Bint e Rafique
رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2017
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
فلسطین کے کسی گاؤں میں ایک درزی رہتا تھا اس کا نام خالد تھا خالد بہت غریب تھا رہنے کیلئے اس کے پاس صرف ایک جھونپڑی تھی ٹوٹی پھوٹی اور پرانی اسی جھونپڑی میں وہ اپنی بیوی اور لڑکیوں کے ساتھ رہتا تھا.
خالد بہت غمگین رہتا تھا. وہ سارا سارا دن کپڑے سینے میں لگا رہتا.. بیٹھے بیٹھے کمر دکھنے لگتی اور سوئی پکڑے رہنے سے انگلیاں دکھنے لگتیں. اتنی محنت کرنے کے باوجود اس کی آمدنی بہت ہی کم تھی. اتنی کہ دو وقت پیٹ بھر کر کھانا تک نصیب نہیں ہوتا تھا.
غربت کی اس زندگی نے اسے بہت ہی چڑچڑا بنا دیا تھا.. ذرا ذرا سی بات پر جھلا جانا اس کی عادت بن چکا تھا.. یہاں تک کہ اپنی لڑکیوں کا شور بھی اسے سخت ناگوار ہونے لگا.. وہ انہیں ہر وقت ڈانٹتا اور برا بھلا کہتا رہتا.. " کیسی مصیبت ہے میری ! ایک تو زندگی ویسے ہی بوجھ ہے ' اس پر ان لڑکیوں کا شور.. کسی لمحہ سکون نہیں.. سمجھ میں نہیں آتا میں کہاں چلا جاؤں ' کیا کروں..؟ میں بڑا بدنصیب ہوں.. نہ دن کو آرام ملتا ہے نہ رات کو چین.. نہ جانے میرے دکھ کب ختم ہوں گے..؟ "
معصوم لڑکیاں باپ کا یہ غصہ دیکھتیں اور سہم جاتیں.. وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ جاتیں اور سسکیاں بھرتی رہتیں.. بیوی سمجھاتی.. " اتنا غصہ نہیں کرتے.. خوشی اور غم سب کے ساتھ لگے رہتے ہیں.. کون ہے جسے کوئی غم نہ ہو..؟ انسان اسی وقت غمگین ہوتا ہے جب وہ اپنے غم کو سب سے بڑا غم سمجھ لیتا ہے.. انسان بڑا نادان ہوتا ہے.. کبھی کبھی وہ سکھ کو ہی دکھ سمجھ لیتا ہے.. اکثر غم میں ہی خوشی چھپی ہوتی ہے.. اس لیے خوش رہنے کی عادت ڈالو.. آخر یہ بچیاں کہاں جائیں..؟ یہی جھونپڑی ہی تو ان کی دنیا ہے.. اور جہاں بچے ہوتے ہیں وہاں شور ہونا تو ضروری بات ہے.. "
مگر خالد کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا.. وہ اسی طرح اپنی غریبی اور لڑکیوں کے شور و غل کا رونا روتا رہا.. آخر ایک دن وہ شور و غل سے اتنا پریشان ہوا کہ گاؤں کے ایک دانا بزرگ کے پاس جا کر دُکھڑا رونے لگا.. " عالی جناب ! میں دُکھوں میں گھرا ہوا ہوں.. غربت سے چھٹکارا نہیں ملتا حالانکہ دن رات محنت کرتا ہوں مگر میری سب سے بڑی پریشانی ہے لڑکیوں کا شور.. اس شور وغل نے مجھے پاگل بنا دیا ہے.. کوئی ترکیب ایسی بتائیے کہ مجھے سکون مل جائے.. "
وہ دانا دیر تک آنکھیں بند کیے سوچتا رہا ' پھر کہا.. " ایک بلی پال لو.. "
خالد نے تعجب سے کہا.. " مگر بلی سے تو شور اور بھی بڑھ جائے گا.. "
" جیسا میں نے کہا ویسا ہی کرو.. " دانا بزرگ نے مختصر جواب دیا..
خالد بڑی الجھن میں پڑ گیا مگر دانا سے کیا کہتا.. کیا وہ دانا گاؤں کا سب سے عقل مند آدمی نہیں تھا..
اس نے بلی پال لی.. اور ہوا وہی جو اس نے سوچا تھا..
بلی کے آنے سے شور اور زیادہ بڑھ گیا تھا.. دن رات وہ جھونپڑی میں میاؤں میاؤں کرتی پھرتی.. اس نے دانا سے جا کر کہا.. " بلی نے تو شور اور بڑھا دیا ہے.. "
" یہ بات ہے.. " دانا نے سر ہلا کر کہا.. " تو پھر اب ایک کتا بھی پال لو.. "
" کتا پال لوں..؟ " خالد گھبرا کر بولا..
" گھبراؤ نہیں بلکہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو.. " دانا نے سمجھایا..
اس غریب نے مجبوراً کتا بھی پال لیا.. دن رات بلی اور کتے میں لڑائی ہونے لگی.. بلی میاؤں میاؤں کرتی اور کتا بھونکتا رہتا.. وہ پھر دانا کے پاس پہنچا.. " کتے کے آنے سے تو حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے.. شور اور بڑھ گیا ہے.. میں کیا کروں..؟ "
دانا یہ سن کر مسکرایا اور اطمینان سے کہا.. " اچھا تو اب ایک مرغا پال لو.. "
" مرغا۔۔۔! " خالد نے آنکھیں پھیلا کر دُہرایا..
" ہاں مرغا.. " دانا نے کہا.. " جو کہہ رہا ہوں وہ کرو.. "
اس نے مرغا بھی پال لیا..
اب تو خالد کے ہوش ہی گم ہو گئے.. کتا اور بلی اور مرغا سب مل کر وہ اودھم مچاتے کہ اس کی زندگی عذاب بن گئی.. رات کے پچھلے پہر جب اس پر گہری نیند کا حملہ ہوتا تو مرغا بانگ پر بانگ دینے لگتا.. وہ بہت پریشان ہو گیا..
" اب کیا کروں.. " اس نے دانا سے کہا.. " اب تو جینا مشکل ہو گیا ہے.. "
دانا بڑے سکون کے ساتھ بولا.. " اور اب ایک گدھا بھی پال لو.. "
خالد اب کچھ ناراض سا ہو گیا.. " گدھا پال لوں..؟ "
" ہاں.. " دانا نے بھاری آواز میں کہا.. " میرا کہنا مانو.. "
اس نے ایک گدھا بھی پال لیا..
اب تو بس قیامت سی آگئی.. بلی چوہوں کے پیچھے بھاگتی ' کتا بلی پر بھونکتا ' مرغا بانگیں دیتا اور گدھا دو لتیاں چلاتا اور برتن پھوڑتا اور چلا چلا کر دن بھر سکون برباد کرتا رہتا..
" میں پاگل ہوجاؤں گا.. " اس نے رو کر دانا سے کہا.. " اس سے تو میں پہلے ہی اچھا تھا.. اُف یہ شور ! میں کیا کروں..؟ ان جانوروں نے جینا مشکل کر دیا ہے.. گدھا تو سب سے بڑی مصیبت ہے.. "
دانا نے غور سے اس کی بات سنی.. " اچھا ! " دانا نے دھیرے سے کہا.. " تو گدھے کو نکال دو.. "
خالد نے فوراً گدھے کو جھونپڑی میں سے نکال دیا.. اگلے دن وہ دانا سے ملا.. " ا
دانا مسکرایا.. " اب مرغے کو بھی نکال دو.. " دانا نے کہا..
اس نے مرغے کو بھی نکال دیا..
" اب کیا حال ہے..؟ " دانا نے اگلے دن اس سے پوچھا..
" بہت اچھا.. " خالد خوش ہو کر بولا.. " اب کم از کم رات کے آخری پہر بانگیں دے کر نیند خراب کرنے والا کوئی نہیں.. مرغے کے جانے سے بڑی خاموشی ہو گئی ہے.. "
" ٹھیک ہے.. " دانا نے یہ سن کر کہا.. " اب کتے کو بھی نکال دو.. "
" جو حکم.. " خالد نے جواب دیا.. دو دن بعد وہ ربی سے ملا..
" اور اب کیا حال ہے..؟ " دانا کا سوال تھا..
" اب تو جھونپڑی میں سناٹا سا ہو گیا ہے.. سکون ہی سکون ہے.. " خالد نے خوشی سے جھومتے ہوئے جواب دیا..
" اب بلی کو بھی نکال دو.. " دانا نے کہا.. اس نے بلی کو بھی نکال دیا.. دو دن بعد خالد ربی سے ملا..
" اب کیسے ہو..؟ " دانا نے سوال کیا..
"اب تو جھونپڑی میں اس قدر خاموشی ہو گئی ہے کہ دل گھبراتا ہے.. " خالد نے جواب دیا.. " خدا کا شکر ہے کہ میری بیٹیاں ہیں جن کی میٹھی آواز سے دل بہل جاتا ہے ورنہ اس خاموشی سے میں پاگل ہو جاتا.. بیٹیوں کا وجود جھونپڑی میں چراغ کی طرح ہے.. ان کے بغیر جھونپڑی بے نور ہوتی.. ایسا سناٹا بھی کس کام کا.. بہرحال میں بہت خوش ہوں.. "
" کیا بیٹیوں کے شور سے اب تمہیں تکلیف نہیں ہوتی..؟ " دانا نے پوچھا..
" ان کی آوازیں میرے لیے خوشی کا پیغام ہیں.. " خالد نے جواب دیا.. " مجھے خوشی مل گئی ہے.. "
" خوشی تمہارے پاس ہی تھی.. " دانا نے کہا.. " صرف تمہیں اس کا احساس نہیں تھا.. "
اور خالد نے سر جھکا دیا..!
خالد بہت غمگین رہتا تھا. وہ سارا سارا دن کپڑے سینے میں لگا رہتا.. بیٹھے بیٹھے کمر دکھنے لگتی اور سوئی پکڑے رہنے سے انگلیاں دکھنے لگتیں. اتنی محنت کرنے کے باوجود اس کی آمدنی بہت ہی کم تھی. اتنی کہ دو وقت پیٹ بھر کر کھانا تک نصیب نہیں ہوتا تھا.
غربت کی اس زندگی نے اسے بہت ہی چڑچڑا بنا دیا تھا.. ذرا ذرا سی بات پر جھلا جانا اس کی عادت بن چکا تھا.. یہاں تک کہ اپنی لڑکیوں کا شور بھی اسے سخت ناگوار ہونے لگا.. وہ انہیں ہر وقت ڈانٹتا اور برا بھلا کہتا رہتا.. " کیسی مصیبت ہے میری ! ایک تو زندگی ویسے ہی بوجھ ہے ' اس پر ان لڑکیوں کا شور.. کسی لمحہ سکون نہیں.. سمجھ میں نہیں آتا میں کہاں چلا جاؤں ' کیا کروں..؟ میں بڑا بدنصیب ہوں.. نہ دن کو آرام ملتا ہے نہ رات کو چین.. نہ جانے میرے دکھ کب ختم ہوں گے..؟ "
معصوم لڑکیاں باپ کا یہ غصہ دیکھتیں اور سہم جاتیں.. وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ جاتیں اور سسکیاں بھرتی رہتیں.. بیوی سمجھاتی.. " اتنا غصہ نہیں کرتے.. خوشی اور غم سب کے ساتھ لگے رہتے ہیں.. کون ہے جسے کوئی غم نہ ہو..؟ انسان اسی وقت غمگین ہوتا ہے جب وہ اپنے غم کو سب سے بڑا غم سمجھ لیتا ہے.. انسان بڑا نادان ہوتا ہے.. کبھی کبھی وہ سکھ کو ہی دکھ سمجھ لیتا ہے.. اکثر غم میں ہی خوشی چھپی ہوتی ہے.. اس لیے خوش رہنے کی عادت ڈالو.. آخر یہ بچیاں کہاں جائیں..؟ یہی جھونپڑی ہی تو ان کی دنیا ہے.. اور جہاں بچے ہوتے ہیں وہاں شور ہونا تو ضروری بات ہے.. "
مگر خالد کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا.. وہ اسی طرح اپنی غریبی اور لڑکیوں کے شور و غل کا رونا روتا رہا.. آخر ایک دن وہ شور و غل سے اتنا پریشان ہوا کہ گاؤں کے ایک دانا بزرگ کے پاس جا کر دُکھڑا رونے لگا.. " عالی جناب ! میں دُکھوں میں گھرا ہوا ہوں.. غربت سے چھٹکارا نہیں ملتا حالانکہ دن رات محنت کرتا ہوں مگر میری سب سے بڑی پریشانی ہے لڑکیوں کا شور.. اس شور وغل نے مجھے پاگل بنا دیا ہے.. کوئی ترکیب ایسی بتائیے کہ مجھے سکون مل جائے.. "
وہ دانا دیر تک آنکھیں بند کیے سوچتا رہا ' پھر کہا.. " ایک بلی پال لو.. "
خالد نے تعجب سے کہا.. " مگر بلی سے تو شور اور بھی بڑھ جائے گا.. "
" جیسا میں نے کہا ویسا ہی کرو.. " دانا بزرگ نے مختصر جواب دیا..
خالد بڑی الجھن میں پڑ گیا مگر دانا سے کیا کہتا.. کیا وہ دانا گاؤں کا سب سے عقل مند آدمی نہیں تھا..
اس نے بلی پال لی.. اور ہوا وہی جو اس نے سوچا تھا..
بلی کے آنے سے شور اور زیادہ بڑھ گیا تھا.. دن رات وہ جھونپڑی میں میاؤں میاؤں کرتی پھرتی.. اس نے دانا سے جا کر کہا.. " بلی نے تو شور اور بڑھا دیا ہے.. "
" یہ بات ہے.. " دانا نے سر ہلا کر کہا.. " تو پھر اب ایک کتا بھی پال لو.. "
" کتا پال لوں..؟ " خالد گھبرا کر بولا..
" گھبراؤ نہیں بلکہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو.. " دانا نے سمجھایا..
اس غریب نے مجبوراً کتا بھی پال لیا.. دن رات بلی اور کتے میں لڑائی ہونے لگی.. بلی میاؤں میاؤں کرتی اور کتا بھونکتا رہتا.. وہ پھر دانا کے پاس پہنچا.. " کتے کے آنے سے تو حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے.. شور اور بڑھ گیا ہے.. میں کیا کروں..؟ "
دانا یہ سن کر مسکرایا اور اطمینان سے کہا.. " اچھا تو اب ایک مرغا پال لو.. "
" مرغا۔۔۔! " خالد نے آنکھیں پھیلا کر دُہرایا..
" ہاں مرغا.. " دانا نے کہا.. " جو کہہ رہا ہوں وہ کرو.. "
اس نے مرغا بھی پال لیا..
اب تو خالد کے ہوش ہی گم ہو گئے.. کتا اور بلی اور مرغا سب مل کر وہ اودھم مچاتے کہ اس کی زندگی عذاب بن گئی.. رات کے پچھلے پہر جب اس پر گہری نیند کا حملہ ہوتا تو مرغا بانگ پر بانگ دینے لگتا.. وہ بہت پریشان ہو گیا..
" اب کیا کروں.. " اس نے دانا سے کہا.. " اب تو جینا مشکل ہو گیا ہے.. "
دانا بڑے سکون کے ساتھ بولا.. " اور اب ایک گدھا بھی پال لو.. "
خالد اب کچھ ناراض سا ہو گیا.. " گدھا پال لوں..؟ "
" ہاں.. " دانا نے بھاری آواز میں کہا.. " میرا کہنا مانو.. "
اس نے ایک گدھا بھی پال لیا..
اب تو بس قیامت سی آگئی.. بلی چوہوں کے پیچھے بھاگتی ' کتا بلی پر بھونکتا ' مرغا بانگیں دیتا اور گدھا دو لتیاں چلاتا اور برتن پھوڑتا اور چلا چلا کر دن بھر سکون برباد کرتا رہتا..
" میں پاگل ہوجاؤں گا.. " اس نے رو کر دانا سے کہا.. " اس سے تو میں پہلے ہی اچھا تھا.. اُف یہ شور ! میں کیا کروں..؟ ان جانوروں نے جینا مشکل کر دیا ہے.. گدھا تو سب سے بڑی مصیبت ہے.. "
دانا نے غور سے اس کی بات سنی.. " اچھا ! " دانا نے دھیرے سے کہا.. " تو گدھے کو نکال دو.. "
خالد نے فوراً گدھے کو جھونپڑی میں سے نکال دیا.. اگلے دن وہ دانا سے ملا.. " ا
دانا مسکرایا.. " اب مرغے کو بھی نکال دو.. " دانا نے کہا..
اس نے مرغے کو بھی نکال دیا..
" اب کیا حال ہے..؟ " دانا نے اگلے دن اس سے پوچھا..
" بہت اچھا.. " خالد خوش ہو کر بولا.. " اب کم از کم رات کے آخری پہر بانگیں دے کر نیند خراب کرنے والا کوئی نہیں.. مرغے کے جانے سے بڑی خاموشی ہو گئی ہے.. "
" ٹھیک ہے.. " دانا نے یہ سن کر کہا.. " اب کتے کو بھی نکال دو.. "
" جو حکم.. " خالد نے جواب دیا.. دو دن بعد وہ ربی سے ملا..
" اور اب کیا حال ہے..؟ " دانا کا سوال تھا..
" اب تو جھونپڑی میں سناٹا سا ہو گیا ہے.. سکون ہی سکون ہے.. " خالد نے خوشی سے جھومتے ہوئے جواب دیا..
" اب بلی کو بھی نکال دو.. " دانا نے کہا.. اس نے بلی کو بھی نکال دیا.. دو دن بعد خالد ربی سے ملا..
" اب کیسے ہو..؟ " دانا نے سوال کیا..
"اب تو جھونپڑی میں اس قدر خاموشی ہو گئی ہے کہ دل گھبراتا ہے.. " خالد نے جواب دیا.. " خدا کا شکر ہے کہ میری بیٹیاں ہیں جن کی میٹھی آواز سے دل بہل جاتا ہے ورنہ اس خاموشی سے میں پاگل ہو جاتا.. بیٹیوں کا وجود جھونپڑی میں چراغ کی طرح ہے.. ان کے بغیر جھونپڑی بے نور ہوتی.. ایسا سناٹا بھی کس کام کا.. بہرحال میں بہت خوش ہوں.. "
" کیا بیٹیوں کے شور سے اب تمہیں تکلیف نہیں ہوتی..؟ " دانا نے پوچھا..
" ان کی آوازیں میرے لیے خوشی کا پیغام ہیں.. " خالد نے جواب دیا.. " مجھے خوشی مل گئی ہے.. "
" خوشی تمہارے پاس ہی تھی.. " دانا نے کہا.. " صرف تمہیں اس کا احساس نہیں تھا.. "
اور خالد نے سر جھکا دیا..!