- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
قرآن اکیڈمی کے شعبہ تحقیق اسلامی میں ملازمت کے دوران لوگ متنوع مسائل میں دینی یا شرعی راہنمائی کے لیے رجوع کرتے تھے۔ ان سائلین کی کثیر تعداد عموما دو میں سے کسی ایک مسئلے میں مشاورت چاہ رہی ہوتی تھی؛ جادو ٹونے کا مسئلہ اور میاں بیوی کے اختلافات۔ اس وقت ہم دوسرے مسئلے پر کچھ گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں۔
میاں بیوی کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کے اسباب تلاش کیے جائیں۔ میاں بیوی کا اختلاف دو قسم کا ہوتا ہے؛ فطری اور غیر فطری۔ فطری اختلاف وہ ہے کہ جس کے اسباب داخلی ہوتے ہیں اور غیر فطری کے خارجی۔ فطری اختلاف کو کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں لیکن غیر فطری اختلاف کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔
فطری اختلاف ہے کہ اللہ تعالی نے مرد اور عورت دونوں کو ایک مزاج پر پیدا کیا ہے کہ جس میں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
استوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء. رواه البخاري.
عورتوں کے بارے میں میری نصیحت سن لو کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہوتی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے بارے میری نصیحت سن لو۔
اس روایت میں خطاب مرد سے ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے اختلافات میں شریعت نے مرد کو سمجھایا ہے کہ وہ بڑا ہے لہذا اسے بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی کہ مرد میں عقل جبکہ عورت میں جذبات کا پہلو غالب ہوتا ہے لہذا میاں بیوی کی لڑائی میں سمجھنے سمجھانے کے زیادہ امکانات مرد کی طرف میں ہوتے ہیں۔ پس مرد چونکہ ذمہ دار بھی ہے اور اس میں عورت کی نسبت عقل کا پہلو غالب ہے لہذا اسے اپنی ذمہ داری اور فطری تخلیق کا خیال رکھتے ہوئے گھر کو جوڑنے میں عورت کی نسبت زیادہ قربانی دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کا حق بھی مرد ہی کو دیا گیا ہے۔ اور اگر مرد یہ عزم کر لے کہ اس نے اپنی عورت کو سیدھا کر کے ہی رہنا ہے تو اسے توڑنے کے مترادف ہے اور اس توڑنے کا معنی طلاق ہے۔ ثالث کو بھی چاہیے کہ میاں بیوی کے اختلافات میں زیادہ مرد کو سمجھائے کیونکہ عورت کو اللہ تعالی نے فطرتا کمزور بنایا ہے جیسا کہ اس روایت کے الفاظ ہیں۔ اس روایت کا یہ مقصد نہیں ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو طعنہ دینے کے لیے اس روایت کو دلیل بنائے کہ تم تو ہو ہی ٹیڑھی بلکہ اس روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کا مقصود یہ ہے کہ عورت کو اللہ نے کمزور بنایا ہے لہذا اس کی فطری کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے حکمت کے ساتھ معاملہ کرو۔
مردوں اور عورتوں میں بھی باہمی مزاج میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الأرض، فجاء بنو آدم على قدر الأرض فجاء منهم الأبيض والأحمر والأسود وبين ذلك، والخبيث والطيب والسهل والحزن وبين ذلك. رواه أبو داود والترمذي وغيرهما، وصححه الألباني رحمه الله.
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے کہا: اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی بھر مٹی سے پیدا کیا اور یہ مٹی تمام زمین سے لی گئی تھی۔ پس آدم کی اولاد میں زمین کے تمام رنگ اور خصوصیات موجود ہیں۔ ان میں کوئی سفید، کوئی سرخ اور کوئی سیاہ ہے اور کوئی ان کے مابین ہے۔ اور کوئی خبیث، کوئی طیب، کوئی نرم اور کوئی سخت ہے اور کوئی ان کے مابین ہے۔
پس آدم کی اولاد میں مزاج کی کچھ کمزوریاں فطری ہیں لہذا اگلے کو اس کا کسی قدر کریڈٹ دینا چاہیے۔ ایک شخص اگر پیدائشی طور غصیلے یا لاپرواہ مزاج کا حامل ہے تو وہ اپنے اس مزاج کو اپنی تربیت سے کسی قدر کنٹرول تو کر سکتا ہے لیکن ختم نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس کے خمیر میں ہے۔ اور مزاج کی یہ فطری کمزوریاں ہر شخص میں اس فرق کے ساتھ موجود ہیں کہ جو ایک میں ہیں وہ دوسرے میں نہیں ہیں۔ لہذا ان فطری کمزرویوں میں دو چیزیں مطلوب ہیں: ایک تو ہر فریق اپنی کمزوری کو دور کرنے کی امکان بھر کوشش کرے اور دوسرا یہ کہ فریقین ایک دوسرے کی ایسی کمزوریوں کے بارے برداشت اور تحمل کا رویہ پیدا کریں۔ یہی بات ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو عورت کے حوالے سے بیان کی ہے۔ کہ نہ تو اسے بالکل سیدھا کرنے کے چکر میں پڑو اور نہ ہی اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ دونوں میں ساتھ رہنا مشکل بلکہ نامکن ہو جائے گا اور نوبت علیحدگی تک جا پہنچے گی۔
مثلا عام زندگی کی مشکلات میں سے یہ ہے کہ عموما مرد گھر وقت پر آنے میں دیر لگا دیتے ہیں اور عورتیں گھر سے نکلنے میں دیر لگا دیتی ہیں اور اس پر اچھا خاصا جھگڑا ہو جاتا ہے۔ اب اگر یہ کسی عورت یا مرد کے مزاج کی یہ خامی ہے یا اس کے حالات ایسے ہیں جو دیری کا باعث بن جاتے ہیں تو فریقین کو ممکن حد تک اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اورفریق مخالف کو یہ چاہیے کہ دیر کی صورت میں ایک دوسرے کو جتلا دیں یا بعض اوقات ناراضگی کا اظہار بھی کر دیں لیکن اس میں شدت نہ لائیں کہ فساد بن جائے۔
کچھ مزاج فطری نہیں ہوتے لیکن معاشرے کا بگاڑ انہیں فطری کر دکھاتا ہے جیسا کہ میاں بیوی کی لڑائی میں عرف میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا حل یہی ہے کہ غلطی چاہے مرد کی ہو یا عورت کی، معذرت مرد ہی نے کرنی ہے۔ ایک دفعہ کسی جاننے والے کے ہاں جانا ہوا تو وہاں ٹیلی ویژن چینل پر ایک ایڈ چل رہا تھا جس میں میاں بیوی ناراض تھے اور بیوی اپنے شوہر کو جادوئی الفاظ بولنے کی درخواست کر رہی تھی اور جادوئی الفاظ سے اس کی مراد یہ تھی کہ مرد یہ کہے کہ غلطی میری تھی۔ عورت کا غلطی نہ ماننا یہ اس کی پیدائشی کمزوری نہیں ہے بلکہ عرفی ہے یعنی رواج نے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ جھگڑے کا حل یہی ہے کہ شوہر معذرت کر لے۔ یہ ایک ناممکن بات ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑے میں ہمیشہ غلطی شوہر کی ہو۔ بعض اوقات شوہر کی غلطی ہوتی ہے اور بعض اوقات بیوی۔ جس کی غلطی ہے، اسے تسلیم کرنا چاہیے، یہ دینی تقاضا ہے اور ایک بندہ مومن کے اخلاقی اور روحانی بلندی کے بہت ضروری ہے۔ کہنے کو تو شوہر کے غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی غلطی تسلیم کر لینے سے اختلاف رفع ہع جائے گا لیکن اگر یہی رویہ عادت بن جائے گا تو اس کا عورت کو دینی اور اخلاقی نقصان بہت زیادہ ہو گا۔ عورت کی زندگی سے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا مادہ ہی نکلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایسی خاتون اپنے رب سے بھی جھگڑا کرنے والی بن جائے گی اور استغفار اس کی زندگی میں کم ہی ملے گا۔ رویے جب عادت بن جاتے ہیں تو وہ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے، انسان یا معبود، شوہر یا پروردگار؟
میاں بیوی کے دوسری قسم کے اختلافات وہ ہیں جو غیر فطری ہیں اور ان کا سبب شیطان لعین ہوتا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
«إِنَّ الشَّيْطَانَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى المَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فِي النَّاسِ فَأَقْرَبُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ فِتْنَةً، يَجِيءُ أَحَدَهُمْ فَيَقُولُ مَا زِلْتُ بِفُلاَنٍ حَتَّى تَرَكْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا. فَيَقُولَ إِبْلِيسُ لاَ وَاللَّهِ مَا صَنَعْتُ شَيْئاً. وَيَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَـيْنَهُ وَبَـيْنَ أَهْلِهِ. قَالَ فَيُقَرِّبُهُ وَيُدْنِيهِ (ويلتزمه) وَيَقُولُ نِعَمَ أَنْتَ» رواه مسلم
ابلیس پانی یعنی سمندر پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے لشکر لوگوں میں فساد کی غرض سے بھیجتا ہے۔ پس اس کے لشکروں میں اس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جس نے سب سے بڑا فتنہ برپا کیا ہو۔ اس کے بھیجے ہوئے چیلوں میں سے ایک آ کر اسے اطلاع دیتا ہے کہ میں فلاں کے پیچھے لگا ہی رہا یہاں تک کہ اس نے یہ یہ بکواس کر ڈالی۔ تو ابلیس اسے کہتا ہے، اللہ کی قسم، تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس کا ایک چیلہ آ کر اسے اطلاع دیتا ہے کہ میں نے اس شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے مابین جدائی ڈلوا دی تو ابلیس اپنے اس چیلے کو اپنے قریب کرتا ہے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے اور کہتا ہے: کیا خوب کام ہے۔
تو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا پھوٹ ڈلوانا ابلیس کے نزدیک اتنا عظیم کام ہے کہ اس کے ایسے چیلے اس کے مقربین میں شمار ہوتے ہیں جو زوجین میں طلاق کا باعث بن جائیں۔ اور یہ شیطان لعین ہر وقت انسان کے دل میں وسوسہ ڈالنے کے لیے تیار بیٹھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاس
اور اس کے شر سے جو انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔
اور آپ کا ارشاد ہے:
إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ
شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔
اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ جب بھی ان میں کسی چھوٹی سی بات پر بڑا جھگڑا ہو جائے تو اس کا سبب شیطان ہے۔ سائیکالوجی میں جسے ہم غیر معمولی رویہ یعنی ایبنارمل ایٹی چیوڈ کہتے ہیں، اس کی وجہ داخلی نہیں خارجی ہوتی ہے اگرچہ ماہرین نفسیات اس کی وجہ داخلی قرار دیتے ہیں لیکن جھاڑ پھونک کرنے والوں کا تجربہ اس کے خلاف کہتا ہے کہ اکثر اس قسم کے رویے کی وجہ شیطان لعین ہوتا ہے، چاہے وہ بچوں میں ہو یا بڑوں۔ تو اس قسم کے حالات میں کہ جس میں میاں بیوی میں سے کوئی ایک غیر معمولی رویے کا اظہار کرے تو پہلے پہل خارجی وجہ کو ختم کرنا چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں یا ان میں ایک جو ذرا حواسوں میں ہے، ایک دوسرے پر تعوذات اور سورہ الصافات کی پہلی دس آیات دم کر کے پھونک ماریں۔ یعنی پہلے شیطان لعین کو بھگائیں اور اختلاف کو فطری لیول پر لے کر آئیں اور اب فطری یا اصل اختلافات کے حل کے لیے مشاورت کریں یا مکالمہ، موثر ترین تعوذات میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہیں۔ یا یہ دعا بھی پڑھ لی جائے تو بہتر ہے:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ
میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں مکمل ہونے والے کلمات سے، اس کے غضب سے، اس کی سزا سے، اس کے برے بندوں سے، اور شیاطین کے کچوکوں سے اور میں اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں۔
ایک غصہ فطری ہے اور ایک شیطان کی طرف۔ شیطان کی طرف سے غصے کو اگر فطری سمجھ لیں گے تو مسئلہ کبھی حل نہ ہو گا۔ شیطان کی طرف سے غصے کا حل یہ ہے کہ وضو کر لے یا اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کا کثرت سے ورد کرے۔ پس میاں بیوی کے اختلافات میں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ اختلافات نارمل ہیں یا ایبنارمل۔ اگر نارمل ہیں تو افہام وتفہیم اور تحمل وبرداشت کے دو اصولوں کی روشنی میں انہیں حل کرنے کی کوشش کرے اور اگر دوسری قسم کے ہیں تو پھر تعوذات اور شرعی دم وغیرہ سے انہیں حل کرے۔ بہت سے میاں بیوی کے مسائل دوسری نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن وہ پہلی قسم میں ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح ان کے مسائل عارضی طور تو حل ہو جاتے ہیں لیکن مستقل طور ھل نہیں ہو پاتے۔ پہلے شیطان یعنی تیسرے دشمن کو بگھائیں اور پھر آپس کی لڑائی حل کرنے بیٹھیں۔ تیسرے دشمن کی موجودگی میں آپ کے اختلافات کا حل ہونا بہت مشکل ہے۔ اور اس کے بھگانے کا طریقہ یہی ہے کہ صبح وشام کے اذکار اور تعوذات کا اہتمام کر لے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے اللہ کا نام لے لے تو شیاطین آپس میں یہ کہتے ہیں کہ اس گھر میں تمہارے لیے رات گزارنے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام نہ لے تو شیاطین کہتے ہیں کہ اب تمہارے یہ گنجائش ہے کہ تم اس گھر میں رات گزار سکو۔ صحیح مسلم
میاں بیوی کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کے اسباب تلاش کیے جائیں۔ میاں بیوی کا اختلاف دو قسم کا ہوتا ہے؛ فطری اور غیر فطری۔ فطری اختلاف وہ ہے کہ جس کے اسباب داخلی ہوتے ہیں اور غیر فطری کے خارجی۔ فطری اختلاف کو کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں لیکن غیر فطری اختلاف کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔
فطری اختلاف ہے کہ اللہ تعالی نے مرد اور عورت دونوں کو ایک مزاج پر پیدا کیا ہے کہ جس میں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
استوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء. رواه البخاري.
عورتوں کے بارے میں میری نصیحت سن لو کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہوتی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے بارے میری نصیحت سن لو۔
اس روایت میں خطاب مرد سے ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے اختلافات میں شریعت نے مرد کو سمجھایا ہے کہ وہ بڑا ہے لہذا اسے بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی کہ مرد میں عقل جبکہ عورت میں جذبات کا پہلو غالب ہوتا ہے لہذا میاں بیوی کی لڑائی میں سمجھنے سمجھانے کے زیادہ امکانات مرد کی طرف میں ہوتے ہیں۔ پس مرد چونکہ ذمہ دار بھی ہے اور اس میں عورت کی نسبت عقل کا پہلو غالب ہے لہذا اسے اپنی ذمہ داری اور فطری تخلیق کا خیال رکھتے ہوئے گھر کو جوڑنے میں عورت کی نسبت زیادہ قربانی دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کا حق بھی مرد ہی کو دیا گیا ہے۔ اور اگر مرد یہ عزم کر لے کہ اس نے اپنی عورت کو سیدھا کر کے ہی رہنا ہے تو اسے توڑنے کے مترادف ہے اور اس توڑنے کا معنی طلاق ہے۔ ثالث کو بھی چاہیے کہ میاں بیوی کے اختلافات میں زیادہ مرد کو سمجھائے کیونکہ عورت کو اللہ تعالی نے فطرتا کمزور بنایا ہے جیسا کہ اس روایت کے الفاظ ہیں۔ اس روایت کا یہ مقصد نہیں ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو طعنہ دینے کے لیے اس روایت کو دلیل بنائے کہ تم تو ہو ہی ٹیڑھی بلکہ اس روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کا مقصود یہ ہے کہ عورت کو اللہ نے کمزور بنایا ہے لہذا اس کی فطری کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے حکمت کے ساتھ معاملہ کرو۔
مردوں اور عورتوں میں بھی باہمی مزاج میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الأرض، فجاء بنو آدم على قدر الأرض فجاء منهم الأبيض والأحمر والأسود وبين ذلك، والخبيث والطيب والسهل والحزن وبين ذلك. رواه أبو داود والترمذي وغيرهما، وصححه الألباني رحمه الله.
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے کہا: اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی بھر مٹی سے پیدا کیا اور یہ مٹی تمام زمین سے لی گئی تھی۔ پس آدم کی اولاد میں زمین کے تمام رنگ اور خصوصیات موجود ہیں۔ ان میں کوئی سفید، کوئی سرخ اور کوئی سیاہ ہے اور کوئی ان کے مابین ہے۔ اور کوئی خبیث، کوئی طیب، کوئی نرم اور کوئی سخت ہے اور کوئی ان کے مابین ہے۔
پس آدم کی اولاد میں مزاج کی کچھ کمزوریاں فطری ہیں لہذا اگلے کو اس کا کسی قدر کریڈٹ دینا چاہیے۔ ایک شخص اگر پیدائشی طور غصیلے یا لاپرواہ مزاج کا حامل ہے تو وہ اپنے اس مزاج کو اپنی تربیت سے کسی قدر کنٹرول تو کر سکتا ہے لیکن ختم نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس کے خمیر میں ہے۔ اور مزاج کی یہ فطری کمزوریاں ہر شخص میں اس فرق کے ساتھ موجود ہیں کہ جو ایک میں ہیں وہ دوسرے میں نہیں ہیں۔ لہذا ان فطری کمزرویوں میں دو چیزیں مطلوب ہیں: ایک تو ہر فریق اپنی کمزوری کو دور کرنے کی امکان بھر کوشش کرے اور دوسرا یہ کہ فریقین ایک دوسرے کی ایسی کمزوریوں کے بارے برداشت اور تحمل کا رویہ پیدا کریں۔ یہی بات ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو عورت کے حوالے سے بیان کی ہے۔ کہ نہ تو اسے بالکل سیدھا کرنے کے چکر میں پڑو اور نہ ہی اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ دونوں میں ساتھ رہنا مشکل بلکہ نامکن ہو جائے گا اور نوبت علیحدگی تک جا پہنچے گی۔
مثلا عام زندگی کی مشکلات میں سے یہ ہے کہ عموما مرد گھر وقت پر آنے میں دیر لگا دیتے ہیں اور عورتیں گھر سے نکلنے میں دیر لگا دیتی ہیں اور اس پر اچھا خاصا جھگڑا ہو جاتا ہے۔ اب اگر یہ کسی عورت یا مرد کے مزاج کی یہ خامی ہے یا اس کے حالات ایسے ہیں جو دیری کا باعث بن جاتے ہیں تو فریقین کو ممکن حد تک اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اورفریق مخالف کو یہ چاہیے کہ دیر کی صورت میں ایک دوسرے کو جتلا دیں یا بعض اوقات ناراضگی کا اظہار بھی کر دیں لیکن اس میں شدت نہ لائیں کہ فساد بن جائے۔
کچھ مزاج فطری نہیں ہوتے لیکن معاشرے کا بگاڑ انہیں فطری کر دکھاتا ہے جیسا کہ میاں بیوی کی لڑائی میں عرف میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا حل یہی ہے کہ غلطی چاہے مرد کی ہو یا عورت کی، معذرت مرد ہی نے کرنی ہے۔ ایک دفعہ کسی جاننے والے کے ہاں جانا ہوا تو وہاں ٹیلی ویژن چینل پر ایک ایڈ چل رہا تھا جس میں میاں بیوی ناراض تھے اور بیوی اپنے شوہر کو جادوئی الفاظ بولنے کی درخواست کر رہی تھی اور جادوئی الفاظ سے اس کی مراد یہ تھی کہ مرد یہ کہے کہ غلطی میری تھی۔ عورت کا غلطی نہ ماننا یہ اس کی پیدائشی کمزوری نہیں ہے بلکہ عرفی ہے یعنی رواج نے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ جھگڑے کا حل یہی ہے کہ شوہر معذرت کر لے۔ یہ ایک ناممکن بات ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑے میں ہمیشہ غلطی شوہر کی ہو۔ بعض اوقات شوہر کی غلطی ہوتی ہے اور بعض اوقات بیوی۔ جس کی غلطی ہے، اسے تسلیم کرنا چاہیے، یہ دینی تقاضا ہے اور ایک بندہ مومن کے اخلاقی اور روحانی بلندی کے بہت ضروری ہے۔ کہنے کو تو شوہر کے غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی غلطی تسلیم کر لینے سے اختلاف رفع ہع جائے گا لیکن اگر یہی رویہ عادت بن جائے گا تو اس کا عورت کو دینی اور اخلاقی نقصان بہت زیادہ ہو گا۔ عورت کی زندگی سے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا مادہ ہی نکلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایسی خاتون اپنے رب سے بھی جھگڑا کرنے والی بن جائے گی اور استغفار اس کی زندگی میں کم ہی ملے گا۔ رویے جب عادت بن جاتے ہیں تو وہ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے، انسان یا معبود، شوہر یا پروردگار؟
میاں بیوی کے دوسری قسم کے اختلافات وہ ہیں جو غیر فطری ہیں اور ان کا سبب شیطان لعین ہوتا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
«إِنَّ الشَّيْطَانَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى المَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فِي النَّاسِ فَأَقْرَبُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ فِتْنَةً، يَجِيءُ أَحَدَهُمْ فَيَقُولُ مَا زِلْتُ بِفُلاَنٍ حَتَّى تَرَكْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا. فَيَقُولَ إِبْلِيسُ لاَ وَاللَّهِ مَا صَنَعْتُ شَيْئاً. وَيَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَـيْنَهُ وَبَـيْنَ أَهْلِهِ. قَالَ فَيُقَرِّبُهُ وَيُدْنِيهِ (ويلتزمه) وَيَقُولُ نِعَمَ أَنْتَ» رواه مسلم
ابلیس پانی یعنی سمندر پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے لشکر لوگوں میں فساد کی غرض سے بھیجتا ہے۔ پس اس کے لشکروں میں اس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جس نے سب سے بڑا فتنہ برپا کیا ہو۔ اس کے بھیجے ہوئے چیلوں میں سے ایک آ کر اسے اطلاع دیتا ہے کہ میں فلاں کے پیچھے لگا ہی رہا یہاں تک کہ اس نے یہ یہ بکواس کر ڈالی۔ تو ابلیس اسے کہتا ہے، اللہ کی قسم، تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس کا ایک چیلہ آ کر اسے اطلاع دیتا ہے کہ میں نے اس شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے مابین جدائی ڈلوا دی تو ابلیس اپنے اس چیلے کو اپنے قریب کرتا ہے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے اور کہتا ہے: کیا خوب کام ہے۔
تو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا پھوٹ ڈلوانا ابلیس کے نزدیک اتنا عظیم کام ہے کہ اس کے ایسے چیلے اس کے مقربین میں شمار ہوتے ہیں جو زوجین میں طلاق کا باعث بن جائیں۔ اور یہ شیطان لعین ہر وقت انسان کے دل میں وسوسہ ڈالنے کے لیے تیار بیٹھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاس
اور اس کے شر سے جو انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔
اور آپ کا ارشاد ہے:
إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ
شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔
اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ جب بھی ان میں کسی چھوٹی سی بات پر بڑا جھگڑا ہو جائے تو اس کا سبب شیطان ہے۔ سائیکالوجی میں جسے ہم غیر معمولی رویہ یعنی ایبنارمل ایٹی چیوڈ کہتے ہیں، اس کی وجہ داخلی نہیں خارجی ہوتی ہے اگرچہ ماہرین نفسیات اس کی وجہ داخلی قرار دیتے ہیں لیکن جھاڑ پھونک کرنے والوں کا تجربہ اس کے خلاف کہتا ہے کہ اکثر اس قسم کے رویے کی وجہ شیطان لعین ہوتا ہے، چاہے وہ بچوں میں ہو یا بڑوں۔ تو اس قسم کے حالات میں کہ جس میں میاں بیوی میں سے کوئی ایک غیر معمولی رویے کا اظہار کرے تو پہلے پہل خارجی وجہ کو ختم کرنا چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں یا ان میں ایک جو ذرا حواسوں میں ہے، ایک دوسرے پر تعوذات اور سورہ الصافات کی پہلی دس آیات دم کر کے پھونک ماریں۔ یعنی پہلے شیطان لعین کو بھگائیں اور اختلاف کو فطری لیول پر لے کر آئیں اور اب فطری یا اصل اختلافات کے حل کے لیے مشاورت کریں یا مکالمہ، موثر ترین تعوذات میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہیں۔ یا یہ دعا بھی پڑھ لی جائے تو بہتر ہے:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ
غَضَبِهِ ، وَعِقَابِهِ ،وَشَرِّ عِبَادِهِ ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونَ " میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں مکمل ہونے والے کلمات سے، اس کے غضب سے، اس کی سزا سے، اس کے برے بندوں سے، اور شیاطین کے کچوکوں سے اور میں اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں۔
ایک غصہ فطری ہے اور ایک شیطان کی طرف۔ شیطان کی طرف سے غصے کو اگر فطری سمجھ لیں گے تو مسئلہ کبھی حل نہ ہو گا۔ شیطان کی طرف سے غصے کا حل یہ ہے کہ وضو کر لے یا اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کا کثرت سے ورد کرے۔ پس میاں بیوی کے اختلافات میں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ اختلافات نارمل ہیں یا ایبنارمل۔ اگر نارمل ہیں تو افہام وتفہیم اور تحمل وبرداشت کے دو اصولوں کی روشنی میں انہیں حل کرنے کی کوشش کرے اور اگر دوسری قسم کے ہیں تو پھر تعوذات اور شرعی دم وغیرہ سے انہیں حل کرے۔ بہت سے میاں بیوی کے مسائل دوسری نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن وہ پہلی قسم میں ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح ان کے مسائل عارضی طور تو حل ہو جاتے ہیں لیکن مستقل طور ھل نہیں ہو پاتے۔ پہلے شیطان یعنی تیسرے دشمن کو بگھائیں اور پھر آپس کی لڑائی حل کرنے بیٹھیں۔ تیسرے دشمن کی موجودگی میں آپ کے اختلافات کا حل ہونا بہت مشکل ہے۔ اور اس کے بھگانے کا طریقہ یہی ہے کہ صبح وشام کے اذکار اور تعوذات کا اہتمام کر لے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے اللہ کا نام لے لے تو شیاطین آپس میں یہ کہتے ہیں کہ اس گھر میں تمہارے لیے رات گزارنے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام نہ لے تو شیاطین کہتے ہیں کہ اب تمہارے یہ گنجائش ہے کہ تم اس گھر میں رات گزار سکو۔ صحیح مسلم