- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
مومن کے جسم میں نفاق کے جراثیم
بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں ایمان تو ہوتا ہے لیکن ان میں ایک شعبہ نفاق کا بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصَلَۃٌ مِّنَ النِّفَاقَ حَتّٰی یَدَعَھَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَائْتُمِنَ خَانَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ
(بخاری کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق رقم: ۳۴، کتاب المظالم باب اذا خاصم فجر ۲۴۵۹، کتاب الجہاد باب اثم من عاھد ثم غدر۔ مسلم کتاب الایمان باب بیان خصال المنافق۔ رقم: ۲۱۰۔ ابوداؤد، کتاب السنۃ باب فی الدلیل علی زیادۃ الایمان رقم: ۴۶۸۸۔)
اور صحیحین میں یہ بھی ہے کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی میں یہ چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تاآنکہ اسے ترک کر دے جب بات کرے تو جھوٹی کرے اور جب وعدہ کرے تو عمل اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے۔‘‘
اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّ سِتُّوْنَ اَوْ بِضْعٌ وَّ سَبْعُوْنَ شُعْبَۃً اَعْلَاھَا قَوْلُ لاَ اِلَہٰ اِلاَّ اللہُ وَاَدْنَاھَا اِمَاطَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَائُ شَعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ
(بخاری کتاب الایمان باب امور الایمان رقم: ۹۔ مسلم کتاب الایمان، رقم: ۱۵۲ باب عدد شعب الایمان۔ ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی ردالارجاء ، رقم: ۴۶۷۶۔ ترمذی کتاب الایمان باب فی استکمال الایمان ، رقم: ۲۶۱۴ وغیرہ)
اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی خصلت ہوئی، اس میں نفاق کی خصلت ہے تاآنکہ اسے ترک کر دے ،صحیحین میں ثابت ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوذر رضی اللہ عنہ سے جو کہ بہترین مومنوں میں سے تھے فرمایا:’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ یا فرمایا ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، سب سے زیادہ بلند لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف کی چیز کو دُور کر دینا ہے اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔
’’انک امرؤ فیک جاھلیة‘‘
اس پر’’تم ایسے شخص ہو جس میں جاہلیت کا اثر ہے‘‘۔
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا اس درجہ عمر رسیدہ ہونے کے بعد بھی میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔
(بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امرالجاھلیۃ۔ مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملکوک )
اور صحیح (مسلم) میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَرْبَعٌ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ الْفَخْرُفِیْ الْاَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِیْ الْاَنْسَابِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ وَالْاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ۔
(مسلم کتاب الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ، رقم: ۲۱۶۰)
اور صحیحین میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں، مناصب پر فخر کرنا، نسب کا طعنہ دینا، میت پر نوحہ کرنا اور ستاروں کو سبب بارش سمجھنا۔‘‘
اٰیَۃُالْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ اِذَاحَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَاوَعَدَاَخْلَفَ وَاِذَائْتُمِنَ خَان
(صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق،رقم۳۳۔ مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق۔رقم۲۱۱)
اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ اس ٹکڑے کا بھی اضافہ ہے :’’ منافق کی تین علامتیں ہیں، جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا، جب وعدہ کرے گا تو اس کے خلاف کرے گا اور جب امین بنایا جائے گا تو خیانت کرے گا۔‘‘
وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّـہ مُسْلِمٌ
(مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق۔رقم۲۱۳)
بخاری میں ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول مذکور ہے’’اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور مدعی اس امر کا ہو کہ وہ مسلم ہے۔‘‘
اَدْرَکْتُ ثَلَاثِیْنَ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّھُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلٰی نَفْسِہ
(بخاری نے اس حدیث کو معلق بیان کیا ہے:کتاب الایمان باب خوف المومن ان یحبط عملہ وھولایشعر۔)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تیس کے ساتھ مجھے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور ان میں سے ہر ایک خائف رہتا تھا کہ کہیں مجھ میں نفاق نہ ہو۔‘‘
وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٦٦﴾ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ ﴿١٦٧﴾ آل عمران
سو ان لوگوں کو بہ نسبت ایمان کے کفر سے قریب تر قرار دیا گیا ہے معلوم ہوا کہ ان میں کفر اور ایمان ملا جلا تھا اور ان کا کفر قوی تر تھا اور بعض لوگوں میں کفر و ایمان ملا جلا ہوتا ہے لیکن ان کا ایمان قوی تر ہوتا ہے اور جب اولیاء اللہ مومنین متقین ہی ٹھہرے (اور تقویٰ ہی معیارِ ولایت ہے) تو ظاہر ہے کہ بندے کا ایمان اور تقویٰ جس قدر زیادہ ہوگا اتنی ہی اللہ تعالیٰ سے اس کی ولایت بڑھے گی۔ پس جو شخص ایمان و تقویٰ میں کامل تر ہوگا، اللہ تعالیٰ سے اُس کی دوستی اور ولایت کامل تر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی دوستی میں بعض لوگ دوسرے لوگوں پر اتنی ہی فضیلت رکھتے ہیں، جتنی فضیلت انہیں ایمان و تقویٰ میں حاصل ہو۔ اسی طرح لوگ ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھنے میں بھی اتنے ہی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں جتنے کہ وہ کفر اور نفاق میں بڑھے ہوئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور دو فوجوں میں مڈبھیڑ کے دن تمہیں جو مصیبت پہنچی تو اللہ کے حکم سے تھی اور یہ بھی غرض تھی کہ اللہ ایمان والوں کو معلوم کرے اور منافقوں کو بھی معلوم کرے اور منافقوں سے کہا گیا کہ آئو اللہ کے راستے میں لڑو یا دفاع ہی کرو۔ تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہمیں جنگ ہونی معلوم ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ ہو لیتے۔ یہ لوگ اس روز بہ نسبت ایمان کے کفر سے نزدیک تر تھے۔ منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے‘‘
وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿١٢٤﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ﴿١٢٥﴾ التوبۃ
اور فرمایا:’’اور جس وقت کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو منافقوں میں سے بعض لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگتے ہیں کہ بھلا اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا۔ سو جو پہلے سے ایمان رکھتے ہیں، اس سورت نے ان کا تو ایمان بڑھا دیا اور وہ اپنی جگہ خوشیاں مناتے ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے۔ اس سورت نے ان کی پچھلی خباثت پر ایک خباثت اور بڑھائی اور یہ لوگ کفر ہی کی حالت میں مرگئے۔‘‘
إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴿٣٧﴾ التوبۃ
اور فرمایا:’’مہینوں کا سرکا دینا مزید کفر ہے۔‘‘
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ ﴿١٧﴾ محمد
اور منافقوں کے بارے میں فرمایا:’’اور جو لوگ راہ یافتہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت میں بڑھا دیا اور تقویٰ کی توفیق عطا فرما دی۔‘‘
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ﴿١٠﴾ البقرہ
اس طرح اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ ایک ہی شخص میں اس کے ایمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ولایت کا حصہ پایا جاتا ہے اور اسی میں اس کے کفر و نفاق کے تناسب سے اللہ تعالیٰ کی دشمنی بھی موجود ہوتی ہے۔’’ان کے دلوں میں بیماری (پہلے سے) تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو زیادہ کر دیا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا:
وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ﴿٣١﴾ المدثر
اور فرمایا:’’(ان باتوں سے) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ایمان بڑھاتا ہے، جن میں پہلے سے ایمان ہو۔‘‘
لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ﴿٤﴾ الفتح
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ’’تاکہ اپنے پہلے ایمان کے ساتھ اورایمان زیادہ کر لیں۔‘‘