ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
میرے بابرکت نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن اس دروازہ سے مسجد میں داخل ہوا جو منبر کے سامنے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس نے کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کیا اور کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا مال تباہ ہوگیا، راستے بند ہوگئے اس لیے آپ اللہ سے دعا کریں کہ بارش برسائے، سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے میرے اللہ ہمیں سیراب کر، اے میرے اللہ ہمیں سیراب کر، اے میرے اللہ ہمیں سیراب کر،سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ واللہ اس وقت آسمان پر نہ تو کوئی بادل اور نہ بادل کا کوئی ٹکڑا اور نہ کوئی چیز نظر آتی تھی اور نہ ہمارے اور سلع کے درمیان کوئی گھر یا مکان تھا، سلع کے پیچھے سے ڈھال کے برابر ایک ابر کا ٹکڑا نمودار ہوا، جب وہ آسمان کے بیچ میں آیا تو وہ بدلی پھیل گئی، پھر بارش ہونے لگی، واللہ پھر ہم لوگوں نے ایک ہفتہ تک آفتاب نہیں دیکھا، پھر ایک شخص اسی دروازے سے دوسرے جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا مال تباہ ہوگیا اور راستے بند ہوگئے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش بند کردے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہ برسا اے میرے اللہ پہاڑوں، ٹیلوں اور وادیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا، راوی کا بیان ہے کہ بارش تھم گئی اور ہم دھوپ میں چلتے ہوئے باہر نکلے، شریک کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا وہ پہلا ہی آدمی تھا؟سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 974 نماز استسقاء : جامع مسجد میں بارش کی دعا کرنے کا بیانعبدالرحمن بن عبداللہ دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کو ابوطالب کا یہ شعر پرھتے ہوئے سنا اور گورا رنگ کہ ان کے چہرے کے واسطے سے بدلی سے بارش کی دعا کی جاتی ہے، وہ یتیموں کے حامی اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہیں۔ اور عمروبن حمزہ کا بیان ہے کہ مجھ سے سالم نے اور انہوں نے اپنے والد ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت کیا کہ جب میں نے شاعر کا قول یاد کیا اور میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھتا کہ آپ پانی کی دعا کرتے اور منبر سے اترنے بھی نہ پاتے کہ تمام پر نالے بہہ نکلتے اور (یہ شعر) وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ ابوطالب کا کلام ہے۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 969 نماز استسقاء : لوگوں کا امام سے بارش کی دعا کیلئے درخواست کرنے کا بیان جب کہ وہ قحط میں مبتلا ہوں
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) نے ام سلیم (رضی اللہ عنھا) سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزور آواز سنی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ آپ بھوکے ہیں، تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے، انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ نکالا، اس کے ایک حصہ میں روٹی لپیٹی پھر میرے کپڑے کے نیچے چھپایا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا میں وہ روٹی لے کر گیا میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہیں اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں، میں ان کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا، مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے ابوطلحہ(رضی اللہ عنہ) نے بھیجا ہے، میں نے کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا چلو اور یہ کہہ کر آپ روانہ ہوئے اور میں بھی روانہ ہوا اور آگے چلا یہاں تک کہ میں ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) کے پاس آیا تو ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا اے ام سلیم (رضی اللہ عنھا)! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو بھی لے آئے ہیں اور ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ ان سب کو کھلائیں، ام سلیم (رضی اللہ عنھا) نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں، ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) آگے بڑھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں چلے، یہاں تک کہ دونوں اندر آئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا اے ام سلیم (رضی اللہ عنھا)! تیرے پاس جو کچھ ہے لے آ، ام سلیم (رضی اللہ عنھا) وہ روٹیاں لے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روٹیوں کے توڑنے کا حکم دیا اور ام سلیم نے گھی ڈال کر اس کو ملیدہ بنایا، پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ انہیں آنے کی اجازت دی گئی، ان لوگوں نے کھایا یہاں تک کہ آسودہ ہو گئے، جب وہ باہر چلے گئے تو فرمایا دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو، وہ لوگ بلائے گئے تو انہوں نے بھی آسودہ ہو کر کھایا جب یہ لوگ باہر نکلے تو پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ وہ لوگ اندر آئے اور خوب سیر ہو کر کھایا جب یہ لوگ بھی باہر چلے گئے تو اور دس آدمیوں کو بلانے کا حکم دیا تمام لوگوں نے کھایا اور آسودہ ہو کر کھایا اور کل اسی(۸۰ )آدمی تھے۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 361
کھانے کا بیان : اس شخص کا بیان جو پیٹ بھر کر کھانا کھائے
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آگیا تھا اور لوگوں نے پانی وضو کے لئے ڈھونڈا، کچھ نہیں پایا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن (میں وضو کے لئے پانی) لایا گیا، آپ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے پانی کو دیکھا آپ کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا تھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کرلیا۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 172 وضو کا بیان
صحیح بخاری کتاب الوضو ہی کی ایک دوسری روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں پانی کو دیکھ رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار رہا تھا، میں نے ان لوگوں کا، جنہوں نے اس پانی سے وضو کیا، اندازہ کیا، تو ستر اسی کے درمیان تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ان کے والد کی وفات ہوئی اور ایک یہودی کا قرض تیس وسق کھجور چھوڑ گئے جابر نے اس سے مہلت مانگی لیکن اس نے دینے سے انکار کیا، جابر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تاکہ اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور یہودی سے گفتگو کی کہ اپنے قرض کے عوض ان کے درخت کا پھل لے لے، لیکن اس نے انکار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغ میں داخل ہوئے اور درختوں کے پاس گھومے، پھر جابر (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اس کو کاٹ لے اور اس کا قرض ادا کر دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کے بعد انہوں نے اس کو کاٹ لیا اور تیس وسق کھجور اس کو پورے دیدیے، اور سترہ وسق بچ گئی، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حال بیان کریں، آپ کو دیکھا کہ عصر کی نماز پڑھ رہے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو میں نے کھجور کے بچ جانے کا حال بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ابن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے بیان کر دو، چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے بیان کیا تو سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں چل رہے تھے تو میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ کھجور میں برکت ہو گی۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2293 قرض لینے اور قرض ادا کرنے کا بیان ۔ : باب
اگر کوئی شخص قرض خواہ سے گفتگو کرے، یا قرض میں کھجور یا کسی اور چیز کے عوض اندازے سے دے ۔