کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
نوٹ:- پچھلا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے : (میراث المفقود )
لغوی معنی :
حمل (حاء پرزبر کے ساتھ )کا لغوی معنی ثقل ، بوجھ کے ہیں۔
اصطلاحی معنی :
مورّث کا وہ رشتہ دار، جو اپنی ماں کے رحم میں موجود ہو خواہ وہ مذکر ہو یا مؤنث ۔
حمل کے وارث ہونے کی دو شرطیں ہیں:
① پہلی شرط:
مورّث کی وفات کے وقت حمل اپنی ماں کے پیٹ کے اندر قرار پاچکا ہو ، عصر حاضر میں میڈیکل ٹیسٹ سے اس کا بآسانی علم ہوسکتا ہے، البتہ قدیم زمانے میں اس کا پتہ کرنے کا ضابطہ یہ تھا کہ حمل کی پیدائش مقرر ہ وقت کے اندر ہی ہو۔یعنی یا تو اقل مدت چھ ماہ کے بعد پیدا ہوا ہو، یا اکثر مدت چارسال کے اندر پیدا ہوا ہو،بشرطیکہ اس کی ماں کے ساتھ ہمبستری نہ کی گئی ہو۔
حمل کی اقل مدت اور اکثر مدت میں اہل علم کاکافی اختلاف ہے لیکن عصرحاضر میں اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ آ ج میڈیکل جانچ سے بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ حمل کب سے ہے۔
دلیل:
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بغیر مورّث کی وفات کے وقت حمل کا حکما باحیات ہونا ثابت نہیں ہوتا جبکہ وارثت کے شرائط ثلاثہ میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہی رشتہ دار وارث ہوگا جو مورّث کی موت کے وقت حقیقة یا حکما باحیات ہو ، جیساکہ مقدمہ میں وضاحت گذرچکی ہے۔
② دوسری شرط:
حمل بوقت ولادت زندہ حالت میں پیدا ہو ، اس کا علم بھی میڈیکل ٹیسٹ سے بآسانی ہوسکتا ہے البتہ قدیم زمانے میں حمل کی زندگی معلوم کرنے کا ضابطہ یہ تھا کہ بوقت ولادت اس کے اندر زندگی کے آثار ہوں ، مثلا آواز نکالی ہو یاحرکت کی ہو وغیرہ۔
دلیل:
اس شرط کی دلیل صریح حدیث ہے اللہ کے نبی ۖ فرماتے ہیں:
«لَا يَرِثُ الصَّبِيُّ حَتَّى يَسْتَهِلَّ صَارِخًا»
''نومولود تب تک وارث نہیں ہوگا جب تک کہ وہ آواز نہ نکال دے'' [ سنن ابن ماجہ ،رقم ٢٧٥١وسنادہ حسن]
آواز کا ذکر بطور غالب علامت کے ہے اس جیسی دیگر علامات بھی اس کی زندگی کا پتہ دیں تو اسے زندہ مان کر وارث قراردیا جائے گا۔
باب میراث الحمل(Unborn Baby)
لغوی معنی :
حمل (حاء پرزبر کے ساتھ )کا لغوی معنی ثقل ، بوجھ کے ہیں۔
اصطلاحی معنی :
مورّث کا وہ رشتہ دار، جو اپنی ماں کے رحم میں موجود ہو خواہ وہ مذکر ہو یا مؤنث ۔
حمل کے وارث ہونے کی دو شرطیں ہیں:
① پہلی شرط:
مورّث کی وفات کے وقت حمل اپنی ماں کے پیٹ کے اندر قرار پاچکا ہو ، عصر حاضر میں میڈیکل ٹیسٹ سے اس کا بآسانی علم ہوسکتا ہے، البتہ قدیم زمانے میں اس کا پتہ کرنے کا ضابطہ یہ تھا کہ حمل کی پیدائش مقرر ہ وقت کے اندر ہی ہو۔یعنی یا تو اقل مدت چھ ماہ کے بعد پیدا ہوا ہو، یا اکثر مدت چارسال کے اندر پیدا ہوا ہو،بشرطیکہ اس کی ماں کے ساتھ ہمبستری نہ کی گئی ہو۔
حمل کی اقل مدت اور اکثر مدت میں اہل علم کاکافی اختلاف ہے لیکن عصرحاضر میں اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ آ ج میڈیکل جانچ سے بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ حمل کب سے ہے۔
دلیل:
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بغیر مورّث کی وفات کے وقت حمل کا حکما باحیات ہونا ثابت نہیں ہوتا جبکہ وارثت کے شرائط ثلاثہ میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہی رشتہ دار وارث ہوگا جو مورّث کی موت کے وقت حقیقة یا حکما باحیات ہو ، جیساکہ مقدمہ میں وضاحت گذرچکی ہے۔
② دوسری شرط:
حمل بوقت ولادت زندہ حالت میں پیدا ہو ، اس کا علم بھی میڈیکل ٹیسٹ سے بآسانی ہوسکتا ہے البتہ قدیم زمانے میں حمل کی زندگی معلوم کرنے کا ضابطہ یہ تھا کہ بوقت ولادت اس کے اندر زندگی کے آثار ہوں ، مثلا آواز نکالی ہو یاحرکت کی ہو وغیرہ۔
دلیل:
اس شرط کی دلیل صریح حدیث ہے اللہ کے نبی ۖ فرماتے ہیں:
«لَا يَرِثُ الصَّبِيُّ حَتَّى يَسْتَهِلَّ صَارِخًا»
''نومولود تب تک وارث نہیں ہوگا جب تک کہ وہ آواز نہ نکال دے'' [ سنن ابن ماجہ ،رقم ٢٧٥١وسنادہ حسن]
آواز کا ذکر بطور غالب علامت کے ہے اس جیسی دیگر علامات بھی اس کی زندگی کا پتہ دیں تو اسے زندہ مان کر وارث قراردیا جائے گا۔