- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
محمد تنزیل صدیقی
نبی کریم ﷺ سے منسوب ایک روایت کے الفاظ ہیں :’’علمائِ امتی کأنبیاء بنی اسرائیل۔‘‘
ترجمہ :’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانندہیں ۔‘‘
نبوّت ایک ایسا مقام عالی ہے جس سے کسی دوسرے طبقے کے حامل فرد کو ، خواہ وہ کتنا ہی معزز و مکرم کیوں نہ ہو، تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ایک شخص براہِ راست مخاطبِ الٰہی ہے اور دوسرا اس شرف سے محروم ۔تو کیا یہ قرینِ عقل و قیاس ہو سکتا ہے کہ دونوں کو باعتبارِ علم ومعرفت یکساں قرار دیا جائے یا ان میں تشبیہ ہی دی جائے ۔نبی کریم ﷺ خاتم النبیّین ہیں اب ناممکن ہے کہ کوئی فرستادہ الٰہی از سرنَو کسی پیامِ نبوت کو لے کر آئے ۔اس قسم کی موضوع روایتوں ہی سے دجالِ قادیاں اور اس کے ہمنواؤں کو
اثباتِ نبوت کے لیے دلائل ملتے ہیں ۔لیکن چونکہ روایت ہی موضوع ہے اس لیے مسلمانوں پر ان کی ایسی دلیلیں حجت نہیں ۔
نبی کریم ﷺ اور انبیائے سابقہ کی نبوّت میں بالخصوص جو فرق ہے اسے سمجھنے کے لیے چند نکات سمجھ لینے ضروری ہیں :
٭نبی کریم ﷺ کی شریعت کسی لاحق و سابق شریعت کی محتاج نہیں ۔
٭شریعتِ محمدی ﷺ اپنی تکمیل کے لیے کسی نبیِ ملہم کی قطعاً محتاج نہیں جیسا کہ گزشتہ شریعتوں میں ہوا۔ مثلاً سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعدمختلف انبیائے بنی اسرائیل کا مبعوث کیاجانا جس کے ذریعے شریعت موسوی علیہ السلام کی تکمیل ہوئی ۔ جبکہ نبی
کریم ﷺ کے بعد سلسلۂ نبوت ہی کو ختم کر دیا گیا۔
٭ نبی کریم ﷺ کے بعد اب کوئی بھی شخص مقام نبوت پر فائز نہیں ہو سکتا ۔
٭ اب کوئی شخص اس وقت تک مقام ولایت کی رفعتوں کو بھی نہیں پا سکتا جب تک کہ نبوت محمدی ﷺ کا بہ دل و جاں اقرار نہ کرے ۔
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ خاتم النبییّن (ﷺ)اور انبیائے سابقہ علیہم السلام کی نبوت کا تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اس کے علاوہ اور بہت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہو اور خصوصاً محمد ﷺ اپنی نبوت میں کسی اور کے محتاج نہیں ہو سکتے ۔ ان کی شریعت کسی سابق و لاحق کی محتاج نہیں ہوتی ۔ بخلاف مسیح علیہ السلام کے جنہوں نے اپنی شریعت میں اکثر تورات کا حوالہ دیا ہے اور خود صرف شریعت موسوی کی تکمیل کے لیے آئے تھے ۔چنانچہ نصاریٰ مسیح علیہ السلام سے پہلے کی نبوتوں تورات و زبور اور چوبیس نبیوں کے محتاج تھے ۔ ہم سے پہلی امتیں محدثین ملہمین کی محتاج ہوتی تھیں ۔ لیکن امت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے مستغنیٰ کر دیا ۔ان کو نہ کسی نبی کی ضرورت باقی ہے اور نہ کسی محدّث کی ۔ بلکہ ان کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام فضائل و معارف اور اعمالِ صالحہ جو کہ دیگر انبیاء میں متفرق طور پر موجود تھے جمع کر دیے ہیں ۔ آپ کو جو فضیلت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہے وہ اس سبب سے ہوئی ہے کہ آپ کی طرف وحی بھیجی گئی ہے اور آپ پر احکام و شرائع نازل ہوئی ہیں ۔ اور تنزیل و تشریع میں کسی دوسرے بشر کی وساطت وقوع میں نہیں آئی ۔ بخلاف اولیاء کے جن کو اگر محمدﷺ کی رسالت پہنچ چکی ہو تو وہ صرف حضورﷺ کی اتباع سے ولی اللہ بن سکتے ہیں اور جب بھی ان کو ہدایت یا راہِ حق حاصل ہو گارسول رحمت محمد ﷺ کی وساطت سے ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس جس شخص کو کسی رسول کی رسالت بھی پہنچی ہو وہ اس رسول کی اتباع کے بغیر ولی نہیں بن سکتا اور جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ بعض اولیاء ایسے بھی ہیں جن کو محمدﷺ کی رسالت پہنچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے بعض راستے ان کے پاس ایسے ہیں جن میں وہ محمدﷺ کے محتاج نہیں ہیں ، وہ شخص کافر اور بے دین ہے ۔‘‘
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان (اردو):
حافظ ابن حجر عسقلانی اور علّامہ زرکشی رحمہما اللہ کے مطابق ’’علمائُ امتی کأنبیاء بنی اسرائیل۔‘‘ کی کچھ اصل نہیں ۔[ملاحظہ ہو: الفوائد المجموعۃ]
ملّا علی قاری رحمہ اللہ اس روایت سے متعلق لکھتے ہیں :’’ قال الدمیری و العسقلانی : لا اصل لہٗ ، و کذا قال الزّرکشی، و سکت عنہٗ السیوطی ‘‘ [ملاحظہ ہو: الموضوعات الکبریٰ ]
’’علّامہ دمیری اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس کی کچھ اصل نہیں ، اور ایسا ہی علّامہ زرکشی نے بھی کہا اور علّامہ سیوطی نے اس پر سکوت کیا ہے ۔‘‘
علّامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اس روایت سے متعلق فرماتے ہیں :’’ لا اصل لہٗ ، باتفاق العلماء ، و ھو مما یستدل بہ القادیانیۃ الضالۃ علی بقاء النبوۃ بعدہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم۔‘‘[السلسلۃ الضعیفۃ حدیث نمبر466 ]
’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی کچھ اصل نہیں ، یہ وہی روایت ہے جس پر گمراہ قادیانی نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کی بقا پر استدلال کرتے ہیں‘‘