- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
یہ محسوس کیا گیا ہے کہ انسانی طبیعت پر سوچ وبچار کا غلبہ رہتا ہے یعنی انسان ہر وقت کسی نہ کسی سوچ کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ قرآن مجید نے تفقہ کی نسبت دل کی طرف کی ہے جس پر لوگوں کو یہ سوال پیدا ہوا کہ دل کیسے سوچ وبچار کرتا ہے؟ سوچنے کا کام تو ذہن کا ہے؟ بہر حال یہ سوال اہم تھا لیکن ایک دوسرا سوال شاید بہت اہم ہے کہ میری زندگی کے بارے فیصلہ کون کرتا ہے: میرا دل یا میرا دماغ؟ اس پر یہ بھی سوال ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی کرے ہمیں کیا؟ ہیں تو دونوں ہی میرے۔ لیکن ایک جگہ فرق پڑتا ہے کہ جب میں نے سوچ وبچار کے بعد ایک فیصلہ کیا، دل کی مانی یا دماغ کی مجھے نہیں معلوم، فیصلہ غلط تھا، مجھے افسوس ہوا، اب میں چاہتا ہوں دوبارہ غلطی نہ دہراوں، مجھے اصلاح اسی کی کرنی ہے کہ جس نے غلطی کی، یہ غلطی یا تو دل کی ہے یا دماغ کی، جس نے فیصلہ کیا تھا اس کی غلطی ہے، اگر دل کی غلطی ہے تو اس کی اصلاح اور دماغ کی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کی ایپروچ میں کچھ فرق ہو گا۔
بعض اوقات یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ میں جو یہ کہتا ہوں کہ مجھے خیال آیا تو یہ خیال کیا دل میں پیدا ہوتا ہے یا دماغ میں؟ کیونکہ مجھے اگر اپنے خیال کی اصلاح کرنی ہے تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟
کتاب وسنت نے اصلاح کا دارومدار دل کو قرار دیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی کے فیصلے میرا دل کرتا ہے۔ اور مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ خیال پہلی مرتبہ پیدا تو دل میں ہوتا ہے پھر اس کے بعد سوچ وبچار کے عمل میں دل کے ساتھ دماغ بھی شریک ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم
بعض اوقات یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ میں جو یہ کہتا ہوں کہ مجھے خیال آیا تو یہ خیال کیا دل میں پیدا ہوتا ہے یا دماغ میں؟ کیونکہ مجھے اگر اپنے خیال کی اصلاح کرنی ہے تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟
کتاب وسنت نے اصلاح کا دارومدار دل کو قرار دیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی کے فیصلے میرا دل کرتا ہے۔ اور مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ خیال پہلی مرتبہ پیدا تو دل میں ہوتا ہے پھر اس کے بعد سوچ وبچار کے عمل میں دل کے ساتھ دماغ بھی شریک ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم