- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
[LINK=http://www.albisharah.com/]البشارہ ویب سائیٹ کرتی ہے [/LINK]
مکمل رسا لہ
مسئلہ ز یار ت روضہ رسو لﷺ
ا یک تاریخی اور شر عی جا ئز ہ
تا لیف: فضیلہ الشیخ عزیرشمس حفظہ اللہ
زیارت قبر نبوی سے متعلق سلف صالحین (صحابہ، تابعین، تبع تابعین) اور ائمہ کرام کا جو طرز عمل تھا وہ حدیث، فقہ اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ رسول اﷲﷺ کے فرمان: ’’لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد‘‘ (تین مسجدوں کے علاوہ عبادت اور ثواب کے لیے کسی اور جگہ کا سفر نہ کیا جائے) کے پیش نظر قرونِ ثلاثہ میں کوئی رسول اﷲﷺ یا کسی دوسرے کی قبر کی زیارت کے لیے سفر نہیں کرتا تھا، بلکہ مدینہ میں بھی لوگ قبر نبوی کی زیارت کے باوجود وہاں بھیڑ نہیں لگاتے اور نہ ہی وہاں کثرت سے جانے کو پسند کرتے تھے۔
عبداﷲ بن عمرw جب سفر پر جانے کا ارادہ کرتے یا واپس مدینہ آتے تو زیارت کرتے اور رسول اﷲﷺ، ابوبکر اور عمرw پر سلام پڑھتے اور لوٹ جاتے۔ انس بن مالکؓ بھی ایک بار قبر مبارک پر گئے اور زیارت کر کے چلے آئے۔ لوگ وہاں بار بار اور کثرت سے جانے کو ناپسند کرتے تھے اور اگر کسی کو ایسا کرتا ہوا پاتے تو روکتے تھے۔
ایک بار علی زین العابدینؒ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اﷲﷺ کی قبر کے پاس دیوار میں شگاف سے اندر داخل ہو کر دعا مانگنے لگا ہے تو انھوں نے اسے روکا اور کہا تمہیں ایک حدیث سناؤں جو میں نے اپنے باپ سے، انھوں نے میرے دادا (علی بن ابی طالب) سے اور انھوں نے رسول اﷲﷺ سے سنی ہے؟ آپ نے فرمایا:
’’لا تتخذوا قبري عیدا، ولا بیوتکم قبوراً، وصلو علي فإن صلاتکم، و تسلیمکم یبلغني أینما کنتم‘‘
مصنف ابن أبي شیبۃ، مسند أبي یعلی، الأحادیث المختارۃ للمقدسي
’’میری قبر کو اجتماع گاہ نہ بنانا اور اپنے گھروں کو قبرستان کی طرح نہ بنا لینا، (یعنی جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی) تم جہاں بھی رہو وہاں سے مجھ تک تمہارا سلام پہنچ جائے گا۔‘‘
علی بن أبی طالبؓ کے ایک دوسرے پوتے حسن مثنیؒ نے ایک بار سہیل بن أبی سہیل کو قبر نبوی کے پاس دیکھا تو انھیں بلایا اور پوچھا: قبر کے پاس کیا کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا کہ میں نبیﷺ پر سلام پڑھنے گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: جب مسجد میں داخل ہو تو سلام پڑھ لو، پھر کہا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے:
’’لا تتخذوا قبري عیداً، ولا تتخذوا بیوتکم مقابر، لعن اﷲ الیھود، اتخذوا قبور أنبیاءھم مساجد، وصلوا علي فإن صلاتکم تبلغني حیث ما کنتم‘‘
پھر حسن نے کہا کہ تم اور اندلس میں رہنے والے سب ایک جیسے ہیں۔
مصنف عبد الرزاق و مصنف ابن أبي شیبۃ
صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے میں لوگ قبر کے پاس حجرے کے اندر جاتے نہ باہر کھڑے ہوتے، حالانکہ وہ دن رات میں پانچ بار نماز کے لیے مسجد نبوی آتے تھے۔ اسی طرح دور دور سے لوگ خلفائے راشدین سے ملنے اور دوسرے کاموں کے لیے مدینہ آتے، مسجد میں نماز پڑھتے اور نماز میں نبیﷺ پر درود و سلام پڑھتے، اور ایسا ہی مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے درود و سلام پڑھتے، قبر کے پاس نہیں جاتے، کیونکہ ایسا کوئی حکم رسول اﷲﷺ نے نہیں دیا تھا۔ ہاں ابن عمر اور بعض صحابہ نے قبر کے پاس جا کر سلام پڑھا ہے، اس لیے علماء اسے جائز سمجھتے ہیں، ضروری نہیں۔
چنانچہ خلفائے راشدین اور جمہور صحابہ حج یا جہاد وغیرہ کے لیے مدینہ سے نکلتے، پھر لوٹتے، مگر قبر نبوی کے پاس حاضری نہ دیتے، کیونکہ اس طرح کی کوئی سنت ان کے علم میں نہیں تھی۔ازواج مطہرات بھی خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد حج کے لیے سفر کرتیں، پھر واپس اپنے گھر چلی جاتیں، قبر نبوی کا رخ نہ کرتیں۔ نیز ابوبکر صدیق اور عمر فاروقؓ کے زمانے میں یمن وغیرہ سے جہاد کے لیے فوجیں مدینہ آتیں، وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتیں۔ ان میں سے کوئی نہ قبر نبوی والے حجرے میں جاتا اور نہ ہی اس سے باہر نماز یا دعا یا درود و سلام کے لیے کھڑا ہوتا۔ اگر ایسا کرنا سنت ہوتا تو اس پر کثرت سے ان کا عمل ہوتا اور وہ ان کے درمیان معروف و مشہور بات ہوتی، مگر ایسا کوئی عمل حدیث و تاریخ کی کتابوں سے ثابت نہیں۔
امام مالک (م ۱۷۹ھ) مدینہ والوں کے لیے زیارت قبر کو ضروری نہیں بتاتے، بلکہ جو سفر سے واپس آئیں یا جو باہر سے مدینہ آئیں ان کے لیے وہ اسے جائز سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لوگوں نے امام صاحب سے پوچھا کہ مدینہ کے کچھ لوگ سفر کے بغیر بھی ہر دن ایک یا اس سے زیادہ بار زیارت کرتے ہیں، بلکہ جمعہ اور دوسرے دنوں میں کئی کئی بار قبر کے پاس جا کر دیر تک کھڑے رہتے اور سلام و دعا کرتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہمارے شہر (مدینہ) میں کسی فقیہ و عالم سے یہ عمل منقول نہیں اور اس پر عمل نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اس امت میں بعد میں آنے والوں کی اصلاح اسی طریقے سے ممکن ہے، جس طریقے سے دور اول میں ہوئی تھی۔ مجھے علم نہیں کہ دور اول میں صحابہ و تابعین نے ایسا کیا ہو، اس لیے مدینہ سے سفر پر جانے یا آنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لیے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
دیکھیے: الشفا للقاضي عیاض (۲/ ۶۷۶)
گویا زیارت قبر نبوی کا عمومی رواج صحابہ و تابعین کے دور میں نہ تھا، بلکہ تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور تیسری چوتھی صدی ہجری تک کے علماء و فقہاء سے زیارتِ قبر نبوی کے لیے سفر کرنے کا استحباب ثابت نہیں۔ ائمہ اربعہ یا جمہور علماء سے اس کی سنیت یا استحباب کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت پانچویں صدی تک کی کتب فقہ کے مطالعہ سے واضح ہوسکتی ہے، جہاں سرے سے اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں۔ پھر اس پر اجماع کا دعوی چہ معنی دارد؟
آیندہ ہم بتائیں گے کہ متاخرین کے یہاں فقہ کی کتابوں میں اس مسئلہ کا ذکر کب سے شروع ہوا اور اس کے لیے کس طرح ضعیف اور موضوع احادیث کا سہارا لیا گیا؟ جب کہ حسب ذیل صحیح اور متواتر احادیث زیارتِ قبر کے لیے سفر سے ممانعت پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں
3 ’’لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ھذا، والمسجد الأقصیٰ‘‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے عبادت اور ثواب کے لیے تین مسجدوں کے علاوہ جب باقی ساری مسجدوں کا سفر ممنوع ٹھہرا، حالانکہ مسجدیں اﷲ کا گھر اور پاک و مقدس جگہ ہیں، تو بدرجۂ اولیٰ قبور اور مزارات کی زیارت کے لیے سفر بھی ممنوع ہوگا، شیخ ابو محمد جوینی، قاضی حسین شافعی اور قاضی عیاض وغیرہ نے اس حدیث سے زیارت قبر کے لیے سفر کی ممانعت ثابت کی ہے۔ ابن بطَّہ اور ابن عقیل نے زیارتِ قبر کے لیے سفر کو بدعت اور حرام بتایا ہے۔
دیکھیے: الشرح والإبانۃ علی أصول أھل السنۃ والدیانۃ، ص ۳۴۲، تلبیس إبلیس، ص: ۴۰۰)
برصغیر میں شاہ ولی اﷲ نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے:
’’کان أھل الجاھلیۃ یقصدون مواضع معظمۃ بزعمھم، یزورونھا، ویتبرکون بھا، وفیہ من التحریف والفساد ما لا یخفی، فسدَّ الفساد لئلا یلحق غیر الشعائر بالشعائر، ولئلا یصیر ذریعۃ لعبادۃ غیر اﷲ، والحق عندي أن القبر و محلَّ عبادۃ ولي من الأولیاء والطور کل ذلک سواء في النھي.‘‘ (حجۃ اﷲ البالغۃ: ۱/ ۱۹۲)
’’یعنی جاہلی دور میں لوگ بعض مقامات کی زیارت برکت حاصل کرنے کے لیے کرتے تھے، چونکہ اس سے دین میں تحریف اور فساد کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس لیے اسلام میں اس سے ممانعت کر دی گئی تاکہ مقدس مقامات کے ساتھ دوسرے غیر مقدس مقامات نہ ملا لیے جائیں اور انھیں غیر اﷲ کی عبادت کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے قبر، کسی ولی کی عبادت گاہ اور طور پہاڑ سب کی زیارت کے لیے سفر کی مما نعت ثابت ہوتی ہے۔‘‘
شاہ ولی اﷲ نے ’’مسوی شرح موطأ‘‘ (ص: ۷۲) میں بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے:
3 ’’لا تجعلوا بیوتکم قبوراً، ولا تجعلوا قبري عیدا، وصلوا علي، فإن صلاتکم تبلغني حیث کنتم‘‘ (أبو داود، مسند أحمد)
’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ (یعنی ان میں نفلی نمازیں پڑھا کرو) اور میری قبر کو عید گاہ یا اجتماع کی جگہ نہ بنا لینا، اور مجھ پر درود بھیجتے رہنا، تم جہاں بھی رہو گے وہاں سے مجھ تک تمہارا درود پہنچ جائے گا۔‘‘
اس حدیث میں رسول اﷲe نے صراحت کے ساتھ اپنی قبر پر لوگوں کو بھیڑ لگانے اور وہاں بار بار آنے سے منع کیا ہے، اور تعلیم دی ہے کہ درود و سلام کے لیے قبر پر حاضری کی ضرورت نہیں، کہیں سے بھی ان پر درود بھیجا جائے تو پہنچ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا قبرِ نبوی کی زیارت کے لیے سفر اور وہاں حاضری دے کر بھیڑ جمع کرنا یا بار بار سال کے مختلف موسموں میں وہاں جانا منع ہے۔
3 ’’قاتل اﷲ الیھود والنصاری اتخذوا قبور أنبیاءھم مساجد‘‘
(بخاری و مسلم)
’’اﷲ یہود و نصاری کو غارت کرے، جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ قبروں کے پاس یا ان کا رخ کر کے نماز پڑھنا یا وہاں جا کر عبادت کا اہتمام کرنا یہود و نصاریٰ کی مذموم روش ہے، اس لیے وہ اسلام میں سخت منع ہے۔ قبروں کی زیارت اور برکت و ثواب حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف دور دور سے سفر کرنا انھیں عبادت گاہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
3 ابو ہریرہt سے مروی ہے کہ وہ ایک بار طور پہاڑ کی طرف گئے۔ واپس آئے تو ایک صحابی بصرہ بن أبی بصرہ غفاریt سے ملاقات ہوئی، انھوں نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ انھوں نے کہا: اگر وہاں کے لیے رختِ سفر باندھنے سے قبل آپ سے ملاقات ہوتی تو آپ وہاں کا رخ نہ کرتے۔ میں نے رسول اﷲe کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مساجد کے علاوہ اور کسی مقدس جگہ کا سفر نہ کیا جائے یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس۔ (موطأ مالک، مسند أحمد، نسائی وغیرہ)
اس سے معلوم ہوا کہ صحابی رسول کے نزدیک تین مسجدوں کے علاوہ اور کہیں کے سفر سے ممانعت میں طور پہاڑ اور انبیائے کرام کے مقامات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ صحابی جلیل ابوہریرہt نے بھی ان پر کوئی نکیر نہیں کی، گویا وہ بھی ان سے متفق تھے۔
ایک دوسری روایت میں ابن عمر نے بھی اپنے شاگرد قزعہ کو اسی حدیث کی بنا پر طور جانے سے روکا تھا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ)
ان احادیث کی بنا پر ابتدائی تین صدیوں میں اہل علم کا اجماع رہا ہے کہ زیارتِ قبور کے لیے سفر نہ واجب ہے نہ مستحب، یہ ثواب اور نیکی کا کام بھی نہیں کہ دور دور سے وہاں جانے کے لیے رختِ سفر باندھنے کا اہتمام کیا جائے۔ متاخرین علماء میں سے بعض نے اسے فی الجملہ جائز کہا ہے، مگر انھوں نے بھی اسے مستحب یا واجب نہیں بتایا۔ اس لیے اسے مستحب یا واجب اور ثواب کا کام سمجھنا اجماع کے خلاف ہے۔
تفصیل کے لئے [LINK=http://www.albisharah.com]http://www.albisharah.com[/LINK]
مکمل رسا لہ
مسئلہ ز یار ت روضہ رسو لﷺ
ا یک تاریخی اور شر عی جا ئز ہ
تا لیف: فضیلہ الشیخ عزیرشمس حفظہ اللہ
زیارت قبر نبوی سے متعلق سلف صالحین (صحابہ، تابعین، تبع تابعین) اور ائمہ کرام کا جو طرز عمل تھا وہ حدیث، فقہ اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ رسول اﷲﷺ کے فرمان: ’’لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد‘‘ (تین مسجدوں کے علاوہ عبادت اور ثواب کے لیے کسی اور جگہ کا سفر نہ کیا جائے) کے پیش نظر قرونِ ثلاثہ میں کوئی رسول اﷲﷺ یا کسی دوسرے کی قبر کی زیارت کے لیے سفر نہیں کرتا تھا، بلکہ مدینہ میں بھی لوگ قبر نبوی کی زیارت کے باوجود وہاں بھیڑ نہیں لگاتے اور نہ ہی وہاں کثرت سے جانے کو پسند کرتے تھے۔
عبداﷲ بن عمرw جب سفر پر جانے کا ارادہ کرتے یا واپس مدینہ آتے تو زیارت کرتے اور رسول اﷲﷺ، ابوبکر اور عمرw پر سلام پڑھتے اور لوٹ جاتے۔ انس بن مالکؓ بھی ایک بار قبر مبارک پر گئے اور زیارت کر کے چلے آئے۔ لوگ وہاں بار بار اور کثرت سے جانے کو ناپسند کرتے تھے اور اگر کسی کو ایسا کرتا ہوا پاتے تو روکتے تھے۔
ایک بار علی زین العابدینؒ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اﷲﷺ کی قبر کے پاس دیوار میں شگاف سے اندر داخل ہو کر دعا مانگنے لگا ہے تو انھوں نے اسے روکا اور کہا تمہیں ایک حدیث سناؤں جو میں نے اپنے باپ سے، انھوں نے میرے دادا (علی بن ابی طالب) سے اور انھوں نے رسول اﷲﷺ سے سنی ہے؟ آپ نے فرمایا:
’’لا تتخذوا قبري عیدا، ولا بیوتکم قبوراً، وصلو علي فإن صلاتکم، و تسلیمکم یبلغني أینما کنتم‘‘
مصنف ابن أبي شیبۃ، مسند أبي یعلی، الأحادیث المختارۃ للمقدسي
’’میری قبر کو اجتماع گاہ نہ بنانا اور اپنے گھروں کو قبرستان کی طرح نہ بنا لینا، (یعنی جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی) تم جہاں بھی رہو وہاں سے مجھ تک تمہارا سلام پہنچ جائے گا۔‘‘
علی بن أبی طالبؓ کے ایک دوسرے پوتے حسن مثنیؒ نے ایک بار سہیل بن أبی سہیل کو قبر نبوی کے پاس دیکھا تو انھیں بلایا اور پوچھا: قبر کے پاس کیا کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا کہ میں نبیﷺ پر سلام پڑھنے گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: جب مسجد میں داخل ہو تو سلام پڑھ لو، پھر کہا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے:
’’لا تتخذوا قبري عیداً، ولا تتخذوا بیوتکم مقابر، لعن اﷲ الیھود، اتخذوا قبور أنبیاءھم مساجد، وصلوا علي فإن صلاتکم تبلغني حیث ما کنتم‘‘
پھر حسن نے کہا کہ تم اور اندلس میں رہنے والے سب ایک جیسے ہیں۔
مصنف عبد الرزاق و مصنف ابن أبي شیبۃ
صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے میں لوگ قبر کے پاس حجرے کے اندر جاتے نہ باہر کھڑے ہوتے، حالانکہ وہ دن رات میں پانچ بار نماز کے لیے مسجد نبوی آتے تھے۔ اسی طرح دور دور سے لوگ خلفائے راشدین سے ملنے اور دوسرے کاموں کے لیے مدینہ آتے، مسجد میں نماز پڑھتے اور نماز میں نبیﷺ پر درود و سلام پڑھتے، اور ایسا ہی مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے درود و سلام پڑھتے، قبر کے پاس نہیں جاتے، کیونکہ ایسا کوئی حکم رسول اﷲﷺ نے نہیں دیا تھا۔ ہاں ابن عمر اور بعض صحابہ نے قبر کے پاس جا کر سلام پڑھا ہے، اس لیے علماء اسے جائز سمجھتے ہیں، ضروری نہیں۔
چنانچہ خلفائے راشدین اور جمہور صحابہ حج یا جہاد وغیرہ کے لیے مدینہ سے نکلتے، پھر لوٹتے، مگر قبر نبوی کے پاس حاضری نہ دیتے، کیونکہ اس طرح کی کوئی سنت ان کے علم میں نہیں تھی۔ازواج مطہرات بھی خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد حج کے لیے سفر کرتیں، پھر واپس اپنے گھر چلی جاتیں، قبر نبوی کا رخ نہ کرتیں۔ نیز ابوبکر صدیق اور عمر فاروقؓ کے زمانے میں یمن وغیرہ سے جہاد کے لیے فوجیں مدینہ آتیں، وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتیں۔ ان میں سے کوئی نہ قبر نبوی والے حجرے میں جاتا اور نہ ہی اس سے باہر نماز یا دعا یا درود و سلام کے لیے کھڑا ہوتا۔ اگر ایسا کرنا سنت ہوتا تو اس پر کثرت سے ان کا عمل ہوتا اور وہ ان کے درمیان معروف و مشہور بات ہوتی، مگر ایسا کوئی عمل حدیث و تاریخ کی کتابوں سے ثابت نہیں۔
امام مالک (م ۱۷۹ھ) مدینہ والوں کے لیے زیارت قبر کو ضروری نہیں بتاتے، بلکہ جو سفر سے واپس آئیں یا جو باہر سے مدینہ آئیں ان کے لیے وہ اسے جائز سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لوگوں نے امام صاحب سے پوچھا کہ مدینہ کے کچھ لوگ سفر کے بغیر بھی ہر دن ایک یا اس سے زیادہ بار زیارت کرتے ہیں، بلکہ جمعہ اور دوسرے دنوں میں کئی کئی بار قبر کے پاس جا کر دیر تک کھڑے رہتے اور سلام و دعا کرتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہمارے شہر (مدینہ) میں کسی فقیہ و عالم سے یہ عمل منقول نہیں اور اس پر عمل نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اس امت میں بعد میں آنے والوں کی اصلاح اسی طریقے سے ممکن ہے، جس طریقے سے دور اول میں ہوئی تھی۔ مجھے علم نہیں کہ دور اول میں صحابہ و تابعین نے ایسا کیا ہو، اس لیے مدینہ سے سفر پر جانے یا آنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لیے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
دیکھیے: الشفا للقاضي عیاض (۲/ ۶۷۶)
گویا زیارت قبر نبوی کا عمومی رواج صحابہ و تابعین کے دور میں نہ تھا، بلکہ تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور تیسری چوتھی صدی ہجری تک کے علماء و فقہاء سے زیارتِ قبر نبوی کے لیے سفر کرنے کا استحباب ثابت نہیں۔ ائمہ اربعہ یا جمہور علماء سے اس کی سنیت یا استحباب کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت پانچویں صدی تک کی کتب فقہ کے مطالعہ سے واضح ہوسکتی ہے، جہاں سرے سے اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں۔ پھر اس پر اجماع کا دعوی چہ معنی دارد؟
آیندہ ہم بتائیں گے کہ متاخرین کے یہاں فقہ کی کتابوں میں اس مسئلہ کا ذکر کب سے شروع ہوا اور اس کے لیے کس طرح ضعیف اور موضوع احادیث کا سہارا لیا گیا؟ جب کہ حسب ذیل صحیح اور متواتر احادیث زیارتِ قبر کے لیے سفر سے ممانعت پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں
3 ’’لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ھذا، والمسجد الأقصیٰ‘‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے عبادت اور ثواب کے لیے تین مسجدوں کے علاوہ جب باقی ساری مسجدوں کا سفر ممنوع ٹھہرا، حالانکہ مسجدیں اﷲ کا گھر اور پاک و مقدس جگہ ہیں، تو بدرجۂ اولیٰ قبور اور مزارات کی زیارت کے لیے سفر بھی ممنوع ہوگا، شیخ ابو محمد جوینی، قاضی حسین شافعی اور قاضی عیاض وغیرہ نے اس حدیث سے زیارت قبر کے لیے سفر کی ممانعت ثابت کی ہے۔ ابن بطَّہ اور ابن عقیل نے زیارتِ قبر کے لیے سفر کو بدعت اور حرام بتایا ہے۔
دیکھیے: الشرح والإبانۃ علی أصول أھل السنۃ والدیانۃ، ص ۳۴۲، تلبیس إبلیس، ص: ۴۰۰)
برصغیر میں شاہ ولی اﷲ نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے:
’’کان أھل الجاھلیۃ یقصدون مواضع معظمۃ بزعمھم، یزورونھا، ویتبرکون بھا، وفیہ من التحریف والفساد ما لا یخفی، فسدَّ الفساد لئلا یلحق غیر الشعائر بالشعائر، ولئلا یصیر ذریعۃ لعبادۃ غیر اﷲ، والحق عندي أن القبر و محلَّ عبادۃ ولي من الأولیاء والطور کل ذلک سواء في النھي.‘‘ (حجۃ اﷲ البالغۃ: ۱/ ۱۹۲)
’’یعنی جاہلی دور میں لوگ بعض مقامات کی زیارت برکت حاصل کرنے کے لیے کرتے تھے، چونکہ اس سے دین میں تحریف اور فساد کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس لیے اسلام میں اس سے ممانعت کر دی گئی تاکہ مقدس مقامات کے ساتھ دوسرے غیر مقدس مقامات نہ ملا لیے جائیں اور انھیں غیر اﷲ کی عبادت کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے قبر، کسی ولی کی عبادت گاہ اور طور پہاڑ سب کی زیارت کے لیے سفر کی مما نعت ثابت ہوتی ہے۔‘‘
شاہ ولی اﷲ نے ’’مسوی شرح موطأ‘‘ (ص: ۷۲) میں بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے:
3 ’’لا تجعلوا بیوتکم قبوراً، ولا تجعلوا قبري عیدا، وصلوا علي، فإن صلاتکم تبلغني حیث کنتم‘‘ (أبو داود، مسند أحمد)
’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ (یعنی ان میں نفلی نمازیں پڑھا کرو) اور میری قبر کو عید گاہ یا اجتماع کی جگہ نہ بنا لینا، اور مجھ پر درود بھیجتے رہنا، تم جہاں بھی رہو گے وہاں سے مجھ تک تمہارا درود پہنچ جائے گا۔‘‘
اس حدیث میں رسول اﷲe نے صراحت کے ساتھ اپنی قبر پر لوگوں کو بھیڑ لگانے اور وہاں بار بار آنے سے منع کیا ہے، اور تعلیم دی ہے کہ درود و سلام کے لیے قبر پر حاضری کی ضرورت نہیں، کہیں سے بھی ان پر درود بھیجا جائے تو پہنچ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا قبرِ نبوی کی زیارت کے لیے سفر اور وہاں حاضری دے کر بھیڑ جمع کرنا یا بار بار سال کے مختلف موسموں میں وہاں جانا منع ہے۔
3 ’’قاتل اﷲ الیھود والنصاری اتخذوا قبور أنبیاءھم مساجد‘‘
(بخاری و مسلم)
’’اﷲ یہود و نصاری کو غارت کرے، جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ قبروں کے پاس یا ان کا رخ کر کے نماز پڑھنا یا وہاں جا کر عبادت کا اہتمام کرنا یہود و نصاریٰ کی مذموم روش ہے، اس لیے وہ اسلام میں سخت منع ہے۔ قبروں کی زیارت اور برکت و ثواب حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف دور دور سے سفر کرنا انھیں عبادت گاہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
3 ابو ہریرہt سے مروی ہے کہ وہ ایک بار طور پہاڑ کی طرف گئے۔ واپس آئے تو ایک صحابی بصرہ بن أبی بصرہ غفاریt سے ملاقات ہوئی، انھوں نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ انھوں نے کہا: اگر وہاں کے لیے رختِ سفر باندھنے سے قبل آپ سے ملاقات ہوتی تو آپ وہاں کا رخ نہ کرتے۔ میں نے رسول اﷲe کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مساجد کے علاوہ اور کسی مقدس جگہ کا سفر نہ کیا جائے یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس۔ (موطأ مالک، مسند أحمد، نسائی وغیرہ)
اس سے معلوم ہوا کہ صحابی رسول کے نزدیک تین مسجدوں کے علاوہ اور کہیں کے سفر سے ممانعت میں طور پہاڑ اور انبیائے کرام کے مقامات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ صحابی جلیل ابوہریرہt نے بھی ان پر کوئی نکیر نہیں کی، گویا وہ بھی ان سے متفق تھے۔
ایک دوسری روایت میں ابن عمر نے بھی اپنے شاگرد قزعہ کو اسی حدیث کی بنا پر طور جانے سے روکا تھا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ)
ان احادیث کی بنا پر ابتدائی تین صدیوں میں اہل علم کا اجماع رہا ہے کہ زیارتِ قبور کے لیے سفر نہ واجب ہے نہ مستحب، یہ ثواب اور نیکی کا کام بھی نہیں کہ دور دور سے وہاں جانے کے لیے رختِ سفر باندھنے کا اہتمام کیا جائے۔ متاخرین علماء میں سے بعض نے اسے فی الجملہ جائز کہا ہے، مگر انھوں نے بھی اسے مستحب یا واجب نہیں بتایا۔ اس لیے اسے مستحب یا واجب اور ثواب کا کام سمجھنا اجماع کے خلاف ہے۔
تفصیل کے لئے [LINK=http://www.albisharah.com]http://www.albisharah.com[/LINK]