- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بتاریخ چار اور پانچ جمادی اولی 1438 ھ دہلی ، انڈیا میں منعقد ہونے والے سیمینار ’ سید نذیر حسین حیات و خدمات ‘ کی پہلی نشست میں نقیب محفل کی طرف سے پڑھی جانے والی ایک شاندار اور دلنشیں نظم ، جس میں احمد بن حنبل سے لیکر عصر حاضر تک کے علمائے اہل حدیث میں سے بعض کبار شخصیات کا تذکرہ اس قدر موجز و بلیغ انداز میں آگیا ہے کہ میرے جیسے کئی عش عش کیے بغیر نہ رہ پائیں گے ۔ ملاحظہ کیجیے :
زمانہ جب بھی کبھی تیرگی سے گزرا ہے
ہوا ہے یوں بھی کہ پھر روشنی سے گزرا ہے
ضلالتوں کے سفر میں ہدایتوں کا نقیب
لیے چراغ بہ کف زندگی سے گزرا ہے
کبھی زعیموں کی مشکل میں احمدِ حنبل
بہ پائے مردی ، رہِ راستی سے گزرا ہے
کبھی سلاخوں کے سائے میں ابن تیمیہ
ورق ورق نئی دانشوری سے گزرا ہے
سجائے طشت میں گوہر مفسر ابن کثیر
ہدایہ تاباں نہایاں زمیں سے گزرا ہے
جہانَ باد کا وہ شاہِ خانوادہِ حق
نکاتِ درس کی دیدہ وری سے گزرا ہے
کبھی مجددِ سر ہند ہند کے اندر
کبھی محمدِ نجدی صدی سے گزرا ہے
سفر حیات کا زولیدہ دب گئے تھے نقوش
ہٹا کے ریگِ گراں آگہی سے گزرا ہے
ہوا عیینہ اگر مضمحل تو درعیہ
فدائیت لیے وارفتگی سے گزرا ہے
وہ اک ستارہ جبینِ امن پہ شوکانی
درر کے گنج گراں مائیگی سے گزرا ہے
وہیں پہ جلوہ نماں تھا سبل کا صنعانی
بلوغِ علم کی تابندگی سے گزرا ہے
وفورِ علم سے لبریز دولت بھوپال
نظامِ حکم درخشندگی سے گزرا ہے
دل و نگاہ کا مرکز شہید بالاکوٹ
صلیبِ وقت کی بے دانشی سے گزرا ہے
دلیلِ راہ بنی کہکشانِ صادق پور
جنوں دراصل یہیں زندگی سے گزرا ہے
وہیں کہیں ، کوئی علم و ہنر کا شیخ الکل
علوم دین کی مشاطگی سے گزرا ہے
وہ بحرِ علم کا البانیِ زمانہ نہ پوچھ
کہ کس شعور کی غوطہ زنی سے گزرا ہے
صحیح و سقم پہ صدیوں سے جو وقوف نہ تھا
وہ دور بینیِ ظرف آگہی سے گزرا ہے
شعورو شعر کی منزل تھے مومن و حالی
ادب حیات کا کس تازگی سے گزرا ہے
ان آسمانوں زمینوں سے باخبر اقبال
بہ سرِ دلبری حفظ خودی سے گزرا ہے
رہی ہے پیش نظر بس بلندی کلمہ
گروہِ حق اسی دیوانگی سے گزرا ہے
ہنر کی بزم میں آیا اثر تہی دامن
یہ کم نہیں ، یہاں فرزانگی سے گزرا ہے
کلام شاعر بزبان شاعر سننے کے لیے اس لنک پر آئیے ، 6 منٹ سے لیکر 12 منٹ تک ۔
زمانہ جب بھی کبھی تیرگی سے گزرا ہے
ہوا ہے یوں بھی کہ پھر روشنی سے گزرا ہے
ضلالتوں کے سفر میں ہدایتوں کا نقیب
لیے چراغ بہ کف زندگی سے گزرا ہے
کبھی زعیموں کی مشکل میں احمدِ حنبل
بہ پائے مردی ، رہِ راستی سے گزرا ہے
کبھی سلاخوں کے سائے میں ابن تیمیہ
ورق ورق نئی دانشوری سے گزرا ہے
سجائے طشت میں گوہر مفسر ابن کثیر
ہدایہ تاباں نہایاں زمیں سے گزرا ہے
جہانَ باد کا وہ شاہِ خانوادہِ حق
نکاتِ درس کی دیدہ وری سے گزرا ہے
کبھی مجددِ سر ہند ہند کے اندر
کبھی محمدِ نجدی صدی سے گزرا ہے
سفر حیات کا زولیدہ دب گئے تھے نقوش
ہٹا کے ریگِ گراں آگہی سے گزرا ہے
ہوا عیینہ اگر مضمحل تو درعیہ
فدائیت لیے وارفتگی سے گزرا ہے
وہ اک ستارہ جبینِ امن پہ شوکانی
درر کے گنج گراں مائیگی سے گزرا ہے
وہیں پہ جلوہ نماں تھا سبل کا صنعانی
بلوغِ علم کی تابندگی سے گزرا ہے
وفورِ علم سے لبریز دولت بھوپال
نظامِ حکم درخشندگی سے گزرا ہے
دل و نگاہ کا مرکز شہید بالاکوٹ
صلیبِ وقت کی بے دانشی سے گزرا ہے
دلیلِ راہ بنی کہکشانِ صادق پور
جنوں دراصل یہیں زندگی سے گزرا ہے
وہیں کہیں ، کوئی علم و ہنر کا شیخ الکل
علوم دین کی مشاطگی سے گزرا ہے
وہ بحرِ علم کا البانیِ زمانہ نہ پوچھ
کہ کس شعور کی غوطہ زنی سے گزرا ہے
صحیح و سقم پہ صدیوں سے جو وقوف نہ تھا
وہ دور بینیِ ظرف آگہی سے گزرا ہے
شعورو شعر کی منزل تھے مومن و حالی
ادب حیات کا کس تازگی سے گزرا ہے
ان آسمانوں زمینوں سے باخبر اقبال
بہ سرِ دلبری حفظ خودی سے گزرا ہے
رہی ہے پیش نظر بس بلندی کلمہ
گروہِ حق اسی دیوانگی سے گزرا ہے
ہنر کی بزم میں آیا اثر تہی دامن
یہ کم نہیں ، یہاں فرزانگی سے گزرا ہے
کلام شاعر بزبان شاعر سننے کے لیے اس لنک پر آئیے ، 6 منٹ سے لیکر 12 منٹ تک ۔
Last edited: