نصر اللہ خالد
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2012
- پیغامات
- 188
- ری ایکشن اسکور
- 143
- پوائنٹ
- 70
تحریر :نصر اللہ خالد عبداللہ
مکالمہ ایک منکر حدیث سے
منکر حدیث: تم لوگوں نے احادیث کو دین کہاں سے بنا لیا ہے جبکہ اللہ کی کتاب ہی کافی ہے اور خود اللہ نےفرمایا:
ذلك الكتاب لاریب فیه اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔
عام آدمی: جی بھائی جان آپ نے بجا فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں کوئی شک نہیں اور شک کی گنجائش بھی نہیں کیونکہ یہ کلام اللہ ہے لیکن میرا ایک چھوٹا سا اشکال دو رکردیں۔
منکرحدیث: جی پوچھیئے!
عام آدمی: فرض کریں آپ مجھ سے گفتگو کر رہے ہیں اور مجھے آپ کی بات تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے تو میں آپ سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ’’آپ کی گفتگو کا ’’مفھوم المعنی‘‘ کیا ہے‘‘؟؟
منکرحدیث: جی بالکل پوچھ سکتے ہیں یہ آپ کا حق ہے
عام آدمی: اچھا اگر میں آپ سے پوچھتا ہوں تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ کی بات غلط ہے یا آپ کی بات میں کوئی شک ہے؟
منکر حدیث: نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میں سمجھنے کی اتنی ہی صلاحیت تھی اور آپ کو وضاحت کی ضرورت ہے۔
عام آدمی : جزاک اللہ خیرا، تو آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر میں آپ سے وضاحت پوچھوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ
میرا فھم کمزور ہے نہ کہ آپ کی بات میں کوئی شک ہے؟؟
منکرحدیث: جی بالکل۔۔!
عام آدمی: یہ ہی قاعدہ تو ثبوت حدیث کے لیے رکھا جائے گا، اللہ نے قرآن نازل فرمایا جس میں بالکل کوئی شک نہیں لیکن حضرت
انسان کی اتنی عقل ہی کہاں تھی کہ وہ اللہ کے احکامات کو اپنی مرضی سے سمجھ کر عمل بھی کرتا اسلیئے ضرورت تھی ’’مفھوم المعنی‘‘ سمجھنے کی اور اس مفھوم کو سمجھانے والے کی، جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی کلام میں شک ہے، بلکہ ہماری فہم و فراست اس کے معنی کا ادراک نہیں کرتی تھی، تو ضرورت اس امر کی کی تھی کہ ’’مفھوم المعنی‘‘ سمجھانے کے لیے ایک نبی بھیجا جاتا اور اس کی بات کو حجت بنایا جاتا۔ کیا آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟
منکرحدیث: نہیں کیونکہ قرآن تو خود آسان ہے اللہ نے فرمایا: ’’ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر‘‘ آسان کلام کو سمجھنا کیونکر مشکل ہو سکتا ہے؟؟
عام آدمی: میں آپ کی بات سے جزوی طور پر اتفاق کرتاہوں، کیا کسی کلام کا آسان ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں موجود مجمل باتیں بھی سمجھی جاسکتی ہیں؟؟ جو کہ سو فیصد ’’مفھوم المعنی‘‘ کی محتاج ہوتی ہیں۔
منکر حدیث: میں بھی آپ کی بات سے جزوی اتفاق کرتا ہوں لیکن غیر مفھوم معنی کو ہم اس کلام میں تلاش کریں گے نہ کہ اس پرایک اور کلام لائیں گے۔
عام آدمی: اللہ آپ کو جز ادے آپ پہلے یہ بات جان لیں کہ جب ’’مفھوم المعنی‘‘ بیان ہو رہا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کلام پر کلام لائی جا رہی ہے بلکہ ایک ہی کلام کی وضاحت ہو رہی ہے جب یہ نکتہ حل ہو جائے گا تو پریشانی ختم ہو جائے گی۔
منکر حدیث: اس بات کی وضاحت کریں میں نہیں سمجھا۔۔!!!
عام آدمی مسکراہٹ کےساتھ، اگر میں اپنی بات کی وضاحت کروں گا تو کیا آپ یہ سمجھیں گے کہ میں نئی کلام لا رہا ہوں یا کہ اپنی ہی بات کو مزید وضاحت سے بیان کر رہا ہوں؟
منکر حدیث: یقینی طور پر اپنی بات کو واضح کر رہے ہیں نئی کلام نہیں لا رہے۔
عام آدمی: بارک اللہ فیکم صرف یہ ہی شبہ ہمارے دماغوں میں شیطان نے بیٹھا رکھا ہے کہ احادیث جو کہ اللہ کے کلام کا ’’مفھوم المعنی‘‘ ہے وہ دوسری کلام ہے جبکہ حقیقت میں وہ پہلی بات کی تفصیل ہے۔
منکر حدیث: بھائی اللہ آپ کو جزا دے لیکن کیا احادیث پر قرآن کی کوئی آیت بھی دلالت کرتی ہے؟
عام آدمی: اللہ آپ کا سینہ منور کرے، بہت ساری آیات ہیں جیسے اللہ نے فرمایا:
بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ
پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لیے اتاری گئی ہے ،اور تاکہ لوگ (خود بھی) غورو فکر کریں ( النحل:44)
اب اس آیت مبارکہ پر غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اس قرآن کی تشریح و توضیح فرمائیں، تو کیا وہ توضیح یا تشریح قرآن سے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔۔۔؟
منکر حدیث: جی ہاں!
عام آدمی : چلیئے مان لیا اس بات کی دلیل دیں کہ تشریح و توضیح صرف قرآن سے ہی کرنے کا حکم دیا گیا تھا
منکر حدیث: خاموش۔۔۔۔۔
عام آدمی: بھیا کھلے دل سے بات سنیں: رسول اللہ ﷺ نے جو تشریح و توضیح فرمائی ہے وہ آپ علیہ السلام کی احادیث ہی ہیں اور بنیادی طور پر وہ قرآن حکیم ہی کی وضاحت ہیں جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہےکہ قرآن مکمل نہیں ہے قرآن مکمل کتاب ہے صرف ہماری عقول اس مکمل کتاب کا ’’مفھوم المعنی ‘‘ سمجھنےسے قاصر ہیں جس وجہ سے اس کتاب کی وضاحت کے لیے نبی مبعوث فرمائے گئے۔
منکر حدیث: آپ یہ بار بار ’’مفھوم المعنی‘‘ ’’مفھوم المعنی ‘‘ کر رہےہیں اس کی کیا مثال ہے؟
عام آدمی: اس کی سب سے بڑی مثال ہے’’ اقیموا الصلاۃ‘‘ نماز قائم کرو ، ’’فصل لربك‘‘ اپنے رب کے لیے نماز پڑھو، تو بھیا نماز کیسے پڑھیں گے؟
قرآن میں تو کہیں نہیں لکھا، اب دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں یا تو نماز کا اپنی مرضی سے مفھوم المعنی مراد لے کر جدھر چاہے جیسے چاہے منہ کر کے جو مرضی پڑھ لیں، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان آپ ہی کو ہو گا کیونکہ آپ میں ہر بندہ اپنی مرضی کا ’’مفھوم المعنی‘‘ لے گا اور ہر بندے کی اپنی مرضی ہی اختلاف کو جنم دیتی ہے اگر ہر بندے کی ہی مرضی اللہ کی مراد ہو تی تو نبی بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔؟؟
ایسے ہی قرآن نازل فرما کر کہہ دیتا کہ خود ہی سمجھ لو جو دل میں آئے کر لو۔۔۔۔۔۔۔!!!
یا پھر نماز کو ویسے ہی شریعت سے نکال دیا جائے کیونکہ صلاۃ کا مطلب تو دعا ہے۔۔۔۔!!
منکر حدیث:ہمم۔۔۔۔۔!! مجھے آپ کی بات سمجھ آرہی ہے۔
عام آدمی : الحمدللہ، آپ واقعی حق کے متلاشی ہیں اور جو حق تلاش کرتا ہے اللہ اس کو ہدایت ضرورت دیتا ہے۔
کیونکہ فرمان ربانی ہے:
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے.(عنکبوت: 69)
کچھ اور وضاحت چاہئے؟؟
منکر حدیث: جی کیوں نہیں۔۔!
عام آدمی: اللہ نے ہمیں کس لیے پیدا کیا ہے ؟
منکرحدیث: اپنی عباد ت کے لیے۔
عام آدمی: جو اللہ کو مطلوب ہے وہ عبادت کیسے کریں؟
منکر حدیث: قرآن سے لیکر۔
عام آدمی: تو قرآن میں عبادات کرنے کا طریقہ کہاں درج ہے۔۔؟ جیسے نماز، حج،زکوۃ، یہ تو بنیادی ارکان اسلام ہیں ان ہی کی وضاحت قرآن میں کہیں نہیں ہے تو کیا اپنی ہی مرضی سے کیا جانے والا عمل اللہ کو مطلوب عبادت ہے۔۔۔؟؟؟
سوال بنتا ہے کہ نہیں؟
منکر حدیث: کافی گہری سانس لیتےہوئے، سوال تو واقعی بنتا ہے
عام آدمی : پھر کیا کیا جائے؟ کیسے مطلوب عباد ت اور ’’مفھوم المعنی‘‘ کو سمجھا جائے گا۔۔؟
منکر حدیث: جزاکم اللہ خیرا مجھے آپ کی بات سمجھ آگئی ہے یقینا قرآن کے ’’مفھوم المعنی‘‘ کے لیے کسی کی ضرورت تھی جو ہمیں مطلوب عبادات کا طریقہ بتاتا،جس سے ہم اللہ کی رضا مندی حاصل کرتے۔
عام آدمی: بارک اللہ فیکم۔۔!
دیکھیئے بھائی اگر ہم احادیث کا انکار کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن کا ہی انکار کر دیا ہے اور صرف قرآن ہی کا نہیں بلکہ نبوت میں بھی شک کیا ہے!!
کیونکہ اللہ نے فرمایا:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے (النجم:3,4)
نبی کا بولنا ہی اللہ کی وحی کے ساتھ ہوتا ہے، اور اس بولنے کو ہی تو احادیث کہا جاتا ہے اور اگر ہم اس بولنے کا انکار کرتے ہیں تو بالواسطہ ہم نے قرآن سے ہی روح گردانی کر لی ہے،
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک بات ہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں۔۔؟
منکر حدیث،جو کہ ابھی تذبذب میں ہے، جی پوچھیں!
عام آدمی: پہلی وحی کونسی نازل ہوئی تھی؟
منکر حدیث: جلدی سے، سو رۃ العلق کی پہلی پانچ آیات
عام آدمی:مسکراتے ہوئے: قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ یہ پہلی آیات ہیں؟
منکر حدیث: ایک دم سے رنگ سرخ، اللہ اکبر، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ثبوت قرآن کے لیے بھی حدیث کے محتاج ہیں۔۔۔۔!!!!
عام آدمی : سوچ لیں میں کچھ نہیں کہتا، مسکراہٹ
صرف ثبوت قرآن کے لیے ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کا ایمان لانا بھی مشکوک ہو جائے گا،جنھوں نے اس دین کو ہم تک پہنچانے میں جانوں کی قربانی دی وہ جانیں بھی رائیگاں چلی جائیں گیں۔
منکر حدیث: آپ نے میری کافی مدد کی اور میرے اشکال دو ر کیے،لیکن ابھی مجھے کچھ اور شکوک و شبہات ہیں تدوین حدیث کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ اس پر بھی آپ سے آئندہ ملاقات میں بات کروں ۔
عام آدمی: اھلا وسھلا ومرحبا تاریخ تدوین حدیث کا اشکال تو ریت کے ذروں سے بھی ہلکا ہے
ان شاءاللہ ضرور بات کریں گے۔
’’سبحانک اللہ وبحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک ونتوب الیک‘‘
مکالمہ ایک منکر حدیث سے
منکر حدیث: تم لوگوں نے احادیث کو دین کہاں سے بنا لیا ہے جبکہ اللہ کی کتاب ہی کافی ہے اور خود اللہ نےفرمایا:
ذلك الكتاب لاریب فیه اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔
عام آدمی: جی بھائی جان آپ نے بجا فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں کوئی شک نہیں اور شک کی گنجائش بھی نہیں کیونکہ یہ کلام اللہ ہے لیکن میرا ایک چھوٹا سا اشکال دو رکردیں۔
منکرحدیث: جی پوچھیئے!
عام آدمی: فرض کریں آپ مجھ سے گفتگو کر رہے ہیں اور مجھے آپ کی بات تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے تو میں آپ سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ’’آپ کی گفتگو کا ’’مفھوم المعنی‘‘ کیا ہے‘‘؟؟
منکرحدیث: جی بالکل پوچھ سکتے ہیں یہ آپ کا حق ہے
عام آدمی: اچھا اگر میں آپ سے پوچھتا ہوں تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ کی بات غلط ہے یا آپ کی بات میں کوئی شک ہے؟
منکر حدیث: نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میں سمجھنے کی اتنی ہی صلاحیت تھی اور آپ کو وضاحت کی ضرورت ہے۔
عام آدمی : جزاک اللہ خیرا، تو آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر میں آپ سے وضاحت پوچھوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ
میرا فھم کمزور ہے نہ کہ آپ کی بات میں کوئی شک ہے؟؟
منکرحدیث: جی بالکل۔۔!
عام آدمی: یہ ہی قاعدہ تو ثبوت حدیث کے لیے رکھا جائے گا، اللہ نے قرآن نازل فرمایا جس میں بالکل کوئی شک نہیں لیکن حضرت
انسان کی اتنی عقل ہی کہاں تھی کہ وہ اللہ کے احکامات کو اپنی مرضی سے سمجھ کر عمل بھی کرتا اسلیئے ضرورت تھی ’’مفھوم المعنی‘‘ سمجھنے کی اور اس مفھوم کو سمجھانے والے کی، جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی کلام میں شک ہے، بلکہ ہماری فہم و فراست اس کے معنی کا ادراک نہیں کرتی تھی، تو ضرورت اس امر کی کی تھی کہ ’’مفھوم المعنی‘‘ سمجھانے کے لیے ایک نبی بھیجا جاتا اور اس کی بات کو حجت بنایا جاتا۔ کیا آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟
منکرحدیث: نہیں کیونکہ قرآن تو خود آسان ہے اللہ نے فرمایا: ’’ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر‘‘ آسان کلام کو سمجھنا کیونکر مشکل ہو سکتا ہے؟؟
عام آدمی: میں آپ کی بات سے جزوی طور پر اتفاق کرتاہوں، کیا کسی کلام کا آسان ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں موجود مجمل باتیں بھی سمجھی جاسکتی ہیں؟؟ جو کہ سو فیصد ’’مفھوم المعنی‘‘ کی محتاج ہوتی ہیں۔
منکر حدیث: میں بھی آپ کی بات سے جزوی اتفاق کرتا ہوں لیکن غیر مفھوم معنی کو ہم اس کلام میں تلاش کریں گے نہ کہ اس پرایک اور کلام لائیں گے۔
عام آدمی: اللہ آپ کو جز ادے آپ پہلے یہ بات جان لیں کہ جب ’’مفھوم المعنی‘‘ بیان ہو رہا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کلام پر کلام لائی جا رہی ہے بلکہ ایک ہی کلام کی وضاحت ہو رہی ہے جب یہ نکتہ حل ہو جائے گا تو پریشانی ختم ہو جائے گی۔
منکر حدیث: اس بات کی وضاحت کریں میں نہیں سمجھا۔۔!!!
عام آدمی مسکراہٹ کےساتھ، اگر میں اپنی بات کی وضاحت کروں گا تو کیا آپ یہ سمجھیں گے کہ میں نئی کلام لا رہا ہوں یا کہ اپنی ہی بات کو مزید وضاحت سے بیان کر رہا ہوں؟
منکر حدیث: یقینی طور پر اپنی بات کو واضح کر رہے ہیں نئی کلام نہیں لا رہے۔
عام آدمی: بارک اللہ فیکم صرف یہ ہی شبہ ہمارے دماغوں میں شیطان نے بیٹھا رکھا ہے کہ احادیث جو کہ اللہ کے کلام کا ’’مفھوم المعنی‘‘ ہے وہ دوسری کلام ہے جبکہ حقیقت میں وہ پہلی بات کی تفصیل ہے۔
منکر حدیث: بھائی اللہ آپ کو جزا دے لیکن کیا احادیث پر قرآن کی کوئی آیت بھی دلالت کرتی ہے؟
عام آدمی: اللہ آپ کا سینہ منور کرے، بہت ساری آیات ہیں جیسے اللہ نے فرمایا:
بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ
پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لیے اتاری گئی ہے ،اور تاکہ لوگ (خود بھی) غورو فکر کریں ( النحل:44)
اب اس آیت مبارکہ پر غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اس قرآن کی تشریح و توضیح فرمائیں، تو کیا وہ توضیح یا تشریح قرآن سے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔۔۔؟
منکر حدیث: جی ہاں!
عام آدمی : چلیئے مان لیا اس بات کی دلیل دیں کہ تشریح و توضیح صرف قرآن سے ہی کرنے کا حکم دیا گیا تھا
منکر حدیث: خاموش۔۔۔۔۔
عام آدمی: بھیا کھلے دل سے بات سنیں: رسول اللہ ﷺ نے جو تشریح و توضیح فرمائی ہے وہ آپ علیہ السلام کی احادیث ہی ہیں اور بنیادی طور پر وہ قرآن حکیم ہی کی وضاحت ہیں جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہےکہ قرآن مکمل نہیں ہے قرآن مکمل کتاب ہے صرف ہماری عقول اس مکمل کتاب کا ’’مفھوم المعنی ‘‘ سمجھنےسے قاصر ہیں جس وجہ سے اس کتاب کی وضاحت کے لیے نبی مبعوث فرمائے گئے۔
منکر حدیث: آپ یہ بار بار ’’مفھوم المعنی‘‘ ’’مفھوم المعنی ‘‘ کر رہےہیں اس کی کیا مثال ہے؟
عام آدمی: اس کی سب سے بڑی مثال ہے’’ اقیموا الصلاۃ‘‘ نماز قائم کرو ، ’’فصل لربك‘‘ اپنے رب کے لیے نماز پڑھو، تو بھیا نماز کیسے پڑھیں گے؟
قرآن میں تو کہیں نہیں لکھا، اب دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں یا تو نماز کا اپنی مرضی سے مفھوم المعنی مراد لے کر جدھر چاہے جیسے چاہے منہ کر کے جو مرضی پڑھ لیں، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان آپ ہی کو ہو گا کیونکہ آپ میں ہر بندہ اپنی مرضی کا ’’مفھوم المعنی‘‘ لے گا اور ہر بندے کی اپنی مرضی ہی اختلاف کو جنم دیتی ہے اگر ہر بندے کی ہی مرضی اللہ کی مراد ہو تی تو نبی بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔؟؟
ایسے ہی قرآن نازل فرما کر کہہ دیتا کہ خود ہی سمجھ لو جو دل میں آئے کر لو۔۔۔۔۔۔۔!!!
یا پھر نماز کو ویسے ہی شریعت سے نکال دیا جائے کیونکہ صلاۃ کا مطلب تو دعا ہے۔۔۔۔!!
منکر حدیث:ہمم۔۔۔۔۔!! مجھے آپ کی بات سمجھ آرہی ہے۔
عام آدمی : الحمدللہ، آپ واقعی حق کے متلاشی ہیں اور جو حق تلاش کرتا ہے اللہ اس کو ہدایت ضرورت دیتا ہے۔
کیونکہ فرمان ربانی ہے:
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے.(عنکبوت: 69)
کچھ اور وضاحت چاہئے؟؟
منکر حدیث: جی کیوں نہیں۔۔!
عام آدمی: اللہ نے ہمیں کس لیے پیدا کیا ہے ؟
منکرحدیث: اپنی عباد ت کے لیے۔
عام آدمی: جو اللہ کو مطلوب ہے وہ عبادت کیسے کریں؟
منکر حدیث: قرآن سے لیکر۔
عام آدمی: تو قرآن میں عبادات کرنے کا طریقہ کہاں درج ہے۔۔؟ جیسے نماز، حج،زکوۃ، یہ تو بنیادی ارکان اسلام ہیں ان ہی کی وضاحت قرآن میں کہیں نہیں ہے تو کیا اپنی ہی مرضی سے کیا جانے والا عمل اللہ کو مطلوب عبادت ہے۔۔۔؟؟؟
سوال بنتا ہے کہ نہیں؟
منکر حدیث: کافی گہری سانس لیتےہوئے، سوال تو واقعی بنتا ہے
عام آدمی : پھر کیا کیا جائے؟ کیسے مطلوب عباد ت اور ’’مفھوم المعنی‘‘ کو سمجھا جائے گا۔۔؟
منکر حدیث: جزاکم اللہ خیرا مجھے آپ کی بات سمجھ آگئی ہے یقینا قرآن کے ’’مفھوم المعنی‘‘ کے لیے کسی کی ضرورت تھی جو ہمیں مطلوب عبادات کا طریقہ بتاتا،جس سے ہم اللہ کی رضا مندی حاصل کرتے۔
عام آدمی: بارک اللہ فیکم۔۔!
دیکھیئے بھائی اگر ہم احادیث کا انکار کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن کا ہی انکار کر دیا ہے اور صرف قرآن ہی کا نہیں بلکہ نبوت میں بھی شک کیا ہے!!
کیونکہ اللہ نے فرمایا:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے (النجم:3,4)
نبی کا بولنا ہی اللہ کی وحی کے ساتھ ہوتا ہے، اور اس بولنے کو ہی تو احادیث کہا جاتا ہے اور اگر ہم اس بولنے کا انکار کرتے ہیں تو بالواسطہ ہم نے قرآن سے ہی روح گردانی کر لی ہے،
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک بات ہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں۔۔؟
منکر حدیث،جو کہ ابھی تذبذب میں ہے، جی پوچھیں!
عام آدمی: پہلی وحی کونسی نازل ہوئی تھی؟
منکر حدیث: جلدی سے، سو رۃ العلق کی پہلی پانچ آیات
عام آدمی:مسکراتے ہوئے: قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ یہ پہلی آیات ہیں؟
منکر حدیث: ایک دم سے رنگ سرخ، اللہ اکبر، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ثبوت قرآن کے لیے بھی حدیث کے محتاج ہیں۔۔۔۔!!!!
عام آدمی : سوچ لیں میں کچھ نہیں کہتا، مسکراہٹ
صرف ثبوت قرآن کے لیے ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کا ایمان لانا بھی مشکوک ہو جائے گا،جنھوں نے اس دین کو ہم تک پہنچانے میں جانوں کی قربانی دی وہ جانیں بھی رائیگاں چلی جائیں گیں۔
منکر حدیث: آپ نے میری کافی مدد کی اور میرے اشکال دو ر کیے،لیکن ابھی مجھے کچھ اور شکوک و شبہات ہیں تدوین حدیث کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ اس پر بھی آپ سے آئندہ ملاقات میں بات کروں ۔
عام آدمی: اھلا وسھلا ومرحبا تاریخ تدوین حدیث کا اشکال تو ریت کے ذروں سے بھی ہلکا ہے
ان شاءاللہ ضرور بات کریں گے۔
’’سبحانک اللہ وبحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک ونتوب الیک‘‘