• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میرے محسن میرے استاذ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میرے محسن میرے استاذ

ٹریفک اشارہ سرخ تھا ، لیکن گاڑی ذرا فاصلے پر تھی ، قبل اس کے گاڑی اشارے پر رکتی ، اس سے پہلے ہی گاڑی سوار یوٹرن لیکر کئی سال پیچھے یاد ماضی میں پہنچ چکا تھا ، اچانک ہی ذہن حفظ کے استاذ محترم قاری محمد اشرف صاحب رحمہ اللہ کی طرف چلا گیا ۔
آخری دفعہ استاذ محترم سے ادھوری ملاقات کا منظر بھری ہوئی آنکھوں میں گھومنے لگا ، جامعہ میں حفظ کی کلاسیں دوسری منزل پر ، جبکہ شعبہ کتب کی اکثر پڑھائی پہلی منزل پر ہوا کرتی تھی ، میں کلاس سے باہر نکلا ، تو نظر ایک شفیق اور جانی پہچانی آواز کے تعاقب میں فورا اوپر گَرِل کے پاس کھڑی ایک وضعدار اور خوبرو شخصیت کی طرف چلی گئی ۔ یہ میرے استاد محترم ہی تھے ، بس یہیں کھڑے کھڑے انہیں ادب سے سلام کیا ، انہوں نے شفقت سے جواب دیا ، پڑھائی کے متعلق پوچھا ، اور آگے چل دیے ۔
مجھے پتہ ہوتا کہ یہ آخری ملاقات ہے ، تو پل بھر میں جاکر استاد محترم کو گلے لگاتا ، جی بھر کے باتیں کرتا ، ان سے مزید نصیحتیں حاصل کرتا ، لیکن اللہ کا قانون ہے کہ کسی کی موت کا پتہ کسی دوسرے کو کیا ، خود مرنے والے کو بھی نہیں بتایا جاتا ۔
پندرہ بیس دن بعد اچانک دوران پڑھائی خبر ملی کہ قاری اشرف صاحب ایک حادثے کے سبب اس دنیا فانی سے رخصت ہو چکے ہیں ، ایک دھچکا لگا ، اور ساتھ آٹھ سال پہلے کے حالات فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنے لگے ۔
جامعہ رحمانیہ میں اس وقت حفظ کی کل سات کلاسیں تھیں اور دستور یہ تھا ، کہ نیا طالبعلم داخل ہوتاتواسے ابتدائی طور پر ایک کلاس میں بٹھا دیا جاتا ، لیکن حتمی فیصلہ بعد میں کیا جاتا ، اگر کسی خاص طالبعلم کو کسی خاص استاذ کے پاس بٹھانے کی سفارش یا درخواست ہوتی تو منتظم کی اجازت کے بعد ایسے کر لیا جاتا ، ورنہ نئے آنے والے طالبعلموں کے نام لکھ کر قرعہ اندازی کی جاتی ، میں خوش نصیب تھا ، میرے نام کی پرچی قاری اشرف صاحب رحمہ اللہ کی کلاس کے نام کی نکل آئی ، باقی تین ساتھی تھے ، وہ اکٹھے ایک اور قاری صاحب جن کا نام قاری ابراہیم ملتانی صاحب تھا ، ان کے پاس چلے گئے ۔
جونہی طالبعلم مجھے لیکر قاری صاحب کے پاس آیا ، قاری صاحب نے مسکراتے ہوئے جو الفاظ کہے ، وہ مجھے آج تک یاد ہیں :
اوئے ! اے کی تحفہ لے آیا ایں ؟!
میں تو پہلے سے ہی سہما ہوا تھا ، گھر سے دور رہنے کا پہلی دفعہ تجربہ ہوا تھا ، اور حفظ قرآن کی مشکلات ، اور اساتذہ کرام کی سختی کی جو باتیں مشہور ہیں ان کی وجہ سے کافی خوف ذہن پر چھایا ہوا تھا ، قاری صاحب کا یہ جملہ مجھے کچھ محسوس ہوا لیکن قصہ مختصر یہ کہ میں نے قاری اشرف صاحب کے پاس حفظ قرآن شروع کردیا ، اور در حقیقت یہیں سے برکتوں سعادتوں کا ایک لا متناہی دور شروع ہوا ، صرف پہلا پارہ ذرا مشکل لگا ، سبق کیا ہوتا ہے ، سبقی کسے کہتے ہیں ، اور منزل کیا چیز ہے ، اور یہ سب کام کس وقت کرنے ہیں ، ان سب کاموں میں ایک مہینہ لگ گیا ، اور میں نے تیسواں پارہ بھی حفظ کرلیا ، قاری صاحب سے مجھے مانوسیٹ پیدا ہوگئی ، انہوں نے بھی میری حوصلہ افزائی شروع کردی ، اسی دوران شاید ایک دفعہ ایک چھڑی قاری صاحب نے ماری تھی ، اس کے بعد پورا قرآن مجید حفظ ہوگیا ، یاد نہیں پڑتا کہ کبھی سبق کی وجہ سے مار پڑی ہو ۔
قاری صاحب کا طریقہ کار یہ تھا کہ پڑھنے والے بچوں کو نہ صرف یہ کہ بالکل مارتے نہیں تھے ، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بہت زیادہ کرتے تھے، جبکہ جن کے بارے میں اندازہ ہوجاتا کہ یہ آسانی سے سدھر نے والے نہیں ، ان کا بہت برا حشر کرتے تھے ۔
استاد محترم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ حفظ قرآن کے دوران تربیت پر بہت زور دیتے تھے ، حفظ قرآن کے دوران ہی طالبعلم کا بعد والی پڑھائی کے متعلق بھی ذہن اچھا بنا دیتے تھے ، یہی وج ہے کہ میرا والدین نے جب مجھے مدرسہ بھیجا تو اتنا ہی ذہن میں تھا کہ صرف حفظ کرنا ہے ، خود میں بھی حفظ کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند نہیں تھا ، لیکن اللہ تعالی حضرت قاری صاحب کی قبر پر کروڑوں رحمتیں فرمائے ، انہوں نے حفظ کے دو سالہ عرصہ کے درمیان ، ایسی رہنمائی کی ، کہ حفظ کے فورا بعد میں جامعہ رحمانیہ میں کلیۃ القرآن میں داخلہ لے لیا ۔ اور قاری صاحب نہ صرف کلاس میں موجود طالبعلموں کو یہ نصحیت کرتے ، بلکہ ان کے شاگرد جو حفظ قرآن سے فارغ ہو کر جامعہ میں اگلا تعلیمی سفر شروع کر لیتے ، انہیں بھی رہنمائی کرتے کہ ساتھ مزید عصری تعلیم کا بھی امتحان دے لیں کہ یہ اصل مقصود تو نہیں کہ بہر صورت ضرورت ہے ۔
حضرت قاری صاحب کی اس وعظ و نصحیت کا ہی اثر تھا کہ جامعہ رحمانیہ میں حفظ کے بعد اگلے تعلیمی مراحل طے کرنے والے زیادہ طالبعلموں کی تعداد آپ کے شاگردوں پر ہی مشتمل ہوتی تھی ( یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے ، ممکن ہے درست نہ ہو ) ۔
استاد محترم بہت ساری خوبیوں سے متصف تھے ، حسن اخلاق ، خیر خواہی ، وسعت ظرفی ، دریا دلی ان کی بنیادی خصوصیات تھیں ۔ طالبعلموں کو کوئی مسئلہ ہوتا تو اسے حتی الامکان حل کرنے کی کوشش کرتے ، کسی کو پیسوں کی ضرورت ہوتی تو اپنی جیب سے ان کی مدد فرماتے ، چائے کے بہت شوقین تھے ، چائے بنواتے یا باہر سے منگواتے تو ساتھ دیگر کلاسوں کے اساتذہ کرام کو بھی بھیجتے ، کبھی کوئی پرانا شاگرد ملنے آجاتا ، تو اس کی بہت عزت و تکریم کرتے ، کسی طالبعلم کے والد صاحب یا کوئی عزیز رشتہ دار آتا توا س کی بھی موقع محل کی مناسبت سے آؤ بھگت کرتے ، طبیعت کے اندر خشکی نام کی کوئی شی نہیں تھی ۔ کلاس میں باوضو ہو کر تشریف فرما ہوتے ، بلکہ طالبعلموں کو بھی نصیحت کرتے کے کہ تم قرآن مجید کے طالبعلم ہو ، بغیر وضو نہ بیٹھا کرو ۔
ہفتہ کے آخری دن یعنی جمعرات کو چھٹی سے آدھا گھنٹہ پہلے پڑھائی ختم کروا کے تمام کلاس کو پاس بٹھاتے ، اور نماز روزہ ، صفائی ستھرائی اور بنیادی اخلاقیات کا درس دیتے ، گھر اور مدرسے میں ہی نہیں بلکہ عام معاشرے میں ایک حافظ قرآن کو کیسے رہنا چاہیے اس کے متعلق بھی رہنمائی کرتے ۔
طالبعلموں کی تشجیع کے لیے اپنا سابقہ شاگردوں کے واقعات بیان کرتے ، اگر ممکن ہوتا تو نہیں پاس بلا کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ، تاکہ موجودہ طالبعلموں میں محنت اور لگن کے ساتھ پڑھنے کا ذوق و شوق پیدا ہو ۔
حضرت قاری صاحب کی عادت مبارکہ تھی کہ روز سبق ، سبقی اور منزل کے علاوہ ہفتہ وار پانچ پاروں کا جائزہ ( ٹیسٹ ) ضرور لیا کرتے تھے ، کلاسیں عام طور پر سات ساڑھے سات بچے شروع ہوتی تھیں ، لیکن جمعرات والے دن لازم تھا کہ گرمیوں میں فجر کے فورا بعد اور سردیوں میں فجر سے پہلے گھنٹہ کلاس شروع ہوجائے گی ، اور ساتھ بجنے تک بیس پچیس طالبعلم پانچ پانچ پاروں کا ٹیسٹ دے چکے ہوتے تھے ، بلکہ قاری صاحب کے ایک لائق اور سعادت مند شاگرد تھے قاری ظہیر احمد صاحب ، اسی طرح ان سے سینئر ایک اور قاری اصغرصاحب تھے ، جو دونوں آپ سے حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد شعبہ کتب میں طالبعلم تھے ، وہ عام طور پر جمعرات والے دن قاری صاحب کے ساتھ بطور معاون شریک ہوتے ، او رتمام طالبعلموں کا پانچ پانچ پاروں کا جائزہ لیا کرتے تھے ۔ بلکہ ان سعادت مند شاگرد بعض دفعہ استاد محترم سے گزارش کرتے کہ آپ کلاس کے وقت آجائیں ، اس سے پہلے ہم کلاس کو سنبھال لیں گے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جمعرات والے دن کئی دفعہ ایسے بھی ہوتا تھا ، کہ سات بجے قاری صاحب کے آنے سے پہلے پہلے سارے طالبعلموں کے جائزہ سمیت کئی ایک طالبعلم اس دن کا سبق بھی سنا چکے ہوتے تھے ۔ جو شخص اس ذمہ داری کو سمجھتا ہے ، وہ ان باسعادت شاگردوں کی اس محنت و کوشش کو داد دیے بغیر نہیں رہے گا جو اپنے استاد کے تعاون میں اس قدر قدر پیش رہتے تھے ۔ بعد میں مجھے بھی پانچ چھ سال قاری صاحب کی زندگی میں اس طرح شعبہ کتب میں پڑھنے کا موقعہ ملا ، لیکن افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اکثر اوقات ان کے لیے ایسی کوئی خدمت پیش نہ کرسکا ، اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ کم عمری کے سبب اس منصب کی لیاقت نہ تھی ۔
میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ استاد محترم حفظ سے فراغت کے بعد بھی طالبعلم کو گاہے گاہے رہنمائی دیتے رہتے تھے ، چنانچہ غالبا 2005ء میں ڈیرہ غازی خان میں آل پاکستان مقابلہ حفظ قرآن ہوا تو اس میں استاد محترم نے مجھے شرکت کرنے کی رغبت پیدا کی ، مقابلہ ہوا ، پہلی پوزیشن پشاور کے کسی مدرسے کے طالبعلم کی تھی ، دوسری کے لیے مطلوبہ نمبر کسی کے نہ تھے ، تیسری پوزیشن الحمد للہ میری رہی ۔ استاد محترم نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا ، بلکہ ان دنوں کسی وجہ شے جامعہ میں ان سے ملاقات نہ ہوسکی تو شفقت کرتے ہوئے مبارکباد دینے کے لیے ہمارے گاؤں تشریف لائے ، لیکن بد قسمتی سے میں اس وقت گھر میں نہیں تھا ، اور نہ اس وقت موبائل وغیرہ اتنے عام ہوئے تھے ، جب گھر لوٹا تو آپ واپس تشریف لے جاچکے تھے ۔
اسی طرح اور بھی مقابلے ہوئے ، جن میں آپ نے حوصلہ افزائی اور ذوق شوق دلا کر شرکت کروائی ، ایک دفعہ جامعہ کے اندر ہی حفظ کے مقابلہ تھا ، لیکن تھا شعبہ کتب کے طالبعلموں میں ، یہ استاد محترم کی زندگی کے آخری مہینے تھے ، چند دن پہلے موٹر سائیکل حادثے میں آپ کا سر شدید زخمی ہو چکا تھا ، لیکن حفظ کے اس مقابلے میں جو مسجد میں منعقد تھا ، تشریف لائے ، سر کی طرف سے رخسار پر آنے والے زخموں کے نشان ابھی تک میرے سامنے ہیں ، میری باری آئی سوال جواب ہوئے ، توجہ سے سنتے رہے ، نتیجہ نکلا تو الحمدللہ میری پہلی پوزیشن تھی ، ملے بہت خوش ہوئے ، اور کہا : بیٹا مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ تم اول رہو گے ۔
شاگردوں کو ترقی کرتا دیکھ کر ، کسی اچھے منصب اور مقام پر دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے ، کاش آج میں انہیں بتا سکتا کہ استاد جی آپ کا یہ ناکارہ شاگرد حرمین کی فضاؤں میں پہنچ گیا ہے ، چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں ، جامعہ میں داخلہ کی خبر سن کر والدین کے بعد سب سے زیادہ خوشی انہیں کو ہوتی ۔ آپ خود اپنی زندگی تحفیظ قرآن کے لیے وقف کی ہوئی تھی ، لیکن شاگردوں کے بارے میں ہمیشہ یہ تڑپ تھی کہ یہ جتنا آگے جا سکتے ہیں ، جائیں ، ورنہ بعض دفعہ شاگردوں کو ایسے کم ظرف معلمین سے بھی واسطہ پڑتا ہے ، جو شاگرد کی حوصلہ افزائی تو کیا کردار کشی اور حوصلہ شکنی کرنے کو ہی حق استادیت سمجھ لیتے ہیں ۔
موت کاوقت مقرر ہے ، جب آجائے تو کوئی روک نہیں سکتا ، استاد محترم اس دنیا سے چلے گئے ، لیکن اپنے لیے صدقہ جاریہ کی صورت نہریں بہاگئے ، وہ تو خیر و بھلائی سے بھر پور زندگی گزار گئے ، اللہ ان کی آخرت کو بھی بہتر بنائے ۔ لیکن ہم ان کی نیکی اور اچھائی کا کوئی اچھا بدلہ نہ دے پائے ، دعاؤں میں تو ہر وقت یاد رہتے ہیں ، مسجد حرام ہو یا مسجد رسول ، صفا ، مروہ کی پہاڑیاں ہوں ، یاعرفہ کا مبارک دن اور مقام ، جب بھی دل دعا کے لیے اللہ کی طرف راغب ہوتا ہے ، تو کبھی بعد میں کبھی پہلے، کبھی درمیان میں ان کے لیے دعائے مغفرت ، بلندی درجات کی التجا اور ان کے بیٹے اور عزیز و اقارب کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کچھ بول ادا ہو ہی جاتے ہیں ۔
ان کے بعض سعادتمند شاگردوں کے سوا ، کسی کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ شخص جس نے ساری زندگی قرآن اور اہل قرآن کی خدمت میں گزار دی ، اس کی وفات کے بعد ، اس کی بیوی بچوں کا کسی کو خیال آیا ہوگا ۔ اور تو اور ، ہمارا مدارس کا نظام ایسا ہے کہ اپنی جوانی سے لیکر کہولت اور بڑھاپے تک کو کسی ادارے میں کھپا دینا والا شخص آج اگر ادارے سے الگ ہو جائے تو اس کے لیے پنشن وغیرہ تو کیا ، اس کے پچھلے واجبات بھی بعض دفعہ ادا نہیں ہوئے ہوتے ، بلکہ بعض اداروں کے متعلق تو یہ تک سننے میں آیا ہے کہ جو اساتذہ مدارس سے الگ ہو چکے ہیں ، کہیں اور جا چکے ہیں یا اس دنیا سے ہی رحلت فرما چکے ہیں ، ان کے نام کی تنخواہیں ابھی تک آرہی ہیں ، لیکن حرام ہے کہ ان میں سے ایک پائی بھی ’ حلقہ ادارت ‘ سے نکل کر کسی مستحق تک پہنچ پائی ہو ، چاہے وہ کتنا ہی ضرورتمند کیوں نہ ہو ۔ ہم کسی پر حرام خوری کا الزام نہیں لگاتے ، اس طرح کا مال امت کے وسیع تر مفاد میں کسی اچھی جگہ ہی خرچ ہوتا ہوگا ، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کرام اور ان کی ضروریات کو بھی ایک جائز بلکہ مستحب مصرف سمجھا جائے ۔
مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن ان قلعوں کی راہداریوں میں ’ قابلیت ، استحقاق ‘ کی جو ناقدری ہوتی ہے ، اور تقوی و زہد کے نام پر جو بلیک میلنگ ہوتی ہے ، یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔ اساتذہ کے ساتھ اس بے راو روی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ایک کثیر تعداد دینی مدارس میں جانے کی بجائے حکومتی اداروں میں جانے کو ترجیح دیتی ہے ، بلکہ وہ اساتذہ کرام جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں دین کی خدمت میں بسر کردیں ، ان میں سے کئی خوداپنے شاگردوں کو اس طرف رہنمائی کرنے لگے ہیں ، تاکہ کم از کم جب اللہ کا بلاوا آجائے ، یا آنکھیں کمزور اور ٹانگیں جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیں تو زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے پنشن کی صورت میں کوئی مناسب بندوبست تو ہوجاتا ہے ۔
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ، زیر نظر سطور میں تو استاد محترم قاری محمد اشرف صاحب رحمہ اللہ کی بھولی بسری یاد کو تازہ کرنا مقصود تھا ، جو ٹوٹھے پھوٹے الفاظ نوک قلم پر آ گئے ، ممکن ہے یہ تحریر حضرت قاری صاحب کے کسی ادیب یا صاحب قلم شاگرد کے لیے آپ کی شخصیت پر ایک مفصل مضمون لکھنے کا سبب بن جائے ، جس میں آپ کے حالات زندگی اور مشہور تلامذہ اور دیگر ضروری تفصیلات کا ذکر آجائے ۔
 
Top