عبداللہ ابن آدم
رکن
- شمولیت
- ستمبر 05، 2014
- پیغامات
- 161
- ری ایکشن اسکور
- 59
- پوائنٹ
- 75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیوخ سے گزارش ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ایک عبارت کو کچھ حضرات بڑے شدومد سے بیان کر رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سے پہلے مرزا محمد علی جہلمی کا بھی ایک ویڈیو کلپ سننے کا اتفاق ہوا، جس میں وہ بھی یہ کہہ رہا تھا کہ ایک طرف بدعت کا فتویٰ اور دسری طرف اجتہاد پر ثواب۔۔۔۔؟؟ یہ کیا ماجراء ہے؟؟بہرحال وہ بریلویانہ عبارت درج زیل ہے۔
علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں اجتہاد کب کیا جاتا ہے؟ کیا اس کی کوئی شرائط بھی موجود ہیں؟ اور کیا مجتہد ہی اجتہاد کر سکتا ہے؟؟ میرے ناقص فہم کے مطابق جتنے فرقہ ضلالة ہیں وہ سبھی قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں لیکن وہ قرآن وحدیث سے غلط مسئلہ کا استنباط کر کے گمراہ ہوئے ہیں تو کیا انہیں بھی اجتہاد کی وجہ سے ثواب ملے گا؟ یہ چند اشکالات ہیں۔ برائے کرم کوئی صاحب علم بھائی راہنمائی کرے۔
شیوخ سے گزارش ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ایک عبارت کو کچھ حضرات بڑے شدومد سے بیان کر رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سے پہلے مرزا محمد علی جہلمی کا بھی ایک ویڈیو کلپ سننے کا اتفاق ہوا، جس میں وہ بھی یہ کہہ رہا تھا کہ ایک طرف بدعت کا فتویٰ اور دسری طرف اجتہاد پر ثواب۔۔۔۔؟؟ یہ کیا ماجراء ہے؟؟بہرحال وہ بریلویانہ عبارت درج زیل ہے۔
میلاد النبی ﷺ اور وھابیوں کا امام ابن تیمیہ
علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں اجتہاد کب کیا جاتا ہے؟ کیا اس کی کوئی شرائط بھی موجود ہیں؟ اور کیا مجتہد ہی اجتہاد کر سکتا ہے؟؟ میرے ناقص فہم کے مطابق جتنے فرقہ ضلالة ہیں وہ سبھی قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں لیکن وہ قرآن وحدیث سے غلط مسئلہ کا استنباط کر کے گمراہ ہوئے ہیں تو کیا انہیں بھی اجتہاد کی وجہ سے ثواب ملے گا؟ یہ چند اشکالات ہیں۔ برائے کرم کوئی صاحب علم بھائی راہنمائی کرے۔