- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
تحریر : کفایت اللہ سنابلی
حوالہ: عید میلاد النبی منانے والوں کے دلچسپ تضادات
عید میلاد النبیﷺ منانے والے عید میلاد کے دلائل پر بات کرتے ہیں تو متضاد باتیں سننے کو ملتی ہیں :
مثلا
1۔ سنت ثابتہ یا بدعت حسنہ
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ عید میلاد منانے کا ثبوت قرآن و حدیث دونوں میں ہے دوسری طرف جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ خیرالقرون میں تو اس کا رواج نہ تھا تو کہتے ہیں
اگرچہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن ’’بدعت حسنہ ‘‘ہے
عرض ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں، اگر کتاب و سنت سے یہ عید ثابت ہے تو پھر اسے بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ثابتہ کہا جائے گا، اور اگر یہ’’ بدعت حسنہ ‘‘ یعنی بعد کی ایجاد ہے تو پھر کتاب و سنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں ہے۔
2 ۔ کبھی صراحت کی شرط اور کبھی اس سے نظر پوشی
جب ہم میلادیوں کے سامنے کتاب و سنت سے رد بدعت کے نصوص پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عید میلاد بھی بدعت ہے لہذا کتاب و سنت کے ان نصوص کی روشنی میں مردود ہے
تو یہ میلادی کہتے ہیں کہ کتاب و سنت میں عید میلاد کے الفاظ کے ساتھ اس کا رد پیش کرو۔ لیکن جب یہ عید میلاد کے جواز پر قرآنی آیات و احادیث پیش کرتے ہیں تو یہ شرط بھول جاتے ہیں !
کیا کوئی ایک آیت یا کوئی ایک حدیث ایسی پیش کی جاسکتی ہے جس میں عید میلاد النبیﷺ کے الفاظ کے ساتھ اس کے جواز کی بات کہی گئی ہو؟
3- کبھی مقلد اور کبھی غیر مقلد
میلادی حضرات کہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے اصل دلائل ہمارے امام کے اقوال ہیں ۔
لیکن جب عید میلاد کی بات آتی ہے تو اس موقع پر یہ غیر مقلد بن جاتے ہیں !
کیا کوئی شخص ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی ایک سے بھی عید میلاد کے جواز کا قول پیش کرسکتا ہے؟
4- کبھی جاہل مطلق اور کبھی مجتہد اعظم
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت سے براہ راست مسائل اخذ نہیں کرسکتے ،اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں ۔
دوسری طرف جب عید میلاد کی بات آتی ہے تو براہ راست قران وحدیث لیکر اجتہاد کرنے اور فتوی دینے بیٹھ جاتے ہیں اور قرآن و حدیث سے ایسے مسائل ڈھونڈ نکالتے ہیں جن تک ان کے امام کی بھی رسائی نہیں ہوسکی !
کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایک جاہل مقلد کو فتوی دینے کا اختیار کس نے دیا؟
5- نور یا بشر
میلادی کبھی ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے لازم آتا ہے کہ آپﷺ کی کوئی تاریخ پیدائش ہے ہی نہیں ، چنانچہ یہ حضرات ایک خود ساختہ حدیث پر ایمان رکھتے ہیں کہ ’’ اول ما خلق اللہ نوری‘‘ یعنی اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔
جب تمام مخلوقات میں سب سے پہلے نور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پیدا کیا گیا
تو اس وقت سورج و چاند بھی پیدا نہ ہوئے تھے اور تاریخیں سورج اورچاند ہی سے بنتی ہیں، لہذا اس عقیدہ کی بنیاد پر آپﷺکی کوئی تاریخ پیدائش ہو ہی نہیں سکتی! لہذا جب آپﷺ کی کوئی تاریخ پیدائش ہی نہیں ہے تو پھر تاریخ پیدائش منانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کے ذریعہ جس تاریخ کو آئے وہی تاریخ پیدائش ہے ۔ تو عرض ہے کہ والدین کے ذریعہ دنیا میں پیدا ہونا یہ تو بشر کی خوبی ہے اور اہل بدعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر مانتے ہی نہیں بلکہ نور مانتے ہیں ، لہٰذا اگر نور، والدین کے مراحل سے گذرے تو اسے ایک دوسری شکل اپنا نا کہہ سکتے ہیں پیدا ہونا تو نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ نور کی شکل میں پیدائش تو سب سے پہلے ہوچکی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میلادی حضرات عید میلاد کے جواز وغیرہ سے متعلق متضاد قسم کی باتیں کرتے ہیں لہذا ان کی ساری کی ساری باتیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ساقط ہوگئیں ۔
واضح رہے کہ ان کے نزدیک قرآن کی بعض آیات دوسری آیات سے ٹکرانے کے سبب دونوں قسم کی آیات ساقط ہوگئیں (خلاصۃ الافکار شرح مختصر المنار:ص:197،198)
عرض ہے کہ جب ان کے بقول (نعوذباللہ ) قرآن کی آیات دوسری آیات سے ٹکرا جائیں تو دونوں قسم کی آیات ساقط ہوجاتیں ہیں ،تو پھر ان کے اپنے اقوال اگر انہیں کے دوسرے اقوال سے ٹکرا جائیں تو ان کا کیا حشر ہونا چاہئے، اس کا اندازہ خود لگالیں۔
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔۔۔۔۔۔
حوالہ: عید میلاد النبی منانے والوں کے دلچسپ تضادات
عید میلاد النبیﷺ منانے والے عید میلاد کے دلائل پر بات کرتے ہیں تو متضاد باتیں سننے کو ملتی ہیں :
مثلا
1۔ سنت ثابتہ یا بدعت حسنہ
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ عید میلاد منانے کا ثبوت قرآن و حدیث دونوں میں ہے دوسری طرف جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ خیرالقرون میں تو اس کا رواج نہ تھا تو کہتے ہیں
اگرچہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن ’’بدعت حسنہ ‘‘ہے
عرض ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں، اگر کتاب و سنت سے یہ عید ثابت ہے تو پھر اسے بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ثابتہ کہا جائے گا، اور اگر یہ’’ بدعت حسنہ ‘‘ یعنی بعد کی ایجاد ہے تو پھر کتاب و سنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں ہے۔
2 ۔ کبھی صراحت کی شرط اور کبھی اس سے نظر پوشی
جب ہم میلادیوں کے سامنے کتاب و سنت سے رد بدعت کے نصوص پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عید میلاد بھی بدعت ہے لہذا کتاب و سنت کے ان نصوص کی روشنی میں مردود ہے
تو یہ میلادی کہتے ہیں کہ کتاب و سنت میں عید میلاد کے الفاظ کے ساتھ اس کا رد پیش کرو۔ لیکن جب یہ عید میلاد کے جواز پر قرآنی آیات و احادیث پیش کرتے ہیں تو یہ شرط بھول جاتے ہیں !
کیا کوئی ایک آیت یا کوئی ایک حدیث ایسی پیش کی جاسکتی ہے جس میں عید میلاد النبیﷺ کے الفاظ کے ساتھ اس کے جواز کی بات کہی گئی ہو؟
3- کبھی مقلد اور کبھی غیر مقلد
میلادی حضرات کہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے اصل دلائل ہمارے امام کے اقوال ہیں ۔
لیکن جب عید میلاد کی بات آتی ہے تو اس موقع پر یہ غیر مقلد بن جاتے ہیں !
کیا کوئی شخص ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی ایک سے بھی عید میلاد کے جواز کا قول پیش کرسکتا ہے؟
4- کبھی جاہل مطلق اور کبھی مجتہد اعظم
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت سے براہ راست مسائل اخذ نہیں کرسکتے ،اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں ۔
دوسری طرف جب عید میلاد کی بات آتی ہے تو براہ راست قران وحدیث لیکر اجتہاد کرنے اور فتوی دینے بیٹھ جاتے ہیں اور قرآن و حدیث سے ایسے مسائل ڈھونڈ نکالتے ہیں جن تک ان کے امام کی بھی رسائی نہیں ہوسکی !
کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایک جاہل مقلد کو فتوی دینے کا اختیار کس نے دیا؟
5- نور یا بشر
میلادی کبھی ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے لازم آتا ہے کہ آپﷺ کی کوئی تاریخ پیدائش ہے ہی نہیں ، چنانچہ یہ حضرات ایک خود ساختہ حدیث پر ایمان رکھتے ہیں کہ ’’ اول ما خلق اللہ نوری‘‘ یعنی اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔
جب تمام مخلوقات میں سب سے پہلے نور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پیدا کیا گیا
تو اس وقت سورج و چاند بھی پیدا نہ ہوئے تھے اور تاریخیں سورج اورچاند ہی سے بنتی ہیں، لہذا اس عقیدہ کی بنیاد پر آپﷺکی کوئی تاریخ پیدائش ہو ہی نہیں سکتی! لہذا جب آپﷺ کی کوئی تاریخ پیدائش ہی نہیں ہے تو پھر تاریخ پیدائش منانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کے ذریعہ جس تاریخ کو آئے وہی تاریخ پیدائش ہے ۔ تو عرض ہے کہ والدین کے ذریعہ دنیا میں پیدا ہونا یہ تو بشر کی خوبی ہے اور اہل بدعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر مانتے ہی نہیں بلکہ نور مانتے ہیں ، لہٰذا اگر نور، والدین کے مراحل سے گذرے تو اسے ایک دوسری شکل اپنا نا کہہ سکتے ہیں پیدا ہونا تو نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ نور کی شکل میں پیدائش تو سب سے پہلے ہوچکی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میلادی حضرات عید میلاد کے جواز وغیرہ سے متعلق متضاد قسم کی باتیں کرتے ہیں لہذا ان کی ساری کی ساری باتیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ساقط ہوگئیں ۔
واضح رہے کہ ان کے نزدیک قرآن کی بعض آیات دوسری آیات سے ٹکرانے کے سبب دونوں قسم کی آیات ساقط ہوگئیں (خلاصۃ الافکار شرح مختصر المنار:ص:197،198)
عرض ہے کہ جب ان کے بقول (نعوذباللہ ) قرآن کی آیات دوسری آیات سے ٹکرا جائیں تو دونوں قسم کی آیات ساقط ہوجاتیں ہیں ،تو پھر ان کے اپنے اقوال اگر انہیں کے دوسرے اقوال سے ٹکرا جائیں تو ان کا کیا حشر ہونا چاہئے، اس کا اندازہ خود لگالیں۔
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔۔۔۔۔۔