ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
عن أبا هريرة يقول سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول کل أمتي معافی إلا المجاهرين وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه فيقول يا فلان عملت البارحة کذا وکذا وقد بات يستره ربه ويصبح يکشف ستر الله عنه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری تمام امت کے گناہ معاف ہوں گے مگر وہ شخص جو اعلانیہ گناہ کرتا ہو اور یہ تو جنون کی بات ہے کہ رات کو ایک آدمی کوئی کام کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈالے پھر صبح ہونے پر وہ آدمی کہے کہ اے فلاں میں نے گزشتہ رات فلاں فلاں کام کیے رات کو اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا اور یہ کہ صبح کو اس نے اللہ کے ڈالے ہوئے پردہ کو کھول دیا۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1026 ادب کا بیان : مومن کا اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا
تشریح :
اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے،یعنی گناہوں کو چھپا لینے والا،دنیا اور آخرت میں وہ بندوں کے بہت سے گناہوں کو چھپا لیتا ہے ۔
بعون اللہ منھم آمین ۔
مثل مشہور ہے ایک تو چوری کرے اور اوپر سے سینہ زوری کرے۔ اگر آدمی سے ایک گناہ سرزد ہوجائے تو اسے چھپا کر رکھے،شرمندہ ہو ،اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے،یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )
مولانا صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ بتقضائے بشریت کسی گناہ کا ہوجانا،جس پر انسان کو ندامت بھی ہو اور اس کا وہ اظہار بھی نہ کرے اور بات ہے ، اللہ کے ہاں اس کی معافی کی امید ہے اور بصورت توبہ معافی یقینی ہے۔
لیکن اعلانیہ گناہ کرنا اور بات ہے ،اس کے مرتکب کا دل ایک تو اللہ کے خوف سے، دوسرے اللہ کے احکام کی توقیر اور وقعت سے خالی ہے۔ تیسرے، ایسا شخص بالعموم توبہ کی توفیق سے محروم ہی رہتا ہے۔ چوتھے، اللہ کی نافرمانی کا فخریہ طور پر اظہار،اللہ کے غضب و انتقام کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ایسا شخص پھر اللہ کے ہاں کیونکرقابل معافی ہو سکتا ہے
(اور اس کے برعکس)
عن صفوان بن محرز أن رجلا سأل ابن عمر کيف سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول في النجوی قال يدنو أحدکم من ربه حتی يضع کنفه عليه فيقول عملت کذا وکذا فيقول نعم ويقول عملت کذا وکذا فيقول نعم فيقرره ثم يقول إني سترت عليک في الدنيا فأنا أغفرها لک اليوم
صفوان بن محرز روایت کرتے ہیں ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ تم نے سرگوشی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح سنا ہے انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ایک شخص اپنے رب سے قریب ہوگا یہاں تک کہ اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر فرمائے گا کہ تو نے فلاں فلاں کام کئے تھے وہ عرض کرے گا جی ہاں اس سے اقرار کرائے گا پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہ پر پردہ ڈالا آج میں تم کو بخش دیتا ہوں۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1027
تشریح :
یہ حدیث بھی ان احادیث صفات میں سے ہے۔ اس میں اللہ کے لیے کنف بازو ثابت کیا گیا ہے۔ جیسے سمع اور بصر اور ید اور عین اور وجه وغیرہ۔ اہل حدیث اس کی تاویل نہیں کرتے اور یہی مسلک حق ہے،تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ کنف سے حجاب رحمت مراد ہے یعنی اللہ اسے اپنے سایہ عاطفت میں چھپا لے گا مگر یہ تاویل ٹھیک نہیں ہے ،کنف کے معنی بازو کے ہیں۔(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری تمام امت کے گناہ معاف ہوں گے مگر وہ شخص جو اعلانیہ گناہ کرتا ہو اور یہ تو جنون کی بات ہے کہ رات کو ایک آدمی کوئی کام کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈالے پھر صبح ہونے پر وہ آدمی کہے کہ اے فلاں میں نے گزشتہ رات فلاں فلاں کام کیے رات کو اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا اور یہ کہ صبح کو اس نے اللہ کے ڈالے ہوئے پردہ کو کھول دیا۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1026 ادب کا بیان : مومن کا اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا
تشریح :
اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے،یعنی گناہوں کو چھپا لینے والا،دنیا اور آخرت میں وہ بندوں کے بہت سے گناہوں کو چھپا لیتا ہے ۔
بعون اللہ منھم آمین ۔
مثل مشہور ہے ایک تو چوری کرے اور اوپر سے سینہ زوری کرے۔ اگر آدمی سے ایک گناہ سرزد ہوجائے تو اسے چھپا کر رکھے،شرمندہ ہو ،اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے،یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )
مولانا صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ بتقضائے بشریت کسی گناہ کا ہوجانا،جس پر انسان کو ندامت بھی ہو اور اس کا وہ اظہار بھی نہ کرے اور بات ہے ، اللہ کے ہاں اس کی معافی کی امید ہے اور بصورت توبہ معافی یقینی ہے۔
لیکن اعلانیہ گناہ کرنا اور بات ہے ،اس کے مرتکب کا دل ایک تو اللہ کے خوف سے، دوسرے اللہ کے احکام کی توقیر اور وقعت سے خالی ہے۔ تیسرے، ایسا شخص بالعموم توبہ کی توفیق سے محروم ہی رہتا ہے۔ چوتھے، اللہ کی نافرمانی کا فخریہ طور پر اظہار،اللہ کے غضب و انتقام کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ایسا شخص پھر اللہ کے ہاں کیونکرقابل معافی ہو سکتا ہے
(اور اس کے برعکس)
عن صفوان بن محرز أن رجلا سأل ابن عمر کيف سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول في النجوی قال يدنو أحدکم من ربه حتی يضع کنفه عليه فيقول عملت کذا وکذا فيقول نعم ويقول عملت کذا وکذا فيقول نعم فيقرره ثم يقول إني سترت عليک في الدنيا فأنا أغفرها لک اليوم
صفوان بن محرز روایت کرتے ہیں ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ تم نے سرگوشی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح سنا ہے انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ایک شخص اپنے رب سے قریب ہوگا یہاں تک کہ اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر فرمائے گا کہ تو نے فلاں فلاں کام کئے تھے وہ عرض کرے گا جی ہاں اس سے اقرار کرائے گا پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہ پر پردہ ڈالا آج میں تم کو بخش دیتا ہوں۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1027
تشریح :
یہ حدیث بھی ان احادیث صفات میں سے ہے۔ اس میں اللہ کے لیے کنف بازو ثابت کیا گیا ہے۔ جیسے سمع اور بصر اور ید اور عین اور وجه وغیرہ۔ اہل حدیث اس کی تاویل نہیں کرتے اور یہی مسلک حق ہے،تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ کنف سے حجاب رحمت مراد ہے یعنی اللہ اسے اپنے سایہ عاطفت میں چھپا لے گا مگر یہ تاویل ٹھیک نہیں ہے ،کنف کے معنی بازو کے ہیں۔(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )