اسلام علیکم
محدث فورم سے تعلق تو بہت پرانا ہے بلکہ اسکے ابتدائی رکن میں شمار ہیں ہم
پھر کچھ حالات اور کچھ زمانے کے نشیب وفراز نے محدث فورم پر آمد کو کافی حد تک کم کردیا مگر مکمل طور پر رابطے کٹے نہیں
دوستوں آج 26اکتوبر 2015کو شام 7 بجے میں سندھی ہوٹل نارتھ کراچی الیکٹرونکس کی دوکان پر کچھ خریداری کے لئے گیا تو کچھ ہی لمحے کے بعد اس دوکان پر 6 سے 8 عدد ڈاکو آئے اسلحہ سمیت اور تقریبا دوکان پر موجود مجھ سمیت 6 گاہکوں اور دوکاندار کو پیسوں اور موبائل سے کنگلا کر کے بڑی آسانی سے چلتے بنے اور مصروف روڈ پرمین مارکیٹ کی دوکان پر ہم سب ڈکیتوں جاتے ہوئے دیکھتے رہے ،دیکھتے رہے اور دیکھتے ہی رہ گئے
محدث فورم کے خاص دوست جن سے نیٹ کے علاوہ فون پر بھی رابطہ ہے وہ اپنا نمبر مجھے میسج کردیں
جزاک اللہ
سوال نمبر (
10936 ) كے جواب ميں شيخ محمد صالح ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا فتوى گزر چكا ہے، اور اس ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ جن مصائب اور تكليفوں پر مسلمان كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے وہ ہيں جن پر وہ صبر و تحمل كا مظاہرہ كرے اور اس پر اللہ تعالى سے اجروثواب كےحصول كي نيت ركھے تو اسے اجر حاصل ہوتا ہے.
اس ميں كوئي شك نہيں كہ نظر بد اور جادو مسلمان شخص كو پہنچنے والى مصيبتوں ميں سب سے بڑى مصيبت ہے، اور اس ميں مبتلا ہونے والے كي عقل اور دل وجان اور اعضاء پر اس كا بہت بڑا اثر ہوتا ہے، لھذا اگر وہ اس پر صبر كرتا ہے تو اللہ تعالى كي جانب سے اسے اجروثواب حاصل ہوگا.
ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كے ايك سياہ رنگ كي عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى:
مجھ پر دورہ پڑتا اور ميں بے لباس ہو جاتى ہوں لھذا آپ اللہ تعالى سے ميرے لئے دعا كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر تم چاہو تو صبر كرو تو تجھے جنت ملے گي، اور اگر چاہو تو ميں اللہ تعالى سے دعا كرديتا ہوں كہ وہ تجھے اس سے عافيت دے"
تو وہ عورت كہنے لگي: ميں صبر كرتى ہوں، وہ كہنےلگى ميں بے لباس ہو جاتى ہوں لھذا آپ ميرے لئے اللہ تعالى سے دعا كريں كہ ميں بے لباس نہ ہوا كروں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے لئے دعا فرمائي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 5652 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2576 ) .
انسان كو اس كي جان اور مال يا اس كے خاندان ميں جو بھي مصيبت اور تكليف آتى ہے وہ خالصتا شر نہيں، بلكہ اس كي بنا پر بعض اوقات بندے كو بہت زيادہ خير اور بھلائى حاصل ہوتى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں ايسا علاج ذكر كيا ہے جس سے نفس كي تكليفوں ميں تخفيف ہو جاتى اور اور اس پر جو اجر حاصل ہوتا ہے اس كا بھي ذكر كيا ہے، اور وہ علاج اس مصيبت اور تكليف پر صبر كرنا اور انا للہ وانا اليہ راجعون كہنا، اور يہ اللہ تعالى كا وعدہ ہے جو اس نے پورا كرنا ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
{اور صبر كرنے والوں كو خوشخبري دے دو، وہ لوگ كہ جب انہيں كوئى مصيبت پہنچتى ہے تو وہ يہى كہتے ہيں كہ بلاشبہ ہم اللہ تعالى كے لئے ہي ہيں اور يقينا ہم اس كي جانب ہي لوٹنے والے ہيں، انہى لوگوں پر اللہ تعالى كي نوازشيں اور رحمتيں ہيں، اور يہى لوگ ہدايت يافتہ ہيں} البقرۃ ( 155-157 ) .
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ كلمہ مصيبت زدہ كے لئے سب سے زيادہ جلدي يا بدير پہنچا ہوا علاج ہے، كيونكہ يہ دو عظيم اصولوں پر مشتمل ہے جب بندے ميں يہ دونوں اصول پائے جائيں اور ان دونوں اصولوں كي معرفت حاصل كر لے تو اس كي مصيبت ہلكى ہو جاتى ہے:
پ
ہلا اصول: كہ بندہ اور اس كا مال و دولت يہ سب كچھ حقيقتا اللہ تعالى كي ملكيت ہيں، اور بندے كو يہ سب كچھ عاريتا اور عارضي ملي ہيں، لھذا جب اللہ تعالى اس سے يہ اشياء لے ليتا ہے كہ وہ اس شخص كي طرح ہے جس كے پاس كوئي چيز عاريتا ركھ گئى ہو اور عاريت ركھنے والا شخص اس سے وہ چيز واپس لے لے.
دوسرا اصول: بندے كا مرجع اور اس كا اصل ٹھكانہ اس كے حقيقى مولا و آقا كي جانب ہي بالآخر اس نے اللہ تعالى كي جانب واپس جانا ہے، اور يہ ضرورى چيز ہے كہ وہ اس فانى دنيا كو اپنے پيچھے چھوڑ دے اور اپنے رب كے پاس اسى طرح اكيلا جائے جس اسے پيدا كيا تھا نہ تو اس كا كوئي اہل اولاد تھي اور نہ مال ودولت اور كنبہ قبيلہ، اور نہ ہي كوئي نيكياں اور برائي، لھذا جب بندے كي ابتدا بھي يہ ہے اور اس كي انتھاء بھي: تو پھر وہ موجودہ پر كس طرح خوش ہوتا اور كسي مفقود اور چھن جانے والى چيز كا افسوس كس طرح كرتا ہے؟ اور اس بيماري كا سب سے بڑا علاج اس ابتداء اور اس كے حشر و نشر كي فكر اور سوچ ہے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 189 ) اختصار كےساتھ ذكر كيا گيا ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تنگى اور تكاليف و مصائب پر صبر تو صرف مومن شخص ہي كرتا ہے اس كےعلاوہ كوئي نہيں .
صہيب رومى رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مومن كا معاملہ بہت ہي عجيب ہے كہ اس كے اس كا سارے معاملات ميں ہي خير وبھلائي ہے، اورمومن كےعلاوہ يہ كسي اور كے لئے نہيں، اگر اسے آسانى اور خوشى حاص ہوتى ہے تو وہ اللہ كا شكر كرتا ہے اسے اس كا اجر ملتا ہے، اور اگر اسے كوئي تنگي اور مصيبت پہنچتى ہے تواس پر وہ صبر كرتا ہے تو اسے پھر بھي اجروثواب حاصل ہوتا ہے، لھذا مسلمان كے لئے اللہ تعالى كے ہر فيصلے ميں خيرو بھلائي ہے" صحيح مسلم حديث نمبر ( 2999 ) .
مصائب اور تنگياں يقينا اللہ تعالى كي طرف سے بندے كي آزمائش اورامتحان ہے، اور اللہ تعالى كي جانب سے اس كے ساتھ محبت كي علامت ہے؛ جبكہ يہ ايك دوائي كي مانند ہے اگر چہ وہ دوائي كڑوي ہے، ليكن يہ دوائي آپ كڑوي ہونے كےباوجود اسے دينگے جس سے تمہيں محبت ہے - اور اچھي اچھي مثاليں اللہ تعالى كے لئے ہيں - لھذا حديث ميں ہے كہ:
" عظيم بدلہ امتحان اور آزمائش بڑي ہونے كے اعتبار سے ملتا ہے، اور بلا شبہ اللہ تعالى جب كسى قوم سے محبت كرنے لگتا ہے تو انہيں آزمائش ميں مبتلا كرتا ہے، لھذا جواس پر راضى ہو جائے اسے رضامندى اور خو شنودى حاصل ہو جاتى ہے، اور جو ناراض ہو اسے ناراضگي ملتى ہے" جامع ترمذى حديث نمبر ( 2396 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
لھذا كسي بھي مسلمان كےلائق اور اس كےشايان شان نہيں كہ وہ اللہ تعالى كي جانب سے مقدر كردا آزمائش كو ناپسند كرتا پھرے، حسن بصري رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
پہنچنے والى مصيبتوں اور تكليفوں اور حادثات كو ناپسند نہ كرو، ہو سكتا ہے جسے تم ناپسند كرتے ہو اس ميں تمہارى نجات اور كاميابى ہو، اور ہو سكتا ہے جس معاملے كو تم ترجيح ديتے ہو اس ميں تمہارى ہلاكت ہو.
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/3460