بہت سارے ہیں مجھے لگ رہا ہے بچوں کا مستقبل پہلے مگر میں اپنا مستقبل بھی بنانا چاہتا ہوں مگر طے نہیں کر پا رہا ہوں
Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
آپ کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے دینی معاملات میں عدم دلچسپی کا شکار ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس کا حل تو یہی ہے کہ آپ حتی المقدور مشکلات سے لڑنے کے لیے پُر خلوص جدو جہد جاری رکھیں اورنتائج کو اللہ تعالٰی کی ذات پر چھوڑ دیں۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کرتا ہے تاکہ وہ دعویِٰ ایمان و اسلام کو سچا یا جھوٹا ثابت کردے اور اسی آزمائش میں ابلیس بھی وقتی مشکلات و حوادث کے پیش ِ نظر اپنا حصہ ڈالتا ہے تاکہ انسانوں کو اللہ تعالٰی کی بندگی سے بے زار کیا جائے ۔بس ایک مسلم اور غیر مسلم میں یہی بنیادی فرق ہے کہ ایک مسلم ان آزمائش کے سمندر کو دل جمعی ،صبراور تحمل سے عبور کر لیتا ہے اور غیر مسلم اس آزمائش کی طلاطم خیز موجوں سے شکست کھا کر اس میں غرق ہو جاتا ہے ۔
کسی بھی دینی و دنیاوی مقصد کے حصول کے لیے خلوص ِ نیت ، محنت اور دعا کے عناصر موجود ہونا نہایت ضروری ہیں ان تینوں میں سے کسی ایک کی غیر موجودگی مقصد کے حصول کو نا ممکن بنا دیتی ہے اور میں نے اس امر کا متعدد بار تجربہ کیا ہے ۔ ایک اہم بات ذہن نشین رہے کہ محض ایمان و اسلام کا دعویٰ دنیاوی و دینی نجات کی دلیل نہیں بلکہ ایمان و اسلا م کے دعویٰ کرنےکے بعد مرحلہ ٔ آزمائش میں کامیاب ہونا نجات کی دلیل ہے اور اس میں کسی کو استثناء حاصل نہیں ۔قرآن مجید کسی انسان کو اسلام قبو ل کرنے پر جبر نہیں کرتا بلکہ وہ ایمان و اسلام کو عقلی ،نقلی اور مشاہداتی دلائل سے ثابت کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اسکے تقاضے بھی پوری تفصیل و تشریح سے بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔ پھر اگر کوئی انسان اس کے بیان کردہ دلائل سے پوری طرح مطمئن ہوتا ہے تو اس سے اللہ تعالٰی کی بندگی میں غفلت اور لا پرواہی غیر ممکن ہو جاتی ہے ۔آسان الفاظ میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایمان جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اسلام کی مضبوطی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اسلام کے تقاضوں کوادا کرنے میں سستی و غفلت، ایمان میں نقص کی علامت تصور کی جائے گی۔
اللہ تعالٰی مجھے ، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو اسلام کو سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین یا رب العالمین !