیکھیے ۳۴۵/۱ حدیث 237)
جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام ضیاء المقدسی کے نزدیک بھی مومل سقہ ہے

__________________________________________


13۔ امام حافظ الھیشمی:

" وهو ثقة وفيه ضعف"
ترجمہ:
"مومل بن اسماعیل سقہ ہیں اور ان میں ضعف ہے"

اب اس ضعف سے مراد معمولی ضعف ہے ورنہ اگر بڑا ضعف ہوتا تو حافظ ھیشمی سقہ نہیں کہتے ایسے راویوں کو حسن الحدیث کہا جاتا ہے۔
یعنی حافظ حیشمی کے نزدیک مومل حسن الحدیث ہیں۔

نیز مومل کی ایک روایت کے بارے میں حافظ ہیشمي نے کہا کہ
"اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس کے رجال موثق ہیں اور بعض میں ایسا کلام ہے جو مضر نہیں"
(دیکھیے مجمع الزوائد جلد 7 صفحہ 263)

_________________________________________

14۔ امام ابن شاہین نے مومل کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا اور کہا
" مومل مکی سقہ ہے اور امام یحییٰ بن معین نے بھی یہیں کہا ہے"
(دیکھیے كتاب الثقات لا بن شاهين صفحہ 231، اور بعض نُسخو میں صفحہ 232 ت 1416)

__________________________________________

15۔ امام اسماعیلی نے متخرج علی صحیح بُخاری میں مومل کی روایت درج کی ہے
(دیکھیے فتح الباری جلد 13 صفحہ 33تحت حدیث 7083)
لہٰذا امام ابو بکر الاسماعیلی کے نزدیک بھی مومل سقہ ہیں

__________________________________________


16۔ امام اسحاق بن راہویہ نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں کہا:
"کان ثقة"
ترجمہ: "آپ سقہ تھے"
(دیکھیے
المزكيات وهي الفوائد المنتخبة الغرائب العوالي من حديث أبي إسحاق صفحہ 82)

_________________________________________



17۔ امام بغوی رحم اللہ نے مومل حدیث کے بارے میں کہا
"هذا حديث حسن"
(دیکھیے شرح السنة جلد 1 صفحہ 443 حدیث 228)

اور امام بغوی نے مومل کی ایک روایت کے بارے میں فرمایا
"صحیح"
(دیکھیے شرح السنه جلد 6 صفحہ 477 حدیث 1819)

__________________________________________

18۔ امام ابن القطان الفاسی نے مومل کی روایت کے بارے میں فرمایا
"ھذا اسنادہ حسن"
(دیکھیے بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام ت سعيد 84/5 حدیث 2327)
_________________________________________

19۔ امام بوصيرى رحمہ اللہ نے مومل کی روایت کے بارے میں کہا
"هذا اسناده حسن"
(دیکھیے إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ط الرشد 472/8 حدیث 8425)
_________________________________________


20۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب المحلي لا بن حزم میں مومل بن اسماعیل کی روایت سے حجّت پکڑی ہے
(دیکھیے المحلى بالآثار ط. العلمية ٧٤/٤ )

اور امام ابنِ حزم نے اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے
"ہماری یہ کتاب پڑھنے والا جان لے کہ ہم نے صرف سقہ رواۃ کی صحیح روایت سے ہی حجت پکڑی ہے"
(دیکھیے المحلى بالآثار ط. العلمية جلد 1 صفحہ 21)

__________________________________________



لہٰذا 20 محدّثین سے مومل کی توثیق ثابت ہوئی اور صرف 5 محدّثین نے مومل پر جرح کی ہے اُن میں سے 2 متشدد ہیں یعنی صرف 3 معتدل محدث ہیں جنہوں نے مومل پر جرح کی ہے

لہٰذا ثابت ہوا جمہور کے نزدیک مومل سقہ ہیں

نیچے میں اُن محدّثین کا نام لکھتا ہوں جنہوں نے مومل کی توثیق کی ہے


***************************


*ایک سوال: مومل بن اسماعیل کتنے محدّثین کے نزدیک سقہ و صدوق ہیں*
_________________________


*جواب:*
درج ذیل محدّثین کے نزدیک مومل سقہ و صدوق ہیں اُن کے نام نیچے مل جائیں گے

1۔ *امام یحییٰ بن معین*

2۔ *امام بُخاری*

3۔ *امام ابن حبان*

4۔ *امام ترمذی*

5۔ *امام ابن خزیمہ*

6۔ *امام دار قطنی*

7۔ *امام حاکم*

8۔ *حافظ ذہبی*

9۔ *امام احمد ابن حنبل*

10۔ *امام علی بن مدینی*

11۔ *امام ابن کثیر الدمشقی*

12۔ *حافظ ضیاء المقدسی*

13۔ *حافظ الہیشمی*

14۔ *امام ابن شاہین*

15۔ *امام الاسماعیلی*

16۔ *امام اسحاق بن راہویہ*

17۔ *امام بغوی*

18۔ *امام ابن القطان الفاسى*

19۔ *امام بوصيرى*

20۔ *امام ابن حزم*

21۔ *امام ابن قیم*












 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم بھائی !
آپ مؤمل بن اسماعیل پر تفصیلی مضمون پیش کیا ،جس کیلئے آپ شکریہ کے مستحق ہیں، تفصیل سے مضمون نگار کی محنت جھلک رہی ہے ؛
لیکن کتابت کی غلطیاں کھٹک رہی ہیں ،بالخصوص آپ نے ۔۔ ثقہ کو ہر جگہ سقہ لکھا جس کی اصلاح بہت ضروری ہے
مومل بن اسماعیل جمہور محدثین کے نزدیک سکّہ و صدوق ہیں
 
شمولیت
جولائی 31، 2018
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
محترم بھائی !
آپ مؤمل بن اسماعیل پر تفصیلی مضمون پیش کیا ،جس کیلئے آپ شکریہ کے مستحق ہیں، تفصیل سے مضمون نگار کی محنت جھلک رہی ہے ؛
لیکن کتابت کی غلطیاں کھٹک رہی ہیں ،بالخصوص آپ نے ۔۔ ثقہ کو ہر جگہ سقہ لکھا جس کی اصلاح بہت ضروری ہے
جی وہ شروع میں غلطی سے لکھ دیا تھا لیکن آگے صحیح ہے اس کو بھی میں صحیح کر دیتا ہوں

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 
شمولیت
جولائی 31، 2018
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
توثيق المؤمل بن إسماعيل عند أهل الحديث


تحریر کے مولف كا نام:
محمد طلحہ سلفی






تعارف
یہ مضمون ہم نے مومل بن اسماعیل مکی نامی ایک راوی کی توثیق پر لکھا ہے بہت سارے لوگوں کی طرف سے یہ باتیں آ رہی تھیں کہ یہ راوی ضعیف ہے اور محدّثین کی اس پر سخت جرح ہے تو یہ مضمون ہم نے اسی لیے لکھا ہے تاکہ اس بات کو ثابت کر سکوں کہ مومل بن اسماعیل ثقه و صدوق ہیں
ایک سوال کہ مومل بن اسماعیل ثقه راوی ہے یا ضعیف

جواب: *مومل بن اسماعیل جمہور محدثین کے نزدیک ثقه و صدوق ہیں اُن پر جرح مردود ہے کیوں کہ صرف 4 سے 5 محدّثین ہیں جنہوں نے اُن پر جرح کی ہے اور اُن میں اکثریت متشدّدیں کی ہے اور یہ اصول ہے کہ اگر متشدد محدث معتدل کے خلاف ہو تو اس کی جرح مردود ہے اور ١٨ یا ٢٠ محدّثین ہیں جنہوں نے مومل کی توثیق کی ہے اور اصول ہے کہ ہمیشہ جمہور کی بات کو ترجیح ہوتی ہے*



پہلے ہم مومل پر جارحین کے قول بیان کریں گے پھر معدلین کے اقوال بیان کریں گے








جارحین کے اقوال:
(۱)
پہلی جرح امام ابو حاتم نے کی ہے مومل پر جرح کے الفاظ یہ ہیں امام ابو حاتم نے کہا
"مومل صدوق ہیں اور سنت میں شدید ہیں لیکن زیادہ غلطی کرنے والے ہیں"

عرض ہے کہ امام ابو حاتم متشدد ہیں
1۔ امام ذہبی نے کہا امام ابو حاتم راویوں پر کلام کرنے میں متشدد ہیں
(دیکھیے سیر اعلام النبلا جلد 13 صفحہ 260)

2۔کامام حافظ ابن حجر نے کہا امام ابو حاتم کے ہاں تشدّد ہے
(دیکھیے المقدمة الفتح الباري صفحہ نمبر 441
_____________________________
(۲)
لہٰذا پہلی جرح تو مردود ہے


دوسری جرح جو مومل بن اسماعیل پر پیش کی جاتی ہے وہ امام ابن سعد کی جرح ہے اُنہوں نے طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ
"مومل ثقه ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں"

جواب: عرض ہے کہ امام ابن سعد نے پہلے کہا ثقه ہے پھر کہا زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں لہٰذا ان کا قول تو ساقط ہوگیا
اگر مان بھی لیا جائے کہ اُنہوں نے اس پر جرح کی تو عرض ہے کہ یہ جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے
_______________________________
(۳)
تیسری جرح جو عموماً پیش کی جاتی ہے وہ ہے امام مروزی رحم اللہ کی اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کی روایت کے بارے میں کہا
"جب یہ کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہوں تو توقف کیا جائے گا اور چھان بین کی جائے گی کیوں کہ یہ برے حافظے والے تھے اور زیادہ غلطیاں کرتے تھے"


جواب۔
یہ بات صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہے امام مروزی سے۔ امام حافظ ابن حجر نے اس جرح کو بسند نقل کیا ہے لہٰذا یہ جرح ثابت ہی نہیں ہوتی
تو اس کو تو جرح کہا ہی نہیں جا سکتا
______________________________
(4)
چوتھی جرح جو پیش کی جاتی ہے وہ ہے امام نسائی کی جرح کے امام نسائی نے کہا
"مومل بن اسماعیل زیادہ غلطی کرنے والے تھے"


جواب: امام نسائی جرح کرنے میں متشدد ہیں
۱. امام ذہبی نے کہا امام نسائی نے راویوں پر متشدد ہونے کے باوجود اُن سے حجت پکڑی ہے
(دیکھیے میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 437)

2۔ *امام حافظ ابن حجر نے کہا امام نسائی نے متشدد ہونے کے باوجود اُن سے حجت پکڑی ہے*

*(دیکھیے المقدمة الفتح الباري صفحہ 387)*

*لہٰذا یہ جرح بھی قابل قبول نہیں*

________________________________









(۵)
پانچویں جرح جو پیش کی جاتی ہے وہ امام ذکریا الساجی کی جرح کہ امام ذکریا الساجی نے کہا
"مومل صدوق ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں"

جواب: یہ جرح حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بيسند نقل کی ہے۔ سند کے ساتھ یہ قول امام ذکریا الساجی سے ثابت ہی نہیں میرا چیلنج ہے حنفیوں کو کہ یہ قول امام ذکریا الساجی سے صحیح سند کے ساتھ ثابت کریں۔ اور مزید یہیں کہوں گا کہ یہ قول بیسند ہے اور بیسند باتیں حجت نہیں ہوتیں اور حافظ ابن حجر نے بیسند نقل کیا*
*(دیکھیے تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 381)*
___________________________

) ۶)
*************************

*چھٹی جرح پیش کی جاتی ہے امام احمد بن حنبل رحم اللہ کی کہ اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں کہا کہ*
*"مومل غلطی کرتے تھے "*


*جواب*:
*حدیث کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ محض غلطی کرنے سی کوئی راوی ضعیف نہیں ہو جاتا جب تک اس کا کثیر الخطا ہونا ثابت نا ہو جائے اور ایک بات ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ غلطی بڑے سے بڑے سقہ کو بھی لگ سکتی ہے*
*اور یہ اصول ہے کہ اگر ایسا راوی موثق عند الجمہور ہو تو اس کی ثابت شدہ خطا کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی روایتوں میں وہ حسن الحدیث یا صحیح الحدیث ہوتا ہے
لہٰذا اس قول سے بھی جرح ثابت نہیں ہوتی
_______________________


(7)
**************************

*ساتویں جرح پیش کی جاتی ہے امام یعقوب بن سفیان کی کہ اُنہوں نے مومل کے بارے میں کہا*
*"(مومل ) جلیل القدر سنی شیخ تھے میں نے سلیمان بن حرب کو اُن کی تعریف کرتے ہوئے سنا وہ فرماتے تھے ہمارے استاد اُن کی پہچان رکھتے تھے اور اُن کے پاس جانے کا حکم دیتے تھے الا یہ کہ اُن کی حدیث اُن کے استاد کی حدیث سے مشابہ نہیں ہے حتٰی کہ بعض اوقات اُنہوں نے کہا ہے اس کے لیے حدیث بیان کرنا جائز نہیں تھا اہل علم پر واجب ہے کہ وہ اس کی حدیث سے توقف کریں اور اس سے روایتیں کم لیں کیوں کہ وہ ہمارے سقہ اساتذہ سے منکر روایتیں بیان کرتے ہیں یہ شدید ترین بات ہے اگر یہ منکر روایتیں ضعیف سے ہوتیں تو ہم اُنہیں ضعیف سمجھتے"*


*جواب:*
*اگر یہ طویل جرح سلمان بن حرب کی ہے تو یعقوب ال فارسی مومل کے مؤثقین میں سے ہیں اور اگر یہ جرح یعقوب کی ہے تو سلمان بن حرب مومل کے موثقين میں سے ہیں مزید یہ کہوں گا کہ یہ پہلی جرح ہے جو کسی معتدل محدث نے کی ہے اس سے پہلے جیتنے محدّثین کا میں نے ذکر کیا یا تو اُن کی جرح ثابت نہیں یا پھر وہ متشدّدين ہیں اور یہ جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے*
_____________________


( 8 )
*************************



*آٹھویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی ہے امام ابو زرعه الرازى نے مومل کے بارے میں کہا ہے کہ*
*"یہ زیادہ غلطیاں کرتے ہیں"*

(دیکھیے ميزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 218 )


*جواب:* *یہ قول ہی بیسند ہے میزان الاعتدال میں حافظ ذہبی نے بيسند نقل کیا ہے اور بيسند باتیں دین میں حجت نہیں۔ لہٰذا یہ قول امام ابو زرعه سے ثابت نہیں
______________________________




) ۹)
****************************


*نویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی امام بُخاری رحم اللہ کی اور تین کتابوں سے یہ جرح پیش کی جاتی کہ امام بُخاری رحم اللہ نے مومل کے بارے میں کہا*
*"منکر الحدیث"*

(دیکھیے تہذیب الکمال جلد 18 صفحہ 526، میزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 228، تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 381)

___________________________


*جواب:*
*اس سوال کا جواب بڑے مزے کا ہے کہ اُن تینوں کتابوں میں امام بُخاری کا قول بیسند ہے اور یہ قول بسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور امام بُخاری نے کتاب الضعفاء میں مومل کا کوئی ذکر نہیں کرا جو اس بات کی دلیل ہے کہ مومل بن اسماعیل امام بُخاری کے نزدیک ثقه ہے اگر ضعیف ہوتا تو وہ لازمی ذکر کرتے اور تاریخ الکبیر میں امام بُخاری نے مومل کو ذکر کیا اور کوئی جرح نہیں کری اور یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امام بُخاری کے نزدیک مومل ثقه ہے ایک اور دلیل مومل کے ثقه ہونے کی یہ ہے کہ امام بُخاری نے مومل سے تعليقا صحیح بُخاری میں روایت لی ہے دیکھیے صحیح بُخاری حدیث*
*صحیح البخاری حدیث 2700*



*Sahih Bukhari Hadees # 2700*

*وَقَالَ مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ:‏‏‏‏ عَلَى أَنَّ مَنْ أَتَاهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ رَدَّهُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَتَاهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يَرُدُّوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا مِنْ قَابِلٍ وَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ السَّيْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَبُو جَنْدَلٍ يَحْجُلُ فِي قُيُودِهِ فَرَدَّهُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ لَمْ يَذْكُرْ مُؤَمَّلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَبَا جَنْدَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَّا بِجُلُبِّ السِّلَاحِ.*


*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ مشرکین کے ساتھ تین شرائط پر کی تھی، ( 1 ) یہ کہ مشرکین میں سے اگر کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیں گے۔ لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو یہ لوگ ایسے شخص کو واپس نہیں کریں گے۔ ( 2 ) یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مکہ آ سکیں گے اور صرف تین دن ٹھہریں گے۔ ( 3 ) یہ کہ ہتھیار، تلوار، تیر وغیرہ نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ابوجندل رضی اللہ عنہ ( جو مسلمان ہو گئے تھے اور قریش نے ان کو قید کر رکھا تھا ) بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( شرائط معاہدہ کے مطابق ) مشرکوں کو واپس کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مؤمل نے سفیان سے ابوجندل کا ذکر نہیں کیا ہے اور «إلا بجلبان السلاح» کے بجائے «إلا بجلب السلاح‏.» کے الفاظ نقل کیے ہیں"*


*اِس روایت میں امام بُخاری نے مومل سے تعلیقا روایت لی ہے مومل سے*
*تو اس بات سے ثابت ہوگیا کہ امام بُخاری نے مومل سے صحیح بُخاری میں تعلقیا روایت لی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مومل امام بُخاری کے نزدیک ثقه ہے پس ثابت ہوا اب اگر کوئی یہ کوشش کرے گا کہ امام بُخاری کے نزدیک وہ راوی ضعیف ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے امام بُخاری پر*


*اب ایک سوال ہے کہ جب امام بُخاری نے اُن کو ضعیف کہا ہی نہیں تو پھر حافظ مزی نے تہذیب الکمال اور حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں یہ قول کیسے لکھ دیا اس کا جواب میں دے دیتا ہوں*

*چونکہ امام بُخاری نے اپنی تاریخ الکبیر میں دو مومل کے نام ذکر کیے ہیں ایک مومل بن اسماعیل اور دوسرا مومل بن سعید بن یوسف یہ دونوں کا تذکرہ ایک ساتھ ہے تاریخ الکبیر میں اور امام بُخاری کی جرح مومل بن سعید بن یوسف پر ہے اور مومل بن سعید پر حافظ مزی اور حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے جرح نقل تک نہیں کری اور حافظ مزی نے اپنی کتاب میں غلطی سے مومل بن اسماعیل پر جرح نقل کری حالانکہ جرح امام بُخاری کی مومل بن سعید پر ہے اس کا اسکین آپ کو نیچے مل جائے گا تو لہٰذا ثابت ہوا کہ حافظ مزی نے غلطی سے غلط جرح نقل کی اور حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بھی حافظ مزی سے آگے یہ جرح نقل کی۔*


*ابھی جو میں نے اوپر گفتگو کری اُس کا خلاصۃ یہ ہے کہ مومل امام بُخاری کے نزدیک ثقه ہے اور امام بُخاری نے مومل بن سعید کو منکر الحدیث کہا ہے*

_____________________


(10)


*دسویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی ہے امام دار قطنی کی کہ امام دار قطنی نے کہا کہ*

*"مومل صدوق ہیں اور زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے"*
_(دیکھیے سوالات الحاکم للدار قطنی: 492)_
________________________________________


*جواب:*
*اس کا ایک جواب یہ ہے کہ امام دار قطنی نے اپنی جرح سے رجوع کر لیا وہ اس لیے کیوں کہ امام دار قطنی نے اپنی کتاب الضعفاء میں مومل کا کوئی تذکرہ نہیں کرا نیز ان کے کثیر الخطا کہنے سے بھی مومل کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی وہ اس لیے کیوں کہ اُنہوں نے اسے اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر نہیں کرا اگر تو مومل راوی اُن کے نزدیک ضعیف ہے پھر انہیں لازمی اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کرنا چاہیے تھا اور اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کی ایک روایت کے بارے میں کہا
"اسنادہ صحیح"
(دیکھیے سنن دار قطنی جلد 2 حدیث 2261، اور بعض نُسخو میں اُس حدیث کا نمبر 2283 ہے)

*ایسے راوی اُن کے نزدیک ثقه ہیں ضعیف نہیں تو لہٰذا مومل امام دار قطنی کے نزدیک ثقه ہیں وہ کیسے وہ الحمدللہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں*
_______________________________[/B]



(۱۱)
***************************************



گیارویں نمبر پر جرح پیش کی جاتی کہ حافظ ابن حجر نے مومل پر جرح کی ہے کہ وہ صدوق ہیں اور برے حافظے والے ہیں
( _دیکھیے تقریب التہذیب: 7029_ )
_______________________________


جواب:
ایک یہ جرح ہے جو حافظ ابن حجر نے کی ہے لیکن یہ جرح بھی جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور اگر احناف یہ دلیل پیش کرتے ہیں تو امام ابو حنیفہ پر خود یہیں جرح ہے امام ابن عبد البر نے امام ابو حنیفہ کو برے حافظے والا لکھا ہے
(دیکھیے كتاب التمهيد جلد 11 صفحہ 48 )
________________________________________



____________________________



_تو الحمدللہ میں نے پوری کوشش کری کہ اس بات کو مکمل صحیح طرح ثابت کر سکوں کہ مومل بن اسماعیل مکی پر جرح مردود ہے_
______________________________________


*****************************************


*مومل بن اسماعیل پر جارحین کی تعداد*

1. *امام ابو حاتم*

2۔ *امام ابن سعد* ( امام ابن سعد کا قول ساقط ہے کیوں کہ اُنہوں نے جرح و تعدیل دونوں کی ہے )

* *امام مروزی رحم اللہ* ( یہ قول ثابت نہیں ہے )

3۔ *امام نسائی* ( امام نسائی متشدد ہیں )

* *امام ذکریا الساجی* ( یہ جرح باسند ثابت نہیں بلکہ بیسند ہے )

4۔ *امام یعقوب بن سفیان*

* *امام ابو زرعه* ( یہ قول باسند ثابت نہیں )

* *امام بُخاری* ( یہ جرح ثابت نہیں ہے )


* *امام دار قطنی ( امام دار قطنی نے رجوع کر لیا )*

5۔ *امام حافظ ابن حجر عسقلانی*
_______________________________________


*اب ہم اُن محدّثین کی جرح بتائیں گے جن سے باسند ثابت ہے صحیح*

1۔ *امام ابو حاتم*
2۔ *امام نسائی*
3۔ *امام ابن سعد*
4۔ *امام یعقوب بن سفیان*
5۔ *امام حافظ ابن حجر*



*صرف ان پانچ محدّثین سے مومل بن اسماعیل پر جرح ثابت ہے*

*ان میں سے بھی امام ابو حاتم اور امام نسائی تو متشدد ہیں وہ ہم اوپر بتا چکے ہیں*

اور صرف تین معتدل محدّثین جنہوں نے مومل پر جرح مفسر کی ہے اور اُن کی جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے

________________________________________



مومل بن اسماعیل کی تعدیل کرنے والے محدّثین:


1۔ امام یحییٰ بن معین نے مومل کے بارے میں کہا:
"ثقة"
(دیکھیے تاریخ ابن معین:۲۳۶)
اور ( دیکھیے کتاب الجرح وتعديل جلد ۸ صفحہ ۳۷۴)

ایک اور جگہ امام یحییٰ بن معین سے مومل کے بارے میں پوچھا گیا کہ مومل سفیان کے حال میں کیسا ہے ( یعنی مومل کی روایت سفیان ثوری کے ساتھ کیسی ہے ) تو اُنہوں نے کہا:
" ثقة"
ترجمہ: یہ ثقه ہے
(دیکھیے کتاب جرح و تعدیل جلد ٨ صفحہ ٣٧٤)

________________________________________



2۔ امام بُخاری:
امام بُخاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مومل بن اسماعیل کو منکر الحدیث کہا جب کہ یہ سرا سر بہتان ہے امام بُخاری پر اُنہوں نے مومل بن سعید کو منکر الحدیث کہا جو ہم اوپر تفصیل سے بتا چکے ہیں حنفیوں کے اس الزام کے برعکس امام بُخاری نے مومل کو تاریخ الکبیر میں ذکر کیا اور کوئی جرح نہیں کری اسی طرح امام بُخاری نے اپنی کتاب الضعفاء میں بھی مومل کا کوئی ذکر نہیں کرا جو اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ مومل امام بُخاری کے نزدیک ثقه ہے ورنہ وہ اُن کا ذکر ضرور کرتے اُس سے بھی بڑا ثبوت یہ ہے مومل کے ثقه ہونے کا کہ امام بُخاری نے تعليقا صحیح بُخاری میں اُن سے لی ہے ( دیکھیے صحیح بُخاری حدیث 2700) اتنے سارے ثبوت ہیں مومل کے سقہ ہونے کے اس کے باوجود یہ لوگ امام بُخاری پر الزام لگاتے ہیں۔اللہ ہمیں سچ بولنے کی توفیق دے اور اس کو سمجھ کر اسے اپنانے کی بھی توفیق دے



________________________________________


3۔ امام ابن حبان نے مومل کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے
(دیکھیےكتاب الثقات لا بن حبان جلد 9 صفحہ 187)

جو اس بات کی دلیل ہے کہ مومل بن اسماعیل امام ابن حبان کے نزدیک ثقه ہے ورنہ وہ کتاب الضعفاء میں ذکر کرتے


_________________________________________


4۔ امام ترمذی نے مومل کی درج ذیل حدیثوں کو صحیح کہا (دیکھیے سنن ترمذی حدیث 415، 672، اور 1948)
امام ترمذی نے مومل کی درج ذیل حدیثوں کو حسن کہا (دیکھیے سنن ترمذی حدیث 2146، 3266)

پس ثابت ہوا مومل بن اسماعیل امام ترمذی کے نزدیک حسن الحدیث اور صحیح الحدیث ہیں

__________________________________________


5۔ امام ابن خزیمہ مومل بن اسماعیل کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں لے کر آئیں ہیں
(دیکھیے صحیح ابن خزیمہ جلد 1 حدیث 479)
جس کا مطلب ہے کہ امام ابن خزیمہ کے نزدیک مومل صحیح الحدیث ہیں

________________________________________

6۔ امام دار قطنی نے مومل بن اسماعیل کی حدیث کے بارے میں کہا
"اسنادہ صحیح"
دیکھیے سنن دار قطنی جلد 2 حدیث 2261 اور بعض نُسخو میں حدیث نمبر 2283 بھی ہے۔

__________________________________________


7۔ امام حاکم نے مومل کی حدیث کے بارے میں کہا
" هذا حديث صحيح على شرط الشيخين"
ترجمہ: "یہ حدیث امام بُخاری اور مسلم دونوں کے معیار کے مطابق صحیح ہے"
(دیکھیے المستدرک للحاکم جلد 1 حدیث 1418)

________________________________________


8۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
"كان من ثقات البصرين"
ترجمہ:
"یہ بصرہ کے ثقه لوگوں میں سے تھے"
(دیکھیے "العبر في خبر من غبر" جلد 1 صفحہ 274)

_________________________________________


9۔ امام احمد نے مومل سے روایت بیان کری ہے
(دیکھیے مسند احمد جلد 1 حدیث 97)
اور یاد رکھیے امام احمد صرف ثقه سے ہی روایت کرتے ہیں اس کی بھی دلیل دیتا ہوں

"امام عبداللہ ابن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ جب میرے والد (احمد بن حنبل) جب کسی انسان سے راضی ہوتے ہیں اور وہ انسان اُن کے نزدیک سقہ ہوتا ہے تو اس سے روایت کرتے ہیں"
(دیکھیے المعرفة والرجال لأحمد جلد 1 صفحہ 238)

اور ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں امام احمد کے تمام اساتذہ سقہ تھے
(دیکھیے قواعد فی علوم الحدیث صفحہ 133، اعلان السنن جلد 19 صفحہ 218)


لہٰذا مومل امام احمد کے نزدیک بھی ثقه ہے
_________________________________________


10۔ امام علی بن المدینی:
"امام علی بن مدینی صرف ثقه سے روایت کرتے ہیں"
(دیکھیے تہذیب التہذیب لا بن حجر 114/9 ت 155)

_________________________________________


11۔ امام ابن کثیر:
امام ابن کثیر نے مومل کی روایت کے بارے میں کہا
"اسنادہ صحیح"
(دیکھیے تفسیر ابن کثیر/دار طيبة جلد 3 صفحہ 52، اور تفسیر ابن کثیر ت سلامة جلد 3 صفحہ 52)

تفسیر ابن کثیر کے ان دونوں نُسخو میں یہ بات اسی جگہ ملے گی

__________________________________________


12۔ حافظ ضیاء المقدسی نے الاحادیث المختارۃ میں مومل کی روایت لی ہے
(دیکھیے ۳۴۵/۱ حدیث 237)
جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام ضیاء المقدسی کے نزدیک بھی مومل ثقه ہے

__________________________________________


13۔ امام حافظ الھیشمی:

" وهو ثقة وفيه ضعف"
ترجمہ:
"مومل بن اسماعیل ثقه ہیں اور ان میں ضعف ہے"

اب اس ضعف سے مراد معمولی ضعف ہے ورنہ اگر بڑا ضعف ہوتا تو حافظ ھیشمی ثقه نہیں کہتے ایسے راویوں کو حسن الحدیث کہا جاتا ہے۔
یعنی حافظ حیشمی کے نزدیک مومل حسن الحدیث ہیں۔

نیز مومل کی ایک روایت کے بارے میں حافظ ہیشمي نے کہا کہ
"اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس کے رجال موثق ہیں اور بعض میں ایسا کلام ہے جو مضر نہیں"
(دیکھیے مجمع الزوائد جلد 7 صفحہ 263)

_________________________________________

14۔ امام ابن شاہین نے مومل کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا اور کہا
" مومل مکی ثقه ہے اور امام یحییٰ بن معین نے بھی یہیں کہا ہے"
(دیکھیے كتاب الثقات لا بن شاهين صفحہ 231، اور بعض نُسخو میں صفحہ 232 ت 1416)

__________________________________________

15۔ امام اسماعیلی نے متخرج علی صحیح بُخاری میں مومل کی روایت درج کی ہے
(دیکھیے فتح الباری جلد 13 صفحہ 33تحت حدیث 7083)
لہٰذا امام ابو بکر الاسماعیلی کے نزدیک بھی مومل ثقه ہیں

__________________________________________


16۔ امام اسحاق بن راہویہ نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں کہا:
"کان ثقة"
ترجمہ: "آپ ثقه تھے"
(دیکھیے
المزكيات وهي الفوائد المنتخبة الغرائب العوالي من حديث أبي إسحاق صفحہ 82)

_________________________________________



17۔ امام بغوی رحم اللہ نے مومل حدیث کے بارے میں کہا
"هذا حديث حسن"
(دیکھیے شرح السنة جلد 1 صفحہ 443 حدیث 228)

اور امام بغوی نے مومل کی ایک روایت کے بارے میں فرمایا
"صحیح"
(دیکھیے شرح السنه جلد 6 صفحہ 477 حدیث 1819)

__________________________________________

18۔ امام ابن القطان الفاسی نے مومل کی روایت کے بارے میں فرمایا
"ھذا اسنادہ حسن"
(دیکھیے بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام ت سعيد 84/5 حدیث 2327)
_________________________________________

19۔ امام بوصيرى رحمہ اللہ نے مومل کی روایت کے بارے میں کہا
"هذا اسناده حسن"
(دیکھیے إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ط الرشد 472/8 حدیث 8425)
_________________________________________


20۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب المحلي لا بن حزم میں مومل بن اسماعیل کی روایت سے حجّت پکڑی ہے
(دیکھیے المحلى بالآثار ط. العلمية ٧٤/٤ )

اور امام ابنِ حزم نے اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے
"ہماری یہ کتاب پڑھنے والا جان لے کہ ہم نے صرف ثقه رواۃ کی صحیح روایت سے ہی حجت پکڑی ہے"
(دیکھیے المحلى بالآثار ط. العلمية جلد 1 صفحہ 21)

__________________________________________



لہٰذا 20 محدّثین سے مومل کی توثیق ثابت ہوئی اور صرف 5 محدّثین نے مومل پر جرح کی ہے اُن میں سے 2 متشدد ہیں یعنی صرف 3 معتدل محدث ہیں جنہوں نے مومل پر جرح کی ہے

لہٰذا ثابت ہوا جمہور کے نزدیک مومل ثقه ہیں

نیچے میں اُن محدّثین کا نام لکھتا ہوں جنہوں نے مومل کی توثیق کی ہے


***************************


*ایک سوال: مومل بن اسماعیل کتنے محدّثین کے نزدیک ثقه و صدوق ہیں*
_________________________


*جواب:*
درج ذیل محدّثین کے نزدیک مومل ثقه و صدوق ہیں اُن کے نام نیچے مل جائیں گے

1۔ *امام یحییٰ بن معین*

2۔ *امام بُخاری*

3۔ *امام ابن حبان*

4۔ *امام ترمذی*

5۔ *امام ابن خزیمہ*

6۔ *امام دار قطنی*

7۔ *امام حاکم*

8۔ *حافظ ذہبی*

9۔ *امام احمد ابن حنبل*

10۔ *امام علی بن مدینی*

11۔ *امام ابن کثیر الدمشقی*

12۔ *حافظ ضیاء المقدسی*

13۔ *حافظ الہیشمی*

14۔ *امام ابن شاہین*

15۔ *امام الاسماعیلی*

16۔ *امام اسحاق بن راہویہ*

17۔ *امام بغوی*

18۔ *امام ابن القطان الفاسى*

19۔ *امام بوصيرى*

20۔ *امام ابن حزم*

21۔ *امام ابن قیم*














Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
طلحہ صاحب علمی مضمون کے ساتھ محدث فورم پر آمد ، خوش آمدید۔
فورم پر تصویر لگانا منع ہے، اس لیے آپ کی پروفائل پکچر ختم کردی گئی ہے۔
اپنے مضمون میں بار بار ’ ثقہ‘ کو ’سقہ‘ لکھا ہوا ہے۔
اللہ آپ کو علم جرح و تعدیل میں رسوخ اور پختگی عطا کرے۔
 
شمولیت
جولائی 31، 2018
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
طلحہ صاحب علمی مضمون کے ساتھ محدث فورم پر آمد ، خوش آمدید۔
فورم پر تصویر لگانا منع ہے، اس لیے آپ کی پروفائل پکچر ختم کردی گئی ہے۔
اپنے مضمون میں بار بار ’ ثقہ‘ کو ’سقہ‘ لکھا ہوا ہے۔
اللہ آپ کو علم جرح و تعدیل میں رسوخ اور پختگی عطا کرے۔
جی بہتر

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
[توثیق مومل بن اسماعیل احناف کے اصولوں سے]

إذا كان الحديثُ مختلَفاً فيه: صحَّحه أَو حسَّنه بعضُهم، وضعَّفه آخرون، فهو حسن، وكذا كان الراوي مختلَفاً فيه: وثَّقه بعضُهم، وضعَّفه بعضهم، فهو: حسَنُ الحديث
جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہوگی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے۔
الكتاب: قواعد في علوم الحديث
المؤلف: ظفر أحمد بن لطيف العثماني التهانوي رحمه الله
المحقق: عبد الفتاح أبو غدة رحمه الله
دار النشر: دار القلم
بيروت الطبعة: الثالثة عدد الصفحات: ۴۷۷


احناف کے مولانا صفدر صاحب ایک بریلوی مصنف کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہ آپ کی بیان کردہ راویوں میں سے کوئی ایک ہو یا ان کے علاوہ اور ہو یقین جانئیے کہ ابراہیم بن ابی یحیی کی طرح کذاب تو ان میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا، بعض محدثین کرام نےان کی توثیق اور بعض نے تضعیف کی ہوگی اور ایسا مختلف فیہ راوی قابل برداشت ہوتا ہے اور اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔
اخفاء الذکر ۲۲

احناف کے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ایک راوی ابو ثقال کے بارے میں فرماتے ہیں:
ابوثقال هو ثمامة بن وائل بن حصین مشهور بکنیة مقبول کما فی التقریب، فهو مختلف فیه، والاختلاف لایضر
ابوثقال وہ ثمامہ بن وائل بن حصین ہے جو اپنی کنیت سے مشہور ہے ، تقریب میں ہے کہ وہ مقبول ہے لہذا یہ راوی مختلف فیہ ہے اور اختلاف ضرر کا باعث نہیں۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي
سنة النشر: ۱۴۱۸
عدد المجلدات: ۲۲


احناف کے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نےروایت ذکر کر کے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
رواه الطحاوي (۱:۱۵۱) بإسناده رجاله ثقات إلا مؤملا فقد تكلم فيه، ووثقه ابن معين وغيره، كذا في التهذيب (۱۰:۳۸۰)، فالسند حسن
اسے امام طحاویؒ نے ایسی سند سے روایت کیا ہے جس کے راوی مومل کے سوا ثقہ ہیں، مومل میں کلام ہے، ابن معین وغیر نے اسے ثقہ کہا ہے جیسا کہ تہذیب میں ہے لہذا سند حسن ہے۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي
سنة النشر: ۱۴۱۸
عدد المجلدات: ۲۲


مومل بن اسماعیل امام احمدؒ کے استاد ہیں اور احناف کے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
شیوخ احمد کلهم ثقات
کہ امام احمد ؒ کے تمام شیوخ ثقہ ہیں۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي
سنة النشر: ۱۴۱۸
عدد المجلدات: ۲۲


امام ترمذیؒ نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھنے کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے بارے میں امام بخاریؒ سے نقل کیا ہے اس روایت میں عمر بن ابی خثیم "منکر الحدیث" ہے۔

لیکن احناف کے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیںؒ:
کہ جب ابن خزیمہؒ نے یہ حدیث اپنی "الصحیح" میں بیان کی تو یہ حدیث صحیح ہے۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي
سنة النشر: ۱۴۱۸
عدد المجلدات: ۲۲


نوٹ:
امام بخاریؒ کی جرح "منکر الحدیث" کے باوجود صرف ابن خزیمہ میں ہونے کی بنا پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا جائے، لیکن مومل کے بارے میں امام بخاریؒ کی جرح بھی ثابت نہیں مگر وہ پھر بھی ضعیف اور سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث بھی ضعیف؟

قال الطحاوی حدثنا ابوبکرة قال ثنا مومل قال ثنا سفیان عن عاصم عن ابی العالیة قال اخبرنی من سمع النبیﷺ یقول لکل سورة رکعة، رجال ثقات

امام طحاویؒ نے فرمایا ہے ہمیں ابوبکرہ نے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا ہمیں مومل نے انہوں نے فرمایا ہمیں سفیان نے حدیث سنائی ، وہ عاصم سے وہ ابوالعالیہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس نے خبر دی جس نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے، ہر سورت کے لیے رکعت ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي
سنة النشر: ۱۴۱۸
عدد المجلدات: ۲۲
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جواب: یہ جرح حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بيسند نقل کی ہے۔ سند کے ساتھ یہ قول امام ذکریا الساجی سے ثابت ہی نہیں میرا چیلنج ہے حنفیوں کو کہ یہ قول امام ذکریا الساجی سے صحیح سند کے ساتھ ثابت کریں۔ اور مزید یہیں کہوں گا کہ یہ قول بیسند ہے اور بیسند باتیں حجت نہیں ہوتیں اور حافظ ابن حجر نے بیسند نقل کیا*
*(دیکھیے تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 381)*
___________________________
اللہ تعلی علمی ذوق وشوق میں اضافہ فرمایا۔
لیکن گزارش ہے کہ اوپر بتایا گیا کہ لفظ ثقہ ہوتا ہے نہ کہ سکہ یا سقہ۔ مزید اقتباس شدہ عبارت میں کئی مرتبہ ’ذکریا‘ لکھا ہے، حالانکہ یہ ’زکریا‘ ہے۔ علمی وتحقیقی مسائل میں قلمکاری کرنے سے پہلے بنیادی چیزیں سیکھنی چاہییں۔
کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے، لیکن یہ قطعا اچھا رویہ نہیں کہ مبادیات سے ناواقف بھائی ائمہ ومحدثین کی طرح تجریح و تعدیل اور تصحیح وتضعیف میں لکھنا شروع کردیں، یہ ان عظیم علوم وفنون کی تحقیر کے مترادف ہے۔
 
Top