14جنوری کے روز سورج شمالی نصف کرہ میں داخل ہوتا ہے۔اس قدرتی معمول کو ہندو مذہب کے ماننے والے مکر سنکرانتی یا اُتراین کہتے ہیں اور اسے ایک مذہبی تہوار کی شکل میں مناتے ہیں۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں اس تہوار کومنانے کی مختلف شکلیں رائج ہیں۔ صوبہ گجرات(انڈیا) کے ہندو اس روز گایوں کو گھاس چارا ڈالتے ہیں، پوجا کرتے ہیں، دان دکشنا کرتے ہیں اور سارا دِن پتنگ بازی میں مصروف رہتے ہیں۔
ہر چند کے علمائے اِسلام اور مفتیان کرام نے پتنگ بازی کو ناجائز اور حرام قراردیاہے نیز مکر سنکرانتی کے موقع پر ہندووں کے شعار والے کاموں سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے تاہم کچھ نادان مسلمان پتنگ بازی سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ پاتے بلکہ وہ بھی ساراسارا دِن اپنے اپنے مکانوں کی چھتوں پر سے پتنگ بازی کرتے ہیں، اور’’یہ کاٹا وہ لوٹا‘‘کے شور سے آبادیا ں گونج اٹھتی ہیں۔نوجوان لڑکیاں، عورتیں ، بچے سبھی چھتوں پر نظر آتے ہیں۔ٹیپ ریکارڈ اور بڑے اسپیکرز کے ذریعہ فلمی نغمے اس قدر بلند آواز سے بجائے جاتے ہیں کہ شور کے باعث کان پڑی آواز بھی سُنائی نہیں دیتی۔ آج یہ بندہ بھی اپنے کمرے میں بنداسی عذاب سے جوجھ رہا ہے۔
اس موقع پر پتنگ بازی کے دوران ہونے والے حادِثات میں سینکڑوں زخمی ہوتے ہیں، ہر سال ایک یا دو آدمیوں کی پتنگ کی ڈور سے گردن کٹ جانے کی بنا پر موت واقع ہوتی ہے اور درجنوں چھت سے گر کر مر جاتے ہیں یا زندگی بھر کے لیے کسی اہم عضو سے محروم ہو جاتے ہیں۔دوسری جانب صوبہ گجرات کی نریندر مودی حکومت ثقافت کے عنوان سے ’’انٹرنیشنل کائٹ فیسٹیول‘‘ کا ہر سال انعقاد کرتی ہے اور اس پرعوام الناس کا اربوں روپیہ صرف کیا جاتا ہے۔جس میں دُنیا بھر کے پتنگ باز اَپنے اَپنے ملکوں کی پتنگیں لے کر پتنگ بازی کے عالمی مقابلے میں شریک ہوتے ہیں۔
ہر چند کے علمائے اِسلام اور مفتیان کرام نے پتنگ بازی کو ناجائز اور حرام قراردیاہے نیز مکر سنکرانتی کے موقع پر ہندووں کے شعار والے کاموں سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے تاہم کچھ نادان مسلمان پتنگ بازی سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ پاتے بلکہ وہ بھی ساراسارا دِن اپنے اپنے مکانوں کی چھتوں پر سے پتنگ بازی کرتے ہیں، اور’’یہ کاٹا وہ لوٹا‘‘کے شور سے آبادیا ں گونج اٹھتی ہیں۔نوجوان لڑکیاں، عورتیں ، بچے سبھی چھتوں پر نظر آتے ہیں۔ٹیپ ریکارڈ اور بڑے اسپیکرز کے ذریعہ فلمی نغمے اس قدر بلند آواز سے بجائے جاتے ہیں کہ شور کے باعث کان پڑی آواز بھی سُنائی نہیں دیتی۔ آج یہ بندہ بھی اپنے کمرے میں بنداسی عذاب سے جوجھ رہا ہے۔
اس موقع پر پتنگ بازی کے دوران ہونے والے حادِثات میں سینکڑوں زخمی ہوتے ہیں، ہر سال ایک یا دو آدمیوں کی پتنگ کی ڈور سے گردن کٹ جانے کی بنا پر موت واقع ہوتی ہے اور درجنوں چھت سے گر کر مر جاتے ہیں یا زندگی بھر کے لیے کسی اہم عضو سے محروم ہو جاتے ہیں۔دوسری جانب صوبہ گجرات کی نریندر مودی حکومت ثقافت کے عنوان سے ’’انٹرنیشنل کائٹ فیسٹیول‘‘ کا ہر سال انعقاد کرتی ہے اور اس پرعوام الناس کا اربوں روپیہ صرف کیا جاتا ہے۔جس میں دُنیا بھر کے پتنگ باز اَپنے اَپنے ملکوں کی پتنگیں لے کر پتنگ بازی کے عالمی مقابلے میں شریک ہوتے ہیں۔