• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میت کی طرف سے قربانی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میت کی طرف سے قربانی

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین​

میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت صریح دلیل صرف ایک روایت پیش کی جاتی ہے ، جو درج ذیل ہے :

امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ سنن الترمذی ‘‘ میں فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي ، حدثنا شريك ، عن ابي الحسناء عن الحكم ، عن حنش ، عن علي " انه كان يضحي بكبشين ، احدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم ، والآخر عن نفسه " ، فقيل له:‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ امرني به يعني:‏‏‏‏ النبي صلى الله عليه وسلم فلا ادعه ابدا ، قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك ، وقد رخص بعض اهل العلم ان يضحى عن الميت ، ولم ير بعضهم ان يضحى عنه ، وقال عبد الله بن المبارك:‏‏‏‏ " احب إلي ان يتصدق عنه ، ولا يضحى عنه ، وإن ضحى ، فلا ياكل منها شيئا ، ويتصدق بها كلها " ، قال محمد ، قال علي بن المديني ، وقد رواه غير شريك ، قلت له:‏‏‏‏ ابو الحسناء ما اسمه ، فلم يعرفه ، قال مسلم اسمه:‏‏‏‏ الحسن‘‘
(سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 1495۔۔باب: میت کی طرف سے قربانی کا بیان )

جناب علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے،
۳- بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ (جاریہ ) کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔

سنن ابی داود/ الأضاحي ۲ (۲۷۹۰)، (تحفة الأشراف : ۱۰۰۸۲) (ضعیف) (سند میں ’’ شریک ‘‘ حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسناء ‘‘ مجہول، نیز ’’ حنش ‘‘ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)

اور علامہ البانی نے ’’ مشکاۃ ‘‘ کی تحقیق میں اور ضعیف سنن الترمذی میں اسے ضعیف کہا ہے ‘‘صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1495
وضاحت: ۱؎ : اس ضعیف حدیث، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا : «اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے، پھر اختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ ؟ حنابلہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی افضل ہے، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم و صلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے،

جناب علی رضی الله عنہ کی حدیث سخت ضعیف ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے وقت کی دعا سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعا سے غیر اللہ کو پکارنے پر استدلال کرنا، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں «عمن لم يضح أمتي» (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کر سکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ” میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کر سکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما “، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ «واللہ اعلم بالصواب»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میت تک صرف انہی اعمال کا ثواب پہنچ سکتا ہے، جن کے بارے میں دلیل موجود ہے، یہی موقف راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) اور انسان کیلئے وہی ہے جس کیلئے اس نے خود جد و جہد کی۔[النجم:39]

اور جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة : إلا من صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، أو ولد صالح يدعو له ) أخرجه مسلم (1631)
(جب انسان مر جائے تو اسکے تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرتی ہو) مسلم: (1631)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپکے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ، آپکی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپکی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی ، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرام کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔

اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرمان باری تعالی: ( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"اسی آیت سے امام شافعی اور انکے موقف کی تائید کرنے والوں نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ فوت شدگان تک تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا؛ کیونکہ تلاوت انہوں نے خود نہیں کی، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کام کیلئے ترغیب نہیں دلائی، اور نہ انکے کیلئے اسے اچھا قرار دیا، اور نہ ہی اس کام کیلئے واضح یا اشارۃً لفظوں میں رہنمائی فرمائی ، آپ کے کسی صحابی سے بھی ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے، اگر یہ کام خیر کا ہوتا تو وہ ہم سے پہلے کر گزرتے۔

عبادات کے معاملے میں شرعی نصوص کی پابندی کی جاتی ہے، اسی لئے عبادات کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی، جبکہ دعا اور صدقہ جاریہ کے بارے میں یہ ہے کہ یہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے"

( تفسير ابن كثير: 4/ 258 )
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
محترم شیخ امسال میرا بھی ارادہ تھا اپنے کچھ مرحومین کی طرف سے قربانی کرنے کا تو ذرا واضح فرمادیں کہ یہ عمل کیسا ہے؟

بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ (جاریہ ) کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔
اس اقتباس کی بھی وضاحت کردیں۔ جزاک اللہ خیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
محترم شیخ امسال میرا بھی ارادہ تھا اپنے کچھ مرحومین کی طرف سے قربانی کرنے کا تو ذرا واضح فرمادیں کہ یہ عمل کیسا ہے؟
اس اقتباس کی بھی وضاحت کردیں۔ جزاک اللہ خیر
’’ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ (جاریہ ) کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔‘‘
اس قول کا مطلب یہ ہے میت کی طرف سے قربانی نہیں کرنی چاہئے ۔۔لیکن اگر کسی نے میت کی طرف سے قربانی کی تو وہ ’’ مسنون قربانی ‘‘
نہیں ہوگی ،جس کو امیر غریب سب کھا سکتے ہیں ۔۔بلکہ ایک صدقہ ہوگا ۔۔اور صدقہ صرف فقراء کیلئے ہے ،اغنیاء کیلئے جائز نہیں ،اس لئے
اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں :
مسألة: هل الأضحية مشروعة عن الأموات أو عن الأحياء؟
الجواب: مشروعة عن الأحياء، إذ لم يرد عن النبي صلّى الله عليه وسلّم ولا عن الصحابة فيما أعلم أنهم ضحوا عن الأموات استقلالاً، فإن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم مات له أولاد من بنين أو بنات في حياته، ومات له زوجات وأقارب يحبهم، ولم يضح عن واحد منهم، فلم يضح عن عمه حمزة ولا عن زوجته خديجة، ولا عن زوجته زينب بنت خزيمة، ولا عن بناته الثلاث، ولا عن أولاده ـ رضي الله عنهم ـ، ولو كان هذا من الأمور المشروعة لبيَّنه الرسول صلّى الله عليه وسلّم في سنته قولاً أو فعلاً، وإنما يضحي الإنسان عنه وعن أهل بيته.
(الشرح الممتع على زاد المستقنع )
__________
" قربانی کےسلسلےمیں اصل یہ ہےکہ یہ زندوں کےحق میں مشروع ہےجیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب اپنی طرف سےاوراپنےاہل کی طرف سےکیاکرتےتھے ، اوربعض لوگ جو مردوں کی طرف سےمستقل قربانی کرتےہیں تواس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والأضحية عن الأموات ثلاثة أقسام:
الأول: أن يضحي عنهم تبعاً للأحياء مثل أن يضحي الرجل عنه وعن أهل بيته وينوي بهم الأحياء والأموات، وأصل هذا تضحية النبي صلى الله عليه وسلّم عنه وعن أهل بيته وفيهم من قد مات من قبل.
الثاني: أن يضحي عن الأموات بمقتضى وصاياهم تنفيذاً لها وأصل هذا قوله تعالى: {فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَآ إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ }.
الثالث: أن يضحي عن الأموات تبرعاً مستقلين عن الأحياء فهذه جائزة، وقد نص فقهاء الحنابلة على أن ثوابها يصل إلى الميت وينتفع به قياساً على الصدقة عنه، ولكن لا نرى أن تخصيص الميت بالأضحية من السنة؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلّم لم يضح عن أحد من أمواته بخصوصه، فلم يضح عن عمه حمزة وهو من أعز أقاربه عنده، ولا عن أولاده الذين ماتوا في حياته، وهم ثلاث بنات متزوجات، وثلاثة أبناء صغار، ولا عن زوجته خديجة وهي من أحب نسائه إليه، ولم يرد عن أصحابه في عهده أن أحداً منهم ضحى عن أحد من أمواته.
(أحكام الأضحية والذكاة)
اورمردے کی طرف سےقربانی کی تین قسمیں ہیں :

پہلی : زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں مُردوں کوشامل کرلیاجائے، جیسےقربانی کرتےوقت آدمی اپنےاوراپنےگھروالوں کی طرف سےقربانی کرے اوراس میں زندہ اورمُردہ سب کی نیت کرلے ۔ جس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اوراپنےاہل کی طرف سے قربانی کرنی ہے اوراہل میں جوپہلےوفات پاچکےتھے وہ بھی شامل ہیں ۔

دوسری : مرنےوالےکی اگروصیت تھی کہ اس کی طرف سےقربانی کرنی ہےتواس کی وصیّت پوری کی جائےگی اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے : {فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ }(البقرة181)(پس اگرکوئی شخص وصیت سن لینےکےبعد اسےبدل دےگا تواس کاگناہ اس کےبدلنے والوں کوہوگا، بےشک اللہ بڑاسننے والا اور جاننے والاہے )

تیسری : اگرمیت کی طرف سے مستقلاً کی جا‏ئے توفقہاء حنابلہ کےنزدیک صدقہ پرقیاس کرتےہوئےاس کاثواب میّت کوپہنچےگا، لیکن میں نہیں سمجھتاکہ خاص میت کی طرف سے قربانی کرناسنت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی کسی بھی بیوی کی طرف سےخصوصی طورسےقربانی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں سب سےپیارےچچاحمزہ کی طرف سےاورنہ ہی اپنی اولادوں کی طرف سےجوآپ کی زندگی میں وفات پاگئیں تھیں ، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اورتین چھوٹےچھوٹےبچےتھے اورنہ اپنی سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے، اورنہ ہی آپ کےعہد میں کسی صحابی ہی سےاپنےکسی وفات شدہ رشتہ دارکی طرف سےقربانی کرناثابت ہے"
(دیکھئے : احکام الاضحیۃ والذکاۃ نیزدیکھۓ : الشرح الممتع علی زادالمستقنع ( 7/455 – 456) رسالۃ الاضحیۃ( 51) اور الجامع لاحکام الاضحیہ (ص 48)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
''میت کی طرف سے قربانی کا حکم '' کے موضوع پر ایک بہت عمدہ تحریر:

میت کی طرف سے قربانی کا حکم


قربانی ایک عظیم عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک اہم ذریعہ ہے(فصل لربک وانحر۔۔۔قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین) غیراللہ کے لئے ذبح وقربانی حرام اور شرک اور باعث لعنت عمل ہے۔حدیث رسول ہے:’’لعن اللہ من ذبح لغیراللہ ‘‘ (الحدیث)

مسلمانوں کی دینی واجتماعی زندگی میں سال کے اندر دو عیدیں ہیں۔ ایک عیدالفطر جو ماہ رمضان ختم ہونے پر پہلی شوال کو منائی جاتی ہے۔ اس دن امام کی اقتداء میں دورکعت صلاۃ باجماعت ادا کی جاتی ہے اور امام خطبہ دیتا ہے اور مسلمان اس دن خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حسب توفیق عمدہ پکوان بالخصوص میٹھی لذیذ سوئیاں وغیرہ کھاتے اور کھلاتے ہیں ۔ دوسری عید عیدالاضحیہ (عید قرباں) ہے جو ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے: عیدالفطر کی طرح اس دن بھی مسلمان صلاۃ ادا کرتے اور امام کا خطبہ سماعت کرتے ہیں اور صلاۃ وخطبہ سے فارغ ہو کر مستطیع حضرات اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس کے نام پر اضاحی (یعنی بہیمۃ الانعام، اونٹ، گائے، بھیڑودنبہ اور بکرے کی قربانی) پیش کرتے ہیں جو دراصل ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت کا احیاء ہے اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپ قربانی کرتے رہے اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم بھی قربانی کرتے رہے۔

قربانی کے احکام ومسائل قرآن کریم اور آحادیث نبویہ صحیحہ میں بیان کئے گئے ہیں اس موضوع پر متعدد علماء وفقہاء نے فقہی کتابوں میں روشنی ڈالی ہے۔

اہل علم نے قربانی کے احکام ومسائل پر مستقل تصنیفات وتالیفات مرتب ومدون کی ہیں:جب عیدالاضحی کا زمانہ قریب آتا ہے تو اسلامی دینی مجلات و رسائل میں اس موضوع پر علماء وطلبہ کے مقالات ومضامین شائع ہوتے ہیں موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے خطبات جمعہ میں اس موضوع پر ائمہ وخطباء گفتگو کرتے ہیں۔

اب تک اس موضوع’’میت کیطرف سے قربانی کا حکم کیا ہے؟‘‘ پر علماء کرام کی لکھی ہوئی کل تحریر کا خلاصہ درج ذیل ہے:

۱. اکثروبیشتر اہل علم میت کیطرف سے قربانی کے جواز کے قائل ہیں بعض اہل علم نے یوں تفصیل بیان کی ہے کہ آدمی ایک جانور کی قربانی اپنی طرف سے کرے اور ایک دوسرے جانور کی قربانی میت کیطرف سے کرے۔

*بعض علماء نے در حقیقت اس کو صدقہ مان کر جائز قراردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص میت کیطرف سے قربانی کرے تو ایسی صورت میں اس جانور یا سہم کا پورا گوشت تقسیم کردے اور خود وہ اور اس کے گھروالے نہ کھائیں۔

*بعض دیگر اہل علم نے کہا کہ میت کیطرف قربانی جائز ہے اور قربانی کرنے والا اسے خود بھی کھا سکتا ہے اور مستحقین کو کھلائے

۲. کچھ اہل علم بلکہ طلبہ علم کا قول یہ ہے کہ میت کیطرف سے قربانی جائز نہیں ہے۔ جو عبادت جائز نہ ہو اور اسے دین وعبادت سمجھ کر کیا جائے وہ بدعت ہے اور بدعت شریعت میں مردود ہے لہذا میت کیطرف سے قربانی مردود ہوگی۔

درج ذیل سطور میں تین نکتے ذکر کئے جا رہے ہیں:جنھیں ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہے۔
۱:اس دین اور اسکی شریعت کے احکام کے مکلف اور اس کے مخاطب زندہ اشخاص ہیں۔
لہذا اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے کنارہ کشی زندہ اشخاص کا کام ہے۔
مردے اس شرع اسلامی کے بعد ازموت نہ مخاطب ہیں نہ ہی مکلف ہیں۔ وہ اپنے پیش کردہ عمل کے پاس جا پہونچے۔ ’’فإنہم افضوا إلی ما قدموا‘‘وہ اپنے پیش کردہ عقائد واعمال لیکر پہونچ چکے ہیں۔
۲:ایک اہم اسلامی اصول اور شرعی ضابطہ ہے جو جملہ اہل علم کے نزدیک متفق علیہ اصل اور قاعدہ ہے:
’’الأصل فی الأشیاء الإباحۃ حتی یرد دلیل المنع والأصل فی العبادۃ المنع حتی یرد دلیل الفعل‘‘
عام امور واشیاء میں اصل جواز واباحت ہے یہاں تک کہ منع وتحریم کی دلیل وارد ہو اور عبادات میں أصل اور بنیادی بات ممانعت وتحریم اور عدم فعل ہے یہاں تک کہ اس کے فعل (کرنے) کی دلیل وارد ہو۔
اس کی علت یہ ہے کہ عبادات اور طریقہ عبادات توقیفی ہوتے ہیں یعنی عبادات اور ان کے طریقوں کا علم اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی عطا کرتے ہیں۔کسی بھی مسلمان کے لئے از خود بلا دلیل وحجت کوئی عبادت اور اسکے لئے اپنی جانب سے مقرر کردہ کوئی طریقہ ایجاد واختیار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

۳. تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان مرد ہو یا زن جب مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، مرنے کے بعد اس کے لئے اجروثواب کا سلسلہ اساسی طور پرتین راہوں کے ذریعہ جاری رہ سکتا ہے اگر وہ تینوں راہیں پائی جائیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
’’إذا امات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاث صدقۃ جارےۃ أو علم ینتفع بہ أو ولدصالح یدعولہ‘‘
پہلی راہ صدقہ جاریہ ہے:یہ صدقہ اسکا اپنا کیا ہوا عمل ہو سکتا ہے یا اس کے ورثہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کے ثلث سے انجام دیں یا اس کے اولاد وأحفاد وأقرباء اسکو ثواب پہونچانے کی نیت سے یہ صدقہ جاریہ انجام دیں۔
دوسری راہ: ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے۔ یعنی وہ شخص اسلامی دینی کتابوں کا مؤلف ومصنف رہا ہو اور اپنی تصنیف چھوڑ گیا ہو جس سے اہل علم اور عام قارئین فائدہ اٹھائیں۔ یا وہ شخص اسلامیات ودینیات کا مدرس رہا ہو اور اس کے تلامذہ کا تسلسل ہو جو اپنے علم سے اوروں کو فائدہ پہونچاتے رہے ہوں۔
تیسری راہ: صالح اولاد۔دینی وشرعی نقطہ نظر سے نیک۔ اولاد کی دعا یعنی اسکی اولاد۔ بچے بچیاں۔ نیک ہوں اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں۔
تو ان تینوں راہوں اور جو راہیں ان اصول کے تحت آتی ہوں ان سے میت کو اجروثواب حاصل ہوگا۔ یوں ان تینوں راہوں سے اس کا عمل منقطع نہیں ہوا۔
جیسا کہ اوپر یہ نکتہ بیان کیا گیا کہ شریعت کے اوامر ونواہی کے مخاطب زندہ لوگ ہیں کیونکہ خطاب زندوں سے ہوتا ہے حکم اضحیہ پر عمل پیرائی کے مخاطب بھی زندہ لوگ ہیں۔
مردہ شخص: نہ (اقیموالصلاۃ وآتوالزکاۃ) کا مخاطب بننے کے لائق ہے نہ ہی ’’علیکم بقیام اللیل‘‘ کا مکلف بننے کے قابل ہے نہ ہی وہ ’’من وجد سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘ کے اندر وعید سے بھر پور حکم کا مخاطب بننے کے لائق ہے ’’فإنہم أفضوا إلی ما قدموا‘‘۔

نہ اس مردہ شخص کے پسماندگان اس بات کے مکلف ہیں کہ سال بہ سال اس کیطرف سے یوم النحر اور أیام التشریق میں أضاحی پیش کریں۔
ہاں مردہ شخص کے زندوں پر اور بالخصوص اس کے اقرباء وغیرہ کچھ حقوق ہیں انھیں چاہئے کہ وہ ان حقوق کو ادا کریں اگر زندوں کو مردوں کے لئے ثواب پہونچانا مقصود ہے تو وہ متفق علیہ راہ اختیار کریں۔ اضحیہ عن المیت یعنی میت کی طرف سے قربانی جو بہر حال ایک اختلافی مسئلہ بن گیا ہے۔پر اصرار نہ کریں زندہ شخص کو اپنی طرف سے کیجانے والی قربانی کی قبولیت کی فکر ہونی چاہئے۔ کیونکہ بہت سے اضاحی پیش کرنے والے نماز کے تارک اور دیگر فرائض نہ اداکے کرنے والے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بہت سے حرام واضح کے مرتکب ہوتے ہیں۔اس لئے اپنی عبادت کی قبولیت کی فکر کرنی چاہئے۔ یوں انسان نیک بن کر مردہ کے لئے دعا کرکے اسکو ثواب پہونچاسکتا ہے۔
ہاں مرد ے کی جانب کئے جانے والے بعض أعمال درست ہیں جن کے دلائل واضح ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ متفق علیہ أصول ہے کہ عبادات میں أصل نہی وتحریم ہے تا آنکہ فعل عبادت کی دلیل موجود ہو اسلئے کہ عبادات توقیفی ہوا کرتے ہیں۔

قربانی ایک عظیم عبادت ہے۔ اضحیہ اور اس کا پیش کیا جانا اللہ تعالی کی خوشنودی کا باعث عمل ہے اضحیہ نبی ﷺ کے عمل اور اسوہ سے ثابت ایک ایسی عبادت ہے جو اسلامی شعار ہے اس سے مسلمانوں کا ایک تشخص اور امتیاز قائم ہوتا ہے یہ عظیم عبادت ہے جسکی ایک روشن قدیم تاریخ ہے جو ابراہیم واسماعیل اور ہاجرہ علیہ السلام سے متعلق ایک انوکھی اور نرالی داستان حق کی یادگارہے اس یادگار کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام مدینہ کے دوراں مسلسل ومستمر عمل کے ذریعہ زندہ وپائندہ بنا دیا ہے۔
اضحیہ ایک خاص عبادت ہے جسے عیدالاضحی کو یعنی دسویں ذی الحجہ کو صلاۃ وخطبہ سے فراغت کے بعد انجام دیا جاتا ہے اور قربانی کا وقت ایام التشریق یعنی گیارہویں بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ تک پھیلا ہوا ہے۔
اگر کسی نے قبل از صلاۃ عید اضحیہ کا جانور ذبح کر دیا تو وہ اضحیہ نہیں ہے بلکہ وہ کھانے والا گوشت مثلا گوشت کا بکرا کہا جا سکتا ہے لیکن بہر حال وہ مسنون قربانی نہیں کہی جا سکتی ہے ایسے ہی پورا وقت گذرجانے کے بعد کوئی اضحیہ نہیں کر سکتا ہے۔

اضاحی کی مشروعیت ثابت ہے دلائل وبرابین حسب ذیل ہے:
۱۔( فصل لربک والنحر) اپنے رب کے لئے صلاۃ ادا کرو اور قربانی کرو۔
۲۔ ’’اقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ عشراً یضحی‘‘رسول اللہ مدینہ میں دس سال تک قیام فرما رہ کر قربانی کرتے رہے۔
۳۔ ’’ضحی رسول اللہ ﷺ والمسلمون‘‘ رسول اللہ نے قربانی کی اور مسلمانوں نے بھی۔

یہ سب جانتے ہیں کہ اعمال وعبادات زندہ ہی بجا لاتے ہیں مردوں کیطرف کئے جانے والے عمل کی صحیح اور واضح دلیل چاہئے۔
جیسے قضاء دین میت کا مسئلہ ہے اس کی واضح دلیل موجود ہے،اضحیہ ایک عبادت ہے مردہ آدمی کیجانب سے اضحیہ کے جائز ودرست ہونے کی ایسی صحیح دلیل چاہئے جس سے اس مسئلہ پر استدلال بھی درست ہو۔تبھی اضحیہ عن المیت کو صحیح اور جائز کہنا درست ہے۔
کیا مردہ انسان کی طرف سے اضحیہ کے جواز کی کوئی صحیح اور واضح دلیل ہے؟ اس کا مختصرا جواب یہ ہے کہ ’’أضحیہ عن المیت‘‘ کی کوئی صحیح اور واضح دلیل نہیں ہے۔
جواز کے قائلین کے دلائل اور ان سے استدلال کرنے کی کیفیت اور اسکا تجزیہ درج ذیل سطور میں بالا ختصار قلمبند کیا جا رہا ہے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ’’أنہ کان یضحی بکبشین أحدہما عن النبی ﷺ والآخر عن نفسہ۔ فقیل لہ؟ فقال أمرنی بہ یعنی النبی ﷺ فلا أدعہ أبدا(رواہ الترمذی ج رقم ۱۴۹۵)
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کرتے تھے ایک نبی ﷺ کیطرف اور دوسرا اپنی طرف سے اس بابت ان سے کلام کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ یعنی نبی ﷺ نے مجھے اس کا حکم کیا ہے میں اسے ترک نہیں کر سکتا۔
یہ حدیث صحیح اور ثابت نہیں ہے۔ اس حدیث پر اہل علم کے کلام ملاحظہ فرمائیں:
قال ابو عیسی الترمذی: ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من حدیث شریک‘‘
قال الشیخ محمد عبدالرحمن المباکفوری رحمہ اللہ۔بعد نقل کلام الأئمۃ فی بعض رواۃ ہذا الحدیث:’’ابوالحسناء شیخ عبداللہ مجہول کما عرفت فالحدیث ضعیف‘‘ (تحفۃ الأحوذی ج۴،ص۴۳۴)
ثم قال المبارکفوری: لم أجد فی التضحےۃ عن المیت منفردا حدیثا مرفوعا صحیحا وأما حدیث علی المذکور فی ہذا الباب فضعیف کما عرفت(تحفۃ الأحوذی ج۴، ص۴۳۴)
شیخ محمد عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفہ نے اس حدیث کے بعض روات کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا:ابوالحسناء عبداللہ کے استاذ مجہول ہیں جیسا کہ آپ جان چکے ہیں چنانچہ حدیث ضعیف ہے۔پھر اخیر میں محدث مبارکپوری نے فرمایا میت کی طرف سے انفرادی طور پر قربانی کے سلسلے میں مجھے کوئی مرفوع صحیح حدیث نہیں ملی۔ رہی اس باب میں مذکورہ حضرت علی کی حدیث تو جیسا کہ معلوم ہے کہ وہ ضعیف ہے۔
علامہ محمد ناصرالدین الألبانی رحمہ اللہ نے حدیث علی کی اسنادکو ضعیف قراردیا ہے:

امام حاکم صاحب المستدرک نے اس کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور علامہ أحمد محمد شاکر نے بھی اس کی تصحیح کی ہے: علامہ عبیداللہ الرحمانی مبارکفوری صاحب مرعاہ نے کہا:’’فی کون ہذا الحدیث صحیحاً عندی نظر قوی وہذا لا یخفی علی من تأمل فی ترجمہ شریک وأبی الحسناء وحنش‘‘ صاحب مرعاۃ نے فرمایا کہ اس حدیث کے صحیح ہونے میں مجھے شدید تأمل ہے اور یہ چیز کسی بھی شخص پر مخفی نہیں رہ سکتی جوشریک ابوالحسناء اور حنش کے حالات پر غوروفکر کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حدیث علی رضی اللہ عنہ ضعیف ہے اور ضعیف حدیث لائق استدلال اور قابل احتجاج نہیں ہوا کرتی ہے ۔ حدیث ضعیف سے کوئی بھی شرعی حکم نہیں ثابت ہوتا ہے لہذا اس حدیث ضعیف کی روشنی میں اضحیہ عن المیت کا شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے نہ اس سے اس عبادت کا جواز ملتا ہے۔

اضحیہ عن المیت کے جواز کے قائلین کی سب سے قوی اور صحیح دلیل صحیح البخاری میں تخریج کردہ وہ حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں’’اللہم تقبل من محمد وآل محمد وأمۃ محمد‘‘’’امت محمد‘‘کے لفظ سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی امت کیطرف سے اضحیہ پیش کیا اور ’’امت‘‘ میں ’’احیاء واموات‘‘ زندہ ومردہ دونوں شامل ہیں۔
یہ حدیث اپنی جگہ اعلی درجہ کی صحت والی حدیث ہے مگر اس سے استدلال درست نہیں ہے۔

کیوں بعض روایت میں ’’عمن لم یضح من امتی‘‘ کے الفاظ وارد ہیں گویا آپ ﷺ نے اپنی امت کے ان اشخاص کیطرف سے قربانی کی جو قربانی نہ کر سکے تھے۔ رہی یہ بات کہ ’’امت‘‘میں زندہ ومردہ دونوں شامل ہیں اس لئے میت کیطرف سے قربانی صحیح اور جائز ہے۔
تو یاد رہے کہ امت میں موجودومعدوم بھی شامل ہیں تو جس طرح موجود یتین کیطرف سے قربانی جائز ہے، اسی طرح ابھی ’’لم یکن شےئا مذکوراً‘‘غیر مولود’’ما فی بطن الأم‘‘ مافی الأرحام، نیزعیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت پیدا ہونے والے شخص وغیرہ کی جانب سے بھی قربانی درست ہونی چاہئے۔ اگر آپ الفاظ حدیث پر غور کریں تویہ امر بھی واضح ہو گا کہ آپ اپنے اضحیہ میں اپنے آپ کو اور اپنے آل کو نیز اپنی امت کو شامل کیا تھا۔ رہی یہ بات کہ آپ نے مستقل جانور خاص مردہ یا مردوں کیطرف بطور اضحیہ پیش کیا ہو اس پر یہ حدیث دلالت نہیں کرتی ہے پھر اضحیہ عن الجمیت کے جواز پر اسے دلیل بنانا کیونکر درست ہو سکتا ہے۔
بڑے نامی گرامی علماء کرام نے درحقیقت اضحیہ عن المیت کو اس لئے جائز قراردیا ہے کہ وہ صدقہ ہے اور میت کیطرف سے صدقہ مشروع ہے۔
یا اس بنا پر اس کے جواز کے قائل ہیں کہ مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہے یا اس نے اپنا مال اسی لئے وقف کیا ہے۔ چنانچہ علامہ عبدالعزیز بن باز؍رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک اضحیہ عن المیت کا سوال ہے اگر اس نے اپنے مال کے ثلث (تہائی) میں اسکی وصیت کر رکھی ہے یا اس کو اس کیلئے وقف کر رکھا ہے تو وقف یا وصیت کے ذمہ دار پر اسکی تنفیذ واجب ہے اور اگر اس نے نہ اسکی وصیت کر رکھی ہے نہ وقف قراردے رکھا ہے اور کوئی بھی انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ یا اپنی ماں یا ان دونوں کے علاوہ کی طرف قربانی کرے تو یہ اچھی بات ہے یہ میت کی طرف سے صدقہ معتبر ہوگا اور اہل سنت وجماعت کے قول کی روشنی میں اسکی طرف سے صدقہ مشروع ہے۔

رہا اضحیہ کی قیمت کا صدقہ کرنا کیونکہ وہ ذبح سے افضل ہے تو اگر وقف یا وصیت میں اضحیہ کرنے کی تنصیص وتصریح ہے تو وکیل کیلئے اس سے عدول وکفارہ کشی جائز نہیں ہے ہاں اگر اس کے علاوہ کیطرف سے بطور تطوع ہے تو پھر اس میں کافی وسعت وگنجائش ہے۔
رہا زندہ مسلمان کی طرف سے اور اسکے اہل خانہ کیطرف قربانی تو مستطیع اور صاحب قدرت کیلئے یہ سنت مؤکدہ ہے اور ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے وباللہ التوفیق (مجموع فتاوی اسلامية ۲؍۳۲۱)
چونکہ وصیت والی حدیث جو علی سے مروی ہے وہ ضعیف ہے اسلئے وصیت اضحیہ کے درست وجائز ہونے والی بات صحیح نہیں ہے۔
وقف قربانی کی بات بھی وقف کی اصل روح کی منافی ہے اور اس سے میل نہیں کھاتی ہے کیونکہ وقف یہ ہے اسکی اصل باقی رہے جس سے انتفاع کا سلسلہ مستمر اور جاری رہے۔
قال النبی ﷺ لعمر: إن شئت حبست أصلہا وتصدقت بہا قال: فتصدق بہا عمر غیر أنہ لا یباع أصلہا ولا یورث ولا یوہب۔۔۔۔۔۔الحدیث (رواہ البخاری ومسلم) نبی ﷺ نے عمر بن خطاب سے فرمایا: اگر تم چاہو تو اسکی اصل روک رکھو۔ یعنی وقف کردو۔ اور اسے صدقہ کردو راوی کا بیان ہے کہ عمر نے اسے صدقہ کر دیا۔ مگر یہ کہ اس کا اصل نہ اسکی خریدوفروخت ہو سکتی ہے نہ وہ محروت بن سکتا ہے نہ ہی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔

وقف کی تعریف یہ ہے: ’’الوقف ہو تجیس الأصل وتسبیل المنافع‘‘اصل کو روک رکھنا اور منافع وفوائد کو فی سبیل اللہ بنا دینا۔
أضحیہ پر وقف کی تعریف ہی صادق نہیں آتی ہے واللہ اعلم۔
رہی یہ بات وہ صدقہ عن المیت معتبر ہوگا بے شک صدقہ عن المیت جائز ہے لیکن صدقہ عن المیت کی دو اساسی شکلیں ہوسکتی ہیں۔
۱۔ ایک صدقہ خود مال میت کے ثلث سے ہوگا۔
۲۔ دوسرا صدقہ میت کے اقرباء ورثاء وغیر ورثاء کے مال سے اسکی طرف سے صدقہ جس میں یہ نیت ہو کہ اس کا ثواب میں سے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرے۔

یہ صدقہ عام ہو جسکی کوئی مخصوص ومتعین شکل نہ ہو، اسکو کسی خاص ماہ یا ہفتہ یا دن وغیرہ سے مقید نہ کیا جائے اسکا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے۔
اضحیہ کو صدقہ ٹھہرانا ہی درست نہیں ہے کیونکہ اضحیہ یہ خاص عبادت ہے اسکا شرعی نام اضحیہ ہے اسکی ایک روشن قدیم تاریخ ہے اس کیلئے ماہ ودن اور وقت خاص ہے اگر اس ماہ ودن اور وقت کی خلاف ورزی ہو تو اسکو اضحیہ کہنا ہی درست نہیں ہوگا۔

مثلا اگر ایک شخص ماہ ذی الحجۃ کے علاوہ ماہ یا دسویں سے تیرہویں ذی الحجہ کے علاوہ دیگر تواریخ وایام یا خود یوم النحر دسویں ذی الحجہ کو قبل از صلاۃ اضحیہ کا جانور ذبح کر ڈالے تو اسکی یہ پیش کردہ قربانی اضحیہ نہیں قرار دی جا سکتی ہے بلکہ یہ عام گوشت کا ذبیحہ کہلایا جائے گا۔
جندب بن سفیان کی روایت میں وارد ہے آپ ﷺ نے فرمایا: من کان ذبح اضحیتہ قبل أن یصلی أو نصلی فلیذبح مسکانہا أخری ومن کان لم یذبح فلیذبح باسم اللہ۔ (رواہ البخاری ومسلم)
صدقہ کے لئے اس طرح شہور وایام واوقات کی کوئی پابندی نہیں ہے لہذا اضحیہ عن المیت کو صدقہ قرار دیکر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ، ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ صدقہ خود متصدق نہیں کھا سکتا ہے الا یہ کہ متصدق اس کو بطورعطیہ دے یا ہبہ کرے مگر اضحیہ کا مصرف معلوم ومتعین ہے: اس کو کھانے اور لاچارنادار اور غیور نہ مانگنے والے محتاج اور سائل کو کھلانے کا حکم ہے اور حالات وظروف کے مطابق کھانے اور ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(فکلوا منہا وأطعموا القانع والمعتر) اس میں سے خود کھاؤ اور نہ مانگنے والے اور مانگنے والے کو کھلاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’کلووتزدوا وادخروا (رواہ مسلم)کھاؤ، زاد راہ بناؤ اور ذخیر ہ کرو۔
رہاصدقہ تو متصدق مستحق شخص کو دیدے وہ اپنے نفقات ومصارف میں کام لے متصدق کو نفلی صدقات میں اخفاء وپوشیدگی سے کام لینا چاہئے۔ اخلاص کا تقاضا یہی ہے۔ میت کی جانب سے قربانی کرنے والا اگر یہ صدقہ ہے تو بھی کھاتا ہے اور کھلاتا ہے یہی قربانی کا مصرف ہے۔
رہی ان علماء کرام وفقہاء عظام اور مفتیان ذواحترام کی بات کہ’’ اگر کوئی شخص میت کی جانب سے قربانی کرے تو اس کا سارا گوشت صدقہ کردے اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ آخری جب وہ اضحیہ (قربانی)ہے اور اضحیہ کا مصرف کتاب وسنت میں مذکور ہے آخر اس مصرف سے عدول کیوں؟ آیا اسکی کوئی دلیل کتاب وسنت میں ہے:زندہ ومردہ کی طرف سے کیجانے والی قربانی کے الگ الگ مصارف کی کیا دلیل ہے؟ من ادعی فعلیہ البیان
درحقیقت اضحیہ عن المیت کو صدقہ کہنا بے دلیل بات ہے اور اسے صدقہ پر قیاس کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اضحیہ عن المیت ناجائز ہے کیونکہ اس پر نہ کوئی صحیح ثابت دلیل ہے نہ ہی صحیح ثابت حدیث سے استدلال درست ہے نہ ہی اس کو صدقہ کہنا اور صدقہ پر قیاس کرنا ہی صحیح ہے عہد صحابہ وخیر القرون میں اسکی تظیریں بھی نہیں ملتی ہیں۔

اس مسئلہ پر کچھ اور راویوں سے نگاہ ڈالنے کیضرورت ہے۔
۱۔اس وقت مسلمانوں میں بالخصوص بر صغیر کے اندر بدعملی بہت عام ہے۔ مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت شرک وبدعت کی آلائشوں میں گرفتار ہے اور دونوں ہی محبط عمل ہیں مسلمانوں میں جن کے یہاں شرک جلی اور بدعات ظاہرہ کا چلن نہیں ہے وہ بے عملی کا شکار ہیں ان کی ایک بڑی تعداد تارک الصلاۃ ہے اور کسب حلال کی بجائے کسب حرام میں مبتلا ہے، فرائض وشعائر سے غافل اور محرمات ومنہیات میں ملوث ہے۔ بہتوں دیانت وتقوی خال خال ہے۔

ایسی صورت میں ان زندہ اشخاص کی پیش کردہ قربانی کا حکم جاننے کی شدید ضرورت ہے۔
۲۔ لوگ سوال عام کرتے ہیں کہ مردہ کی طرف سے قربانی کا حکم شرعی کیا ہے؟
مگر وہ صرف اپنے والدین یا ان میں سے ایک کی طرف سے ہی قربانی کا ارادہ رکھتا ہے۔ جو ابھی تازہ فوت ہوئے ہیں۔
میرے علم میں کسی شخص نے کبھی مثلا اپنے بڑے بھائی کی زوجہ کیطرف سے قربانی کا خیال بھی دل میں نہ بسایا ہوگا۔ تو سوال یہ کرنا چاہئے کہ مرے ہوئے باپ یا ماں کی طرف سے قربانی جائز ہے یا نہیں؟

۳۔ سائل اس قربانی عن الوالد أوالوالدۃ سے کیا چاہتا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ اپنے والد یا والدہ کو ثواب پہونچانا چاہتا ہے۔ اگر کسی کے یہاں یہی مقصود ہے اور وہ اسمیں مخلص ہے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ اس غرض سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس کو متفق علیہ اور بے وہم وگماں صحیح راہ کیوں نہیں نظر آتی ہے کہ جس کو اپنا کر وہ اپنے والدین کو ثواب پہونچا سکتا ہے مثلا وہی رقم جسکو بشکل أضحیہ خرچ کرنا چاہتا ہے کسی بھی مستحق کو عام صدقہ کر دے یا کسی بھی صحیح اسلامی کاز میں لگا دے۔
آخروہ اس سے گریز کیوں؟ دراصل قربانی میں دلچسپی اس لئے زیادہ ہوتی ہے کہ اسے صد فیصد یقین ہے کہ اگر چار پانچ ہزار کی رقم تعمیر مدرسہ میں صرف کردیں مجھے اس میں کچھ نہیں ملنے والا ہے اور قربانی کی صورت میں اس کے اور اس کے گھر والوں کے لئے لذت کام ودہن کا سامان فراہم ہوگا ساتھ ہی والد یا والدہ کا حق بھی پورا ہو جائے گا۔

۳۔ اس کچھ شدت سے عمل پیرا انسان عموما خود بے عمل اور بے دین ہوا کرتے ہیں برالوالدین کا کچھ زیادہ خیال نہیں کرتے ہیں بعد ازوفات ایک مخصوص رقم لگا کر اپنی فرمانبرداری اور غایت درجہ سعادتمندی کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور ایک حصہ گوشت سے جذیہ گوشت خواری کو تسکین بھی پہونچاتے ہیں ہم فرماوہم ثواب والی بات ہے۔

۴۔مقصود اگر اس قربانی کا یہ ہے کہ مردہ کو اللہ کی رحمت ومغفرت مل جائے تو ایک اور متفق علیہ راہ اپنانے میں عملی گریز کیوں ہے وہ راہ تو ایسی ہے جسمیں درہم ودینار کی قطعی ضرورت نہیں ہے وہ راہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کی صالح اولاد بن کر ان کیلئے دعا کرے۔
مگر بالعموم وہی جو قربانی کے لئے خوب چاق وچوبند نظر آتا ہے۔ برسوں کا بے نمازی ہے صلاح وتقوی سے دور ہے فریضہ عبادت سے یکسر کوتاہ وغافل ہے معصیت میں گرفتار ہے، اسے اپنے والدین کی اگر فکر ہے کہ انھیں اس کے عمل سے ثواب مل جائے تو وہ نیک بنکر وہ ان کے لئے شب وروزکے کچھ معمولی لمحات اور قلیل اوقات میں اللہ تعالی سے ان کے لئے دعائیں کیوں نہیں کرتا؟ بہت سے لوگوں کے ظاہری احوال یہ بتاتے ہیں کہ انھیں دعاؤں کی توفیق نہیں ملتی ہے۔

یہ بات بھی تو قابل غور ہے کہ اگر انسان میں صلاح وتقوی نہیں ہے تو اسکی کل عبادت اسی طرح اسکی اپنی قربانی یا اسکی میت کیطرف سے پیش کردہ قربانی کی قبولیت ہی محل نظرہے۔ اللہ تعالی کا ارشادہے:
’’إنما یتقبل اللہ من المتقین‘‘اللہ تعالیٰ تو صرف متقیوں سے قبول کرتا ہے۔

۵۔اسلامی عبادات محض رسوم وعادات نہیں ہیں یہاں تو عبادت درحقیقت اللہ تعالی کیلئے خضوع تذلل۔ کامل تابعداری واطاعت گذاری کا نام ہے جسکا مقصود رضاء الٰہی ہوتا ہے اور اس فعل عبادت کے لئے اللہ کی کتاب اور نبی اللہ ﷺ کی حدیث میں صحیح دلیل بھی چاہئے اگر عبادت میں ہوائے نفس اور اپنی من مانی کادخل ہو تو وہ عبادت نہیں ہو سکتی ہے آپ اس کا کوئی بھی نام دیں۔
صحت وقبول عمل کے لئے توحیدواخلاص اور سنت کی اتباع وموافقت بہت ضروری شرط ہے۔
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صلاح وتقوی اور اتباع کتاب وسنت نیز عبادات کا صحیح طریق اپنانے کی توفیق عطا فرما اور ان کی مخلصانہ عبادتوں کو قبول فرما۔ آمین۔

میت کی طرف سے قربانی کا حکم
مركز التوحيداور مدرسہ خدیجة الكبرى نیپال



میرا سینہ یہ تحریر پڑھ کر بہت چوڑا ہوا ، الحمدللہ پوری دنیا میں اہل الحدیث علماء قرآن و حدیث کے دلائل سے تبلیغ دین حق پر گامزن ہیں۔ یہ تحریر نیپال کے ایک اہل الحدیث کی ہے۔ اور الحمدللہ وہاں بھی ایک خواتین کی جامع قائم ہے۔
 
Last edited:

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
ایک بات اور میں نے کہیں پڑهی تهی کہ مالی عبادت مردے کی طرف سے ادا کی جاسکتی ہے. اور قربانی مالی عبادت ہے.
اہل علم اس بارے میں کچه روشنی ڈالیں.
 
Top