آپ شائد میرے ”مؤقف“ کو سمجھ نہیں پائے براہِ کرم جو ”آیات“ میں نے پیش کیں ہیں ان پر ”غور“ کریں اور جن ”حقائق“کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کو بھی ”مدِ نظر“رکھیں جو ”اعمال و اقوال“توحید کے منافی”دیوبندیوں و بریلوی“ میں پائے جاتے ہیں ان کا مجھے انکار نہیں ۔ مشرکینِ مکہ نے ”شرک“کو بطورِ دین اپنایا ہوا تھا اور ”توحید“ کا صاف انکار کرتے تھے جبکہ یہ لوگ”توحید“ ہی کو اصل دین ”قرار“ دیتے ہیں گو کہ ان میں بھی ”شرک“کا عنصر پایا جاتا ہے۔ قرآن نے ”حقیقتاً“اول الذکر ( مشرکینِ مکہ)کے لیے”مشرک“کی اصطلاح استعمال کی ہے رہے مؤخر الذکر( دیوبندی و بریلوی) تو ہماری” ذمہ داری“ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کے اعمال پر ”تنبیہ“ کرنی چاہیے ان کو ”مشرک“ قرار دے کر معاملہ ”بننے “ کی بجائے اور ”بگڑنے“کا خدشہ ہے۔
تکفیر کے قواعدو ضوابط:
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت شرک و کفر میں ملوّث ہے ۔دعوت کے میدان میں کام کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان کی تفصیلات بیان کریں ۔جن باتوں سے آدمی کافر ہو جاتا ہے یعنی نواقض اسلام صاف صاف لوگوں کو سنائیں تاکہ لوگ اپنے شرک و کفر سے باز آ جائیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ کفر و شرک میں واقع ہونے والے سب لوگ کافر و مشرک قرار پائیں ۔گویا ہم نے کفر مطلق کو بیان کرنا ہے کہ فلاں بات کہنے یا فلاں کام کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے البتہ کفر معیّن یعنی کسی خاص شخص (محمد علی ولد عبدالقادر ) کو کافر و مشرک کہنا اس وقت تک درست نہیں جب تک کہ متعین شخص کے حق میں کچھ شروط پوری اورکچھ موانع ختم نہ ہوجائیں۔کیونکہ کفر مطلق سے کفر معیّن لازم نہیں آتا۔
ہمارا فرض منصبی لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو یہ شرک و کفر ہے اور اس شرک کی سزا مستقل جہنم ہے تاکہ لوگ اسلام کی حقیقت کو جان لیں اور شرک و کفر سے توبہ کر لیں ۔شرک و کفر کے افعال کرنے والوں پر ان کے جرم کے مطابق حکم لگایا جاتا ہے ۔مگر ان افعال کے کرنے والوں پر حکم لگانے کی چند شروط اور موانع ہیں ان شروط کا پورا ہونا اور موانع کا دور کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر کفر کرنے والا کافر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر شرک کرنے والا مشرک ہوتا ہے ۔
تکفیر کی شرائط:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے (۱)سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔(۲)بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے ۔ (۳)مجنون جب تک اس کی عقل بحال نہ ہو جائے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۲۰۴۱)
تکفیرکے موانع:
1۔بلا قصد:
بعض اوقات انتہائی خوشی کے موقعہ پر ایک مسلمان کی زبان سے ایسے کفریہ کلمات نکل جاتے ہیں جو اس کا عقیدہ نہیں ہوتا۔ایسے بلا قصد الفاظ کی بنا پر آدمی کافر و مشرک نہیں ہوتا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بڑھ کر خوش ہوتا ہے جس کی صحراء میں سواری گم ہو جائے جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہے۔وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے اچانک وہ سواری واپس آ جاتی ہے اور وہ اس کی نکیل پکڑ لیتا ہے اور وہ خوشی کی شدت میں پکار اٹھتا ہے ۔اللھم انت عبدی واناربک اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب‘‘۔(مسلم ۲۷۴۷)
عروہ فرماتے ہیں: کھیت میں پانی لگانے پر زبیررضی اللہ عنہ اور ایک انصاری رضی اللہ عنہ میں جھگڑا ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،زبیر اپنا کھیت سینچ کر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو۔ انصاری نے کہا : زبیر آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے نا؟(یعنی آپ نے فیصلہ میں خاکم بدہن پھوپھی زاد بھائی کی رعایت کی اور انصاف نہیں فرمایا) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل گیا۔(کیونکہ انصاری کا یہ آپ پر الزام تھا۔ حالانکہ آپ نے اپنے فیصلہ میں انصاری کی رعایت کی تھی۔ زبیررضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق نہیں دیا تھا) پھر آپ نے فرمایا : زبیرکھیت کو بھر پور ڈولوں تک پانی دے کر چھوڑنا ۔ اس فیصلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو اس کا پورا حق دلایا جب کہ انصاری نے آپ کو غصہ دلایا۔پہلے آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا تھا جس میں دونوں کا کام نکلتا تھا۔ (بخاری:۴۵۸۵)
سید مسعود احمد امیر جماعت المسلمین اپنی کتاب ’’ تاریخ الاسلام والمسلمین ‘‘ میں اس انصاری صحابی کو منافق قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بدری صحابی ہیں جیسا کہ روایت کے الفاظ سے واضح ہے :’’انہ خاصم رجلا من الانصار قد شھد بدرًا‘‘ (بخاری :۲۷۰۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ پر ان کا اعتراض یقینا بلا قصد تھا کیونکہ بدری صحابی رضی اللہ عنہ نے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر کے اپنے اخلاص کا ثبوت دے دیا تھا لہٰذا بلا قصد جملہ کی بنا پر ان کو منافق قرار نہیں دیا گیا۔بلکہ آ پ نے صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زبیررضی اللہ عنہ کو اس کا پورا حق دلوا دیا اور اس کے بعد اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی خاموشی ہی کو اس کی توبہ سمجھی گئی لہٰذا اگر کسی مسلم کی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی گواہی دے رہی ہو اور کوئی ایسی بات مل جائے جو ظاہراً کفر ہو اور اس کی زندگی میں اس کفر کا رد موجود ہے تو ہم اس کو منافق کہنے کے بجائے اس کی بات کی تاویل کریں گے۔
2۔جہالت :
بعض اوقات آدمی شرکیہ یا کفریہ کام کرتا ہے اور اسے علم نہیں ہوتا کہ یہ شرکیہ کام ہے، اور وہ اس کا علم حاصل کرنے سے عاجز بھی ہوتا ہے ،جب اسے بتایا جاتا ہے تو وہ توبہ کر لیتا ہے، تو شرکیہ کام کرنے کی بنا پر اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے بچوں سے کہا کہ میں نے اللہ کی درگاہ میں کوئی نیکی نہیں بھیجی ۔ اگر اللہ نے مجھے پکڑ لیا تو سخت عذاب دے گا ۔تم میرے مرنے کے بعد میری لاش جلا دینا ،جب جل کر کوئلہ ہو جائے تو اسے خوب باریک پیسنا اور جس دن زور کی آندھی ہو اس دن یہ راکھ آندھی میں اڑا دینا ، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نےکن کہا وہ شخص سامنے کھڑا ہو گیا ۔اللہ نے پوچھا میر ے بندے تو نے کیا کیا؟اس نے عرض کیا اے اللہ تیرے خوف سے اور تو جانتا ہے ۔اللہ نے اس پر رحم کیا اور اس کو بخش دیا۔ (بخاری ۷۵۰۶)
ابوواقدلیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا، راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کوذات انواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے، جب ہم اس درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ سے عرض کیا کہ جیسے ان مشرکوں کے لیے ذات انواط ہے، آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے آپ نے اللّٰہ أکبر کہا اور فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہی تھی کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم لوگ بڑے جاہل ہو، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔ [ترمذی: 2180]
3۔تاویل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک دستہ مشرکوں کی طرف بھیجا۔ ان کا باہم مقابلہ ہوا۔ ایک مشرک جب کسی مسلمان کو قتل کرنا چاہتا، موقع پاکر اسے قتل کر دیتا۔ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اسامہ نے جب اسے مارنے کے لئے تلوار اٹھائی تو اس نے لاالہ الا اللّٰہ پڑھ لیا۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کردیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسامہ رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان ہوا۔ آپ نے انہیں بلایا اور پوچھا تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے مسلمانوں کو بڑی تکلیف دی۔ اس نے فلاں اور فلاں کو شہید کیا(یہ صورت حال دیکھ کر) میں نے اس شخص پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو اس نے (جان بچانے کے لئے) لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ دیا۔ آپ نے پوچھا پھر کیا تم نے اسے قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں اس نے ہتھیار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ نے فرمایا تم نے اس کا دل چیراتھا کہ تمہیں علم ہو گیا کہ اس نے کلمہ دل سے نہیں کہا تھا۔ جب قیامت کے دن وہ لاالہ الااللّٰہ لائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ اسامہb نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیے آپ نے پھر فرمایا جب قیامت کے دن وہ کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لائے گا تم کیا کرو گے؟ آپ یہی کلمہ دہراتے رہے یہاں تک کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آرزو کی کہ میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ (بخاری :۴۲۶۹۔مسلم :۹۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہنے کے باوجود کہ تو نے کلمہ پڑھنے کے بعد اس کو قتل کیوں کیا، قصاص میں اسامہ کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی ان سے دیت وصول کی۔گویا تاویل کی بنا پر اسامہ رضی اللہ عنہ ان سزائوں سے بچ گئے۔
4۔اکراہ:
اگر کوئی شخص کفر کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو اُس کے لیے جائز ہے کہ وہ زبان سے مشرکوں کی موافقت کرے بشرطیکہ اس کے دل میں ایمان کا نور ہو اور دل ایمان و یقین سے مطمئن ہو تو ایسا شخص بھی کافر نہیں ہوگا ۔
﴿مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ۰ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۱۰۶ ﴾
(النحل: ۱۰۶)
’’جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا الّا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی لوگوں کے لیئے بہت بڑا عذاب ہے۔ ‘‘
مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت عمّار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی ۔ جنہیں مشرکوں نے ایذائیں دیں تو مجبوراً آپ نے اپنی زبان سے ان کی ہاں میں ہاں ملا دی، مشرکوں نے آپ کو چھوڑ دیا ۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اپنا قصہ بیان کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(ابن کثیر )
5۔خطا اور نسیان:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیئے خطا، بھول چوک اور وہ کام جس کے لیئے انہیں مجبور کر دیا جائے معاف کر دیا ہے۔(ابن ماجہ ۲۰۴۳)
تکفیر معین:
تکفیر معین میں جلد بازی نہ کرنے کایہ مطلب بھی نہیں کہ سلف کے ہاں سرے سے تکفیر معین نہیں ہے اور یہ کہ ہمارے سلف نے متعین اشخاص کی تکفیر ہی نہیں کی ۔ اہلسنت کا باقاعدہ اصول ہے کہ وہ شروط پوری ہونے اور موانع دور ہونے کے بعد تکفیر معین کرتے ہیں تاکہ اہل اسلام کو فتنوں سے بچایا جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلادیا اور محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن الخضیری نے اپنے والد (شیخ الخضیری جو احناف کے بڑے ائمہ میں سے ہیں )سے روایت کی ہے کہ شہر بخارا کے فقہا ابن سینا کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ کافر تھا مگر بلا کا ذہین تھا ۔اس پر محمد بن عبدالوہاب یہ اضافہ کرتے ہیں کہ بخارا کے تمام فقہا نے متعین طورپر ابن سینا کی تکفیر کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے دین میں متعین طور پر تکفیر کرنا روا ہے ۔(مفید المستفید)
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق کو باطل بنا کر پیش کیا جاتا رہے جس سے عامتہ المسلمین گمراہ ہو سکے تو علماء حق کا خاموش رہنا جرم بن جاتا ہے اسلام میں اس مداہنت کی کوئی گنجائش نہیں موجودہ دور میں بھی علماء کرام نے اور خصوصاً سعودیہ عرب کے دار الافتاء الجنۃ الدائمۃنے قادیانیوں کی مجموعی طور پر اور مرزا غلام احمد کی متعین طور پر تکفیر کی ۔
علامہ ابن باز رحمتہ اللہ علیہ اور الجنۃ الدائمۃ کے دیگر علماء کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
سوال :کیا علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو کافر کہہ دیں اور اس پر کفر کا الزام لگا دیں ؟
جواب :’’کسی کی تعیین کئے بغیر (کسی کفریہ حرکت کی بنا پر ) کافر قرار دینا شرعاً درست ہے ۔مثلاً یہ کہنا ’’ جس مصیبت کا ٹالنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی شخص اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے غیر اللہ سے فریاد کرے تو وہ کافر ہے ۔‘‘مثلاً کوئی شخص کسی نبی یا ولی سے یہ درخواست کرے کہ وہ اسے یا اس کے بیٹے کو شفا دے دے ۔
کسی معین شخص کو اس صورت میں کافر کہا جا سکتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کا انکار کرے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص و عام کو معلوم ہو۔مثلاً نماز ،زکوٰۃ یا روزہ وغیرہ ۔ جو شخص اس کا علم ہونے کے بعد بھی انکار کرتا ہے اسے کافر کہنا واجب ہے ۔لیکن اسے نصیحت کرنی چاہیے اگر توبہ کر لے تو بہتر ہے ورنہ اسلامی حکمران اسے سزائے موت دیں ۔اگر کفریہ اعمال کے ارتکاب کے بعد بھی کسی خاص شخص کو کافر کہنا درست نہ سمجھا جائے تو پھر کسی مرتد پر بھی حد نافذ نہیں ہو سکتی ۔( فتاویٰ دارالافتاء سعودی عر ب :فتوی نمبر :۶۱۰۹،جلد دوم ،ص:۹۷ )